English   /   Kannada   /   Nawayathi

کیاواقعی جنگ آزادی ہوئی تھی ؟

share with us

مذاکرہ میں جن حضرات کو اظہار خیال کرنا تھا ان میں ایک ریٹائرڈ فوجی افسر بھی تھے جو ذہنیت کے اعتبار سے سنگھ پریوار سے وابستہ ہیں ۔انھوں نے سب سے زیادہ تلخ لہجہ میں کہا کہ سب سے زیادہ حق تلفی نیتا جی سبھاش چندر بوس کی ہوئی ہے ۔جبکہ ملک کو آزاد کرانے کا سہرا انکے سر ہے ۔انکی ہی آزاد ہند فوج کے 26ہزار جوانوں نے شہادت پاکر انگریزوں کو بھگا دیا ۔وہ اصل میں نہرو خاندا ن کے بجائے ان کے بارے میں کہنا چاہتے تھے جنکا تعلق آر ایس ایس سے ہے ۔لیکن دیکھ رہے تھے کہ اگر ان کا نام لے لیا تو ہر طرف سے حملے ہونے لگیں گے ۔اس لئے انھوں نے نیتا جی کی آڑ لے لی ۔
کہنے والے چونکہ فوجی تھے ۔ہو سکتا ہے کہ انکے پاس اسکا کوئی ثبوت ہو اور انہوں نے یا انکے کسی سینئر افسر نے 26ہزار کی گنتی کی ہو ۔لیکن ہمارے لئے یہ پہلی خبر تھی ۔ہم نے بچپن سے ایسی کتابیں اور اخبار دلچسپی سے پڑھے ہیں جس میں آزادی کی کہا نی لکھی ہو ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ملک کی آزادی کے لئے جنگ ہوئی ہی نہیں ۔اور نہ ہمیں یا د آیا کہ وہ جنگ کہا ں ہوئی تھی جو آزادی کے لئے آزاد ہند فوج اور انگریزی فوج کے درمیان ہوئی تھی ۔اور اگر انگریزہندوستان چھوڑ کر بھاگ گئے تھے تو پھر نیتا جی نے ملک کی باگ ڈور کیوں نہیں سنبھالی ؟
ہم ان کے ساتھ بھی نہیں ہیں جو کانگریسی لیڈر وں گاندھی جی نہرو جی سردار پٹیل راجندر پرشاد اور انکے ساتھیوں کو جنگ آزادی کا ہیرو قرار دیں ۔ہم یہ اعتراف کرتے ہیں کہ ان لیڈروں کی قیادت میں آزادی کے لئے ہر طرح کی جد وجہد کی گئی ۔اور ان حضرات نے اپنے مقام کے اعتبار سے اور دوسروں نے اپنی حیثیت کے اعتبار سے آزادی کے لئے قربانی دی لیکن جنگ آزادی نہ ہوئی اور نہ جنگ کے بل پر ایک فاتح کی طرح ملک واپس لیا ۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریز اس حال میں نہیں تھے کہ وہ اپنی سلطنت کے اندر ملکوں کو اپنے قابومیں رکھ سکیں ۔سر کرپس کے یہ جملے ملاحظہ فرمائیں ۔
’’ہمارے پاس دو ہی راستے ہیں پہلا راستہ یہ ہے کہ برطانیہ کی سول سروسز میں خاصہ اضافہ کرکے ہندوستان پر اسوقت تک کنٹرول قائم رکھا جائے جب تک دونوں فرقوں ’’ہندو مسلم ‘‘میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوجائے ۔اس پالیسی پر عمل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہندوستان میں مزید ہم پندرہ بیس سال تک رہیں ۔دوسرا راستہ یہ ہے کہ ہم تسلیم کرلیں کہ پہلے راستے پر چلنا ممکن نہیں ہے ۔اسلئے ہمارے پاس اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ ہم اپنا بوریابستر بلا تاخیر گول کرلیں ۔ہم میں وسیع و عریض برصغیر پر سیاسی اقتدار قائم رکھنے کی اب سکت نہیں رہی ۔‘‘
انگریزوں کو سب سے زیادہ فکر اسکی تھی کہ چین میں انقلاب کی یقینی فتح ہوجانے کی وجہ سے سامراجی مفادات نہ صرف برصغیر میں بلکہ پورے جنوب مشرقی ایشیا میں بہت خطرے میں پڑ گئے تھے ۔وہ متحدہ ہندوستان کے اعتدال پسند لیڈروں کی وساطت سے نہ صرف یہاں معاشی استحصال جاری رکھنا چاہتے تھے بلکہ وہ متحدہ ہندوستانی فوج کے ذریعہ پورے ایشیا میں سویت یونین اور چین کے سرخ انقلاب کے ا ثرات کا سد باب کرنا چاہتے تھے ۔
کیا اسکے بعد بھی کسی کو یہ کہنے کا حق ہے کہ ہم نے آزادی کی جنگ لڑکر ملک کو آزاد کرایا ہے ؟آزاد کرانے کا وہ وقت سب کو یاد ہوگا جب ہندوستان نے بنگلہ دیش کو آزاد کرایا تھا ۔جنرل نیازی نے ہندوستان کے جنرل ارورہ کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے ۔اور پوری فوج اور تمام افسروں کو جو 2لاکھ کے قریب تھے گرفتار کرلیا تھا ۔اور 20مہینے کے بعد وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی یقین دہانیوں کے بعد انہیں رہا کیا تھا ۔کیا کوئی کانگریس نیتا یا فوجی افسر بتائیں گے کہ جنگ آزادی میں فتح کے بعد یول نے ہتھیا ر ڈالے یا ماؤنٹ بیٹن نے ؟
تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ انگریز گورنر آقا کی طرح سو کروڑ کے محل میں بیٹھتا تھا اور گاندھی جی نہرو جی سردار پٹیل راجندرپرشادوی جی منین مولانا آزاد اور دوسری طرف مسٹر جناح لیاقت علی خاں وغیرہ کو باری باری بلارہا تھا ۔کبھی دہلی میں اور گرمی لگی تو شملے میں اور ہر کوئی اسکی آواز پر اسکے ہی دئے ہوئے وقت پر جارہا تھا اور اپنا خیال ظاہر کررہا تھا ۔کیا ہم تسلیم کرلیں کہ ہمارے قومی لیڈر اتنے بے شرم ہیں کہ اپنے 26ہزار جوانوں کی لاشیں گرانے والے انگریزوں کو قتل کرنے اور مارکربھگانے کے بجائے کئی مہینے تک انکی ڈگڈگی پر ناچتے رہے ۔اور جب انہوں نے ہمیں آزاد ی کا پروانہ دیدیا تو مردہ باد کے نعروں سے رخصت کرنے کے بجائے دہلی کی سڑکوں پر ماؤنٹ بیٹن زندہ باد کے نعرے لگا کر جلوس نکالے اور ملک آزاد ہندوستان کا پہلا گورنر جنرل بھی ان کو ہی بنا دیا ؟
آزادی کی جنگ وہ ہوتی ہے جو ختم سے دوسال پہلے نظر آرہی تھی کہ چین فتح کرلے گا اور انگریز ہندوستان کے گلے لگ کر اس لئے جلد سے جلد بوریا بستر لے کر بھاگنا چاہتا تھاکہ اسے روس اور چین کے حملہ سے اپنے کو محفوظ کرنا تھا ۔اور دوسری طرف وہ ہندوستان کی مدد بھی چاہتا تھا ۔ہمارا ملک 1947میں اور چین1949میں یعنی دو سال کے بعد آزاد ہوا اور اس نے آزادی کی جنگ تین سال لڑی او ر ہم نے چھ مہینہ تک کا وقت آپس میں لڑ کر گذارا اور انگریز دونوں کے لئے بندر بانٹ کرتا رہا اور ہر ممکن کوشش کرتا رہا کہ ملک تقسیم نہ ہو تاکہ ہر اعتبار سے چین کے برابر ہندوستان رہے اور برے وقت میں وہ ساتھ دے ۔
اور یہ جنگ نہ ہونے کا ہی انعام ہے کہ ہندوستان میں پنڈت نہرو اور پاکستان میں مسٹر جناح اپنے اپنے ملک کے سر وے سروا بنے ۔اگر سوبھاش چندر بوس جنگ آزادی میں فتح حاصل کرتے تو چین کے ماؤزے تنگ ہوتے اور جنرل شاہ نواز چوئن لائی ۔اورآج ملک چین سے ہر معاملے میں بہت آگے ہوتا اس لئے کہ وہ دو سال پہلے آزاد ہوا ہوتا یہی نہیں بلکہ ملک کی تقسیم بھی نہیں ہوتی ۔اور شاید دنیا میں صرف دو طاقتیں ہوتیں ایک ہندوستان اور دوسرا چین ۔آج جب ملک میں جنگ آزادی قربانی اور فتح کی کہانیاں کوئی لکھتاہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہماری پوتیاں اورنواسیاں گڑیوں کی شادی کی کہانی سنارہی ہیں ۔اور یہ بھی چھوٹی بات ہے کہ ایک کھمبا کسی نے گاڑ دیا تو اسکا نام لکھ دیا اور کسی نے نالی بنوادی تو اسکے نام کا پتھرلگا دیا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا