English   /   Kannada   /   Nawayathi

پارلیمنٹ کے برباد ہوتے اجلاس

share with us

اس کیلئے خوب وقت لیا جائے تاکہ ہر مدا پوری طرح صاف ہواور عوام کو اس کا واضح پیغام پہنچے۔ پارلیمنٹ کی کارروائی میں رکاوٹ ڈال کر مسائل کی وضاحت کرانا اپوزیشن کا جمہوری حق ہے۔ سرکار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کام میں Transparencyشفافیت برتے۔
حزب اختلاف کا ہلاہنگامہ، پارلیمنٹ کو ناچلنے دینا بے مقصدنہیں ہوتا۔ جب سرکاراپنی من مانی پر اترآتی ہے اور وہ عوام کے مفاد کے خلاف کوئی بل لے کرآجاتی ہے۔ تب اپوزیشن کا بپھرنا، سرکار کو لگاتار آگاہ کرنا ضروری ہوجاتاہے۔ جمہوری پارلیمانی نظام میں ہاؤس کی کارروائی نہ چلنے دینا بھی عوام کے بھلے کیلئے کیاگیا کام ہوتا ہے۔ کیوں کہ حزب اختلاف کی مخالفت کی وجہ سے ہی ایسے بل رک پاتے ہیں جو عوام کیلئے تکلیف کا باعث بن سکتے ہیں۔ اس سے اپوزیشن کا کارروائی میں اڑنگا ڈالنا مناسب ہی مانا جائے گا۔لہٰذا پارلیمنٹ کی کارروائی کا چلنا یا نہ چلنا سرکار پر منحصر کرتا ہے۔یوپی اے کی حکومت میں بھاجپا حزب اختلاف میں تھی۔ مرکزی وزیربرائے ماحولیات پرکاش جاویڈکرتب بھاجھا کے ترجمان کی حیثیت سے نیوز چینلز میں کہتے تھے کہ پارلیمنٹ چلانا سرکار کی ذمہ داری ہے۔ اب سرکار میں ہیں سنسد نہ چلنے دینے کیلئے اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔ وزیرخزانہ ارون جیٹلی پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو کو یاد کررہے ہیں۔ ان کی تقریر کے حصوں کو پڑھ کر سنارہے ہیں۔ دیش کی سیاسی تاریخ کو بدلنے اوراس تاریخ میں پنڈت نہرو کی شخصیت کو مسخ کرکے عوام کی یادوں سے ان کو نکالکنے کی سوچ سے کام کررہی بی جے پی سرکار کے وزیرکو آڑے وقت میں نہروکا حوالہ دینے کی ضرورت پیش آرہی ہے۔
پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس بناکام کاج کے بیت گیا۔ وہ ہوہلا، واک آؤٹ کیلئے یادکیاجارہا ہے،اس میں ویاپم گھوٹالہ، سشما سوراج اور وسندھرا راجے سندھیا کا للت مودی کی مدد کرنے جیسے مسئلہ چھائے رہے۔حزب اختلاف سشمااوروسندھرا جی کے استعفیٰ پراڑارہا۔ اس اجلاس میں ایک طرح سے کچھ بھی کام نہیں ہواتھا یوں ہی بیت گیاتھا۔ سرمائی اجلاس بھی لگتا ہے یوں ہی بیت جائے گا۔ اس کیلئے بی جے پی کی ڈالی گئی روایت بھی ذمہ دار ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ پارلیمنٹ میں بحث ہوتی، واک آؤٹ بھی ہوئے، ہلابھی ہوتا لیکن پورا اجلاس بناکسی کام کے بتادیاجائے ایسانہیں ہوا۔ لیکن 15ویں لوک سبھا کے آخری تین سال بھاجپا نے پارلیمنٹ نہ چلنے دینے کی روایت قائم کی۔ پی آر ایس لیجس لیچر ریسرچ کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ 15ویں لوک سبھا میں کام کا وقت 61فیصد رہا۔ وقفہ سوالات کا 60فیصد وقت برباد ہوا۔328میں سے صرف 179بل پاس ہوئے جو پچاس برسوں میں سب سے خراب ریکارڈ تھا۔ بی جے پی نے پورا سرمائی اجلاس اس مانگ کولے کر برباد کیاتھا کہ 2جی گھوٹالے کی جانچ کے لئے جوائنٹ پالیمنٹری کمیٹی بنائی جائے جبکہ سپریم کورٹ کی نگرانی میں پہلے سے ہی اس کی جانچ چل رہی تھی۔ دراصل بھاجپا نے 2014کا چناؤ جیتنے کیلئے گھوٹالے کی آڑلے کر لوک سبھا میں ہنگامہ کرکے ملک میں اپنے حق میں سازگار ماحول بنانے کی پالیسی اختیار کی ادھر کارپوریشن اوراس کے قبضے والے میڈیا نے بھاجپا کی مدد کی۔ بھاجپا لگاتار پارلیمنٹ کے کام کاج میں رکاوٹ ڈالتی رہی۔ ایک مثبت حزب اختلاف کا رول اداکرنے کے بجائے منفی کردار بنائے رکھا۔ جی ایس ٹی بل بھاجپا نے ہی برسوں پاس نہیں ہونے دیا۔ یہ پارلیمنٹ میں لٹکا ہوا ہے۔ بی جے پی نے سرکار کو خوب تنگ کیا، سوسوآنسورلائے اور سرکار کے تنگ ہونے کا خوب لطف اٹھایا۔ کسی بھی مدعے پرہاؤس میں بحث کرنے کے بجائے حزب اختلاف کے طورپر بھاجپا اسے ٹی وی کے نیوز چینلز میں لے جاکر بحث کرتی، کسی بھی مدعے کو عوام تک لے جانے کے بجائے ٹی وی کی چرچا میں لے جاتی۔ آج بی جے پی حزب اختلاف کو پارلیمنٹ کے تئیں جواب دہی کی نصیحت دے رہی ہے۔ وزیراعظم مودی اصولوں،ضابطوں کا سبق پڑھا رہے ہیں۔ پارلیمنٹ میں رکاوٹ پیدا کرنے کیلئے پوری پارٹی حزب اختلاف پر غصہ ہورہی ہے۔
مانسون اجلاس کی طرح سرمائی اجلاس میں کام کاج پرہنگامہ بھاری پڑرہا ہے۔ لوک سبھا کے مقابلے راجیہ سبھا زیادہ متاثر ہے۔ مانسون اجلاس میں راجیہ سبھا میں محض نوگھنٹے کام ہوا تھا۔ اس بار بھی راجیہ سبھا میں 76فیصد وقت خراب ہوگیا۔ سرمائی اجلاس میں 19بل پاس ہونے کے انتظار میں ہیں۔ ان پر بحث ہونی ہے اورانہیں پاس کیا جانا ہے۔ 14نئے آرڈیننس پیش کرنے کی تجویز ہے۔ ان میں سے دوبل واپس لئے جائیں گے۔ پارلیمنٹ میں یوپی اے 2والا نظارہ ہے، جبکہ اس اجلاس کی شروعات بابا صاحب امبیڈکر کو خراج عقیدت پیش کر یوم آئین پر اچھے مباحثے سے ہوئی تھی۔ یہ اجلاس اس لئے بھی اہم ہے کہ وزیرخارجہ سشما سوراج پاکستان کا دورہ کرکے آئی ہیں۔ پیرس میں ماحولیاتی تبدیلی پر ہوئی عالمی برادری کی سنجیدہ میٹنگ پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی تھی۔ پاکستان کا معاملہ بڑا ہے اس پر سشما جی کا بیان پرامن طریقے سے سناجانا تھا۔ عوام کو معلوم ہونا چاہئے کہ بھارت پاک کے بیچ کیا ہونے جارہاہے اور ہماری سرکار کا ماحولیات کے سلسلہ میں کیا نظریہ ہے۔
عدم تحمل پرپارلیمنٹ میں گفتگو شروع ہوئی اورقانون سازی میں دخل اندازی کے نظارے واپس آگئے۔ حقیقت میں بی جے پی حزب اختلاف کو برداشت ہی نہیں کرسکتی۔وہ اعتراض یا اختلاف صبر کے ساتھ برداشت نہیں کرسکتی۔ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کا صرف نعرہ دیتی ہے، کسی کو بھی ساتھ لے کر چلنا اسے گوارہ نہیں ہے۔ بنیادی طورپر بھاجپا اکیلاچلواور اپنے من کی کرو کے راستے پر چلنے والی پارٹی ہے۔ مودی جی اکیلا چلوکا رویہ رکھنے اور کسی بھی مدعے پر بحث میں بھاگیداری نہ کرنے یا ہاؤس میں موجودنہ رہنے کے باوجود گجرات جیسی چھوٹی ودھان سبھا سے تو بچ نکلے لیکن کم از کم پانچ وزیراعلیٰ اور دوسابق وزیراعظم والی پارلیمنٹ میں یہ نسخہ کام نہیںآنے والا۔ 16ویں لوک سبھا کا پچھلا اور یہ سرمائی اجلاس بھاجپا کے پارلیمانی رویہ کی ناکامی کی بھینٹ چڑھ گیا۔
پارلیمنٹ کا اجلاس چلنا چاہئے۔ اس میں کام بھی ہونے چاہئیں۔ یہ پارلیمانی جمہوریت ہے، عوام کے کام یہیں ہوں گے۔ پچھلے کچھ برسوں سے پارلیمنٹ (اجلاس) کے اجلاس چھوٹے ہونے لگے ہیں۔ جس کی وجہ سے کام زیادہ وقت کم کی صورت پیدا ہوگئی ہے۔ کم وقت میں ہی چنے ہوئے کئی کام کرنے پڑتے ہیں۔ بہرحال اس چھوٹے اجلاس کو بھی نہ سنبھال پانا سرکار کی کمزوری مانی جائے گی۔ حزب اختلاف تو اپنی بات اٹھائے گاہی۔ اپنے طریقے سے کام کرے گا۔ برسراقتدار پارٹی کو فلور مینجمنٹ کرنا آنا چاہئے۔ ہر بات کو وقار کا سوال بناکر پارلیمنٹ کی کارروائی نہیں چل سکتی۔ وزیراعظم نریندرمودی نے جاگرن فورم میں صحیح کہا کہ عوامی حصہ داری جمہوریت کو پرسکون بناتی ہے۔یہ حصہ داری جتنی بڑھتی ہے جمہوری نظام بھی اتنا ہی مضبوط ہوتا ہے۔ لوک تنتر صرف چنی ہوئی سرکار یا چنے ہوئے نمائندوں کا نام نہیں ہے اس سے جمہوریت پنگوہوجاتی ہے۔ دراصل لوک تنتر ایک کلچر ہے اس میں ڈھلنا ہوگا۔ مودی جی کو اپنے ساتھیوں کو یہ بتانا ہوگا کہ حزب اختلاف کو عوام میں مشکوک بنانے یا بے عزت کرنے سے نہ جمہوری قدریں پروان چڑھیں گیاورنہ ہی جمہوری کلچر میں ڈھلا جاسکتا۔
حزب اختلاف کے ساتھ سرکاری نظام جس طرح کے برتاؤ کررہا ہے اس سے شک ہوتا ہے کہ اس کاارادہ کسی بھی مدعے پر اتفاق ہونے دینے کا نہیں ہے۔ نیشنل ہیرالڈ معاملے پر سرکار کاجورویہ رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی طرح سرکار اس معاملے کو کانگریس کے خلاف بدعنوانی کے بڑے مسئلہ کے طورپر بھناناچاہتی ہے۔ وہ حزب اختلاف کو عوام کی نظر میں مشکوک بنانے کی پالیسی پرکام کررہی ہے تاکہ اپوزیشن کی سرکار کے خلاف بولتی بند ہوجائے۔ 2016میں پانچ ریاستوں میں چناؤ ہونے ہیں۔ مودی سرکار کی تیزی سے گھٹتی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے نہیں لگتا کہ ان میں سے کسی ریاست میں اس کیلئے خوشخبری آنے والی ہے۔ اس لئے سرکار اپوزیشن کو دفاعی حیثیت میں رکھنا چاہتی ہے تاکہ اس کیلئے ادیوگ پتیوں اورکارپوریٹس کے مفادات سادھنے میں آسانی ہو۔ غنیمت ہے کہ سماج وادی پارٹی کو چھوڑ کر کسی بھی حزب اختلاف کی پارٹی پر سرکار کا یہ داؤنہیں چل رہاہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا