English   /   Kannada   /   Nawayathi

امن وسلامتی اسلام اور دیگر مذاہب میں

share with us

بقائے امن بقائے انسانیت کو مستلزم ہے امن کی حفاظت گویا ذی روح کی حفاظت ہے امن کی حفاظت گویا زندگی کی حفاظت ہے یا یوں کہیے کہ اس کی حفاظت گویا فطرت کی حفاظت ہے بقائے امن پر کوشش وتعاون کرنا اصل میں بقائے زیست کا تعاون ہے اور کائنات کے حسن و رعنائی کی بقا کا تعاون ہے۔ اسلام سے قبل دنیا میں بہت سی مہذب قوموں نے جنم لیا جنہوں نے اپنی تہذیب اور طریقۂزندگی سے دنیا کے مختلف حصوں اور اقوام کو متاثر کیا اور انسانی زندگی کے لیے سود مند مواقع اور اسباب مہیا کرائے قطع نظر اس کے کہ ان کا مذہب حق تھا یا نہیں ان میں قدیم تر بابل کی تہذیب ،وادئ سندھ کی تہذیب ، مصر کی تہذیب ، تہذیب یونان وچین، آریائی اور ہندوستانی تہذیب نیز نشأۃِ ثانیہ سے ذرا سا پہلے ایران وروم کی تہذیبیں قابل ذکرہیں۔ ان تمام تہذیبوں میں ایک بات تو قدر مشترک ہے کہ سب نے انسان کو اپنے اپنے طریقہ سے بہتر زندگی اور فروغِ انسانیت کا تصور دیا۔ 
یہ تصور اور یہ دماغ اور خیال انکے اندر یوں ہی نہیں پیدا ہوگیا تھا بلکہ یہ عقل وہنر انہیں من جانب اللہ ملا اس رب نے لوگوں کے قلوب پر القا کرکے یہ عقل سمجھائی چنانچہ مولانا روم فرماتے ہیں۔
جملہ حر فتہا یقیں از وحی بود اوّل اوّل عقل اور اہر فزود ؂۱
ترجمہ : یقیناًتمام ہنر ابتداً قلب پر القاء کے ذریعہ معلوم ہوئے پھر عقل نے ان میں اضافہ کیا۔
ان تہذیبوں نے جو بھی فروغ انسانیت کا کام کیا وہ مکمل نہیں تھا کیونکہ انکے پاس صرف عقل وکوشش کا پیمانہ تھاجس نے جسمانیات کے لیے سہولیات فراہم کیں تھیں لیکن انسانوں کی زندگی کو مکمل فارغ البالی اور امن وسکون تو اسی وقت نصیب ہوتاہے جب اسکی زندگی سے امن وسکون کو غارت کرنے والے اسباب کا سدباب کر دیا جائے اور اسکے لیے مکمل رہنمائی تو صرف مذہب سے ملتی ہے اور مذہب میں وہ مذہب جس کا مبداء حق ہو جس کے اسباب وآلات وروحانیت سے وابستہ ہوں اور یہ نعمت صرف انبیاء کرام کے ذریعہ دنیا کو ملی اور دنیا نے دیکھا کہ قیام امن میں جو مکمل سعی عمل انبیاء نے کیا وہ کسی اور تحریکوں کے رہنماؤں کی زندگی سے حاصل نہیں ہوا مثلاًصرف حضرت نوحؑ کا طویل زمانۂ ارشاد اور فساد امن کے خلاف طوفان کی آمد اور حضرت ابراہیم کا نمرود سے مقابلہ اور بت شکنی حضرت موسیٰ ؑ کا فرعون اور فرعونیت کے خلاف احتجاج فساد امن کے خلاف فرعون کی غرقابی اور بہتر معاشرہ کا قیام حضرت داؤد کی جالوت سے جنگ اور پرامن معاشرہ و حکومت کی ترتیب حضرت سلیمان علیہ السلام کی حکومت تمام مخلوقات زمین پر اصل میں قدرت کے قیام امن کی بہترین دلیل ہے کیونکہ اجنہ اور دیوں درندہ جانوروں کو اللہ کی دی ہوئی قوت سے قابو میں رکھ کر حضرت سلیمان نے زمین سے جادو سحر اور ظلم کے ماحول کو ختم کرکے گویا فساد امن کو ہی ختم کیا تھا۔ حضرت ذکر یا ویحیٰ نے قیام امن کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دی تھی ۔ حضرت عیسیٰ نے جب طریقۂ ناحق اور فساد انسانیت کے خلاف آواز بلند کی تو امن کے بد ترین دشمن یہود نے انہیں سولی تک پہنچانے کا انتظام کیا۔
آپ سوال کر سکتے ہیں کہ حضرت یحیٰ اور حضرت ذکریا کی جان چلی گئی اور حضرت عیسیٰ کو تو بزعم نصاری ٰ ویہود سولی پر چڑھا بھی دیا گیا یہ اور بات ہے کہ اللہ نے اپنے خفیہ تدبیر سے انہیں آسمان پر زندہ اٹھا لیا اورقرآن میں اس کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ یہ کیسا قیام امن ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کبھی بظاہر نقصان قیام امن وسلامتی کی ضمانت ہوتی ہے۔ چنانچہ قرآن میں جہاں حضرت یحیٰ وحضرت عیسیٰ کی ولادت کو سلامتی سے تعبیر کیا وہیں انکی موت اوردوبارہ اٹھائے جانے کو سلامتی کے ساتھ وابستہ کیا اور سلامتی میں ذکر یا بھی اس طرح شامل ہیں بلکہ ہرنبی شامل ہوتا ہے۔* وسلامٌُ علیہ یوم وُلِدَ وَیومُ یموتُ ویوم یبعثُ حیّاً ؂۲
* والسلامُ عَلّی یومُ وُلِدتُ ویومُ اموتُ ویوم اُبعَْثُ حیّا؂۳
جب بانی اسلام دنیا میں تشریف لائے تو روئے زمین پر شایدوبایدہی کہیں پر امن تھا معاشرہ میں سکون تھا نہ شخصی زندگی خوشگوار تھی عہد ماضی کی تمام تہذیبوں اور مذاہب کے اچھے افکار محرف ہو چکے تھے اور انکی جگہ خود غرض و ہوس سے متاثر روایات ونظریات نے لے لی تھی جو مذہب انسان کو سر بلند کرنے اس کو روحانی امن و سکون دینے کے لیے تھا اس کو خد ا ئے قدیم سے منحرف کرکے مخلوق کے سامنے لا چار بنا کر کھڑا کردیا گیا تھااس طرح کے روحانی اورقلبی سکون کو غارت کر دیا گیا تھاچنانچہ ۔
زر تشت کا نظریہ امن اور تحریف :۔اور زرتشت کا نظریہ تھا کہ ایران کے قدیم مذہب میں اہورا (سنسکرت )اشوراما فوق الفطرت ہستیوں کی ایک نوع تھی جنکی پر ستش قدیم آریائی مذہب کا ایک حصہ بن چکی تھی لیکن زرتشت نے متعدد اہوراؤں میں سے صرف اہورامزد کو (معبود حقیقی )سمجھا اور اسی کے خدا ئے واحد ہونے کا اعلان کیا اور اسی سے ہدایت طلب کی چنانچہ اہورا مزد کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں‘‘ تیری حکمت (وہومنہ ) نے ہی ہمیں حمد کرنا سکھایا ہے اب تو ہی ہمیں ہدایت کا راستہ دکھا۔ ؂۴
یعنی زرتشت نے خدائے واحد کا تصور دے کر اور ہدایت طلب کرکے گویا لوگوں کو خدا کے سامنے جواب دہ بنایا تھا کہ وہ اپنے آپ کو صحیح راستہ پر رکھیں کیونکہ انسان کی فطرت ہے جب تک وہ کسی کے سامنے جواب وہ نہیں ہوتا تو وہ شتر بے مہار کی طرح آگے بڑھتا رہتا ہے۔ اور غلطی پر غلطی اور ظلم پر ظلم کرتا رہتاہے جس سے امن کا تصور پامال ہوجاتاہے ۔لیکن بعد میں اسی ایرانی معاشرہ میں ایک خدا کو چھوڑ کر متعدد شخصیات کو مانا جانے لگا اور زرتشت کی تعلیم مسخ ہو کررہ گئی ۔
چنانچہ عماد الحق فاروقی لکھتے ہیں: بعد کے دور میں زرتشتی روایات میں نظریاتی اور عملی اعتبار سے اتنی زیادہ تبدیلیاں ہوئیں کہ زرتشت کی اپنی تعلیمات کا بڑا حصہ مسخ ہو کر رہ گیا ؂۵
پہلے زرتشتی مذہب بھی حشر ، عذاب جنت دوذخ کا تصور تھا ۔ بعد میں دوزخ کے تصور کو ختم کر دیا گیا ؂؂۶
آریہ اور ہندو ستائی مذاہب اور امن :۔ ہندوستان میںآریوں نے قدم رکھا تو وہ اپنی تہذیب اور مذہب ساتھ لے کرآئے تھے ہم ہندوستان میں رہتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ ہندوستان میںآریوں کے آنے کے بعد ہندوستانی معاشرہ کا تانا بانہ کیسا بنا یاگیا منواسمرتی کے مطابق معاشرہ کو جسطرح تقسیم کیا گیا اسنے کئی صدیوں تک دلت اور شو درا قوام کو امن سے محروم رکھا اور ان پر ظلم کے دروازے ہمیشہ کے لیے کھول دیئے گے اگر چہ ویدوں اور گیتا کے اشلوک اور اپدیش ہم کو برائی سے لڑنے کی دعوت دیتے ہیں ۔
;nk ;ns /keZL; {k;ksa o`f}J izkIeau%A rnk rq Hkokuh'k vkRekua l`trs gfj%AA
جب بھی بھلائیاں کم ہوجاتی ہیں اور گناہ بڑھ جاتے ہیں توہر ی جو تمام بھگوانوں کے بھگوان ہیں وہ یقیناًرہمنائی کے لیے ایک بھلی جان پیدا کرتاہے۔؂۷
لیکن معاشرتی تقسیم نے اور مذہبی قوانین نے ٹھاکر راجپوت برہمن اور ویشیہ کو خصوصی رعیایت دی خاص طورپر براہمنوں کو تو مذہبی طورپر اتنی رعایت دی جو کسی بھی طرح انصاف کے دائرے میں نہیں رکھا جاسکتا ۔ یعنی براہمنوں کو کوئی جسمانی سز ا نہیں دی جاسکتی ، کوئی ٹیکس نہیں لگا یا جاسکتا ،کسی برہمن کی جان لینا سب سے بڑا پاپ ہے ، کوئی کمتر ذات برہمن پر دعویٰ نہیں دائر کر سکتا، خاص مذہبی رسومات صرف برہمن ہی پوری کرائیں گے ؂۸ وغیرہ وغیرہ لیکن ایک بڑا طبقہ جو غیر آریہ قدیم ہندوستانی جسے شود ر کہا جاتاتھا اس کی معاشرہ کی کوئی حقیقت نہیں تھی وہ بس ظلم سہنے کے لیے بنا تھا اور وہ بند ہوامزدور کی طرح انہیں تینوں ذاتوں کی خدمت کرتے کرتے اور قدموں پر بیٹھتے بیٹھتے پوری عمر گذار دے؂۹
بھلا ایسے معاشرہ میں امن وامان کا کیا تصور کیا جاسکتا ہے جہاں مذہب کے ذریعے لوگوں پر ظلم ڈھانے کے قوانین بنادیئے گئے ہوں۔
بد ھ مذہب :۔ ضرور تکلیف دینے کے خلاف تھا لیکن اسکو زیادہ عرصہ ہندوستان میں قائم نہیں رہنے دیا گیا ۔اور وہ براہمن تہذیب میں مرج ہو کر رہ گیا اور اس کے انعام میں گوتم بدھ کو ایک اوتار مان لیا گیا ۔لیکن اشوک نے جو جنگ لڑی اس میں اس وقت تک سب سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔
جین مذہب :۔یہ بھی ہنسہ اور تکلیف دینے کے خلاف ہے لیکن وہ انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے میں آنے والی رکاوٹوں کا کوئی حل نہیں بتاتا مثلاً جن علاقوں میں صرف مچھلی کھا کر ہی زندہ رہا جاسکتا ہے اس علاقہ کاجین مذہب اختیار کرنے والا تو بھوکوں مر جائے گا جین مذہب کے مطابق دھی اور سرکہ میں بھی جیو اورجاندار ہوتے ہیں انہیں بھی نہیں کھا سکتا ۔ جین مذہب بھی بدھ مذہب کی طرح نجات دھند ہ کو نہیں مانتا وہ انسان کے اعمال کو ہی نجات تسلیم کرتا ہے اور ترک دنیا کی دعوت دیتا ہے پانچ قسم کی احتیاط یعنی سمیتاں بتاتا ہے اور دس کشناد ھرم 
لیکن اسلام ایسا نظامِ زندگی لے کر آیا جو زندگی کے ہرپہلوکے لیے قوانین وضابطہ رکھتا ہے اور دنیا کے سامنے ایسا لائحہ عمل پیش کرتاہے جو نرمی اور سختی اصلاح و تدبر، زجرو توبیخ ہر طرح سے مفید نتیجہ اخذ کرلینے میں کامیاب ہوجاتاہے ۔ یہ احکم الحاکمین کی حکمتِ الہیہ کی فضیلت ہے کہ اس نے اپنا رسول صاحب حکمت و دانائی والا بھیج کر اس زمین کو مامون بنایا دنیا والوں کو ظلم وامن کے درمیان باریک سے باریک اسباب وعلل کو گرفت کر لینے کی تمیز پیدا کر دی ۔ چنانچہ لڑائی جھگڑے بے ایمانی جانب داری تعصب، نااضافی ،ہوس دنیا وعدہ خلافی، ضبط نفس کا فقدان ۔دوسرے کو حقیر سمجھنا ۔خود سری ، تکبر ، شدت، قرابت کا لحاظ نہ کرنا خود غرضی میں دوسرے کی ضرورتوں سے صرفِ نظر کر جانا ۔کسی کو ناحق مورد الزام ٹھہرا نا ،کسی کی نعمت دیکھ کر حسد کرنا،ان کی وجہ سے غیبت کرنا ، جھوٹ بولنا وغیرہ ایسی خرابیاں ہیں جو معاشرہ کی اکائی سے لیکر دو مملکتوں اورملکوں کو بھی چین سے نہیں رہنے دیتی اور امن کبھی قائم نہیں ہوپاتا۔
چنانچہ اللہ کے رسول حضرت محمدﷺ نے اعلانِ نبوت سے پہلے سماج کو سچائی اور دیانتداری کا سبق دیااور آپ ﷺ صادق وامین (یعنی سچ بولنے والا اور امانتدار )کے لقب سے مشہور ہوگئے تھے۔ مذکورہ خرابیاں عربوں میں بھی بہت زیادہ تھیں بلکہ ان میں قوۃِضبط کا فقدان بہت زیادہ تھا وہ ایک بات کو لے کر اپنی انا کا مسئلہ بنا کر صدیوں تک جنگ کرنے پر آمادہ رہتے تھے چنانچہ جب خانہ کعبہ کی تعمیر نو کرنے کا وقت آیا تو حجراسود کے نصب کرنے پر تلوار یں کھینچ لی گئیں ان کو اگر کسی نے امن کا سبق دیا اور جنگ نہ کرنے کاحل بتایا تو وہ صرف آپ کی ذات تھیں اور آپ ؑ ﷺنے اپنی چادر پر حجرِاسودہ کو رکھ کر تمام قبیلوں کے سرداروں کو بلا کر چادر کا کونہ پکڑنے کا مشورہ دیا سب خوش ہوئے اور مسئلہ کا حل نکلا امن قائم رہا اس وقت آپکی عمر مبارک تقریباً ۳۵ برس کی رہی ہوگی۔ اس کے چند سال بعد جب آپﷺ نے نبوت کا اعلان کیا تو وہی لوگ جوکل تک آپ کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے تھے ۔ جہالت کی وجہ سے آپ کے سخت مخالف ہو گئے، اور آپ پر ہر طرح سے ظلم ڈھانے لگے پتھر مارنا کانٹے بچھانا ، گالی دینا، شور مچانا قرآن نہ پڑھنے دینا وغیرہ وغیرہ لیکن آپ ﷺ نے دنیا کو امن کا سب سے پہلا سبق جو دیا ضبط نفس کا دیا کہ تیرہ سال تک آپ نے اف تک نہیں کی طائف جیسے واقعہ اور ظلم پر جہاں آپ ﷺکو پتھر مار مارکر نڈھال کر دیا گیا تھا آپ نے بد عا نہیں کی اس سے بڑا ضبط نفس اور کیا ہو سکتا ہے۔ اور یہی مکہ کے لوگ جو شب و روز آپ ﷺ کو ستانے پر تیار رہنے لگے تھے آپﷺ سے بدر،اُحد ،خندق ، جیسی خطرناک کئی جنگیں بھی لڑچکے تھے جب فتح مکہ ۸ ؁ھ کا وقت آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اے اہل مکہ میں تمہارے ساتھ کیا معامعلہ کرنے والا ہوں وہ سہم گئے اور بولے اخ کریم ابن اخ کریم یعنی آپﷺ شریف بھائی اور شریف برادر زادہ ہیں واضح ہو کہ شریف سے مرا د امن پسند ہونا لازمی معنی ہے آپ ﷺ نے امن پسندی اور ضبط نفس اور معاف کر دینے کی ایسی مثال پیش کی کہ تاریخ عالم آج بھی پیغام امن کے فہرست میں اسکو سب سے اوپر جگہ دیتی ہے چنانچہ آپﷺ نے یہ نہیں فرمایہ کہ میں نے معاف کیا بلکہ فرمایا ۔لا تثریب علیکم الیوم اذہبوا فانتم الطلقا ء ؂۱۱ تم پر کوئی الزام نہیں جاؤ تم سب آزاد ہو چند اشتہاری مجرومون کے علاوہ سب کو امان دے دی۔
آج دہشت گردی کا دور ہے ظالم قوتوں کے اپنے اپنے عزائم ہیں جنہیں مذہب کی تعلیمات سے کچھ لینا دینانہیں وہ تو زیادہ سے زیادہ خون ریزی کرکے اپنے مقاصدحاصل کرتے ہیں جبکہ بانی اسلام نے دنیا کو صاف صاف اللہ کا یہ پیغام سنایا ۔ 
کہ کسی کو نا حق قتل نہ کریں۔ ولا تقتلوا النفس التی حرّم اللّٰہ الّا الحّق ؂۱۲
اور جان کا قتل اللہ نے حرام کیا اسے ناحق قتل نہ کرو
اور تمام انسانوں کو ایک ہی ماں باپ کی اولاد بتاتے ہوئے سب کو برابری کا درجہ عطا کیا قرآن میں ہے۔
انما خلقنکم من ذکروّا نثی و جعلنکم شعوباًوّ قبائل لِتعارفو اِنِّ اکر مَکم عند اللّٰہ اتقا کم ؂۱۳
ترجمہ:۔اللہ فرماتاہے بیشک ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قبیلوں اور جماعتوں میں بانٹ دیا تاکہ تم پہچانے جا سکو تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرتاہے ۔
اور فرمایا ۔ اِنَّ اللہ لا یُحّبُ المعتدین ؂۱۴ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا اگر کٹی ہوئی ناک کا کوئی حبشی تمہارا امیر ہو اور تم کو اللہ کے راستہ (امن کے راستہ ) پر لے چلے توا سکی فرمابرداری کرو
نرمی سے کام لیں: فلیا تکم برِرقِ منہُ وَالیتلطّف ؂۱۵ تم اس میں سے کھانا لے آؤ اور چاہئے ک نرمی سے پیش آئے۔
ضبط واستقلال پر رہو:۔ وَاصْبِرْ عَلَی مَا أَصَابَکَ إِنَّ ذَلِکَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُور؂۱۶
اور جو مصیبت تجھ پر پڑے اس پر استقلال اختیار کر بیشک یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے۔
ہمت سے کام لو:۔ اے ایمان والو ثابت قدم رہو اور باہم ہمت دلاتے رہو اور اللہ سے ڈراتے رہو تاکہ تم کامیاب رہو۔
ہوسِ دنیامیں نہ پڑو:۔قُلْ مَتَاعُ الدَّنْیَا قَلِیْلٌ وَالآخِرَۃُ خَیْْرٌ لِّمَنِ اتَّقَی ؂۱۷ 
اے پیغمبر بتادیجئے دنیا کی پونجی تھوڑی ہے (یعنی حقیر سی ہے )اور آخرت بہتر ہے اس شخص کے لیے جس نے تقوی اختیار کیا۔
جھگڑا لو نہ بنو:۔ عن ابن عباس قال قال رسول اللہﷺ کفی بک واثما ان لا تزال مخاصمہ؂۱۸
حدیث میں حضرت ابو اماؓ مہ فرماتے ہیں کہ رسولﷺ نے فرمایا کہ کوئی بھی قوم راہِ ہدایت پر گامزن ہونے کے بعد اسی وقت گمراہی کا شکار ہوئی امن کے راستہ سے بھٹکی جب اسکو جھگڑنے کی عادت ہوگئی۔
زیادہ غصہ سے بچو:۔ لیس الشدیدبالصرعتہ انما الشدید الذی یملک نفسہ عند الغضب ؂۱۹
طاقتور وہ نہیں جو دوسرے کوپچھاڑد ے طاقتور تو وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے 
بد گمانی سے بچو:۔ یایھا الذی امنواا جتبوا کثیراً مِن الظّنِّ اِنَّ بعضَ الظنِ اثمٌُ ؂۲۰
اے ایمان والوں زیادہ تر گمانوں سے بچو بیشک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔
لوگوں کے ساتھ نیکی کرو:۔ اِنَّ اللّٰہ یُحِبُ المحسنین ؂ ا۲
بیشک اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتاہے
کمزور اور نوکر کو امن:۔ ترمذی کی حدیث اللہ کے رسول نے فرمایا کہ نوکرکو دن میں ستر دفعہ معاف کرو۔ ؂۲۲
عورتوں کو امن:۔ عورتوں کے معاملات میں اللہ سے ڈرو ؂۲۳
اسلام امن وانصاف کے معاملہ میں مسلم وغیر مسلمہ کا کوئی فرق نہیں کرتا رحم سب پر ہونا چاہئے ۔ حضرت عمرؓ نے شام کے سفر پر کسی مقام پر دیکھا کہ لوگ ذمیؤں (غیر مسلموں) پر سختی کر رہے رہیں پوچھاتومعلوم ہو ا کہ وہ غریبی اور ناداری کی وجہ سے جزیہ ٹیکس ادا نہیں کر یا رہے ہیں فرمایا چھوڑدو میں نے رسولﷺ سے سنا ہے کہ لوگوں کو تکلیف نہ دو جو لوگ دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں اللہ انہیں قیامت (آخری دن )میں عذاب دے گا ۲۴؂
حضرت ابو بکرصدیقؓ نے جب اللہ کے رسول کا مقرر کردہ لشکرپر حضرت اُسمامہؓ کو امیر لشکر بنا کر عیسائیوں کے مقابلہ کے لیے بھیجا تو مندرجہ ذیل نصیحتیں کیں۔ (ا)خیانت نہ کرو(ب)دھوکا نہ دینا(ج)امیر کی نافرمانی نہ کرنا(د)کسی شخص کے اعضا نہ کاٹنا (ہ)کسی بچہ بوڑے اور عورت کو قتل نہ کرنا(و)کسی پھل دار درخت کو مت کاٹنا نہ جلانا(ز)بکری گائے یا اونٹ کو بھوک کی ضرورت کے بغیر ذبح نہ کرنا(ح)تم کو ایسے لوگ ملیں گے جو اپنی عبادت گاہوں میں گوشہ نشین ہوں گے ان سے کوئی تعرض نہ کرنا(ط)تم کو ایسے لوگ ملیں گے جو قسم قسم کے کھانے تمہارے سامنے پیش کریں گے یہ کھانا کھا کر اللہ کا شکر ادا کرنا یعنی خدا کو نہ بھول جانا
غرض کہ اسلام نے دیگر مذاہب کی بہ نسبت نہایت باریکی سے غور کرتے ہو ئے ہر پہلو سے قیام امن کا عملی ثبوت دیا۔ اور دنیا کے سامنے امن کا واضح پیغام دیا۔ اس مختصر میں بس اتنا ہی 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا