English   /   Kannada   /   Nawayathi

اصلاح معاشرہ اور تمباکو نوشی سے پھیلتی گندگی

share with us

اس لئے اس کا استعمال کرنے والے سوچیں کہ وہ تو عبادات میں مصروف ہیں اور اللہ ان کی اس مکروہ عادت کی وجہ سے انہیں پسند نہیں کرتا ۔تو کیوں نہ وہ اس عادت کو ترک کردیں ۔پان،بیڑی،سگریٹ،تمباکو،گٹکا فضول خرچی ہے۔اللہ نے ہمیں جو پیسے کی شکل میں نعمت دی ہے اسے اس لت پر خرچ کرنا کفران نعمت ہے۔اور اس کی وجہ سے صفائی جو کہ نصف ایمان ہے کا خاتمہ ہو کر گندگی پروان چڑھتی ہے اور جان بوجھ کر بیماریوں کو دعوت دی جاتی ہے ۔اس لئے اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے ۔سگریٹ پینے کے عادی ہی آگے چل کر چرس اور ایم ڈی نامی زہریلے نشے کا شکار ہو کر ایک طرح سے خود کشی کرلیتے ہیں ۔
اگر کوئی شخص کسی کے گھر یا دکان کے سامنے تھوک دے تو وہ لڑنے مارنے پر آمادہ ہو جاتا ہے ۔مگر وہی شخص پان کھاکر پورے علاقے میں پچاسوں جگہ تھوک تھوک کر گندگی پھیلاتا ہے۔مسلم عوام اس لت میں حد تک گرفتار ہیں ۔اس کا اندازہ مسلم علاقوں میں داخل ہوتے ہی ہوجاتا ہے ۔ممبئی کامدنپورہ جو کہ سو فیصد گنجان مسلم علاقہ ہے ۔یہاں پان کے اتنے باکڑے ہیں کہ شاید کوئی گن ہی نہیں سکتا۔ہر بلڈنگ ،چال کے نیچے باکڑے ،ایک ایک گلی میں دس سے زائد پان سگریٹ گٹکھا کے باکڑے ملیں گے ۔یہی حال ہر مسلم اکثریتی محلے اور گاؤں کا ہے۔کسی گاؤں کے اگر 200 مسلمان بھی پان بیڑی،سگریٹ ،گٹکھا کی لت میں مبتلا ہو کر روزانہ بیس روپئے بھی خرچ کرتے ہیں تو ماہانہ یہ رقم ایک لاکھ بیس ہزار بنتی ہے ۔اس رقم سے گاؤں میں کسی غریب لڑکی کی شادی،کسی بیمار شخص کی دوا علاج،کئی بچوں کی تعلیم کا خرچ نالے وغیرہ کی مرمت و صفائی ،مسجد کے امام موذن وخادم کے ہدیہ میں اضافہ ،تعلیمی شعور بیدار کرنے کے لئے لائبریری کا قیام ،فصل برباد ہو نے کی وجہ سے تنگ دست و مقروض کسان کی مد د،بیوہ عورتوں کو ماہانہ خرچ جیسے نہ جانے کتنے فلاحی کام کئے جاسکتے ہیں ۔ممبئی ،دہلی ،کولکاتا،لکھنو،پٹنہ،کانپور جیسے بڑے شہروں میں جہاں کی مسلم آبادی لاکھوں میں ہے ،اگر وہاں کے ایک لاکھ مسلمان بھی پان بیڑی،سگریٹ ،گٹکھاپر روزانہ 20 روپئے خرچ کرتے ہیں تو ماہانہ بیس لاکھ اور سالانہ دو کروڑ چالیس لاکھ روپئے برباد ہو تے ہیں ۔اس رقم کا استعمال وظائف اور تعلیمی سرگرمیوں اور دیگر فلاحی کاموں میں لگا کر اپنا سماجی مرتبہ دوسری قوموں کے مقابلے بلند کرسکتے ہیں۔ 
اگر کسی شخص کے بچے اسکول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور وہ اس لت سے توبہ کرکے کچھ سالوں میں اچھی خاصی رقم بچاسکتا ہے جو اس کے بچے کے اعلیٰ تعلیم کے لئے کام آسکتی ہے۔یہ تو معمولی طور سے اندازہ لگا کر اعداد و شمار پیش کئے ہیں ورنہ پورے ملک کے مسلمان اس لت میں مبتلا ہو کر کتنے کروڑروپئے برباد کرتے ہیں۔وہ سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا۔اور پھر بعد میں اس لت کی بدولت مختلف بیماریوں حتیٰ کہ کینسر جیسے مرض میں مبتلا ہو کر جو پورا خاندان برباد ہوتا ہے وہ المیہ الگ ہے۔جہاں ایک طرف مسلمان کروڑوں روپئے بھی برباد کرتا ہے اور بیماریوں میں مبتلا ہو کر اپنی جان گنوا کر گھر والوں کو بے سہا را کردیتا ہے۔ وہیں اس زہر کے تاجر گٹکھا کی کمپنیوں کے مالک عالیشان بنگلوں میں رہتے ہیں ،مہنگی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں اور سگریٹ کی کمپنیاں اربوں روپئے سالانہ کماتی ہیں ۔
افسوس کہ اصلاح معاشرہ میں بھی اس کو موضوع بحث نہیں بنایا جاتا ہے ۔بڑے بڑے خودساختہ علماء جب اسٹیج پر چڑھتے یا مائک پر آتے ہیں تو انہیں جوش آتا ہے کہ وہ امریکہ اسرائیل ہوتے ہوئے اور دوسر ے مسلک کے مسلمانوں کو دین سے خارج کرتے ہوئے اپنے طے شدہ وقت سے دگنا وقت لے کر ہی دم لیتے ہیں ۔مگر انہیں بالکل سامنے کی یہ برائی نظر نہیں آتی ۔وہ ان چھوٹے موضوعات پر بول کر اپنی شان گھٹانا نہیں چاہتے اور پھر وہ کیسے بولیں کیوں کہ وہ خود اس لت کا شکار ہیں ۔اسی لئے تقریر ختم ہونے کے بعد ان کے مرید و شاگرد انہیں ادب کے ساتھ پان کی گلوریاں پیش کرتے ہیں ،جسے حضرت نوش فرماتے ہیں ۔مدرسے میں پڑھانے والے مدرس خود اپنے طالب علموں سے پان اور سگریٹ منگواتے ہیں تو وہ طالب علم بھلا کیسے اس چیز کو برا سمجھے گا اور بڑا ہو کر وہ اگر مدرس بنا تو وہ بھی اپنے طالب علموں کو پان منگوانے کے لئے پنواڑی کے یہاں بھیجے گا تو یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا۔اس کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ (1 )اصلاح معاشرہ کے نام پر ہونے والے جلسوں میں پان گٹکا اور تمباکو نوشی کو ’’لا تسرفو ان اللہ لا یحب مسرفین ‘‘کی روشنی میں موضوع تقریر بنایا جائے ۔(2 )دینی مدرسوں اور اسکولوں میں اس کا استعمال مدرسین بالکل بند کریں۔ادارے کے ذمے دار اس سلسلے میں اصول بنائیں کہ کوئی مدرس نہ خود پان کھائے اور نہ تمباکو نوشی کرے اور بچوں سے تو ہر گز نہ منگائے۔(3 )مسجد مدرسہ والے اپنی دوکان پان،سگریٹ اور گٹکا بیچنے والوں کو کرایہ پر ہر گز نہ دیں اور بورڈ لکھوا کر لگوائیں کہ اسلام میں یہ چیزیں حرام ہیں اس لئے کرایہ پر نہیں دی جارہی ہیں ۔تاکہ لوگوں کے شعور میں اس کی برائی تو بیٹھنا شروع ہو۔(4 )صفائی نصف ایمان ہے اور ان سب چیزوں سے صفائی کا خاتمہ اور گندگی کا عروج ہوتا ہے۔اس لئے سال میں پچاس جمعہ کے خطبوں میں سے کم از کم پچیس خطبے اگر نہ سہی تو کم از کم ہر دو تین مہینے میں ضرور اس پر جمعہ میں تقریر کی جائے ۔(5 )جماعتوں میں جانے والے لوگ جو اس لت کا شکار ہیں امیر جماعت کو چاہئے کہ ان کی ایسی تربیت کریں کہ وہ اس سے توبہ کر کے اسے ترک کردیں ۔(6 )ہر مسلم تنظیم کو اپنے علاقے میں صفائی مہم ضرور چلانی چاہئے ۔دینی جماعتیں جس طرح گشت کرتی ہیں اسی طرح دینی جماعتوں اور مسلم تنظیموں کو چاہئے کہ کم از کم مہینے میں ایک بار علاقے میں گشت کرتے ہوئے گھروں ،دکانوں ،کارخانوں اور باکڑوں پر جاکر صفائی کی اہمیت اور گندگی کرنے اور پھیلانے سے باز رہنے کے لئے لوگوں کو مذہبی اور طبی دلیل کے ساتھ نصیحت کریں۔چونکہ صفائی اور پاکی نصف ایمان ہے اس لئے یہ گشت بھی دین کا ہی ایک حصہ ہے اور اس کے بہت جلد اور اچھے اثرات مرتب ہوں گے ،انشاء اللہ ۔کھانے پینے کی چیزیں بیچنے والوں کو کچرے کا ڈبہ رکھنے کی ہدایت دیں ۔اپنے علاقے کے کارپوریٹر و عوامی نمائندے سے برابر رابطہ رکھیں ۔گھروں اور نالیوں کی مرمت کے ساتھ ہی ان میں کچرا جمع ہونے سے روکنے اور جمع شدہ کچرا نکالنے کے کام کو اولیت دیں ۔ہاؤس گلیوں کو گٹر بنانے کی ذہنیت ختم کریں ۔صفائی ملازمین سے تعاون کریں۔اپنے ماحول کو صاف رکھنے کی ذمے داری سب سے پہلے خود ہم پر ہے۔ 
ہمیں سماجی کارکن انا ہزارے سے سبق لینا چاہئے کہ انہوں نے برسوں اکیلے دم پر اپنے گاؤں رالے گن سدھی کو پان،بیڑی ،گٹکا،سگریٹ اور شراب سے پاک کرکے ہی دم لیا ۔پھر ہمارا تو فرض ان سے زیادہ بنتا ہے کہ ہمارے مذہب نے صفائی کو نصف ایمان اور قرآن نے فضول خرچی سختی سے منع کیا ہے۔لہٰذا اس کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ علماء سے لے کر طلباء تک اور مسلم تنظیموں سے لے کر ہر ایک مسلمان تک عملی کوشش کرے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا