English   /   Kannada   /   Nawayathi

’’بیٹی بچاؤ‘‘ کانعرہ بن گیا مذاق ہرسال کہاں غائب ہوجاتی ہیں بھارت کی کروڑوں بیٹیاں؟

share with us


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


مظفرپور شیلٹر ہوم واقعے نے ملک کی سیاست میں ایک ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔ پورے ملک میں احتجاج کی آوازیں اٹھنے لگی ہیں مگر یہ معاملہ تب ہی تک موضوع بحث رہے گا جب تک کوئی اس سے بڑا ایشو سامنے نہیں آجاتا۔ملک، ایک بار پھر کسی دوسرے مسئلے میں الجھ جائے گا اور قوم کی بیٹیوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے، ہوتا رہے گا۔ حالانکہ مظفرپور کے شیلٹر ہوم میں تو صرف چند چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی مگر ایک دوسری سچائی کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں، جو اس سے بھی بڑے پیمانے پر ہورہی ہے۔ سرکاری اور غیرسرکار ی رپورٹوں کے مطابق ہمارے ملک میں ہرسال کروڑوں بچیوں کو ماں کے پیٹ میں ہی مارڈالا جاتا ہے، اورجوکسی طرح دنیا میں آجاتی ہیں، انھیں کئی سطح پر زندگی کی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ مثلاً انھیں بھید بھاؤ کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اسی کے ساتھ لاکھوں چھوٹی بچیوں کی کم سنی میں ہی شادی کر دی جاتی ہے۔ وہ اتنی کم عمر ہوتی ہیں کہ شادی کا مطلب بھی نہیں سمجھ سکتیں۔ ان میں سے بہت سی بچیاں ماں بھی بن جاتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ مظفرپور کے شیلٹر ہوم میں چھوٹی بچیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس پر ہم آواز اٹھا رہے ہیں مگر کم سن بچیوں کی شادی کرکے جوانھیں قانونی اور سماجی طور پرزیادتی کے حوالے کیا جاتا ہے، وہ بھی اتنی ہی خطرناک ہے جتنا کے مظفرپور شیلٹر ہوم کا واقعہ۔ اس کے علاوہ ،ایک رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ بھارت سے ہر سال 70لاکھ لڑکیاں غائب ہوجاتی ہیں۔ یہ کہاں جاتی ہیں؟ کسی پاس بھی اس سوال کا جواب نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ ایسے حالات ایک دن میں نہیں بنے ہیں بلکہ برسوں میں بنے ہیں اور اس کے لئے جہاں تک اس ملک کی سرکاریں ذمہ دار ہیں، وہیں دوسری طرف عوام کی ذہنیت بھی ذمہ دار ہے۔ہمارے سیاست داں ’’تین طلاق‘‘کے مفروضہ معاملے پر تو گھڑیالی آنسو بہاتے ہیں مگر ان کروڑوں بچیوں کی خبرلینے والاکوئی نہیں،جوبڑے بڑے مظالم کا شکار ہیں۔ اعدادوشمار گواہ ہیں کہ ’’بیٹی بچاؤ‘‘کا نعرہ ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔
کہاں جاتی ہیں یہ بچیاں؟ 
ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر سے لاکھوں لڑکیاں غائب ہوتی جارہی ہیں اور ان کے بارے میں کسی کے پاس کوئی اطلاع نہیں ہے۔ بھارت میں قتل جنین عام بات ہے اور یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جس جنین کا قتل ہوتا ہے وہ عام طور پر لڑکی کا ہوتا ہے مگر اسی کے ساتھ ،دوسری رپورٹ یہ ہے کہ پورے ہندوستان میں ہرایک دہائی کے اندر تقریباً 70 لاکھ بچیاں پیدا ہونے کے بعد غائب ہوجاتی ہیں اور ان کے بارے میں کسی کو کوئی جانکاری نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے کہ ہمارے ملک میں جاری صنفی بھید بھاؤ کے سبب یہ سب ہورہا ہے مگر حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مسلم خواتین کے ’’حال زار‘‘پر آنسو بہانے والے اس بھید بھاؤ پر خاموش ہیں۔قومی میڈیا بھی اس پر بحث نہیں کراتا کیونکہ اسے فرقہ وارانہ تقسیم والا ایشو چاہئے۔ بہرحال آنے والے دنوں میں ،بھارت ، چین کوپیچھے چھوڑ، دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک بننے والا ہے مگر اسی کے ساتھ یہ دنیا بھر میں خواتین کی کمی کے معاملے میں بھی دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائے گا اور یہاں کروڑوں مردوں کو شادی کے لئے لڑکیاں نہیں ملینگی۔ مگر اس ایشو پر کوئی نہیں بولتا کیونکہ یہ ووٹ دلانے والا ایشو نہیں ہے۔ 
کہاں جاتی ہیں یہ بچیاں؟
ماہرین کے مطابق قدرتی طور پر لڑکیوں کے مقابلے لڑکوں کی پیدائش زیادہ ہوتی ہے۔1020 لڑکوں کے مقابلے1000 لڑکیاں پیدا ہوتی ہیں مگر قتل جنین کے سبب لڑکیوں کی تعداد مزید کم ہوگئی ہے۔ البتہ چھ سال کی عمر کوپہنچے تک جو بچے موت کا شکار ہوجاتے ہیں ، ان میں لڑکے زیادہ ہوتے ہیں مگر لڑکیاں، اس عمر میں بیماریوں کو جھیلنے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہیں اور بچ جاتی ہیں۔ بھارت میں پیدائش کے 28دنوں کے اندر جو بچے مرجاتے ہیں ان میں ہرہزار پر41لڑکوں کے مقابلے 37 لڑکیاں ہوتی ہیں۔ واضح ہوکہ نوزائیداہ بچوں کی موت کے تناسب میں بھارت دنیا بھر میں اول نمبر پر ہے۔ یہاں نوزائیدہ بچوں کی نگہداشت کے سرکاری مراکز کم ہیں اور جو ہیں وہاں انتظام ٹھیک نہیں ہے، لہٰذا پرائیویٹ اسپتالوں میں لوگ جانا پسند کرتے ہیں۔غریب ہی سرکاری اسپتالوں میں جاتے ہیں اور یہاں کا انتظام اتنا خراب ہوتا ہے کہ بیماری سے خواہ بچ جائیں مگر بہت سے بچے انفیکشن سے مرجاتے ہیں۔ یہ خیال بھی بھارت میں عام ہے کہ نوزائیدہ اگر لڑکا ہے تو والدین اس کی زیادہ بہتر دیکھ بھال کرتے ہیں اور لڑکی ہوتو اس کی صحت پر زیادہ توجہ نہیں دیتے۔ اس لئے بہت سی لڑکیاں دیکھ بھال کی کمی کے سبب بھی مرجاتی ہیں۔ بچوں کے ایک اسپتال کے ذمہ دار ڈاکٹر ستیش ماراوی مطابق ،ان کے اسپتال میں جو نوزائیدہ بچے لائے جاتے ہیں، ان میں لڑکے زیادہ ہوتے ہیں اور لڑکیاں بہت کم ہوتی ہیں۔ ویسے ملک بھر میں نوزائیدہ بچوں کے تقریبا سبھی اسپتالوں میں یہی صورت حال دیکھنے میں آتی ہے۔ 
کہاں ،کیا تناسب ہے؟
ماں کے پیٹ میں بچیوں کے قتل اور بچپن میں نگہداشت میں کمی سے ہوئی اموات کے سبب، بھارت میں تقریباً ہر دس سال میں لڑکیوں کی تعداد 70 لاکھ تک کم ہوجاتی ہے اور کچھ صوبوں میں تو صورت حال زیادہ تشویش ناک ہے۔ پنجاب ، ہریانہ اور راجستھان میں تو لڑکیوں کی اس قدر کمی ہوتی جارہی ہے کہ شادی کے لئے بنگال اور جھارکھنڈ کے غریب گھرانوں سے لڑکیاں لائی جاتی ہیں۔ فی الحال قومی سطح پرچھ سال سے کم عمر ہزار لڑکوں کے مقابلے 919 لڑکیاں ہیں، جب کہ پنجاب میں ہزار کے مقابلے860 لڑکیاں ہیں، ہریانہ میں836 ہیں،راجستھان میں 887 ہیں، راجدھانی دہلی میں 817 ہیں، اوراتراکھنڈ میں 888 ہیں۔ یہ تناسب دس سال قبل زیادہ خراب تھا، حالیہ دور میں کچھ بہتری آئی ہے۔ لڑکیوں کا سب سے بہتر تناسب کیرل میں ہے جہاں چھ سال سے کم عمر کے ہزار لڑکوں کے مقابلے لڑکیاں1047 ہیں۔ جنوبی ہند کی ریاستوں میں شمالی ہند کے مقابلے صورت حال بہتر ہے۔ تمل ناڈو میں ہزار لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں کی تعداد 954 ہے جب کہ آندھرا پردیش میں914 ہے۔
کیا یہ ریپ نہیں ہے؟
بھارت میں بچوں کی شادی کا رواج آج بھی ہے اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ بچہ دلہنیں بھارت میں ہی ہیں۔ یوں تو کم وبیش پورے ملک میں نابالغ بچوں کی شادی کا رواج موجود ہے مگر راجستھان اس معاملے میں سرفہرست ہے، جہاں ’’ابوجھ ساوے ‘‘ ایک ایسا دن ہوتا ہے جس پر بڑی تعداد میں بچوں کی شادیاں ہوتی ہیں۔ ان شادیوں کو روکنے میں حکومت، انتظامیہ، پولس ، کسی دلچسپی نہیں ہے ، کیونکہ یہ سیاست کا میدان فراہم نہیں کرتا۔نا کافی اعداد و شمار کی غیر موجودگی میں حکومت بھی اس مسئلے سے بڑی آسانی سے کنی کاٹ لیتی ہے۔ پارلیمنٹ میں وزیر برائے بہبود خواتین واطفال مینکا گاندھی نے ممبران پارلیمنٹ کو تین بار اس سلسلے میں جواب دیا اور تینوں بار انہوں نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمارسامنے رکھ کر کام چلایا۔
بھارت میں بچوں کی شادی کے مسئلہ پرچند سال قبل ایک رپورٹ آئی تھی۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں دنیا کی قریب 33 فیصد بچہ دلہنیں رہتی ہیں اور قریب 10.3 کروڑ ہندوستانیوں کی شادی 18 سال سے پہلے ہو جاتی ہے۔اداکار اورسماجی کارکن شبانہ اعظمی کی طرف سے جاری Actioned Indiaکی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق کم سنی میں شادی کے شکار 10.3 کروڑ میں سے تقریبا 8.52 کروڑ لڑکیاں ہیں۔ رپورٹ میں 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے کے بعد کہا گیا ہے کہ( 10.3 کروڑ) کم سنی میں شادی کرنے والوں کی تعداد اتنی بڑی ہے، جتنی جرمنی کی کل آبادی بھی نہیں ہے۔ واضح ہوکہ جرمنی کی کل آبادی 8 کروڑ ہے۔ 
اعداد کیا کہتے ہیں؟
مارچ 2015 میں جاری بھارت کی مردم شماری ۔2011 کے کچھ خاص اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس وقت ملک میں 1.21 کروڑ لوگ ایسے ہیں، جن کی شادی بچپن میں ہوئی ہے۔ بچپن کی شادی کے سب سے زیادہ معاملات والی ریاستیں بالترتیب اتر پردیش، راجستھان، بہار، مہاراشٹر، مغربی بنگال، مدھیہ پردیش اور گجرات ہیں۔ ان اعداد و شمار کا تفصیل سے تجزیہ کرنے والے بھوپال کی این جی اوکے کنوینر سچن جین ایک چونکانے والے حقائق کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ، اگرچہ بچوں کی شادی کی متاثرہ کے طور پر ذہن میں معصوم لڑکی کی تصویر ابھرے،لیکن لڑکیوں کے مقابلے، لڑکے اس کے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔اس کے متاثرین میں 57 فیصد مرد اور 43 فیصد خواتین ہیں۔
اف یہ انسان ہیں یا درندے؟
بھارت میں لڑکیوں پر مظالم کی ایک شکل ہے ان کے ساتھ ریپ۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب میڈیا میں کسی معصوم بچی کے ساتھ درندگی کی خبر نہ آتی ہو۔ پورے ملک میں بچیوں کے ساتھ کیا کچھ ہورہا ہے، اس کا اندازہ بھارت کی قومی راجدھانی دہلی کے اعداد وشمار سے ہوجاتا ہے۔ ویسے بھی دہلی ’’ریپ کیپیٹل‘‘ کی حیثیت حاصل کرچکی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دہلی میں سال 2011 میں پولیس ریکارڈکے مطابق 511 عصمت دری کے معاملے پیش آئے تھے جبکہ 2011 سے 2016 کے درمیان، ان معاملات میں تقریبا 300 فیصد کا اضافہ ہواہے۔ پولیس ریکارڈ کے مطابق 2011 سے 2016 کے درمیان دارالحکومت میں کل 2155 عصمت دری کے کیس درج کئے گئے ہیں، جو اس کے پہلے درج ہوئے ریکارڈ کے مقابلے میں 277 فیصد زیادہ ہیں۔ 2018تک ان اعدادمیں مزید اضافہ ہوا ہے۔ ریپ کی شکار ہونے والیوں میں چھ مہینے کی بچی سے لے کر 80سال کی بزرگ تک شامل ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آدھابھارت کس دہشت میں جینے پر مجبور ہے اورآدھی آبادی کن کربناک حالات سے دوچار ہے 
(مضمون نگار کی رائے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 
05؍اگست2018(ادارہ فکروخبر)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا