English   /   Kannada   /   Nawayathi

۲۱ویں صدی کا ایک سنگین مسئلہ

share with us

اسی طرح لکڑی کا استعمال بڑھنے لگا ہے جس سے عمارتیں اور فرنیچر بنانے کے ساتھ ساتھ اسے بطور ایندھن استعمال کرنے سے اور خود انسان کی بنائی ہوئی مشینوں موٹر گاڑیاں اور مختلف قسم کے کارخانوں کے دھوئیں سے فضا کی آلودگی میں اضافہ ہورہا ہے کیونکہ آج کل جو گاڑیاں نقل وحمل کے مختلف کاموں میں استعمال ہورہی ہیں وہ سب پیٹرول یا ڈیزل سے چلتی ہیں اور تیزی سے منزل کی طرف جاتی ہوئی ایندھن کے بخارات کے بادل چھوڑ کر فضا کو کثیف بنادیتی ہیں پیٹرول کے جلنے سے بننے والے مرکبات انتہائی زہریلے ہوتے ہیں جو صر ف انسانوں اور جانوروں کی صحت ہی نہیں بگاڑتے بلکہ ہوا، پانی اور یہاں تک کہ زمین کو بھی نقصان پہونچاتے ہیں، یہی حال جراثیم کش ادویات کا بھی ہے جو ہر وقت ہوا میں شامل ہوتی رہتی ہیں اور ان سب کے نتائج امراضِ قلب خاص طور پر پھیپھڑوں کے کینسر کی صورت میں دنیا کے سامنے آرہے ہیں۔
ہمارے ملک کی ۶۰ فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے جہاں اسے ہوا تو قدرے صاف میسر آجاتی ہے مگر پانی صاف نہیں ملتا یہ بھی انسانی صحت کی بربادی کا باعث بن رہا ہے خاص طور پر پانی میں جب صنعتی فضلہ شامل ہوجائے تو مزید خطرناک ہوجاتا ہے جس کا کسی حد تک اندازہ بڑے بڑے دریاؤں کی مچھلیاں مرنے سے ہوتا ہے ممبئی کا چمور علاقہ کبھی اپنے سرسبز وشاداب ماحول کے لئے مشہور تھا لیکن آج اس کے ارد گرد تیل کے کارخانے، کیمیائی کھاد کے پلانٹ اور دیگر صنعتوں کے قیام سے فضا اس قدر آلودہ ہوگئی ہے کہ وہاں کے شہری اکثر دمہ کے مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق بھوپال کے بڑے تالاب کا پانی انسانوں کے پینے کے قابل نہیں مگر پانی کا متبادل انتظام نہ ہونے کی صورت میں شہر کا بڑا حصہ یہی پانی پینے پر مجبور ہے جس کی وجہ سے عام طور پر مقامی شہری زکام، کھانسی، پیٹ کے مختلف امراض اور یرقان کا شکار رہتے ہیں۔ آج سے ۳۲سال پہلے بھوپال میں یونین کاربائیڈ جراثیم کش ادویہ کے کارخانہ سے زہریلی گیس خارج ہونے کے باعث جو گیس المیہ ہوا تھا اس کے اثرات بھی یہاں کے لوگ آج تک بھگت رہے ہیں جو ڈاکٹروں کی رپورٹ کے مطابق نسلوں تک جاری رہیں گے۔ فضائی کثا فت اور آبی آلودگی کے علاوہ شور وغل بھی آج کے انسان کے لئے ایک سنگین مسئلہ بن گیا ہے جس کی وجہ انسانوں میں بہراپن بڑھ رہا ہے اور دورانِ حمل بچے ضائع ہونے کے اوسط میں اضافہ ہوگیا ہے ماہرین کے مطابق اگر آگے شور وغل کم کرنے کے اقدامات نہیں کئے گئے تو ایک دہائی کے بعد شہروں کی نصف آبادی قوتِ سماعت سے محرو م ورنہ ہائی بلڈپریشر میں مبتلا ہوجائے گی۔ اس کی مزاجی کیفیت میں بے چینی اور ناآسودگی بھی برابر بڑھتی جارہی ہے۔
مذکورہ تین آلودگیوں کا مقابلہ اسی وقت ممکن ہے جبکہ ذمہ دار ادارے خطرات سے واقف ہوں اور سب میں اس کا شعور پیدا کیا جائے تاکہ اگر آج ہم نے ماحول کے تئیں اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کیا تو کل مسموم ماحول خود ہماری ہلاکت کا موجب بن جائے گا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا