English   /   Kannada   /   Nawayathi

نقوشِ طیبات کا خصوصی شمارہ اور حضرت مولانا ناصر سعید اکرمی صاحب کی شخصیت۔۔۔تبصرہ و تعارف

share with us

الحمداللہ اس شمارے کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، ایک تو اس لئے کیوں کہ حسبِ معمول یہ شمارہ چند دنوں میں شائع ہو کر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچنے ہی والا تھا ،مگر مولا نا عبدالباریؒ کی اچانک رونماہونے والی موت نے اس شمارے کی ہیت و نوعیت ہی تبدیل کرکے رکھ دی، دوسری بات یہ کہ اتنی قلیل مدت میں خصوصی شمارہ شائع کرنا کوئی بازیچہء اطفال تونہیں تھا پھر بھی ہمتِ مرداں مددِ خدا کے مصداق نقوشِ طیبات کی پوری ٹیم نے اپنا مکمل وقت دے کرپوری دل جمعی،خلوص نیت، عزم و استقلال اور عرق ریزی کے ساتھ اس شمارے کو خصوصی شمارے میں تبدیل کرنے کی جی جان سے جو محنت و کوشش کی ہے وہ واقعی قابلِ تعریف عمل ہے اور انشاء اللہ اس کام کو قدرکی نگاہ سے دیکھابھی جائے گا اوریہ شمارہ ایک تاریخی اہمیت کا حامل بھی رہے گا، جس کے لئے اس رسالے کے سرپرست،ایڈیٹر، رفقاء و معاونین ہمیشہ لائقِ صد تحسین و آفرین رہیں گے۔اس کے ساتھ ہی ساتھ ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ مولانا مرحوم کے ساتھ ہماری دلی عقیدت و اہمیت، محبت و اُلفت، احترام و انسیت تبھی سچی اور کامل ہوگی جب ہم ان کی نصیحتوں کو اپنی گرہ سے باندھ لیں گے،اور ان نصیحتوں پر عمل پیرا ہونے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ 
کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم دن رات جن سے ملتے جُلتے اور سلام دُعا کرتے رہتے ہیں اُنھیں ہم کبھی اہم شخصیات مانتے ہی نہیں ہیں یا اگر بالاتفاق مانتے بھی ہیں توان شخصیات کو دوسروں سے بھی متعارف کرانے کا یارانہ ہی نہیں رہتا ہے یا پھر انھیں قابلِ درخوراعتنا گردانتے ہی نہیں ہیںیا پھر انھیں گھر کی مرغی دال برابر والی مثال کے مترادف سمجھتے ہیں مگر جوں ہی وہ ہمارے درمیان سے اُٹھ جاتے ہیں تو ہم ان شخصیات کی مدح سرائی میں زمین و آسمان ضرور ایک کر دیتے ہیں ،آخر کیوں ہم ان کی زندگی میں ہی ان کی پذیرائی نہیں کرتے ؟، کیوں ہم انھیں قابلِ درخُور اعتنا نہیں سمجھتے ؟، کیوں ہم اُنھیں ان کے اس دنیا سے اُٹھ جانے کے بعدہی قابل شخصیات میں شمار کرتے ہیں ، کیوں آخر ہم مُردہ پرستی پر آمادہ ہیں، کیا کسی کے نیک کام کی تعریف ان کے زندہ رہتے ہوئے کرنا کوئی بُرائی ہے؟َپھر کیوں ہم بے حسی کی چادر اوڑھے سو جاتے ہیں اور یک بیک ان شخصیات کے دنیا سے چلے جانے پر جاگ اٹھتے ہیں،ایسی ہی سینکڑوں قابلِ تعریف نادر و نایاب علمی شخصیات آج بھی ہمارے معاشرے میں ، ہمارے ارد گردموجود ہیں جن کی بے لوث خدمات اور علمی شہرت کا شہر عزیز بھٹکل معترف بھی ہے اور ان کا معتقد بھی ہے مگر انھیں وہ اہمیت و پذیرائی نہیں دے پارہا ہے جو وہ بیرون بھٹکل کی شخصیات کو دیتا رہا ہے،آج ہم اسی شہرعزیز بھٹکل کی ایک اہم ترین اور مشہور و معروف شخصیت کاتعارف کرواتے ہیں جن کا نام نامی اسم گرامی ہے حضرت مولانا ناصر سعید اکرمی صاحب جامعی مد ظلہ جو کہ شہر عزیز بھٹکل کی مشہور و معروف دینی درسگاہ جامعہ اسلامیہ کے اُستاذ الاساتذہ، معہد امام حسن البناشہید ٹرسٹ کے بانی مبانی،ناظم اعلی،مجلہ’’ الاخبار‘‘ ششماہی اور خواتین اسلام کا ترجمان دوماہی رسالہ . نقوشِ طیبات . کے چیف ایڈیٹر ، ایک جید عالم دین،امام،مفسر،مبلغ اور مفکر ہیں۔ان کی زندگی کا محور و مقصد ہی قومی و ملّی لوگوں میں اور خصوصا بنات واُختات و اُمّہات میں دینی شعور کو بیدار کرکے ان کی آغوش میں پلنے والی نسلوں کودین رحمت کے ذریعہ عملی خطوط پر استوار کرناہے۔ان کا مقصدِ حیات ہی دین کی سر بلندی اورخیر اُمت کی سرشاری ہے،قلندرانہ مزاج کے حامل مولانا موصوف اعلی فہم و فراست رکھنے والی باوقار و باصلاحیت شخصیت ہیں،یہ ریاکاری و منافقت سے دُور اور کسی بھی تعارف و تعریف سے بے نیاز ہیں، ایثار و فیاضی میں ممتاز، ہنس مکھ،ملنسار و جاں نثار، شور و غل سے بھاگنے والے، خلوت پسند، خاموش طبع، سلیم الفطرت، حلیم و بُردبار ، خوددار و غیرت مند، دلیر و عالی ہمت، صدق و صفا کے پیکر، خشیتِ الہی کے خوگر، راہِ حق کے راہی، ملّت کے فدائی، اقرباء پروری سے پرے، عدلِ فاروقی سے قریب، ایک مخلص و ایماندار ولی صفت انسان ہیں،مولانا موصوف خود کو عملا اس ٹرسٹ کے لئے وقف کرچکے ہیں، بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ان کا اوڑھنا بچھونا ہی یہ ٹرسٹ ہو کر رہ گیا ہے۔
معہد امام حسن البنا شہید ٹرسٹ کی تاٗسیس مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمت اللہ علیہ کی سرپرستی میں ۱۹۸۸ء میں عمل میں آئی، پھر ان کی وفات کے بعد سے اب تک اس ٹرسٹ کی سرپرستی الحمد للہ شیخ الحدیث حضرت مولاناسید سلمان حسنی ندوی دامت برکاتہم فرما رہے ہیں، کسی بھی ادارے کو قائم کرناجتنا مشکل لگتا ہے اُس سے کہیں زیادہ مشکل اُس ادارے کومکمل عزم کے ساتھ چلانا، اُسے صحیح خطوط پر قائم رکھنا، اور اُسے پائیدار ترقی دلانا ہے، اور یہ کام جذبہ کامل کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے، ہم اس کام کو جتنا آسان سمجھتے ہیں ، حقیقتا یہ کام اتنا آسان نہیں ہے بلکہ جُوئے شیر لانے کے مترادف ہے، جو ترقی اس ادارے نے اب تک کی ہے محض اللہ کے فضل و کرم اور اس ادارے کے بانی مبانی اور ناظمِ اعلی حضرت مولاناناصر سعید اکرمی جامعی مد ظلہ کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے کہ یہ ٹرسٹ آج اپنی خود کی خوبصورت و عالیشان سہ منزلہ عمارت میں قائم ہے جس کے لئے بطو رِ خاص شہرِ عزیز بھٹکل کے مخیّر احباب قابلِ مشکور و ممنون ہیں،یہ ٹرسٹ ، پچھلے اٹھائیس۲۸؍ سالوں سے قوم و ملت کے لئے دینی، علمی و ثقافتی خدمات پیش کر رہا ہے اور اس ٹرسٹ میں قائم ہو نے والے تمام شعبوں فہم قرآن، تصحیح قرآن،حفظ قرآن، حدیث، فقہ، سوانح، سیرت،اور دیگر جز وقتی کورسس کے ذریعہ شہر عزیز کی اُمّہات و بنات و اُختات ، الحمدللہ کثیر تعداد میں خود بھی فیضیاب ہو رہی ہیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دے رہی ہیں، اس ٹرسٹ کے مقاصد میں جہاں دینی شعور کو بیدار کرنا ہے اس کے ساتھ ہی ساتھ دینی و علمی کتابوں کو گھر گھر قریہ قریہ عام کرنا ہے جس کے تحت اب تک تقریبا ۵۰ سے زائد کتابیں زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر مقبولِ عام و خاص ہو چکی ہیں، اس ٹرسٹ کی عمارت میں خوبصورت و نفیس دفتر کے علاوہ کئی ایک شعبہ جات قائم ہیں، کتب خانہ ،جو بیس ہزار سے زائد نادر و نایاب کتابوں پر مشتمل ہے، دارلمطالعہ، جس میں تازہ بہ تازہ اردو،عربی کے علاوہ دیگر اہم زبانوں کے اخبارات، رسائل و مجلات دستیاب ہوتے ہیں، ریسرچ ہال،جس میں مجلات ورسائل کی نایاب فائلیں اور مخطوطات محفوظ ہیں، آڈیو اور ویڈیو لائبریری ، نقوش طیبات کا دفتر، درس قرآن کا کمرہ، پروگرام ہال خاص برائے خواتین اور پروگرام ہال عام وغیرہ ماشاء اللہ چشمِ بددور،ان سب چیزوں کا وجود پختہ عزم اور جامع استقلال کے بغیر ممکن نہیں تھا، اور یہ کام مولانا موصوف سے اللہ تعالی کو لینامنظور تھا اسی لئے یہ سعادت ان کے حصے میں آئی،اللہ تعالی آپ کے اس کارِ خیر کو قبول و مقبول فرمائے اور یہ کارِ خیر تادیر سلامت رہے اور آپ کے لئے ثوابِ جاریہ بن جائے۔آمین
آخر میں ہم یہاں ایک تعریفی نوٹ نقل کرنا ضروری سمجھتے ہیں جو کہ مشہور و معروف شاعر جناب ڈاکٹر کلیم عاجزؔ صاحب مرحوم نے۱۹۹۷ء میں معہد امام حسن البنا ء شہید میں موجودمعائنہ بک میں مولانا موصوف کے حق میں تعریفا ثبت فرمائے تھے ، وہ لکھتے ہیں کہ :
’’لائبریریاں کتب خانے یا کتابیں صرف خشک پھول ہیں جن کے نظارے سے یا مطالعے سے آنکھوں میں نور اور حسنِ احساس پیدا ہوتا ہے، اگر ان کی کتابوں کے ساتھ ایسی شخصیتیں یا کوئی ایسی شخصیت متعلق ہو جائے جس کی زندگی میں درد ہو سوز ہو خدا کی اور خدا کی مخلوق کی محبت ہو ، ایمان عقیدہ اور عمل کی پختگی ہو تو اس شخصیت کے پرتو سے اور کتابوں سے لوگوں کو فائدہ پہونچانے کی فکر اور سلیقہ سے بہرہ مند ہو تو ان کتابوں میں رنگ اور نور کے ساتھ خوشبو کی کیفیت اور عمل کی حرارت بھی منتقل ہو جاتی ہے، اور ان کتابوں کی بھرپور افادیت زندگیوں میں سما جاتی ہے۔محترم کی ذات لائبریری حسن البنا ء شہید میں وہی حیثیت رکھتی ہے جو جسم میں جان اور روح کی، ان کی فکر اور دردمندی، خوش اخلاقی ، اخلاص اور ایمانی و عملی قوت کتابوں اور دوسرے تعلیمی لوازمات میں زندہ اور متحرک ہوجاتی ہے ۔میں نے لائبریری کا مختصر مشاہدہ کیا اور اندازہ کیا کہ ان کے قلب کاسوز اور فکر کی گرمی کتابوں سے زیادہ نمایاں ہے۔
قتل کرنے کی ادا بھی حسیں قاتل بھی حسیں 
نہ بھی مرنا ہو تو مرجانے کو جی چاہے ہے 
شاید اب تک اس شعر کی معنویت مجھ پر اتنی روشن نہیں ہوئی تھی جتنی مولانا کی معیت میں لائبریری کے مختصر مشاہدہ کے دوران ہوئی۔ میں کیا اور میری دُعا کیا۔لیکن دلی خواہش یہ ہوئی کہ اللہ تعا لی لائبریری کو بھی اور مولانا کو بھی زندہ و جاوید بنادے۔آمین ‘‘ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا