English   /   Kannada   /   Nawayathi

شبِ برأت کو شب خرافات نہ بنائیں

share with us

مگر مسلمانوں کا اپنا مزاج ہے اور وہ مذہب کو بھی اپنے مزاج کے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ وہ ہرجگہ سیر وتفریح کا پہلو نکال لیتے ہیں اور بعض جگہوں پر ایسے ایسے خرافات کرنے لگتے ہیں کہ توبہ بھلی۔ شب برأت کا لفظی مفہوم ہے ’’چھٹکارے کی رات‘‘ یعنی گناہوں سے چھٹکارے کی رات، جہنم کے عذاب سے چھٹکارے کی رات مگر مسلمانوں کاایک طبقہ اسے اسلامی اخلاق سے چھٹکارے کی رات کے طور پر مناتا ہے۔ علماء کا ایک بڑا طبقہ شب برأت کی فضیلت کا قائل ہے اور اسے عبادت کی رات کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس بارے میں ایک قرآنی آیت بھی پیش کی جاتی ہے۔سورہ دخان کی اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ : 
’’قسم ہے اس روشن کتاب کی، بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتاراہے‘ بے شک ہم ڈرسنانے والے ہیں۔
اس میں بانٹ دیاجاتا ہے ہرحکمت والا کام(الدخان: 2۔4)
مذکورہ آیت میں جس رات کا ذکر ہے وہ شب قدر ہے یا شب برأت ؟ اس میں علماء ومفسرین کا اختلاف رہا ہے۔ بیشتر مفسرین مانتے ہیں کہ اس رات سے مراد شب قدر ہے مگر ایک طبقہ شب برات مراد لیتا ہے۔ خزائن العرفان میں ہے کہ ’’ان آیات کی تفسیر میں حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اوربعض دیگر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ’’لیلتہ مبارکہ‘‘سے پندرہ شعبان کی رات مراد ہے۔اس رات میں زندہ رہنے والے ‘فوت ہونے والے اور حج کرنے والے، سب کے ناموں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور جس کی تعمیل میں ذرا بھی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ (ماثبت من السنہ‘ صفحہ194)
اس آیت اور اس کی تفسیر سے اتنا تو ثابت ہوتا ہی ہے کہ پندرہویں شعبان ایک مبارک رات ہے اور اس کا احترام کرنا چاہئے، نہ کہ اسے کھیل تماشے میں گزارنا چاہئے۔اس سلسلے میں مشکوٰۃ شریف کی ایک حدیث بھی ہے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتی ہوکہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یارسول اللہ آپ فرمائیے۔ارشادہوا آئندہ سال میں جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دیئے جاتے ہیں اورجتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دیئے جاتے ہیں اوراس رات میں لوگوں کے(سال بھرکے)اعمال اٹھائے جاتے ہیں اوراس میں لوگوں کامقررہ رزق اتاراجاتاہے۔(مشکوۃ‘جلد 1صفحہ277)
حضرت عثمان بن محمدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع کرنے کاوقت اس رات میں لکھاجاتا ہے ۔یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اوراس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کانام مردوں کی فہرست میں لکھاجاچکاہوتاہے۔(الجامع لاحکام القرآن‘جلد16‘صفحہ126 ‘شعب الایمان ‘لبیہقی‘ جلد3صفحہ386)
مغفرت کی رات
شب برأت کو احادیث میں مغفرت کی رات کے طور پر یاد کیا گیا ہے۔ اس لئے اس رات میں خرافات کے بجائے عبادت وریاضت اور دعا ودرود میں وقت صرف کرنا چاہئے۔اس سلسلے میں کئی حدیثیں موجود ہیں۔ ایک حدیث متعدد کتابوں میں وارد ہے جس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے پاس نہ پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکلی۔ میں نے دیکھاکہ آپ جنت البقیع (مدینہ کا قبرستان)میں تشریف فرما ہیں۔ آپ نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اوراس کارسول تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے؟ میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمان دنیا پر(اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتا ہے اورقبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا
ہے۔(ترمذی‘جلد1صفحہ156‘ابن ماجہ‘ صفحہ100‘مسند احمد‘جلد 6‘صفحہ238 )شارحین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث پاک اتنی زیادہ اسناد سے مروی ہے کہ درجہ صحت کوپہنچ گئی۔
شب برأت کو مغفرت کی رات کے طور پر ایک دوسری حدیث میں یاد کیا گیا ہے جو کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر(اپنی شان کے مطابق) جلوہ گرہوتا ہے اوراس شب میں ہرکسی کی مغفرت فرمادیتا ہے سوائے مشرک اوربغض رکھنے والے کے‘‘(شعب الایمان للبیہقی‘جلد3صفحہ380)
ان احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ شب برأت مغفرت کی رات ہے اور اس رات کو کھیل تماشوں میں گزارنے کے بجائے نیک کاموں میں گزارنا چاہئے۔ یہ بات کس قدر افسوسناک ہے کہ جب اللہ کی طرف سے اپنے بندوں کی بخشش کی جارہی ہو، بندے اس کی جانب سے غافل ہوکر لہو ولعب میں مصروف ہوں۔ 
شب برات میں بزرگوں کے معمولات
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’تابعین میں سے جلیل القدر حضرات مثلاً حضرت خالدبن معدان‘حضرت مکحول‘حضرت لقمان بن عامر اورحضرت اسحٰق بن راہویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسجد میں جمع ہوکر شعبان کی پندرہویں شب میں شب بیداری کرتے تھے اوررات بھر مسجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے‘‘۔مزیدفرماتے ہیں اب جوشخص شعبان کی پندرہویں رات میں شب بیداری کرے تویہ فعل احادیث کی مطابقت میں بالکل مستحب ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ عمل بھی احادیث سے ثابت ہے کہ شب برأت میں آپ مسلمانوں کی دعائے مغفرت کے لئے قبرستان تشریف لے گئے ۔(ماثبت من السنہ صفحہ205)
اس رات میں عبادت کرنا اور دن کے وقت روزہ رکھنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب شعبان کی پندرہویں شب ہوتو رات کوقیام کرواوردن کوروزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پرنازل ہوجاتی ہے اوراللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ‘کہ ہے کوئی مغفرت کاطلب کرنے والاکہ میں اسے بخش دوں‘ ہے کوئی رزق مانگنے والاکہ میں اس کورزق دوں؟ ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں‘یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتارہتاہے۔(ابن ماجہ صفحہ100)
بعض کتابوں میں آیا ہے کہ ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے ایک عابد کا ذکر رسول اکرم ﷺ کی مجلس میں آیا جس کی عمر بہت طویل تھی اور اس نے سینکڑوں سال عبادت میں گذارے تھے۔ صحابہ کو تعجب ہوا اور رشک بھی آیا کہ امت محمدیہ کے افراد کی عمریں بہت مختصر ہیں اگر وہ چاہیں تو بھی اس قدر عبادت نہیں کرسکتے ۔ اس پر انھیں اللہ نے یہ رات مرحمت فرمائی جس میں عبادت کا ثواب
پانچ سو سال تک عبادت کے برابر ملتا ہے۔ حالانکہ بعض محدثین کے مطابق مذکورہ بالا روایت شب قدر کے بارے میں ہے۔ ویسے اس رات کے بارے میں بھی کچھ حدیثیں علماء نے تحریر کی ہیں۔ایک حدیث حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتو اس رات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھوکیونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی تجلی سورج کے غروب ہونے کے وقت سے ہی آسمانِ دنیا پر ظاہر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، کیا کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ اسے بخش دوں؟ کیا کوئی رزق مانگنے والا ہے کہ اسے عطا کروں ؟ کیا کوئی مصیبت زدہ ہے کہ اسے چھوڑ دوں ؟ کیا کوئی فلان فلان حاجت والا ہے ، میں اس کی حاجت پوری کردوں؟ یہاں تک کہ صبح ہوجاتی ہے۔
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ اس رات کی خصوصی فضیلت ہے اور یہ رحمت و مغفرت کی رات ہے۔ اس رات میں دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔ جب یہ تجلئ الٰہی کی رات ہے اور قبولیت دعا کا وقت ہے تو اس رات کو غنیمت جان کر اسے عبادت اور دعاء میں بسر کرنا خوش ْ قسمتی کی بات ہے۔ اس رات کو خرافات میں گذارنا محرومی ہے۔
قبروں کی زیارت
اوپر جن احادیث کا ذکر ہوا ان میں ایک حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جنھوں نے اللہ کے رسول کو مدینہ کے قبرستان جنت البقیع میں حالت دعاء میں پایا تھا۔ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اس رات میں8 قبروں کی زیارت کرنا سنت ہے۔ اسی لئے عام مسلمانوں کا معمول بن گیا ہے کہ وہ قبروں کی زیارت کے لئے اس رات میں جاتے ہیں مگر شہروں میں اس سلسلے میں عجیب وغریب صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔ عام طور پر نوجوان لڑکے رات بھر ایک قبرستان سے دوسرے قبرستان کے بیچ دوڑ دھوپ کرتے رہتے ہیں۔ آج کل موٹر سائیکلوں کا دور ہے اور لگ بھگ ہر گھر میں موجود ہیں۔ ایسے میں موٹر سائیکلوں پر سوار لڑکوں کو تیز رفتار کے ساتھ دوڑتے ہوئے اور ٹرافک سگنلوں کو توڑتے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔ راجدھانی دلی جیسے شہروں میں ہر سال بائکرس کے گینگ بغیر ہلمٹ کے ٹوپی میں نظر آتے ہیں اور انڈیا گیٹ واس کے آس پاس اسٹنٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ٹرافک اصولوں کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پولس بھی کاروائی کرنا مناسب نہیں سمجھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ بعض ناعاقبت اندیش مسلمانوں کی غیراسلامی اور غیر مہذبانہ حرکت سے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ خراب ہوتی ہے اور وہ اپنی زندگی کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ظاہر ہے کہ اس قسم کی حرکتوں کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے اور شب برأت جیسی مقدس رات میں ایسا کرنا اور بھی برا ہے۔ یہ رات عبادت کے لئے ہے اور دن روزہ رکھنے کے لئے تو یہی کام کرنا چاہئے۔ 
زیارت قبور کا طریقہ
مختلف حدیثوں میں زیارت قبور کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور زیارت کا طریقہ بتایا گیا ہے۔ خود رسول اکرمﷺ زیارت قبور کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے۔ اس کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ جب کوئی قبرستان میں جائے تو سلام کرے اور اللہ کے
رسول ﷺ بھی جب قبروں کے پاس سے گذرتے تو سلام کیا کرتے تھے۔ آپ شہدائے بدر کی قبروں کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں بھی جانے کا ثبوت احادیث میں ملتا ہے۔ علماء نے زیارت قبور کا طریقہ یہ لکھا 
ہے کہ جب جائیں تو قرآن کی کچھ آیتیں اور سورتیں پڑھ کر مردوں کے لئے ایصال ثواب کریں اور مغفرت کی دعاء کرین۔ یہی طریقہ ان لوگوں کے لئے بھی ہے جو شب برأت میں زیارت قبور کے لئے جاتے ہیں۔ 
قبروں کا حترام 
قبرستان جانے والوں کے لئے لازم ہے کہ وہ قبروں کا احترام کریں اور ان کے اوپر قدم نہ رکھیں۔ یہ اہل قبر کے لئے تکلیف دہ ہے۔عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ قبرستان جانے والے اپنے عزیزوں کی قبر تک پہنچنے کے لئے کئی قبروں کے اوپر سے گذرتے ہیں جب کہ نہ تو یہ درست ہے اور نہ ہی اس کی کوئی ضرورت ہے۔ قبروں پر آگ جلانا سخت ممنوع ہے لہذا قبروں کے اوپر اگر بتی اور موم بتی بھی نہیں جلانا چاہئے۔ شب برأت میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ قبروں کے اوپر موم بتیاں سلگا دیتے ہیں،اسے علماء نے منع فرمایا ہے۔ البتہ قبرستان میں آنے جانے والوں کے لئے اگر موم بتی و اگر بتی سلگائی گئی ہواور وہ قبروں کے اوپر نہ ہو تو جائز ہے۔ مردوں تک نہ تو موم بتی کی روشنی پہنچتی ہے اور نہ ہی اگر بتی کی خوشبو جاتی ہے لہذااسے اگر قبرستان میں کسی مقام پر سلگایا جائے تو اس نیت سے کہ آنے جانے والوں کو روشنی ملے گی تو درست ہے۔ البتہ جہاں بجلی کی لائٹوں سے ہر طرف اجالا ہے وہاں موم بتیاں سلگانا محض ایک رسم ہے ،جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے۔ شب برأت میں قبرستان جانے والوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے۔ 
شبِ برأت کی آتش بازی
شب برأت کے رسوم میں ایک ایک بہت بری رسم آتش بازی کی ہے جس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ملتی باوجود اس کے سینکڑوں سال سے اس کا رواج برصغیر ہندو پاک میں چلا آرہاہے۔ دلی کے حکمراں فیروز شاہ تغلق کے دور میں بھی یہ رواج تھا اور تاریخی حوالوں کے مطابق آتش بازی میں خود بادشاہ بھی شریک ہوتا تھا۔ اس موقع پر پورے شہر میں چراغاں اور آتش بازی ہوتی تھی۔ یونہی دکن کے حکمراں اور حیدر آباد شہر کے بانی محمد قلی قطب شاہ کے کلام میں بھی شب برأت کی رسوم کا ذکر ملتا ہے۔ ان تاریخی حوالوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں سینکڑوں سال سے شب برأت منائی جا رہی ہے اور اسی کے ساتھ بعض خلاف شریعت رسمیں بھی چلی آرہی ہیں جن سے اس مبارک رات کو پاک کرنا ضروری ہے۔ اس رات میں پٹاخے جلانا نہ صرف اس کی حرمت کے خلاف ہے بلکہ اسلام کی نظر میں بھی فضول خرچی ہے جس کے بارے میں قرآن میں ارشاد فرمایا گیا کہ ’’بیشک فضول خرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں‘‘۔ 
برصغیر پاک وہند میں شب برأت کی پہچان آتش بازی کی رات کے طور پر ہوگئی ہے۔یہاں مسلم محلوں میں دیوالی کا سماں
ہوتا ہے اور ایسا لگتا ہے گویا یہ اسلامی دیوالی ہے۔ حالانکہ اسلام میں آتش بازی کی اجازت نہیں ہے اور یہ روپئے میں آگ لگانے جیسا ہے مگر مسلمانوں میں یہ رائج ہوچکا ہے۔ یہ اس خطے میں قدیم ایام سے رائج ہے اور تاریخی کتابوں میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے۔ 
سلطان فیروز شاہ تغلق کے دور میں دلی کے اندر شب برات میں آتش بازی کا رواج تھا اور اس میدان کے ماہرین اپنے فن کا کمال دکھاتے تھے۔ خود بادشاہ بھی تماشائیوں میں شامل ہوتا تھا۔ یہ سلسلہ باوجود اس کے چل رہا ہے کہ علماء نے اسے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے اور اسے غیر اسلامی عمل قرار دیا ہے۔مولانا احمد رضا بریلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں‘آتشبازی جس طرح شادیوں اورشب برأت میں رائج ہے‘ بے شک حرام اورپورا جرم ہے کہ اس میں مال کاضیاع ہے‘ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کوشیطان کے بھائی فرمایا گیا۔ارشا ہوا’’اورفضول نہ اڑا،بے شک(مال)اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں‘‘(بنی اسرائیل)
شبِ برأت اسی کام کے لئے ہے؟
زمانۂ حال میں شب برأت میں جو رسوم جڑی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ نوجوان لڑکے پوری رات ایک قبرستان سے دوسرے قبرستان اور دوسرے سے تیسرے قبرستان گھومتے رہتے ہیں ۔ یونہی بڑے شہروں میں دیکھا جاتا ہے کہ وہ اس رات میں موٹر سائیکلوں پوری رات چکر لگاتے ہیں۔ راجدھانی دلی میں تو عجیب و غریب صورتحال رہتی ہے اور کھلے عام ٹرافک ضابطوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور قانون شکن عناضر اس رات میں اس قدر آزاد نظر آتے ہیں کہ ان کے سامنے پولس اور انتطامیہ بھی بے بس دکھائی دیتی ہے۔ یہ باتیں شب برأت کی حرمت ہی نہیں بلکہ اسلام کے مزاج کے بھی خلاف ہے۔راجدھانی میں اس رات سینکڑوں بائیکرس کو سر پر اسلامی ٹوپیاں رکھے ہوئے اسٹنٹ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک ایک بائک پر چار چار جوانوں کی سواری عام بات ہوتی ہے، جن کے سر پر ہلمٹ نہیں ہوتے۔ ظاہر ہے کہ بغیر ہلمٹ کے گاڑی چلانا اور اسٹنٹ کرنا ،دونوں خود کو خطرے میں ڈالنے کے ہم معنیٰ ہیں اور خود کشی کے مترادف ہیں جن کی اسلام میں اجازت نہیں ہے۔ ملکی قانون کی دھجیاں اڑانا بھی اسلام کی نظر میں کوئی پسندیدہ کام نہیں ہے۔ دلی کے تمام ٹی وی چینل شب برأت کے دوسرے دن یہ خبر دکھاتے ہیں کہ رات بھر بائکرس نے شہر میں ہنگامہ مچایا اور پولس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اسی کے ساتھ اسلامی ٹوپی سر پر ڈالے ہوئے، مسلم نوجوانوں کی ویزول دکھائے جاتے ہیں جو مسلمان اور اسلام دونون کے تصویر کو مسخ کرنے والی بات ہوتی ہے مگر اس کے لئے زمہ دار بہرحال ہمارے نوجوان ہی ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ مبارک رات جو عبادت کی رات ہے، جو تلاوت قرآن کی رات ہے، جو قبولیت دعاء کی رات ہے، جس میں تجلیات الٰہی کا نزول ہوتا ہے اور جس میں اللہ کی رحمت بندوں کی جانب متوجہ ہوتی ہے، اس میں دعاء و درود سے غافل ہوکر فضول کاموں میں وقت گذارنا کس قدر محرومی اور بد قسمتی کی بات ہے؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا