English   /   Kannada   /   Nawayathi

مسلم طلباء سول سروسیز میں کرئیر بنائیں،ملک و قوم کی ترقی میں ہاتھ بٹائیں / شیخ انصارآ ئی اے ایس -

share with us

سوال: آپ کی بنیادی تعلیم و تربیت کہاں ہوئی؟فیملی میں تعلیمی نظام کیسا تھا؟
شیخ انصار: جالنہ کے چھوٹے دیہات سیل گاؤں سے میرا تعلق ہے۔میری ابتدائی دسویں تک تعلیم ضلع پریشد مراٹھی میڈیم سے ہوئی۔پرائمری ایجوکیشن میں بہترین نمبرات حاصل کرنے پر چند احباب و اساتذہ نے والد کو گیارہویں میں داخلہ کا مشورہ دیا۔باروالے کالج ،جالنہ سے ہائیر سیکنڈری کیا۔پھر گریجویشن کیلئے فرگیوسن کالج،پونہ میں داخلہ لے کر تعلیم حاصل کی اسی کے ساتھ ساتھ یو پی ایس سی کی بھی تیاری شروع کردی۔چونکہ سول سروسیس کی تیاری کیلئے دسویں بارہویں کے فوری بعد ذہن سازی ہونی چاہیے اسلیے جلد ی سے اسی کی تیاری میں خود کو وقف کردیا۔انتہائی پسماندہ طبقہ سے تعلق رکھنے کے باعث گھر میں تعلیمی نظام نہیں تھا۔میں جب چوتھی جماعت میں تھا تب والد صاحب نے کسی کے مشورہ سے میری پڑھائی بند کرکے ٹی سی حاصل کرنے گئے ،کہ اب کچھ کما لوں گا لیکن اس وقت کلاس ٹیچر نے مزید پڑھانے کی تلقین کی جسے قبول کرتے ہوئے مجھے مزید پڑھائی کرنے کا موقع فراہم ہو گیا۔

سوال:ضلع پریشد جیسی سرکاری اسکول سے تعلیم حاصل کرنے کے باوجود تعلیمی معیار اتنا بلند کیسے ہوا؟

شیخ انصار: بد قسمتی سے ہمارا تعلیمی نظام اتنا موثر نہیں ،سرکاری اسکولوں میں حالات مزیدابتر ہیں لیکن طلباء اپنی محنت سے ہر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔مجھے بھلے ہی سائنس و ریاضی سے دلچسپی نہیں تھی اسی لیے میں نے آرٹس شعبہ میں گریجویشن کیا لیکن معیاری کتابیں پڑھتا رہا۔ابتدائی تعلیم بہترین ہونی چاہیے تاہم گھر پر طلباء کو پڑھنے کی عادت ہونا ضروری ہے جسے ہمارا مسلم سماج کہیں نہ کہیں عام طور پر نظر انداز کرتا ہے۔سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو گھروں میں بھی نصاب کے پڑھنے کی عادت ڈالیں۔
سوال:ہمارے پاس اکثر ترک تعلیم کیلے غریب ہونے کے دوش دیا جاتا ہے ،آپ کو کس طرح کے مسائل درپیش آئے؟
شیخ انصار: میری پیدائش جھوپڑ پٹی علاقہ میں ہوئی،والد رکشہ ڈرائیور تھے،والدہ کھیت میں مزدوری کرتی تھی، آج بھی کرایہ کا مکان ہے ،بہن کی شادی کیلئے ساہوکار سے قرض لیا ہوا تھا۔گھر میں کبھی کبھی ایک وقت کا کھانا نہیں ملتا تھا۔پرائمری تعلیم کے دوران کپڑے پھٹے ہونے کے سبب میں اسکول کی نظم کے وقت دیری سے جاتا تاکہ کوئی مجھے دیکھ نہ لے۔اسکول میں کھچڑی کھا کر گذارہ ہوتا تھا۔اسکول کے بعد کمپیوٹر کورس کرنے کیلئے پیسے نہیں تھے توکچھ وقت گاؤں ہی کی ہوٹل میں کام بھی کیا۔ٹیبل صاف کیا،جھاڑو لگائی۔پونہ میں پڑھائی کے دوران کتابیں خریدنے 16ہزار روپئے نہیں تھے تب 8 کلو میٹر دور سائیکل پر جا کر ملازمت کی پیسے جمع ہونے پر کتابیں خریدی۔

سوال: ایسے حالات میں آپ نے ترک تعلیم کیوں نہیں کی؟آپ کو کس نے تعاون کیا؟

شیخ انصار: خاندانی و معاشی حالت دیکھی جائے تو بجا تھا کہ میں ڈراپ آؤٹ ہوجاتا لیکن میرا خواب تھا کہ میں بڑا افسر بن کر کچھ کر پاؤں،حالات بھلے ہی نامساعد تھے لیکن تکلیف کے بعد ہی راحت میسر ہوتی ہے۔میرے والد نے رکشہ چلانے کے باوجود خو دبھوکے رہے اور میری تعلیم میں مدد کی۔ماں مزدوری کرتی رہی۔میرا چھوٹا بھائی ماہانہ 6ہزار روپئے کماتا اور میرے اکاؤنٹ میں ڈالتا اس لحاظ سے وہ میرا بڑا بھائی ہوا جس نے میری مدد کی۔پرائمری اسکول میں تقریری مقابلوں میں انعامات ملتے تو اس سے جیب خرچ نکل جاتا۔پونہ میں تعلیم حاصل کرنے معاشی رکاوٹیں ضرور آئیں لیکن مقصد کا احساس کمتر ی کو قریب آنے نہیں دیا۔والد صاحب سے پانچ روپیوں کا پین خریدنے کیلئے پیسے مانگنے ڈرتا تھا ۔آج بھی والد رکشہ چلاتے ہیں لیکن جہاں چاہ وہاں راہ۔تعلیم حاصل کرنی ہے تو مختلف وسائل موجود ہے بس طلباء کو حوصلہ رکھنا چاہیے۔

سوال:سول سروسیز کی تیاری کب اور کس طرح کی جائے؟

شیخ انصار: دسویں،بارہویں کے فوری بعد ذہن سازی ہو توبہتر ہے۔گریجویشن کی تیاری کے ساتھ ساتھ سول سروسیز کی تیاری کریں ،جتنے جلد مقصد طئے ہوگا ،محنت اتنے ہی جلدی شروع ہو گی۔سول سروسیز کیلے انتہائی محنت درکار ہوتی ہے۔روازانہ دس تا بارہ گھنٹے پڑھائی پوری مرکوزیت کے ساتھ کرنی ہوتی ہے۔مضامین پر عبوریت ضروری ہے۔میں دو بار مہاراشٹر پبلک سروسیس کمیشن کے پری لم امتحانات میں ہی ناکام ہوا لیکن الحمد للہ یو پی ایس سی کے پہلے ہی مرحلہ میں تینوں امتحان کامیاب کیا۔سنجیدہ گروپ اسٹڈی کا فائدہ ہوتا ہے ،نوٹس کی تیاری سے بہت مدد ملتی ہے۔عمدہ اخبارات،رسائل پڑھنے سے ویژن تیار ہوتا ہے۔سول سروسیز میں مسلسل پڑھائی اور لکھائی انتہائی ضروری ہے۔مین امتحانات میں روزانہ 6گھنٹوں میں 20ہزار سے زائد الفاظ لکھنے پڑتے ہیں لیکن ہارڈ ورکنگ سے کچھ بھی نا ممکن نہیں۔ہر سال تقریباً ہزار آسامیوں کیلئے چار تا ساڑھے چار لاکھ امیدوار ہوتے ہیں لیکن آخر تک جانفشانی سے تیاری ہی میٹھے نتائج لے آتی ہے۔

سوال: نتائج کے اعلان کے وقت آپ کی کیفیت کیا تھی؟

شیخ انصار: یو پی ایس سی کیلئے صبر انتہائی ضروری ہوتا ہے لیکن اتنے بڑے امتحانات کے نتائج ہوں تو بے چینی ضرور ہو گی پھر گھریلو حالات کے باعث ذمہ داریاں و سماجی پریشر بھی تھاکیونکہ ان امتحانات میں کامیاب ہونے کی گیارنٹی نہیں ہوتی۔خیر! میرے پاس کوئی الیکٹرانک گیجیٹ جیسے کمپیوٹر یا نیٹ نہیں تھا۔پری لم امتحانات کے نتائج کے وقت دوست نے فون کرکے مبارکباد دی۔مین امتحانات کے وقت سائبر کیفے پر جاکر نتائج دیکھے۔انٹرویو کے بعد نتائج کی بے چینی کا یہ عالم تھا کہ صبح10بجے سے شام 6بجے تک نیٹ کیفے پر بیٹھا رہا۔نتائج ظاہر نہیں ہوئے،رات بھر کھانا نہیں ہوا،نیند غائب ،دوسرے دن پھر اسی طرح صبح سے دوپہر چار بجے تک نیٹ کیفے میں بیٹھا رہا ۔آخر بھوک کی شدت سے کھانا کھانے کیلئے روم پر گیا ہی تھا کہ دوست نے کال کرکے کہا 146146Congratulations145145دل کی دھڑکنیں رک گئیں،ہاتھ پیر ڈھیلے ہوگئے ،مجھے یقین نہیں ہورہا تھا کیونکہ عمر و صلاحیت میں مجھ سے اعلی افراد سے میرا مقابلہ تھا۔نیٹ کیفے پر دوڑ کر تصدیق کی ،والد کو فون کیا تو رکشہ چلا رہے تھے۔نیٹورک کے باعث وہ سن نہیں پائے انہو ں نے کہا کہ 146کچھ سنائی نہیں دے رہا ہے ،بعد میں بات کرتا ہوں! 145145میرے لیے اتنی بڑی خبر تھی کہ میری دلی کیفیت شاید الفاظ میں بیان کر سکوں کہ ان کا بیٹا آئی اے ایس کامیاب کر چکا تھا ،پھر والدہ و بہن کو فون پر اطلاع دی جس پر فون پر ہی مسرت سے دونوں رونے لگیں اور سجدہ شکر ادا کیا۔

سوال:مسلم قوم کی سول سروسیز میں نمائندگی انتہائی کم کیوں ہے؟
شیخ انصار: مسلم قوم خود کو پیچھے کھینچ رہی ہے۔آج ہمارے پاس معاشی ،تعلیمی و سماجی وسائل کی کمی نہیں ہے لیکن طلباء کو صحیح رہنمائی میسر نہیں،تعلیم اداروں میں تعلیم کے علاوہ علحیدہ طور پر کرئیر گائیڈنس نہیں ہوتا اس لیے سول سروسیز میں نمائندگی کم ہے۔مسلمانو ں کی حالت زار میں اہم پہلو بیورو کریسی میں نمائندگی کا نہ ہونا ہے۔ہمارے طلباء انجینئرنگ ،میڈیکل میں جاتے ہیں لیکن سول سروسیز میں نہیں آتے،بچوں کو لاکھوں روپیوں کا بزنس فراہم کیا جاتا ہے،مہنگی گاڑیاں،موبائل فون دلاتے ہیں لیکن یو پی ایس سی جیسی سروسیس کیلئے تیاری نہیں ہوتی۔ہمیں اپنا ذہن تبدیل کرنا ہوگا۔جب میں اتنے نا مساعد حالات میں کامیابی حاصل کر سکتا ہوں تو دیگر کیوں نہیں؟

سوال:مسلم ہونے کے باوجود آپ کو شوبھم بننا پڑا ،تو کیا مسلمانو ں کے ساتھ بھی ناروا سلوک ہوتا ہے؟عمر بھی رکاوٹ ثابت ہوتی ہے؟

شیخ انصار: وہ مسئلہ وقتی تھا۔مجھے میرے تعلیم پر توجہ مرکوز کرنا تھا اسلیے میں نے نام شوبھم بتایا۔سماج کی سبھی انگلیاں برابر نہیں ہوتیں،مجھے غیر مسلم اساتذہ نے تعلیم دیں،یو پی ایس سی کی تیاری کے وقت میرے گروپ میں 9میں سے 8دوست غیر مسلم تھے جن کے میں کتابیں،پیسہ استعمال کرتا تھا،مجھے جہاں ضرورت ہوتی یہ غیر مسلم دوست ساتھ ہوتے ،میری بیماری میں انہو ں نے ساتھ دیا۔انٹرویو میں پینل میں غیر مسلم آفیسر س تھے وہاں بھید بھاؤ نہیں ہوا۔اگر آپ کے پاس قابلیت،اہلیت اور سخت محنت ہے توآپ کے ساتھ کہیں بھی تفریق نہیں ہوگی،دراصل سسٹم میں تفریق نہیں سماج میں ہے ۔اسے بدلنے کیلے ہمیں خود آگے آنا ہوگا۔رہا عمر کا تعلق تو میں امسال سب سے کم عمر آئی اے ایس کامیاب ہوں۔میرے ساتھ کئی افراد 10سال بڑے تھے۔کلاس میں میں پہلی بنچ پر بیٹھتا تو دیگر مجھے حیرت سے دیکھتے۔رہی بات عمر کی تو طلباء کو دسویں جماعت میں ہی کرئیر طئے کرلینا چاہیے تاکہ وہ جب امتحانات کامیاب کر چکے تو آگے چل کر زیادہ سروس دے سکیں۔

سوال: طلباء سو ل سروسیز میں کیوں کرئیر بنائیں؟

شیخ انصار:سول سروسیزکا میاب افسر حکومت کیلئے حکمت و پالیسی سازی کا کام و اس پر عمل آوری کا کام کرتے ہیں۔ایک ضلع کلکٹر پورے ضلع کی نمائندگی کرتا ہے۔بہترین آفیسر پورے سماج و ضلع کیلئے بہترین خدمات انجام دے کر ترقی کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔اعلیٰ مقاصد کا حامل افسر ترقی کو اونچے مقام تک پہنچا تا ہے اس کے علاوہ سماج میں بھی آئی اے ایس و آئی پی ایس و دیگر سول امتحانات کامیاب امیدوارکا اہم و منفرد مقام باعث کشش ہوتا ہے ۔مسلم سماج کو اپنی ترقی حاصل کرنا ہے تو تعلیمی راہ ہموار کرنی ہوگی۔سول سروسیز میں زیادہ نمائندگی سے اسکیمات پر عمل آوری ہوگی،دستور کے مطابق انصاف،اخوت قائم ہوگی اور پسماندہ و پچھڑے ہوئے طبقہ کے ساتھ انصاف کیا جا سکے گا۔

سوال:اپنے پریکٹیکل کرئیر کا آغاز کہاں سے شروع کرنے کی تمنا ہے؟کن امور پر توجہ ہوگی؟

شیخ انصار:نکسلائٹ علاقہ انتہائی پسماندگی کا شکار ہے میں یہاں کام کرنا زیادہ پسند کروں گا۔کرپشن کے خاتمہ کیلئے سسٹم کو پاک کرنا میرا مقصد ہے۔ہر دم کوشش کروں گا کہ میں ایک عام آدمی کی طرح ہی رہوں،بڑے افسر کی کرسی پر بیٹھ کر رعب نہیں جتانا چاہتا۔اقلیتوں،پسماندہ طبقات کی پسماندگی دور کرنے اسکیمات کی عمل آوری کی موثر کوشش کروں گا ۔میں صرف مسلمانو ں کا ہی افسر نہیں بننا چاہتا میں پورے ہندوستان کا افسر بننا چاہتا ہوں جہاں دستوری انصاف کے تقاضے پورے ہوں۔
سوال: آج کے ماحول میں مسلم اداروں و سماج کی کیا ذمہ داریاں بنتی ہیں؟
شیخ انصار: اورنگ آباد ،مراٹھواڑہ بلکہ ہندوستان میں بہترین مسلم تعلیمی ادارے ہیں،بڑے بڑے ٹرسٹس ،سوسائٹیاں ہیں،نامور و امیر مسلم طبقہ ہے انہیں چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو مقابلہ جاتی امتحانات میں حصہ لینے کیلئے ابھاریں ۔اس کے علاوہ غریب بچے جو ذہین ہوں انہیں تعلیم دلوائیں ،ان سے معاہدہ کریں،کچھ سوسائٹی و ٹرسٹ مل کر یا علحیدہ سینٹرس کا قیام کر سکتے ہیں۔فضول رسم و رواج پر خرچ کرنے کے بجائے ضرورت مند بچوں کو پہچان کر ان میں 146ہیومن انویسٹمنٹ 145کریں تاکہ نہ صرف بچوں کا انفرادی کرئیر سنور جائے بلکہ قوم و ملک کی حقیقی تعمیر میں بھی اضافہ و تیزی آئے۔مسلمان قوم کی کچھ غلط فہمیاں ہیں جسے ہمیں
دور کرنے کی ضرورت ہے۔146146تعلیم حاصل کرکے کیا ہوگا ؟145145والے ذہن کے شکار میرے گھر میں بھی تھے لیکن منصوبہ بندی،محنت سے اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ہمیں خو د بدلنا ہوگا تب ہی حالات بدلیں گے۔

سوال:طلباء و سرپرستوں کیلئے پیغام؟

شیخ انصار:،نوجوان کسی بھی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں،ہمارے پاس قابلیت کی کوئی کمی نہیں،تعلیمی دھارے میں موڑنے کیلئے ہر ٹرسٹ،سوسائٹی ،ادارے کو آگے آنا چاہیے۔طلباء کو چاہیے کہ وہ احساس کمتری میں مبتلا نہ ہوں،سماجی،معاشی مسائل وقتی ہوتے ہیں جسکے لیے بہترین منصوبہ بندی ،سخت محنت سے حل کیے جا سکتے ہیں۔تعلیمی میدان میں سنجیدگی ،پڑھائی کیلئے زیادہ وقت صرف کرنا،ریڈنگ سے کوئی بھی امتحان پاس کیا جا سکتا ہے۔خود اعتمادی، حوصلہ افزائی،صبر اور دعاؤں سے یقیناًبڑی مدد ملتی ہے ۔طلباء کو دسویں یا بارہویں میں ہی اپنے کرئیر بنانے سے متعلق فیصلہ لینا چاہیے نیز سرپرستوں کو طلباء کے پسند کے مطابق کرئیر انتخاب میں مدد کرنی چاہیے۔سرپرستوں کو چاہیے کہ وہ بچوں میں قابلیت پیدا کریں،تعلیمی شعبہ میں ہر ممکنہ مدد کریں،خراب عادتو ں سے بچائیں۔اکثر وقت پڑھائی میں صرف کرنے کی عادت ڈلوائیں۔بہترین تربیت کریں تاکہ وہ دیگر قومو ں کی دوڑ میں شامل ہو کر نہ صرف انفرادی یا قومی بلکہ ملکی ترقی کی راہ میں بھی ہاتھ بنٹا سکیں۔
ab.wahab7@gmail.com

بشکریہ ایشیا ٹائمز

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا