English   /   Kannada   /   Nawayathi

کچھ نسل نو کی بھی فکر کریں۔۔۔!

share with us

ایسی بھی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں قرآن و حدیث کی غلط تشریح کرکے بچوں کو یہ بتانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مسلمانوں کے قرآن میں ہے کہ کافروں کو قتل کرو۔ کہیں دھرم سینا تیار کی جارہی ہے، تو کہیں اسکول وکالج میں سوریہ نمسکار کو لازمی قرار دینے کے لئے قرادار پاس کی جارہی ہیں تو وہیں بھارت ماتا کی جے جو کہ ایک کفریہ کلمہ ہے اسے لاگو اور نافذ کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔ غرضیکہ بوڑھے، جوان اور بچے ہر طرح کے دماغ کو ایک مخصوص نظریہ پر لایا جارہا ہے جس میں ہر آئے دن اضافہ ہورہا ہے کمی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے کیونکہ یہ سب ایک منصوبہ بندی کے تحت ہورہا ہے، اس نظریہ کے حامل افراد کام آج کرتے ہیں لیکن اس کے نتیجہ کا انتظار برسوں کرنے کی صلاحیت سے معمور ہوتے ہیں۔ 
یہ وہ طبقہ ہے جو ملک کے ہر شعبہ پر یا تو قابض ہوچکا ہے یا پھر ہورہا ہے، پرائمری اسکول سے لیکر بڑے بڑے کالج اور یونیورسٹی ان نظریات کی حامل بن چکی ہے، تجارت کے شعبوں میں اس طبقہ سے وابستہ افراد چھائے چلے جارہے ہیں، سیاست کھیل کود بالفاظ دیگر زندگی گزارنے کے تمام شعبوں میں ان کی حیثیت مالکانہ بن چکی ہے لیکن یہ سارے کام ایک دن میں نہیں ہوئے ۔۔۔بلکہ اس کے پیچھے برسوں کی محنت ہے ۔۔۔نسل در نسل گزر گئی اور یہ اپنے نتیجہ سے بے خبر اپنے کام میں لگے رہے اور برسوں کی محنت کا جو ثمرہ اسے ملا ہے وہ ایک عظیم الشان ملک کی شکل میں ملا ہے جسے ہم ہندوستان اور وہ بھارت ماتا کہتے ہیں۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو خود کو سیکولر کہتا ہے اور سیکولرازم کی بقا کا ٹھیکہ لے رکھا ہے اور وہ مسلمان ہے، مسلمانوں کے مسائل بڑے عجیب و غریب ہیں، انہیں خود نہیں معلوم کہ ہمارے مسائل کیا ہیں، ہم کہاں جارہے ہیں، ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے اور اب تک کیا ہوتا آیا ہے، مسلمانوں کے پاس ایک سے ایک کل ہند تنظیمیں ہیں، ہر محلہ کی تنظیم کے آگے کل ہند لکھا ملتا ہے، ایسا لگتا ہے کہ ان سے زیادہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود کا کام آج تک ہوا ہی نہیں ہے اور آئندہ بھی کوئی تنظیم یا فرد واحد اتنا عظیم الشان کارنامہ انجام نہیں دے سکتا ہے، مسلمانوں کی بعض تنظیموں نے حقیقت میں بہت کچھ کیا ہے لیکن یہ وہ کام نہیں ہے جو آزاد ہندوستان میں کافی ہوجائے، بسا اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض لوگ سیلاب و دیگر آفات کا انتظار کررہے ہوتے ہیں، جس طرح نیوز ایجنسیاں سیلاب، زلزلہ ودیگر آفات سماوی کا انتظار کرتی ہے اور موقع پاتے ہی اپنی ٹی آر پی بڑھانے کیلئے حقائق سے واقف ہوئے بغیر رائی کو پہاڑ بناکر پیش کرتی ہے ۔ ہماری بھی کچھ تنظیموں کا یہی حال ہوتا جارہا ہے بڑے بڑے بینر لیکر پہونچ جاتے ہیں چند دن رہ کر کام کرتے ہیں، اخبار و رسائل میں اپنے اشتہارات چھپوا کر واپس آجاتے ہیں پھر پلٹ کر انہیں کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا ہے۔ 
ہمارے ملک ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی اپنی ایک تاریخ بن چکی ہے، ملک کے تقریبا سارے ہی صوبہ اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں، فساد کرنے والے اپنے عزائم کو ہر دن برسرعام بیان کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی اس پر عمل بھی کرلیتے ہیں، اور ان کے خلاف خاطر خواہ کاروائی بھی نہیں ہوتی ہے کیونکہ میڈیا ان کا ہے اخبار ان کے ہیں، بڑے بڑے عہدوں پر براجمان افسران ان کے ہیں، وکیل، جج سب ان کے ہیں یا کم از کم ان کی قائم کردہ اسکول و کالج کے تربیت یافتہ ہیں، مسلمانوں کے پاس نہ میڈیا ہے نہ ان کا اپنا کوئی ملکی اخبار ہے، نہ کوئی ماہانہ میگزین ہے، نہ کسی عہدے پر فائز کوئی افسر ہے نہ وکیل نہ جج کچھ نہیں کوئی بھی نہیں ۔۔۔حتی کہ مسلمانوں کی جو قدیم تنظیمیں ہیں ان کا اپنا کوئی قابل الذکر ادارہ بھی نہیں ہے، کوئی ایسا ادارہ نہیں جہاں معصوم بچوں کی دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تربیت کا اہتمام ہو، مستقبل کے معمار بنانے کا کوئی انتظام نہیں ہے لیکن حال پر بحث و مباحثہ کی ایک عظیم الشان تاریخ ہے جو سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے، جسے مؤرخ یقیناًاپنی تاریخ کا سب سے اہم حصہ بنائے گا، جب مسلمانوں کے بچے غیر مسلم اسکولوں اور کالجوں میں پڑھ کر دہریت کو اپنا رہے تھے اس وقت یہ قوم دنیا کے سب سے عظیم الشان کانفرنس و سیمینار کے انعقاد میں الجھی ہوئی تھی، جلسہ جلوس کی اتنی عظیم الشان تاریخ نہ تو اب تک کسی قوم کی ہے اور نہ مستقبل میں اس کے کچھ اثرات نظر آتے ہیں، مسلمانوں کے زعماء حال پر بحث کرنے میں تو ید طولی رکھتے ہیں لیکن مستقبل کیلئے ان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے، مسلمان اپنے ماضی کی روشن تاریخ میں اس قدر الجھ گئے ہیں کہ ان سے مستقبل کیلئے لائحہ عمل طے نہیں ہوپارہا ہے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر اگر بروقت عملی میدان میں قدم نہیں رکھا گیا اور مکمل منصوبہ کے تحت بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام نہیں کیا گیا تو تقریبا ہر مسلم بچے کی زبان پر یہ جملہ ہوگا کہ سات سال بعد مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ میں مسلمان ہوں، سماجی و اقتصادی بحران کا شکار ہوکر ایک مسلمان دنیاوی زندگی میں مشکلات کا سامنا کرسکتا ہے لیکن دینی معاملات کی بیزاری دین و دنیا دونوں کے خسران کا سبب بن جائے گی، اپنی بقا کیلئے ہمیں آغوش مادر میں لپٹے بچے سے لیکر شیخ فانی تک کی دینی و دنیاوی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنا ہوگا اگر ہم نہیں کرتے ہیں تو یقین جانیے نوجوان نسل قوم کے معمار ہوتے ہیں اور جب یہی ہماری غفلت کی وجہ سے دین بے زار ہوجائیں گے تو اس کا خمیازہ ہمیں بھگتنا پڑے گا اور روز محشر جواب دہ بھی ہونا پڑے گا۔۔۔وہاں کانفرنسوں اور عظیم الشان اجتماع کی کامیابی اور لوگوں کے جم غفیر کے بارے میں نہ پوچھا جائے گا بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ کیا اس کانفرنس میں لاکھوں کی تعداد میں نوجوانوں تک دین اسلام اپنی اصل روح کے ساتھ پہنچ چکا تھا ہم اس کا جواب نہیں دے سکیں گے کیوں کہ ہم نے ان تک محض جذباتی نعرے ہی پہنچانے کی کوششیں کی ہیں۔۔۔!

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا