English   /   Kannada   /   Nawayathi

مہنگائی سے نجات کا راستہ قرآن و سیرت کی روشنی میں

share with us

اب عام آدمی چکن اور مٹن کی قیمت ہی نہیں پوچھ سکتا۔ دام سن کر کرنٹ لگتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ حکومت کی بار بار کی یقین دہانی کے باوجود بجلی نہیں رہتی۔ آتی ہے‘ تو میٹر تیزی سے دوڑ کر اپنی غیر حاضری کا کام بھی پورا کرلیتاہے۔ اس کے بعد بجلی کا بل ایسے ایسے انداز میں جھٹکے لگاتا ہے کہ اچھا خاصا انسان بھی ICUمیں پہنچ جائے۔ حالانکہ عام آدمی کے پاس جنرل وارڈ کے لائق بھی پیسے نہیں ہوتے‘ وہ ICU کے خرچ کیسے اٹھاپائے گا؟اوپر سے ڈاکٹروں کی کوشش کہ علاج کے بل میں مزید کیسے اضافہ کیاجائے۔ آٹا‘گیہوں‘چاول‘دال‘ مسالے او ر سبزیوں کی قیمتیں ہر دوسرے دن بڑھ جاتی ہیں۔ عام آدمی کے گھرکا بجٹ بگڑجاتا ہے۔ اس کا اگرکوئی اثر نہیں پڑتا‘ تو سرکاری ملازمین پر ‘جو بغیر کام کے بھی تنخواہیں وصول کرتے رہتے ہیں اور مہنگائی کے ساتھ ان کی تنخواہ مزید بڑھ جاتی ہے‘ کیونکہ انہیں بھتہ مل جاتا ہے۔اوپری آمدنی الگ ہے۔ منتری جی خود ہی نہیں جانتے کہ اشیاء خوردنی کی کیا قیمت ہے‘ کیونکہ انہیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں‘ ان کا بوجھ تو سرکار پر ہے۔ انہیں تو یہ بھی ٹی وی سے پتہ چلتا ہے کہ مہنگائی بڑ ھ گئی ہے یا گودام میں اناج سڑ گیا ہے اور بھوک کے مارے کچھ غریب مرگئے ہیں۔ وٹامن کی کمی سے بچوں کی موت ہوگئی وغیرہ وغیرہ۔ یہ خبریں ان کے لئے اہم نہیں‘کیونکہ الیکشن میںیہ باتیں ایشو نہیں بنتیں۔ الیکشن تو مذہب ‘ ذات اور مندر و مسجد کے ایشو ز پر لڑے جاتے ہیں۔
مہنگائی کا مسئلہ
مہنگائی عوام کے لئے ایک اہم ترین مسئلہ ہے۔ عوام دن بدن اس کے بوجھ تلے دبے جاتے ہیں اور سرکار اسے یکلخت نظرانداز کرتے ہوئے کہہ دیتی ہیکہ یہ عالمی معاشی بحران کا فطری نتیجہ ہے۔ بازار میں مندی چل رہی ہے اور پٹرول‘ ڈیژل کی قیمتوں میں اضافہ ہواہے ‘جس کے سبب چیزوں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ کبھی سوکھے کے سبب پیداوار متاثر ہوتی ہے‘ تو کبھی سیلاب ہری بھری کھیتیاں بہالے جاتا ہے اور اشیاء ضرورت کی قلت ان کی قیمت میں اضافے کا سبب بن جاتی ہے۔ حالانکہ یہ سب بہانے ہیں‘ جو اصل خرابی ہے،وہ ہمارے سیاسی اور معاشی نظام میں ہے۔ یہ تمام بہانے اس لئے بنائے جاتے ہیں کہ اصل مسئلہ سے عوام کی توجہ ہٹائی جاسکے۔ سوال یہ ہے کہ مہنگائی اگر آتی ہے‘ تو اس کا اثر سیاسی لیڈروں پر کیوں نہیں پڑتا؟ وزیروں اور ممبران پارلیمنٹ واسمبلی پر کیوں نہیں ہوتا؟ پارلیمنٹ کینٹین میں ملنے والی گیارہ روپے کی تھالی کی قیمت کیوں نہیں بڑھتی؟نیتاؤں کو ملنے والی سہولتوں پر اس کا اثر کیوں دکھائی نہیں پڑتا؟ ان کے بچوں کے اسکول فیس میں اضافہ کیوں نہیں ہوتا اور ان کے بینک بیلنس میں اضافہ کیوں ہوتا رہتا ہے؟ بات بالکل صاف ہے یہ مہنگائی مصنوعی ہے اور اس سیاسی اور معاشی نظا م کا فطری نتیجہ ہے‘ جسے ہم نے اپنے آپ پر مسلط کرلیاہے۔
موجودہ نظام
ہمارے موجودہ سیاسی نظام کو جمہوری نظام کہتے ہیں۔ یہاں عوام حکومت کا انتخاب کرتے ہیں‘ مگر بدقسمتی سے عوام میں 90فیصد افراد انتہائی ناقص عقل وسمجھ رکھنے والے ہیں۔ یہ نظام بھی مغرب کے ان خدا بیزار افراد کی اختراع ہے‘ جو آخرت میں کسی جوابدہی کا تصورنہیں رکھتے۔ اسی طرح ہمارا معاشی نظام بھی بدقسمتی سے ایسے ہی لوگوں کا تیا رکردہ ہے۔ آج ہم جن حالات سے دوچار ہیں اور جو مسائل عوام کے سامنے منہ کھولے کھڑے ہیں‘ وہ تمام
ہمارے غیر فطری سیاسی اور معاشی ضابطوں کے سبب ہیں۔ اس کے مقابلے ایک نظام زندگی قرآن بھی دیتاہے‘ جس کا نفاذ صرف تیس برسوں کیلئے ہوا‘ مگر جب ہوا تو دنیانے اس کی برکات بھی دیکھیں اور اس کی تصویر آج بھی تاریخ کی کتابوں میں زندہ وباقی ہے۔
روٹی کپڑا اورمکان
عہد حاضر میں دنیا کے سامنے ڈھیر سارے مسائل ہیں‘ مگر ان میں ایک بنیادی مسئلہ انسان کے لے روٹی ‘کپڑا اور مکان کا ہے۔ دنیاکا ہر قانون اسے انسان کا بنیادی مسئلہ تسلیم کرتاہے‘ مگر اسلام نے تقریباً چودہ سو سال قبل ہی اسے انسان کا بنیادی مسئلہ تسلیم کرتے ہوئے اس کے حل کی ذمہ داری حکومت پر ڈال دی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ابن آدم کا بنیادی حق ہے کہ اس کے لئے ایک مکان ہو‘ جس میں وہ رہ سکے۔ کپڑا ہو‘ جس سے وہ اپنا تن ڈھانپ سکے‘ کھانے کے لئے روٹی اور پینے کے لئے پانی ہو‘‘۔(ترمذی)
اب ان کے حصول کی جدوجہد تو آدمی خود کرے گا‘ حکومت انتظام وانصرام کرے گی۔ البتہ سماج کا اگر کوئی فرد اس لائق نہیں رہا کہ اپنی بنیادی ضرورتوں کے لئے کوشش کرسکے‘ تو پھر حکومت قرآنیہ کی یہ ذمہ د اری ہوگی کہ وہ اس کے لئے ان اسباب کا انتظام کرے۔
اللہ کا فضل
اس وقت دنیا میں رائج نظام کے تحت آدمی کو ہر اس کام کے کرنے کی چھوٹ ہے‘ جس سے اس کا معاشی فائدہ ہوتا ہو۔ حلال وحرام اور اخلاقی وغیر اخلاقی کی کوئی قیدنہیں۔ یہی سبب ہے کہ انسان اخلاقیات سے آزاد ہوکر کچھ بھی کرسکتاہے اور وہ ایسے کام بھی کرتاہے‘ جس سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہے اور سماج کو مالی نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں۔ اس سے مہنگائی بھی بڑھتی ہے۔قرآن سب سے پہلے انسان کو اس بات پر ابھارتا ہے کہ وہ معاشی جدوجہد کرے۔ روزی حاصل کرنے کی یہ کوشش قرآن کی نظر میں اتنی پاکیزہ ہے کہ وہ اسے فضل اللہ قرار دیتا ہے۔فرمایا گیا:
’’تو جب نماز ختم ہوجائے ‘تو زمین پر پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو‘‘(سورۃالجمعہ ۔10)
’’ہم نے تم کو زمین میں رہنے کی جگہ دی اور اس میں تمہارے لئے سامان معیشت پیداکیا‘‘(سورۃالاعراف۔ 10)
اسی کے ساتھ صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
’’تم میں سے کسی کو زیب نہیں دیتا کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہے اور رزق کی تلاش نہ کرے اور یہ کہتا رہے کہ اے اللہ‘ مجھے رزق عطا فرما۔ تم کو اس کے لئے جدوجہد بھی کرنی چاہئے‘ کیونکہ تم جانتے ہو کہ آسمان تو سونا چاندی نہیں برساتا‘‘۔
معاشی جدوجہد کے لئے انسان کو ابھارنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے اور بال بچوں کے لئے کمائی کرے۔ نیز اس پاکیزہ کمائی سے وہ غریبوں‘مسکینوں اور محتاجوں کی بھی مدد کرے۔ اس سے اس کی اور سماج کی قوت خرید میں اضافہ ہوگا۔ جب عوام کے پاس قوت خرید ہوگی‘ تو مہنگائی ان پر اثرانداز نہ ہوگی۔ معاشی جدوجہد کو بڑھاوا دینے کے لئے ایک اور مقام پر ارشاد نبوی ہے:
’’جو شخص دنیا کو جائز طریقے سے حاصل کرتاہے‘ تاکہ مانگنے سے بچے اور اہل وعیال کی کفالت کرے اور ہمسائے کی مدد کرے‘ تو قیامت کے دن جب وہ اٹھے گا‘ تو اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح روشن ہوگا‘‘(اساس تہذیب)
قرآن کریم نے بھی راہبانہ طریقے کو پسند نہیں کیا اور معاشی کوشش پر ابھارنے کے لئے فرمایا:
’’اور دنیا میں جو تمہاراحصہ ہے ‘اسے فراموش نہ کرو‘‘۔
(سورۃ القصص ۔77)
قرآنی نظام زندگی کا حصہ ہے کہ آدمی معاشی جدوجہد کرے اور حلال وپاکیزہ روزی حاصل کرے ‘تاکہ وہ دوسروں پر بوجھ نہ بنے۔ یہ طریقہ مہنگائی کو جھیلنے کا بہتر طریقہ ہے کہ آدمی کے اندر خریداری کی قوت پیداہوجائے ‘مگر اس کے لئے کسی ناجائز وحرام کام کی اجازت نہیں فرمایا: 
’’اے لوگو‘ جو چیزیں زمین میں موجودہیں‘ ان میں سے حلال وپاکیزہ چیزیں کھاؤ‘‘ (سورۃ البقرہ۔ 168)
حلال وحرام
قرآن نے ایسے معاشی ذرائع سے منع کیا ہے‘ جو سماج کو اخلاقی یامعاشی طورپر نقصان پہنچاتے ہوں‘جو یہ ہیں۔ دوسرے کا مال اس کی رضا کے بغیر یا دھوکے سے لینا۔ رشوت‘غصب‘خیانت‘ چوری‘ ڈاکہ‘ یتیم کے مال میں بے جا تصرف‘ ناپ تول میں کمی بیشی‘ ناچ گانا‘قحبہ گری اوراس کے ذریعہ آمدنی‘ شراب‘ منشیات‘بت گری وبت فروشی‘جیوتش اور سود کے ذریعے کمائی‘ ذخیرہ اندوزی کرنا وغیرہ۔
جب غیر اخلاقی طریقے سے روزی حاصل کرنے کی شروعات ہوجاتی ہے‘ تو آدمی دولت کے لالچ میں کچھ بھی کرسکتاہے اور ان میں سے بہت سے آمدنی کے ذرائع ایسے ہیں‘ جن سے دوسروں کی معیشت متاثر ہوتی ہے‘ نیز مہنگائی میں اضافہ ہوتاہے۔ خاص طورپر سودی کاروبار‘ناپ تول میں ہیرا پھیری اور ذخیرہ اندوزی ۔ سود کے متعلق حکم الٰہی ہے:
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ سے ڈرو اور جو سود رہ گیا ہے اسے چھوڑدو‘ اگر تم مومن ہو‘ لیکن اگر تم ایسا نہیں کرتے‘ تواللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ قبول کرو‘‘۔ (سورۃالبقرہ۔ 278) 
اسی طرح ذخیرہ اندوزی کی بھی ممانعت کی گئی ہے‘ جس سے قیمتوں میں اضافہ ہوتاہے۔ حدیث رسول ہے کہ:
’’ کتنا برا ہے وہ شخص جو مال کو روک کر رکھتا ہے۔ ارزانی ہوتی ہے‘ تو اس کا دل دکھتاہے اور مہنگائی ہوتی ہے تو خوش ہوتاہے۔
(بیہقی)
ارتکاز دولت
مہنگائی اور قوت خرید میں کمی کا ایک سبب ہے دولت کا چند ہاتھوں میں جمع ہوجانا یادولت کی غیر منصفانہ تقسیم۔ آج کل یہ بات بہت عام ہے کہ ملک کی دولت کا بیشتر حصہ چند صنعت کار گھرانوں کے پاس جمع ہوجاتا ہے۔ اس سے عوام کی معاشی طاقت متاثرہوتی ہے۔قرآن کریم نے اس سے منع فرمایاہے: 
’’ایسانہ ہو کہ یہ دولت تمہارے دولت مندو ں ہی میں گردش کرتی رہے‘‘ (سورۃالحشر۔7) 
بددیانت حکمراں
جن اسباب سے آج کل تیزی سے مہنگائی بڑھ رہی ہے‘ ان میں ایک بڑا سبب حکمرانوں کی بددیانتی بھی ہے۔ عوام اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے بددیانت لوگوں کو تختِ حکومت تک پہنچا دیتے ہیں اور پھر وہ خود اپنے ہی کئے کی سزابھگتتے رہتے ہیں۔ قرآن کریم انسانوں کو ایسے لوگوں کی اطاعت سے روکتا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے:
’’ اورتم اطاعت نہ کرو ان حد سے گزرجانے والوں کی‘ جو زمین میں فساد کرتے ہیں۔ اور اصلاح نہیں کرتے۔‘‘
(سورۃالشعراء۔ 152-151)
ظاہر ہے جب فسادی لوگ اقتدار میں ہوں گے تو گڑ بڑ گھوٹالے تو ہوں گے ہی اور اس کالازمی نتیجہ ہے مہنگائی میں اضافہ۔ یہی سبب ہے کہ عوام مہنگائی کی مارجھیل رہے ہیں اور لیڈروں کے پیسے سوئزر لینڈ کے بینکوں میں جمع ہو رہے ہیں۔قرآن اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ بددیانت لوگ اقتدار پر قابض ہوں اور اگر بزور طاقت انہوں نے قبضہ کرلیا توقرآن عوام کو ان کی اطاعت سے روکتا ہے۔ حکمرانوں کو خاص حکم ہے کہ وہ کسی قسم کی مالی بدعنوانی نہ کریں اورجس کی امانت ہے‘ اس کے حوالے کردیں۔ فرمایا گیا:
’’اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے حوالے کرو۔ 
(سورۃالنساء۔ 58) 
ملک کی دولت عوام کی دولت ہے۔ حکمرانوں کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ یہ دولت اپنی عیش وعشرت پر خرچ کریں اور بیرون ملک بینکوں میں لے جاکر جمع کریں۔ وہ اگر ایسا کرتے ہیں‘ تو انہیں وہی سزا ملے گی‘ جو ایک چور کو دی جاتی ہے‘ جس دن سے قرآنی احکام کے مطابق نظام قائم ہوجائے‘
اس دن مہنگائی میں کمی ہوجائے گی‘ مگر افسوس کا مقام ہے کہ دنیامیں درجنوں مسلم ممالک ہیں‘ مگر کہیں بھی ایسا نظام رائج نہیں‘ جو قرآن کے مطابق ہو۔ جب مسلمان ہی اس کے لئے راضی نہ ہو‘ تو غیر مسلم ملکو ں کی کیا بات۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا