English   /   Kannada   /   Nawayathi

امریکی نائٹ کلب قتل عام’’ٹرمپ کارڈ‘‘ تو نہیں!

share with us

لوئس ولے میں علی کے لئے منعقدہ تعزیتی تقریب میں ہالی ووڈ کے سوپر اسٹارس، اسپورٹس کی دنیا کے سوپر مین اور ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے عظیم شخصیات کی کہکشاں موجود تھی‘ جس طرح سے اپنے آخری سفر کے لئے علی نے اپنی موت سے پہلے جن شخصیتوں کا انتخاب کیا تاکہ وہ ان کے جنازہ کو کندھا دے سکے اس سے ساری دنیا ایک سیاہ فام مسلمان کی مروت، رواداری، اپنے مذہب کے ساتھ ساتھ دوسرے مذاہب کے احترام، دوستوں کے ساتھ اپنے حریفوں کے پاس و لحاظ کے قائل ہوگئی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم دشمنی کی لہر میں وائٹ ہاؤس پر قبضہ کرنے کا خواب دیکھنے والے ڈونالڈ ٹرمپ کو اپنے الفاظ بدلنے پڑے‘ جو شخص بار بار یہ کہتا رہا کہ وہ مسلمانوں سے پاک امریکہ کا تصور رکھتا ہے‘ جو مسلمانوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کرے گا اسے یہ کہنے پر مجبور ہونا پڑا کہ وہ ایک ایسا امریکہ چاہتا ہے جو سب کے لئے ہو۔ محمد علی کلے کی موت کے بعد جو حالات پیدا ہوئے، عوامی ذہن و فکر میں تبدیلی آئی تھی۔ ہم جنس پرستوں کے نائٹ کلب میں فائرنگ اور لگ بھگ پچاس ہلاکتوں کے واقعہ نے اس پر پانی پھیر دیا۔ اور ایک بار پھر ٹرمپ اپنے وہی الفاظ دوہرانے لگے کہ مسلمانوں پر پابندی ہونی چاہئے اور مساجد کی نگرانی کی جانی چاہئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر عمر متین جس نے داعش سے اپنی وابستگی ظاہر کی تھی آخر اس حملے کے لئے ایسے وقت کا کیوں انتخاب کیا جس سے امریکی صدارتی انتخابات میں مسلم دشمن نظریات و خیالات کا حامل امیدوار کو مدد مل سکتی ہے۔ عمر متین اگر واقعی ہم جنس پرستی کا مخالف تھا اور واقعی وہ اس میں ملوث افراد کو سزا کے طور پر ہلاک کرنا چاہتا تھا تو یا تو بہت پہلے اپنے منصوبے پر اسے عمل کرنا چاہئے تھا یا پھر امریکی صدارتی انتخابات کے بعد! جو واقعات سامنے آئے ہیں‘ اگر اس کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو اس نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے کہ اس حملے کے لئے ذمہ دار داعش ہوں یا القاعدہ یا کوئی اور‘ اس کا مقصد صرف اور صرف ڈونالڈ ٹرمپ کو فائدہ پہنچانا تھا۔ عمرمتین کے والد صدیق متین افغانستان کے صدارتی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور طالبان کے حامی ہیں۔ نیویارک سٹی میں پیدا ہونے والے عمر متین کے بارے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ کسی قدر نفسیاتی مریض تھا۔ اس کی سابقہ بیوی کا کہنا ہے کہ وہ اکثر اس سے مار پیٹ کیا کرتا تھا۔ جس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بیویوں کو مارنے والے شوہر نفسیاتی مریض ہوتے ہیں۔ عمر متین جو خود بھی پولیس کاروائی میں ہلاک ہوچکا ہے۔ متضاد شخصیت کا مالک تھا۔جس سے اس کی شخصیت کو سمجھنا مشکل تھا۔ ویسے اس سے متعلق کافی تحقیقات بھی ہوچکی تھی۔ بہرحال آرلینڈو نائٹ کلب کے واقعہ سے ایک بار پھر مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کی کوششیں کامیاب ہوگئی ہیں‘ داعش نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ داعش کا نہ تو اسلام سے کوئی تعلق ہے نہ ہی مسلمان اسے اپنا ہمدرد سمجھتے ہیں۔ داعش نے آج تک جو کچھ کیا اس سے اسلام اور مسلمان بدنام ہوئے ہیں۔ عمرمتین پیدائشی مسلمان ضرور ہوگا اگر اس کا تعلق داعش سے یا کسی اور دہشت گرد تنظیم سے رہا بھی ہے تو اس نے جو کچھ کیا اس سے نہ تو اسلام کا کوئی بھلا ہوگا نہ ہی مسلمانوں کو کوئی فائدہ ہوگا۔ نائٹ کلبس بند ہونے والے نہیں ہیں۔ ہم جنس پرستی عام ہوچکی ہے‘ اسے قانونی موقف مل چکا ہے‘ اس قسم کے واقعات کے بعد اب برائی اور گناہ سیکوریٹی میں ہوں گے۔ ویسے بھی قاتل خود ختم ہوچکا ہے اس لئے اس واقعہ کے اصل ذمہ دار کون ہے؟ یہ کہنا بھی مشکل ہے۔ واقعی داعش جس نے ذمہ داری قبول کی اسی نے یہ حملہ کروایا تھا یا یہ ٹرمپ کی انتخابی حکمت عملی کا ایک حصہ تھا۔ اس کا پتہ چلانا بہت مشکل ہے۔ آج کہ انفارمیشن ٹکنالوجی کے دور میں جب وکی لکس اور اُس جیسے خفیہ اداروں کے ویب سائٹس کے ذریعہ کئی رازوں سے پردے اٹھائے جاتے ہیں‘ تو ممکن ہے کہ نائٹ کلب حملہ اس کے پس پردہ عناصر بھی بے نقاب ہوں گے مگر اس وقت تک شاید مسلم اور اسلام دشمن عناصر اپنے مقاصد میں کامیاب ہوچکے ہوں گے۔ 
ہم جنس پرستی کی ہر فرد مذمت کرے گا۔ ہندوستان کے بشمول دنیا کے تقریباً سبھی ممالک میں ہم جنس پرست قابل لحاظ تعداد میں موجود ہے جو اپنے حقوق اور مفادات کی لڑائی لڑتے ہیں‘ جنہیں بعض قانونی حقوق مل چکے ہیں اس کے باوجود انہیں مہذب معاشرہ میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ یہ معتوب ہیں۔ جہاں جہاں یہ قبیح فعل عام ہوا وہاں وہاں نحوست اور قدرتی آفات نازل ہوئیں۔ اسلامی قانون کی رو سے یہ لوگ واجب القتل ہیں‘ تاہم یہ نحوست اور لعنت اسلامی ممالک میں بہت کم ہے۔ امریکہ‘ یورپ‘ سے لے کر ہندوستان اور پاکستان، بنگلہ دیش میں تک یہ مساوات اور اپنی مرضی سے جینے کی آزادی کے نام پر ہم جنس پرستی عام ہورہی ہے۔ اور ان ممالک میں کوئی سزا نہیں ہے۔ نہ ہی کسی فرد کو اس کا اختیار ہے۔عمر متین نے جو کچھ کیا وہ اسلامی تعلیمات کی رو سے نہیں بلکہ جس تنظیم یا گروہ سے اس کا تعلق تھا اس کی ایماء پر کیا ہے۔ اگر داعش کا وہ آلہ کار تھا تو داعش کے ارکان کا بھی تو کوئی بھی عمل اسلامی نہیں ہے۔ بے قصوروں کے سر قلم کرنا، لڑکیوں اور خواتین کا اغواء، ان کی عصمت ریزی اور جبری شادی ، دہشت گردی کے واقعات جس میں معصوم بے قصور انسان لقمہ ا جل بنتے ہیں‘ لہٰذا آرلینڈو نائٹ کلب کے واقعے میں ایک مسلم نام کا نوجوان ضرور ملوث ہوسکتاہے مگر اس کا نہ تو اسلام سے کوئی تعلق ہے نہ مسلم برادری سے ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چوں کہ اس کا تعلق افغانستان سے ہے اور افغانستان میں امریکہ اور اس کے اتحادی افواج نے جو بربریت کا مظاہرہ کیا جس طرح سے افغانستان کی دولت اور اس کی قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی خاطر اسے تہس و نہس کردیا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ عمر متین کی رگوں میں دوڑنے والا افغان خون جوش مارنے لگا ہو۔ اسے امریکیوں سے افغانیوں کے قتل عام ان کی تباہی و بربادی کے انتقام کے لئے مجبور کیا ہو۔ اور اس امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ بیٹے کے دہشت گردانہ اقدام سے اس کے باپ کو جو افغان صدر انتخابات کا امیدوار ہے فائدہ ہو‘ امریکی کا خون بہانے والے بیٹے کے باپ کی حیثیت سے وہ افغانیوں میں ہیرو بن جائے۔ 
آرلینڈو نائٹ کلب میں پچاس افراد کی ہلاکت پر امریکہ اور ساری دنیا بلبلا اُٹھی۔ انسانیت پر حملے کی شکایتیں ہونے لگیں ہر روز شام میں سینکڑوں مسلمان بشارالاسد کی ابلیسی فوج کے ہاتھوں لقمہ اجل بنتے ہیں۔ ہزاروں معصوم بچے، لڑکیاں خواتین جان بچاکر دوسرے ممالک میں پناہ گزین بن رہی ہیں جن کی زندگی جانوروں سے بد تر ہے۔ شام کے خونریزی سے اپنی جان بچانے کی کوشش میں دوسرے ممالک کو فرار ہونے کی کوشش میں سینکڑوں افراد سمندر میں کود جاتے ہیں اس وقت یہ عالمی طاقتیں‘ عالم خواب میں رہتی ہیں۔ انہیں جب انسانیت کو لاحق خطرہ دکھائی نہیں دیتا‘ شیرخوار معصوم بچوں کے جسم سے بہتے خون کو دیکھ کر بھی ان کی آنکھیں نم نہیں ہوتیں۔ بھوک سے بلکتے پناہ گزینوں کی حالت پر رحم نہیں آتا۔ اجتماعی قتل عام پر وہ لب کشائی نہیں کرتی۔ 
فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی بچوں، خواتین اور نوجوان پر ڈھائے جانے والے مسلسل مظالم ان عالمی طاقتوں، انسانی حقوق کے نام نہاد علم برداروں کے لئے محض ایک ڈاکومنٹری فلم سے زیادہ اہمیت نہیں۔ امریکی عوام ہو یا دنیا کے کسی بھی خطے میں بسنے والے لوگ انہیں اپنے اطراف و اکناف ڈھائے جانے والے مظالم پر بھی آواز اٹھانی چاہئے۔ ہم مسلمانوں کا یہ ایقان ہے کہ ایک ناحق کا خون ساری انسانیت کا قتل ہے۔ 
آرلینڈو نائٹ کلب واقعہ کا یقینی طور پر سیاسی پس منظر ہے۔ ہمارے ملک کی طرح جیسے اترپردیش میں انتخابات ہوتے ہیں دادری، متھورا، جیسے واقعات پیش آتے ہیں اور امریکہ میں صدارتی انتخابات ہوتے ہیں تو آرلینڈو نائٹ کلب جیسا واقعہ پیش آتا ہے۔ 9/11 کے واقعہ کے بعد سے مسلمان مغربی ممالک میں شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ لوگ اسے بھلا نہ دیں‘ وقفہ وقفہ سے ایسے دہشت گرد واقعات دوہرائے جاتے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا