English   /   Kannada   /   Nawayathi

اللہ رے سنّاٹا آواز نہیں آتی

share with us

لیکن ان کا قد مفتی صاحب کے مقابلہ میں بہت چھوٹاہے۔ اوروہ بی جے پی کے بڑوں سے اس انداز میں معاملات نہیں طے کر سکتیں جس لہجہ میں مفتی صاحب کر سکتے تھے۔ شاید اسی کا نتیجہ ہے کہ محبوبہ مفتی پہلے تو چوتھی کے فاتحہ کا عذر کرتی رہیں۔ اس کے بعد انہوں نے یہ مسئلہ اٹھایا کہ جو معاہدے ہوئے تھے ان پر پوری طرح عمل نہیں ہوا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ محبوبہ نے یہ دیکھ لیا کہ ابا کے جنازے میں شیخ عبداللہ کے مقابلہ میں کشمیری بہت کم تھے۔ اور یہی انہوں نے چوتھی کے فاتحہ میں دیکھ لیا۔ اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئیں کہ کشمیری عوام جو ان کی طاقت ہیں وہ اس حق میں نہیں ہیں۔ دوسری طرف بی جے پی کے حلقوں میں بھی ایسی سر گرمیاں نظر نہیں آتیں جیسی مفتی صاحب سے مذاکرات کے وقت نظر آرہی تھیں۔ ایک خبر یہ بھی آئی تھی کہ مفتی صاحب آخری دنوں میں خطرے میں تھے لیکن وزیر اعظم ان کی عیادت کے لئے نہیں آئے۔ اور جب چوتھی کے فاتحہ میں مس سونیا گاندھی محبوبہ مفتی سے تعزیت کرتی نظر آئیں تب بھی کئی باتیں سننے میں آئیں۔ اور یہ فیصلہ کہ مفتی مرحوم کے خاندان نے سرکاری رہائش چھوڑ دی اور سرکاری گاڑی بھی واپس کر دی، اس کا کھلا اعلان ہے کہ محبوبہ مفتی اب بی جے پی کے ساتھ حکومت چلانے کے حق میں نہیں ہیں اور تین دن گزرنے کے بعد بی جے پی کی طرف سے خاموشی اس کا ثبوت ہے کہ وہ بھی اب مایوس ہو چکی ہے۔
کشمیر سے یہ آواز یں بھی آرہی ہیں کہ عمر عبداللہ جنھوں نے الیکشن کے بعد بی جے پی کے ساتھ ایک پوری رات مذاکرات کئے تھے پھر یہ سوچنے لگے ہیں کہ کیوں نہ وہ محبوبہ مفتی کے بجائے بی جے پی سے ملکر حکومت بنائیں؟ ایسی صورت میں اگر انہیں چھ سال نہیں تو کم از کم معاہدہ کے تحت ڈھائی سال تو حکومت کرنے کے لئے مل ہی جائیں گے۔ اور حکومت کے مزے لوٹنے کے لئے ڈھائی سال بھی کم نہیں ہوتے۔ عمر عبداللہ کو یہ اندازہ تو ہو چکا ہے کہ کانگرس کے ساتھ ان کی حکومت سے کشمیری خوش نہیں ہیں۔ اور سیلاب میں انھیں جیسے خطابات سے نوازا گیا اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ وہ محبوبہ مفتی کا مقابلہ نہیں کر پائیں گے۔ 
مفتی سعید صاحب کی پارٹی پی ڈی پی نے جنرل کونسل کی میٹنگ 31جنوری کو سری نگر میں اور /3فروری کو جموں میں بلائی ہے۔ محبوبہ مفتی شاید چاہتی ہیں کہ کوئی بھی فیصلہ وہ تنہا اور ان کی کابینہ نہ کرے بلکہ جو فیصلہ پوری پارٹی کو منظور ہو وہ کیا جائے۔ اس وقت جو غیر یقینی صورت حال ہے کہ محبوبہ مفتی نے ہر سرکاری سہولت چھوڑ دی ہے۔ اور اتنے اہم فیصلہ کی خبر کے بعد نہ وزیر اعظم یا وزیر داخلہ نے یہ کہا کہ وہ کشمیر آرہے ہیں اور نہ یہ پیغام بھیجا کہ محبوبہ مفتی دہلی آکر ملاقات کر لیں۔ ایک طرح سے یہ اشارہ ہے کہ اگر مفتی صاحب کے اقدام سے کشمیری خوش نہیں ہیں تو وزیر اعظم وزیر داخلہ اور رام مادھو کے فیصہ سے بی جے پی کا ایک بڑا طبقہ بھی خوش نہیں ہے۔ اور دونوں یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ اگر الیکشن ہوئے تو کتنا فائدہ ہوگا اور کتنا نقصان؟
یہ حقیقت ہے کہ مفتی صاحب نے جو فیصلہ کیا تھا اور جو کچھ ہوا اور جس طرح سے ہوا وہ مفتی صاحب کے علاوہ کوئی بھی ہوتا تو نہ ہوتا۔ اور اب پی ڈی پی کے لوگ سمجھ رہے ہیں کہ اب اگر حکومت بنتی ہے تو کشمیر کو دینا زیادہ پڑے گا، اسے ملے گا کم۔ اور محبوبہ مفتی یہ بھی سمجھ رہی ہیں کہ جب ذرا سی بات پر اروناچل کی حکومت برخاست کی جا سکتی ہے اور گورنر سے یہ رپورٹ بھجوائی جا سکتی ہے کہ راج بھون کے سامنے گائے کاٹی گئی جس کی بنا پر فرقہ وارانہ ماحول خراب ہونے کا خطرہ سامنے آگیا۔ جب کہ اروناچل میں مسلمان صرف دو فیصدی ہیں۔ اور وہاں گائے کاٹنے ، اس کا گوشت فروخت کرنے اور کھانے پر کوئی پابندی بھی نہیں ہے، اور مزید یہ کہ جو جانور کا ٹا گیا وہ نہ گائے تھی نہ بیل تو پھر فرقہ وارانہ ماحول خراب ہونے کا عذر فریب نہیں تو اور کیا ہے؟
اروناچل میں کانگرس حکومت کو برخاست کر کے صدر راج نافذ کرنے پر دوسروں کا کیا ذکر بی جے پی کے سنجیدہ لیڈر حیران ہیں۔ شتروگھن سنہا نے جو عموماََ بہار کے معاملات پر کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں اروناچل میں صدر راج لگانے کے فیصلہ پر کہا ہے کہ میں حیران ہوں کہ وزیر اعظم کو ہماچل پردیش میں صدر راج لگانے کی رائے کس نے دی؟ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ایسے وقت آیا ہے جب معاملہ سپریم کورٹ کے 5ججوں کی بنچ کے سامنے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں فکر مند ہوں کہ اگر فیصلہ ہمارے خلاف آیا تو کیا ہوگا؟
یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ سماعت کے دوران حکومت نے سپریم کورٹ کو مطلع کئے بغیر اروناچل میں صدر راج نافذ کر دیا۔ اور یہ کام 26جنوری کو کیا گیا۔ ممتاز قلمکاروراگ گپتا نے یاد دلایا ہے کہ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے 1979میں گورنر کے اختیارات کا جائزہ لیتے ہوئے سابقہ آئین بنچ کے فیصلوں کی روشنی میں نہایت واضح طورپر کہا تھا کہ اکثریت کا فیصلہ اسمبلی میں ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے بر عکس یہ فیصلہ اروناچل میں غیر آئینی طور پر راج بھون میں کیا جا رہاہے۔ 
یہ وہ تصویر ہے جو محبوبہ مفتی کو خبردار کر تی ہے کہ اگر انہوں نے مرکزی حکومت سے بغاوت کرکے کانگرس سے تعلق بڑھایا اور جوڑ بٹور کے حکومت بنالی تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہی وہ بات تھی جسے مفتی صاحب سمجھتے تھے۔ اور کسی حدتک ہم بھی سمجھ رہے تھے۔ اس لئے ہم نے مفتی صاحب کے اس قدم کی ستائش کی تھی۔ لیکن کشمیر کے لوگوں کے احساسات اور جذبات ملک کے دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ اور انہوں نے اپنے طور پر مفتی صاحب کے سوگ میں اور چہارم کے فاتحہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیکر ظاہر کر د۔ اور اب محبوبہ مفتی بی جے پی کے بغیر حکومت بنانے کے متعلق سوچ رہی ہیں یا الیکشن کا سامنا کرنے کے لئے فضا بنانے پر غور کر رہی ہیں؟ اب جو بھی ہو وہ ریاست کے حق میں اچھا نہیں ہوگا۔
ملک میں بی جے پی کی جو تصویر مودی سرکار نے بنادی ہے اس کا تقاضہ تو یہ ہے کہ وہ پھر سے دفعہ 370کا راگ چھیڑ سکتی ہے یا جگ موہن جیسا گورنر بھی بھیج سکتی ہے۔ اس لئے کہ وہ الیکشن کے بارے میں نہیں سوچے گی۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ عمر عبداللہ اپنی حکومت کا ذائقہ چکھنے کے لئے بی جے پی کا آلۂ کار بن جائیں اور مودی صاحب بھی اس میں عافیت سمجھیں کہ جیسی بنے حکومت بنا لینا چاہئے ہو سکتا ہے کہ ان کے اچھے دن آ جائیں۔
بہر حال جو بھی ہو یہ خاموشی اور سناٹا اچھا نہیں ہے۔ اور کم از کم محبوبہ مفتی کے لئے تو بالکل نہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا