English   /   Kannada   /   Nawayathi

کانگریس نے ہمیشہ فرقہ واریت کوزندہ رکھا

share with us

ملک چلانے کیلئے جنگ آزادی کے مجاہدین اوربزرگ لیڈران کے ساتھ ساتھ کانگریس نے ملک کا دستوروآئین بنایا۔جس میں قومی یکجہتی،سیکولرزم،بھائی چارہ،فرقہ وارانہ ہم آہنگی کونمایاں جگہ دی گئیں۔سیکولرازم دستورہندکے تمہیدہی میں رکھکر،اسکی افادیت کی گئی ہے ملک کی آبادی انتہائی کثیرہے یہاں کثرت میں وحدت ہے، جوایک وطیرہ خاص ہے۔متعدد مذاہب،ذات پات،زبانوں کلچرل کے لوگوں کے ملک میں،سیکولرازم اورشوشلزم کا،دستورہندمیں جگہ پاناانتہائی اہمیت کاحامل ہے۔یہ ملک کی آبادی کے پیش نظرافادیت کی بات ہے۔سیکولرازم ،شوشلزم،بھائی چارہ،محبت اخوت کے بغیرملک کی بقاء اورترقی کیلئے دشواریاں ہی دشواریاں ہیں۔ملک کادستورانسانی اقدار،بھائی چارہ محبت،سبھی کومساوات پربنانے میں ہے ۔بلاشبہ کانگریس پارٹی کانمایاں غیرمعمولی کردارہا۔ورنہ دوقومی نظریہ کی بنیاد پرپاکستان بن چکاتھا۔کانگریس میں بھی فرقہ پرستوں کی کمی نہ تھی۔جوہندستان کوہندوتواپردستوری اورآئینی طورپربنانے میں پیچھے نہ رہتے۔ان فرقہ پرستوں کی طرف جواہرلال نہرونے بھی اشارہ کیاتھا۔فرقہ پرستی کی بناء پرفرقہ وارانہ فسادات ہواکرتے ہیں۔نظم وضبط کی صورتحال بگڑجایاکرتی ہے۔ملک کاتمام کاروبارٹھپ ہوجایاکرتاہے۔کھیت کھلیان سُنے پڑے رہتے ہیں۔کل کارخانوں میں مشین رک جاتی ہے۔اسکول وکالج درس گاہوں میں تالے پڑجاتے ہیں۔انسانی جان ومال کابے پناہ نقصان ہواکرتاہے۔فرقہ واریت کاخاتمہ حکمرانوں کااہم فرض منصبی ہے۔فرقہ واریت کے ہاتھ بہت اونچے ہیں۔ملک کاآئین اوردستورفرقہ واریت کی اجازت نہیں دیتا۔نیک نیتی،ولولہ خلوص کی کمی نے نیزسیاسی مفادپرستی نے سیکولرسیاسی پارٹیوں اورسیاست دانوں کوفرقہ وارانہ ہم آہنگی سے بازرکھا۔کبھی ہندوکارڈ،کبھی مسلم کارڈ کھیلتے رہے۔دستورپرحلف وفاداری لینے کے باوجود،یوں دستور سے مذاق کیاجاتارہا۔کانگریس جیسی سیکولرپارٹی جسکی تعلیمات میں سیاست کے ساتھ ساتھ سماجیات بھی شامل رہی، اگرجن سنگھ اوربھارتیہ جنتاپارٹی،آرایس ایس کی ہندوتواوادی’’اے ٹیم‘‘ہے توکانگریس ’’بی ٹیم‘‘ بنی رہی ہے۔ملک کی آزادی کے بعد۵۰؍سالوں تک مرکزاوردیگرریاستوں میں اسکی حکومت رہی۔اس کے زیرسایہ ہندوتووادچلتارہا۔ہندوتواکوکانگریسی راج میں برابر غذاوخوراک ملتی رہی۔کانگریس کاانسانی اقدارپرمشتمل نظریہ اوردستورہنداس بات کی اجازت اورآزادی دیتارہاکہ وہ فرقہ پرستی کے خاتمہ کے لئے عملی اقدامات کرے۔مسلمانوں کے ساتھ سرکاری ونیم سرکاری ملازمتوں میں تعصب،کانگریس حکومتوں میں چلتارہا۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،جامعہ ملیہ جیسے مسلم تعلیمی اداروں میں مداخلت ہوتی رہی۔ہندوتواوادی بی جے پی کاپرانا نام بھارتیہ جن سنگھ تھا۔یہ اپنے قیام سے ایک لمبے عرصہ تک ۱۹۸۰؍تک،اپنی فرقہ وارانہ کے لمبے چوڑے نعروں،مذہبی منافرت کے باوجودانتہائی ناکام تھی۔۱۹۸۴؍کے الیکشن میں بی جے پی(جن سنگھ) کوصرف دوپارلیمانی سیٹوں پرکامیابی ملی۔۱۹۸۹؍میں مندرمسجدکامدعا،بی جے پی کے لئے نعمت مرقبہ ثابت ہوا۔کانگریس ہندوتواکے مقابلہ میں انسانیت دوستی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی ،قومی یکجہتی پر،اپنے قول وتعلیم سے مکرتی گئی۔کیسٹ،انفارمیشن ٹیکنالوجی،الیکٹرانک میڈیاکازمانہ آیا،ہندوتواوادیوں نے اس کابھرپوراستعمال کیا۔شہروں سے نکل کر،قصبہ گاؤں گاؤں ہندوتواکاپرچار،ہندوتواوادیوں نے بھرپورشروع کیا۔مفروضات،جھوٹے قصے کہانیاں پھیلاکر،بڑے پیمانے پرہندوؤں کوورغلایا،مسلمانوں کی تصویرغلط بتائی،کانگریس ہندوتواوادیوں کے سامنے اپنے فرائض منصبی پرکھوکھلی نکلی۔کانگریس حکومت اورپارٹی نے ہندوتواکے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔ملک کادستور،آئین اورملک کے شاندارتکثیرت اوروحدت میں کثرت سے انحراف کرتی نظرآئی۔وہ گجرات کے فرقہ وارانہ فسادات پرمودی کوموت کاسوداگرتوکہنے لگی مگراس کے خلاف قانونی اقدامات سے غافل رہی۔گجرات فسادات پرخاطی ہندوتواوادیوں کے خلاف بہت قانونی اقدامات کرسکتی تھی۔کرنے سے قاصررہی۔یہاں تک کہ آج مرکزمیں ہندوتواوادیوں کی حکومت ہے۔متعدد صوبوں میں بھی پورے ملک میں ہندوتواکابازارگرم ہے، اس کی ذمہ داراگرکوئی ہے توکانگریس ہے اس کاکردارنمبرایک۔پھرملائم سنگھ،شردپوار،چندربابونائیڈو جیسے سیکولرلیڈران کابھی کردارکچھ کم نہیں ہے ۔انہوں نے اپنے عارضی سیاسی مفادات کی خاطرانسانیت دوستی سیکولرزم سے منہ موڑاکہ آج ہندوتواکایہ چڑھتاسورج دکھائی دے رہاہے۔
بابری مسجدکے معاملہ میں بھی کانگریس کاڈھل مل رویہ رہا۔فرقہ پرستی کے خاتمہ پردوقدم آگے دوقدم پیچھے رہی۔کانگریسی راج میں ۱۹۴۸؍میں بابری مسجد میں مورتیاں رکھ دی گئی،مندربن گیا،مسجدمیں نمازعبادت بندہوگئی۔یوں کانگریسی راج ہی میں،کانگریس ہی کے اشارے پربابری مسجدکادروازہ کھلا۔متنازعہ جگہ پرشیلانیاس ہوا۔وعدے کے باوجوددستوری قانونی تحفظات ہوتے ہوئے، ہندوتواوادیوں کے ہاتھوں بابری مسجدکوشہیدہونے دیا۔وہاں مندربننے دیا۔یوں انسانیت دوستی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی پرکانگریس کے ماتھے پرہمیشہ کیلئے کلنک کاٹھیکہ لگا۔کانگریسی وزیراعظم نرسمہاراؤنے بابری مسجداسی جگہ بنانے کاوعدہ کیامگروہ صرف وعدہ رہا۔؂
ایک دوزخم نہیں سارابدن ہے چھلنی 
دردبے چاراپریشاں ہے کہاں سے اُٹھے 
بی جے پی(جن سنگھ) ۱۹۵۱؍کواپنے قیام سے ۱۹۸۰؍تک باوجوداپنی مذہبی منافرت ،شرانگیزیوں کے باوجودسیاسی اعتبارسے کمزوررہی۔ہندوووٹ کانگریس ہی کے ساتھ رہا۔کانگریس مسلمانوں کے بھی ووٹ
کوحاصل کرتی رہی۔مگرمندرمسجدکے مدعے پرمسلمان اورہندودونوں کانگریس سے دورہوتے گئے۔بابری مسجدکاتالاکھلوانا،شیلانیاس کروانااورپھروعدے کے مطابق بابری مسجدکونہ بچانا،کانگریس کے لئے کام نہ آیا۔یہ کام ہندوتواوادیوں نے کردیا۔ہندوتواووٹ بی جے پی کی جھولی میں آتے رہے۔آج مرکزمیں تن تنہا،ہندوتواوادی مودی کی حکومت ہے۔مسلم ووٹ،قومی یکجہتی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی،سیکولرازم پرجارحانہ منافقت کی بناء پرکانگریس کی جھولی سے خالی ہے۔بی جے پی کی جھولی ہندوتواووٹوں سے پہلے کے مقابلہ بڑھ گئی ہے۔آخرکب تک؟ کانگریس مرکزمیں اقتدارسے بے دخل ہونے کے بعد،صوبوں میں بھی بے دخل ہوتی چلی گئی۔جن میں بیشترجگہ ہندوتوادی یاصوبائی سیکولرپارٹیاں حکومت میں ہیں۔کہیں ممتابنرجی ،کہیں نتیش کمار توکہیں تلنگانہ میں چندرشیکھرراؤصوبائی وزیراعلی ہیں۔کانگریس اپنی بقاء کی لڑائی لڑرہی ہے۔چھوٹی موٹی سیکولرپارٹیوں سے مددوتعاون لے رہی ہے۔ان کے ساتھ انتخابی محاذ میں شامل ہوکر،اپنی گرتی صحت کوبچانے کیلئے آکسیجن لے رہی ہے۔اب کانگریس میں وہ دم خم ہے کہ بی جے پی کامقابلہ کرے؟آرایس ایس کے بڑھتے فلسفہ کے خلاف محاذ آرائی کرے۔کہیں صوبوں میں مایاوتی،لالوپرساد،کیجریوال،نتیش کمار،چندرشیکھرراؤ جیسے صوبائی سیکولرلیڈران،انکی پارٹی میں وہ دم خم،بی جے پی کے مقابلہ بڑھتاجارہاہے۔ایساہی ہے ورنہ پارلیمانی الیکشن کے بعددہلی اوربہارکے الیکشن میں کیجروال،اورنتیش کمارکے سامنے یوں ہندوتواوادی بی جے پی اورمودی کوزبردست ہارسے دوچارنہ ہوناپڑتا۔عنقریب مغربی بنگال میں اسمبلی الیکشن ہیں۔جہاں یقینی طورپرممتابنرجی ،ان کی ترنمول کانگریس اپنی سالہاسال کی معیاری سماجی وانسانی اقدارپرمبنی کارگزاریوں کی بناء پربی جے پی اورکانگریس ،کمیونسٹوں کوبری طرح سے شکست سے دوچارکردیں گی۔
آج فرقہ واریت ہندوتوواداورآرایس ایس کے خلاف سونیاگاندھی اورراہل اورکانگریسی بڑھ چڑھ کرحملہ کررہے ہیں۔آزادی کے بعد سے ۲۰۱۴؍تک مرکزمیں ۵۰؍سال اورملک کے متعددصوبوں میں کانگریس کی حکومت رہی۔اس درمیان ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔فسادات کے بعدقائم کئے گئے سرکاری کمیشنوں نے فرقہ وارانہ فسادات میں پولس والوں کیساتھ ساتھ آرایس ایس اوراسکی ذیلی شاخوں کے افرادکے نام فسادیوں میں گنوائے،ان کے خلاف قانونی کاروائیوں کی سفارشات کیں۔وعدوں کے باوجودسرکاری کمیشنوں کی سفارشات پرکانگریسی سرکاروں نے پولس والوں اورفسادیوں کے خلاف کوئی قانونی کاروائیاں نہیں کیں۔جسکی واضح مثال ۱۹۹۲؍کے ممبئی کے فرقہ وارانہ فسادات پرکانگریس سرکارنے سری کرشناکمیشن،فسادات کی سرکاری جانچ کیلئے بٹھایا۔اس کمیشن کی سفارشات پرکانگریس سرکارنے حسب وعدہ کوئی کاروائی نہیں کی۔فرقہ وارانہ فسادات میں اقلیتوں مسلمانوں ہی کااکثرجانی ومالی نقصان ہوا۔کہیں قانون میں بھی کمی ہے اس بات کے پیش نظرجامع قانون ہوناچاہئے۔فرقہ وارانہ فسادمخالف بل کامسودہ تیارکیاگیا۔جسمیں فسادات کے خاتمہ کیلئے کافی جامع باتیں ہیں۔فرقہ وارانہ مخالف فساد بل کئی سالوں تک کانگریس نے اپنا اقتدار ہوتے ہوئے پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا۔اس بل میں فسادات کے تعلق سے پولس والوں کوبھی جواب دہی کیلئے آناہوگا۔ذمہ داربنایاگیا۔کانگریس نے گذشتہ پارلیمنٹ کے آخری اجلاس میں انسدادفرقہ وارانہ فسادات بل پارلیمنٹ میں صرف پیش کیا۔اسے پاس نہیں کیا۔حیلہ بہانے بنائے۔اگریہ بل قانون بن جاتاتوفرقہ وارانہ تنظیموں،متعصب پولس والوں پرفسادات کے تعلق سے کڑی لگام لگتی۔سری کرشناکمیشن کی سفارشات پرکانگریس سرکارخاطیوں پرکاروائی کرتی تویقیناً گجرات کا۲۰۰۲؍کااورمظفرنگرودوسری متعددریاستوں پرفرقہ وارانہ فسادات نہ ہوتے۔
انسانیت دوستی،قومی یکجہتی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر،خاطرخواہ دستوری آئینی تحفظات ہوتے ہوئے بھی کانگریس نے انتہائی منافقت سے کام کیا۔یہ اگرنہ ہوتاتو شایدآج مرکزمیں ہندوتواوادی مودی کی سرکارنہ ہوتی۔کانگریس کوموقع ملتاکہ وہ آرایس ایس جیسی ہندوتواوادی تنظیم پرلگام کسے۔اس نے ہمت ولولہ خلوص نہیں دکھایا۔سمجھوتہ ایکسپریس،اجمیربم دھماکہ،مالیگاؤں بم دھماکوں کے بعداعلی پولس افسرکی رپورٹ پرہندوتواوادی تنظیموں کے لوگ بم دھماکوں کے الزام میں پکڑے گئے۔اسی طرح اورمواقع بھی آئے،کانگریس نے سردمہری سے کام لیا۔گویاکانگریس پارٹی نے فرقہ واریت کوغذاوخوراک دی کہ اب کانگریس بسترمرگ پرہے۔چھوٹی چھوٹی پارٹیوں سے محاذبناکر وہ آکسیجن لیکر زندہ رہناچاہتی ہے۔
ہندوتوا،آرایس ایس کے بڑھتے قدم کوروکناضروری ہے۔لالواورنتیش نے بہارالیکشن میں مودی،بی جے پی کوزبردست شکست دیکر اسکی ابتداکردی ہے۔عنقریب مغربی بنگال میں اسمبلی الیکشن ہے۔کانگریس اورکمیونسٹ،ترنمول کانگریس اوربی جے پی اس طرح سہ رُخی مقابلہ ہے۔یہاں ۳۰؍فیصد مسلم ووٹ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔دوسری طرف ممتابنرجی کاانسانی اقدار،سماجیات اورفرقہ وارانہ ہم آہنگی پرٹھوس وواضح سالہاسال کی شاندارکارگزاری ہے۔عوام کوووٹ ترنمول کانگریس کودینے میں کوئی پس وپیش نظرنہیں آتا۔آزادی کے بعد سے مغربی بنگال میں ۱۵؍سال سے ترنمول کانگریس ،۳۵؍سال ایک لمبے عرصہ تک کمیونسٹوں کی حکومت رہی۔فی الحال ۱۰؍برسوں سے ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس کی حکومت ہے۔الیکشن میں حصہ لینے والی پارٹیوں کی سالہاسال سے کارگزاریاں عوام کے سامنے ہیں۔
ممتابنرجی کی شخصیت میں قومی یکجہتی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی،اقلیتوں،دلتوں،پسماندہ طبقات،مسلمانوں کیلئے،انسانی اقدار،مساوات کابے پناہ جذبہ کوٹ کوٹ کربھراہے۔ان کی سماجی وسیاسی زندگی ان باتوں کی کوٹ کوٹ کرگواہی دیتی ہیں۔نندی گرام میں جب کسانوں کی زمین ہتھیاکرملک کے بڑے سرمایہ دارٹاٹاکودی جانے لگیں، توممتابنرجی نے بے خوف وخطربہادری کے ساتھ میدان عمل میں احتجاجات کرتے ہوئے ٹاٹاکے خلاف اورکسانوں کی حمایت میں سڑکوں پراترآئی۔کانگریس کی رجعت پسندی،سرمایہ داری،گھرانہ شاہی، حاشیہ برداریوں وانسانی اقدارسے دوری کی بناء پرانہوں نے کانگریس سے باہرنکل جاناپسندکیا۔مرکزی وزارت کوبھی انہوں نے ٹھوکرماری۔انسانی اقدارسے پاسداری کاہی نتیجہ تھاکہ وہ وزارت کواقتدارکوٹھوکرماری۔اصولوں پرآنچ نہ آنے دی،اردوبھی اس ملک کی زبان ہے اسے ممتاجی مانتی ہے۔مغربی بنگال میں اردوکی ترقی وبقاء واشاعت میں وہ سابقہ کانگریس اورکمیونسٹوں کی حکومت سے دوقدم نہیں چارقدم،آج تک جاری وساری ہیں۔ریاست میں انہوں نے اردوکودوسری سرکاری زبان کادرجہ دیا۔ریاستی اردواکیڈمی کابجٹ ۸۰؍لاکھ سے بڑھاکر ۱۰؍کروڑ کیا۔ہندوتواوادیوں نے مہاراشٹرمیں دنیامیں،اردوغزل گائیکی کے مشہورفن کارغلام علی کاپروگرام ہونے نہیں دیا،انہوں نے اس کی مذمت اورکی طرح لفظوں سے نہیں کی بلکہ عملی مظاہرہ کرتے ہوئے کلکتہ میں غلام علی کاشاندارغزلوں کاپروگرام کیا۔برصغیرکے عظیم شاعر،فلسفی،اصلاح کارڈاکٹرعلامہ اقبال کوبعدازمرگ ’’سارے جہاں سے اچھاہندستان ہمارا‘‘ پر’’ترانہ ہند‘‘ کے اعزازسے نوازا۔جسے علامہ اقبال شاعراسلام کے پوتے، ولیداقبال نے آکرقبول کیا۔وہ ممتابنرجی صاحبہ کے ممنون ومشکورہوئے۔تنگ نظروں ہندوتواوادیوں کے نزدیک یوں بعدازمرگ ممتاجی کی جانب سے سرکاری اعزازسے کافی بدمزگی ہوئی۔مگرممتابنرجی کواس کی پرواہ کہاں؂
میں کہاں روکتاہوں عرش وفرش کی آوازسے 
مجھ کوجاتاہے بہت دورحدپروازسے 
ذبیحہ گاؤپرہندوتواکے غیردستوری شوروشرابہ،خون خرابہ پرتقریر کرتے ہوئے کہاکہ ہرشخص کوحق حاصل ہے وہ اپنی پسندسے کسی بھی چیزکوکھائے۔اپنی مرضی کی پوشاک پہنے،کسی کوحق نہیں کہ وہ کھانے پینے کی
چیزوں پرپابندی لگائے۔آئین نے شہریوں کوجوحقوق دیئے ہیں اس کاتحفظ کروں گی۔اس کیلئے کسی بھی حد تک جاؤں گی۔جب آسام میں خونی فسادہوا،بڑی تعداد میں لوگ تحفظ کی خاطرمغربی بنگال آئے’’ہروہ شخص جسے بنگال میں پناہ ملی وہ ہندستان کابااختیار شہری ہے۔‘‘ ایساممتانے کہا۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ یوپی بہارآسام گجرات اورراجستھان میں مارواڑی رہتے ہیں۔گجرات میں کتنے ممبراسمبلی بنگال کے ہیں۔مگربنگال میں کتنے ممبراسمبلی اورممبرپارلیمنٹ دوسری ریاستوں کے ہیں۔
ہندوتواوادی،مغربی بنگال کوگجرات بنانے پرآمادہ رہے۔بے باکی بہادری سے یہ ہونے نہیں دیا۔وہ قومی یکجہتی،فرقہ واریت پرملائم سنگھ کی طرح منافق نہیں کہ یوپی میں مظفرنگرودوسری جگہوں پرہندوتواوادیوں کوفسادات کرانے کی آزادی دے رکھی کہ بی جے پی کو۸۰؍سے ۷۳؍پارلیمانی سیٹوں پرکامیابی ہوئی۔ ایساممتانے بنگال میں ہونے نہیں دیا۔۴۲؍پارلیمانی سیٹوں میں صرف۲؍پارلیمانی سیٹوں پربی جے پی کامیاب ہوپائی۔۳۴؍پارلیمانی سیٹوں پرممتاکامیاب ہوئی۔بنگلہ دیشیوں کے نام پربنگالیوں کی زندگی اجیرن کرنے کی ناپاک کوششوں کوکامیاب نہ ہونے دیا،اورمودی کوللکارا۔
آج کے انتہائی ہندوتواوادی پرآشوب دورمیں پورے ملک میں احتجاجات اورکہرام ہے۔مغربی بنگال ہی نہیں پورے ملک میں ممتا’’دیدی‘‘ انسانی اقدار،قومی یکجہتی کی ایک شاندارشخصیت ہیں۔یقیناً دل سے نکلتاہے کہ انشاء اللہ کانگریس،کمیونسٹوں کوبنگال کے عوام نے باربار آزمایا،پھروہ ممتادیدی کوآزمائیں گے ایک بارپھر۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا