English   /   Kannada   /   Nawayathi

مدارس اسلامیہ اپنے نصاب ونظام کے آئینے میں

share with us

لیکن ہزاروں کی تعداد میں چلنے والے مدارس اسلامیہ اور لاکھوں کی تعداد میں خدمت کرنے والے مکاتب دینیہ میں انہیں مرکزی اداروں کانظام ونصاب کم وبیشی کے ساتھ رائج ہے۔ 
تقریبا دیڑھ صدی سے ملک وبیرون ملک کی مساجد کو امام دینے والے، مدارس کو اساتذہ دینے والے، عوام الناس کو نکاح سے جنازہ تک کے قاضی ومولوی دینے والے، ملت وامت ملک وقوم کے لئے بیباکی وجرأت، خلوص وپامردی کے ساتھ آواز اٹھانے والے قائدین دینے والے، تقریر وتحریر، تذکیر وترغیب کے ذریعہ سماج ومعاشرہ کی اصلاح کرنے والے لاتعداد مقررین، مصنفین اور مصلحین دینے والے ان مدارس اسلامیہ کو روزاول سے غیروں کی نظر بد اور اپنوں کی غیر دانشمندانہ حرکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 
ہمہ گیر وعالمگیر خدمات کے حاملین ان مرکزی اداروں اور تربیت گاہوں کے نظام اور نصاب پر ہر دور میں انگلیاں اٹھی ہیں کچھ لوگوں نے مخلصانہ مشورے اور معروضات پیش کئے تو کچھ ضد وعناد کی حد تک پہونچ گئے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر آج تک مدارس اسلامیہ ہندیہ کے نظام ونصاب میں خاطر خواہ تبدیلی کیوں نہیں کی گئی؟ وہ کیا محرکات ہیں جو مدارس کو کانونٹ اسکولوں کے طرزپر آنے سے روکتے ہیں؟ وہ کیا وجوہات ہیں جو ان اداروں کو اپنی قدیم روش پر ہی گامزن رہنے پر مجبور کئے ہوئے ہیں؟ 
تو آےئے!!! سب سے پہلے ہندوستانی مسلمانوں کو کفر والحاد سے بچانے، ان کے لٹے ہوئے دینی وعلمی ورثہ کو محفوظ کرنے اور دین محمدی کی بقاء واعلام کے لئے سرزمین دیوبند میں قائم ہونے والے سب سے پہلے ادارے دارالعلوم دیوبند کے بانی حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے نظریات جانتے ہیں، مدارس اسلامیہ کے نصاب تعلیم میں جدید عصری علوم کی پیوند کاری کا مشورہ اور مطالبہ چونکہ کوئی نئی بات نہیں ہے اسی لئے قیام دارالعلوم کے چند سالوں بعد ہی ۱۸۷۲ ؁ء میں بانی دارالعلوم نے اپنی تقریر میں اس سلسلہ میں تین باتیں ارشاد فرمائیں تھیں۔ پہلی بات یہ کہ عصری تعلیم اور علوم جدیدہ کے لئے سرکاری ادارے اور مدارس پہلے سے موجود ہیں ضرورت دینی تعلیم کے اداروں کی تھی اسی ضرورت کے پیش نظر دارالعلوم قائم کیا گیا ہے۔ دوسری بات یہ فرمائی کہ علوم عصریہ کی آمیزش دونوں کے لئے یکساں طور پر نقصان دہ ہے۔ نہ دینی علوم میں مہارت پیدا ہوگی اور نہ ہی عصری علوم میں رسوخ، کہ زمانہ واحد میں علوم کثیرہ کی تحصیل سب کے حق میں باعث نقصان ثابت ہوگی۔ تیسری بات یہ ارشاد فرمائی کے علوم نقلیہ میں پختہ استعداد پیدا کرنے کے بعد اگر طلبہ مدارس سرکاری اداروں میں جاکر علوم جدیدہ کو حاصل کریں تو ان کے کمال میں یہ بات زیادہ مؤید ہوگی۔ 
علاوہ ازیں عصری علوم شامل کرنے کا ایک فائدہ ہمیشہ سے یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس سے فضلائے مدارس کی اقتصادی حالت بہتر ہوگی؛ چنانچہ بہت سے صوبوں میں سرکاری مدرسہ بورڈ قائم کئے گئے۔ ان سے دینی مدارس کو ملحق کیا گیا، ان کا نصاب مخلوط رکھا گیا، ان کے فضلاء کو سرکاری تنخواہ بھی دی گئی؛ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ ان اداروں نے اپنی افادیت، خود مختاری، علمی وفکری وانتظامی آزادی کھودی، وہ نرے سرکاری اسکول ہی بن کر رہ گئے، الاماشاء اللہ۔ 
اسی لئے اکابرین دیوبند نے مرکزی حکومت کی جدید منصوبہ بندسازش ’’مدرسہ بورڈ ‘‘کی پورے شد ومد سے مخالفت کی ہے اور اس میں پیش پیش دارالعلوم دیوبند، مظاہر علوم ، دارالعلوم ندوۃ العلماء، جمعےۃ علماء ہنداور مسلم پر سنل لاء بورڈ سمیت مرکزی ادارے وشخصیات ہیں۔ انہوں نے مدرسہ بورڈ کو مدارس اسلامیہ کو اپنے نصب العین سے پھیر دینے، ان کی روح ختم کردینے اور آزدای سلب کرنے کی سمت ایک خطرناک قدم قرار دیا تھا، اسی لئے اکابر دیوبند سرکاری امداد سے ہمیشہ اجتناب کی تاکید کرتے ہوئے آئے ہیں۔ 
اکابر دارالعلوم دیوبند کی عصری علوم کے سلسلے میں رائے یہ ہیکہ مدارس اسلامیہ کے عربی نصاب (فضیلت) کو ہر گز ناچھیڑا جائے اور اس میں عصری علوم کی پیوند کاری نہ کی جائے۔ ہاں عربی نصاب سے پہلے دینیات وغیرہ کے نصاب میں ضروری عصری علوم کو شامل کرنا اچھی بات ہے۔ نیز فراغت کے بعد فضلاء کے لئے انگریزی زبان وادب کی تعلیم کا نظم بھی کیا جاسکتا ہے، کیونکہ دارالعلوم دیوبند اور اس کے نہج پر قائم مدارس کا نصب العین اسلامی علوم وفنون کی تعلیم واشاعت اور مسلم معاشرہ کی دینی وملی ضروریات کی تکمیل ہے ان کا مقصد سائنس داں، ڈاکٹر وانجینئر فراہم کرنا نہیں ہے یہاں یہ بات واضح رہے کہ حضرات علماء نے انگریزی زبان کی کبھی بھی مخالفت نہیں کی ہے ہاں انگریزی تہذیب وکلچر کی مخالفت پہلے بھی کی ہے اور آج بھی کررہے ہیں، دینی مدارس سے فراغت کے بعد جامعات کی طرف رخ کرنے کی اجازت خود حضرت نانوتوی نے بھی دی ہے۔ نیز نصاب میں بیجا چھیڑ چھاڑ اس لئے بھی مضر ہے کہ پہلے جب بھی نصاب مدارس میں بنیادی وجوہری تبدیلیاں کی گئیں تو تفقہ فی الدین اور رسوخ فی العلم کے حامل رجال وافراد، علوم وفنون کے ماہرین ومحققین، محدثین ومفسرین، فقہاء اور اصحاب بصیرت علماء کا فقدان ہونے لگا۔ اور آج کا دور یوں بھی انحطاط کا ہے مردم گری اور رجال سازی متاثر ہوچکی ہے اگر اب اکابر کے منہاج اور ان کے مزاج ومذاق کو خیر باد کہہ دیا گیا تو شخصیت وکردار کے حامل، دل روشن اور زبان ہوش مند، رکھنے والے علماء حق پیدا نہیں ہونگے اور حالت اس حد تک پہنچ جائے گی جو اکبر الٰہ آبادی نے برطانوی سامراج میں تعلیم کی بیان کی ہے کہ ؂
تعلیم دی جاتی ہے یہاں وہ کیا فقط بازاری ہے
جو عقل سکھائی جاتی ہے وہ کیا فقط سرکاری ہے 
یہ وہ پس منظر ہے جو مدارس اسلامیہ کو اپنے قدیم ورثہ کو ہی گلے سے لگائے رکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں کار فرما ومحرک ہے جہاں تک بات نظام کی ہے تو اصول ہشت گانہ دارالعلوم دیوبند ہی ان مدارس کے لئے اکسیر وحیاتین کا کام کرتے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ کو عوامی چندے پر، شوارئی نظام پر، خالص دینی نصاب پر، باہمی متفق المشرب پرقائم وباقی رکھا جائے،حکومتی امدادسے کلی اجتناب کیا جائے اوررارباب حکومت کی مداخلت سے مدارس کو بچایا جائے، تعلیم کے ساتھ طلبہ کی شبانہ روز تربیت پر اور طلبہ واساتذہ نیز ملازمین کی تعلیمی وبنیادی ضروریات کی تکمیل پر توجہ دی جائے اور مسلک حق کے مطابق ذہن سازی، فرق باطلہ کا تعاقب، عقائد وعبادات، اخلاق ومعاملات نیز معاشرت میں اسلامی تعلیمات کو مشعل راہ بنانے پر زور دیا جائے۔ 
ان میں خدمت خلق کا جذبہ پیدا کیا جائے، انہیں مخرب اخلاق امور سے بچانے کے لئے دارالاقامہ کے نظام کو چست بنایا جائے۔ چونکہ دارالعلوم دیوبند اور دیگر مرکزی اداروں نے ہمیشہ سے تعلیم کے ساتھ تربیت پر خصوصی توجہ دی ہے اسی لئے مدارس اسلامیہ نظری تعلیم اور عملی تربیت کا حسین امتزاج ہیں اور یہی دارالعلوم دیوبند کا خصوصی امتیاز ہے کہ کیوں کہ بقول شاعر حکیم ؂
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں * آدمی، آدمی بناتے ہیں
تعلیم برائے تعلیم نہیں بلکہ تعلیم برائے عمل یہ وہ پیغام ہے جسے اکابرین دیوبند نے ساری دنیا میں عام کیا ہے یہی وجہ ہیکہ ان مدارس کے علماء درکفے جامِ شریعت، درکف سندان عشق کا مصداق رہے ہیں، اور یہی وہ مزاج ومذاق ہے جو شخصیت سازی ومردم گری میں نمایاں کردار اداکرتا ہے۔ 
لیکن ان سب کے باوجود چونکہ ذیلی اداروں کا نظام اس دور انحطاط میں محل شکایت ہے، اساتذہ کو بندھواا مزدور تو طلبہ کو استعمالی وطفیلی خیال کیا جاتا ہے۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر کی ترکیبی نصاب کی وجہ سے رجال کشی ہورہی ہے اس لئے ہمارے مرکزی اداروں کو اس سمت میں ٹھوس عملی اقدام کرنا ہوگا اور اس کا جائزہ لینا ہوگا کہ نصاب سے مطلوبہ مقاصد پورے ہورہے ہیں یا نہیں؟ مدارس کا نظام طلبہ کی تعلیم وتربیت میں کتنا مؤثر ہے؟ طلبہ کی شخصیت سازی ہورہی ہے یا نہیں؟ 
نیز نصاب کو مقاصد تاسیس اور نصب العین کے حصول کے لئے فعال اور مزید مؤثر بنانے کے لئے غور وخوض اور تبادلہ خیال کی کیا صورت ہونی چاہئے تاکہ ہمارا نصاب تعلیم مفید سے مفید تر بنے اور ایسے جزوی ترمیمات کئے جائیں جو مقاصد سے ہم آہنگ ہوں اور مزاج شریعت سے متصادم ناہوں۔ نیز ملک بھر میں پھیلے لاکھوں دینی اداروں کا نظام تعلیم وتربیت اور آمد وخرچ کو درست کرنے کے لئے کیا عملی اقدامات کئے جائیں؟ شاید انہیں امور پر غور وخوض کرنے کے لئے ۱۴۱۵ ؁ھ میں کل ہند رابطہ مدارس اسلامیہ کا قیام عمل میں آیا ہے۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں الحاق وارتباط کے بجائے ہر مدرسہ کے ارباب حل وعقد اپنی اپنی پسند کے مطابق نظام ونصاب ترتیب دیتے ہیں اور طلبہ ومدرسین کی دشواریوں اور نقصان کا باعث بنتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی کے صحیح ومفید مشورہ کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہوتے چنانچہ نصاب ونظام کی اصلاح وترمیم کے سلسلے میں ہمارے مدارس میں جو بحران اور انتشار پایا جارہا ہے اس کے باعث یہ ضروری ہو گیا ہے کہ سبھی مرکزی ادارے دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم ندوۃ العلماء، ومظاہر العلوم اپنے اپنے طریقۂ الحاق وارتباط میں تھوڑی سی تبدیلی لائیں اور اسے تنظیمی شکل دے کر اپنے ماتحت اداروں کی پوری نگرانی کریں اور ایک وفاقی انداز میں پورے ملک کے مدارس ودینی اداروں کو جوڑ کر ایک بورڈ کی صورت دیں تاکہ منظم طریقہ سے ہمارے مدارس اپنے بنیادی مقاصد کی تکمیل بحسن وخوبی کرسکیں۔ 
انشاء اللہ اس طرز عمل سے ہمارے مدارس کی جامعیت، افادیت اورنافعیت میں چار چاند لگ جائے گا اور کم از کم اغیار کی انگشت نمائی اور بیجا مداخلت سے خلاصی ملے گی۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا