English   /   Kannada   /   Nawayathi

تین طلاقیں اور چند دانش وروں کی غلط فہمیاں

share with us

ایک بار پھر ہمارے کرم فرماؤں نے ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کا مسئلہ اٹھایا ہے، اور مذکورہ بالا قسم کے دانش وروں کو اپنی دانش وری کے مظاہرہ کا موقع مل گیا ہے، دینی علوم اور فقہ اسلامی سے ان دانش وروں کی واقفیت کا عالم یہ ہے کہ ان میں سے بہت سے حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ ایک ساتھ دی گئی تین طلاقیں صرف فقہ حنفی ہی میں تین طلاقیں ہوتی ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اہل سنت کے تمام فقہی مسالک (حنفی، مالکی، شافعی وحنبلی مسالک)ایسی تین طلاقوں کو تین ہی مانتے ہیں،اور سوائے ہند وپاک کے اہل حدیث حضرات کے کسی سنی مکتب فکر کا مسلک ایسی تین طلاقوں کو ایک ماننے کا نہیں ہے، یہاں تک کہ اس مسئلہ میں اہل حدیث حضرات کو سعودی سلفی مکتب فکر کی تائید حاصل نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے علما کی اعلیٰ ترین فقہی تنظیم ’ہیءۃ کبار العلماء‘کا متفقہ فیصلہ یہی ہے کہ ایک وقت میں دی گئیں تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں، ایک نہیں۔
ان دانش وروں کے علم اور واقفیت کا عالم کیا ہے اس کااندازہ اس بات سے لگائیے کہ ایسے ہی ایک صاحب نے تین طلاق کی بابت مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے کہ سعودی عرب میں شرعی قوانین میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب میں کوئی مسودۂ قانون آج تک دستور وقانونِ مملکت کے طور پر مدون ہی نہیں ہوا ہے، یعنی وہاں کا کوئی متعین قانون تحریری طور پر موجود ہی نہیں ہے کہ جس میں تبدیلیاں کی جائیں، لیکن ہمارے ان محترم دانش ور کا بیان ہے کہ وہاں ایسی تبدیلی بلکہ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ علم وواقفیت کی اس صورت حال کے ساتھ ہمارے ان حضرات کا خیال ہے کہ علمائے شریعت شرعی امور میں بھی جو رائے اختیار کریں ان سے پوچھ کر ہی نہ کریں بلکہ ان کی آواز کو اور ان کے ذریعہ سوشل ویب سائٹس پر مچائے جارہے شور وغوغا کونقارۂ خدا سمجھ کر کریں،جو چاہے تیرا حسن کرشمہ ساز کرے۔
۱۸؍ اپریل کی ایک روزنامہ کی اشاعت میں اسی موضوع پر عبید اللہ ناصر صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے تحریر فرمایا ہے: ’’راقم شرعی معاملات میں مہارت کا دعویٰ نہیں کرتا، لیکن بامعنیٰ قرآن شریف درجنوں بار پڑھ چکا ہوں، آج اس مضمون کی تیاری کے لیے پھر سورہ طلاق کو با معنی پڑھا، اس میں طلاق کا جو طریقہ بتایا گیا ہے اس کے مطابق ایک جھٹکے میں 3طلاق کا کہیں کوئی جواز نہیں نکلتا‘‘۔
ناصر صاحب کو شدید غلط فہمی ہوئی ہے، سورۂ طلاق میں تو بس طلاق کے بہترین طریقہ کی راہ نمائی کی گئی ہے، اور وہ یہ ہے کہ صرف ایک طلاق دینے کے بعد عدت گزرنے کا انتظار کیا جائے، اگر رائے تبدیل ہوجائے تو عدت کے اندر رجوع کرلیا جائے، ورنہ بیوی کو چھوڑ دیا جائے، یعنی صرف ایک ہی طلاق دی جائے، دو یا تین نہ دی جائیں، یہ صحیح ہے کہ قرآن مجید کی اس راہ نمائی کی وجہ سے بہتر یہی ہے کہ شوہر بیوی کو ایک ہی طلاق دے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تین طلاقیں دینے سے تین طلاقیں نہیں پڑیں گی، تین طلاقوں کی بابت شرعی حکم کا بیان تو سورۂ بقرہ کی آیات 229-230میں ہے، اور وہاں یہ فرمایا گیا ہے کہ اگر تین بار طلاق دے دی تو اب بیوی شوہر کے لیے حرام ہوگئی۔ اور تین طلاقوں کا یہ حکم بیان کرتے وقت قرآن مجید نے کوئی فرق اسمیں نہیں کیا ہے کہ یہ تین طلاقیں ایک ساتھ دی جائیں یا الگ الگ دی جائیں۔ 
یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) کے عہد میں جب بھی تین طلاقیں ایک مجلس میں دی گئیں آپ نے انہیں تین ہی قرار دیا، اب اس کے بعد عبید اللہ ناصر صاحب یہ مطالبہ کریں کہ چونکہ یہ حکومت مسلم مخالف بلکہ مسلم دشمن ہے اس لیے مسلم پرسنل لا بورڈ کو اپنا موقف بدل لینا چاہیے تو اس کے جواب میں ان سے کیا عرض کیا جاسکتا ہے؟ کیا شریعت کے احکام اور اسلام کے عائلی قوانین وزیر اعظموں کو دیکھ کر بدلے جائیں گے، کیا ایک رویہ اگر راجیو گاندھی کی وزارت عظمیٰ میں صحیح تھا تو وہی رویہ مودی جی کے عہد حکومت میں غلط ہوجائے گا؟ ناطقہ سر بگریباں کہ اسے کیا لکھئے؟
ناصر صاحب اور ان کے جیسے دیگر حضرات کی خدمت میں عرض ہے کہ جب کبھی کسی شرعی مسئلہ میں گفتگو کرنی ہو تو اس سے پہلے کسی عالم سے مشورہ واستفادہ کرلیا کریں، تاکہ ایسی مضحکہ خیزی سے بچاجاسکے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا