English   /   Kannada   /   Nawayathi

کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگراعتبارہوتا!!

share with us

وہ جان کیری کایہ کہناہے کہ شامی صدراپنے ملک کومتحدرکھنے اوراس پرحکومت کرنے کی صلاحیت کھوچکے ہیں، وہ روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف کایہ کہناہے کہ بشارکے تعلق سے روس کاموقف پہلے والاہی ہے (یعنی وہ بدستورشامیوں کی زندگیاں حرام کیے رکھنے کے مجازہیں) اوریہ کہ شام کے مسئلے کاحل خودشامی عوام کونکالناچاہیے، یہ اختیارصرف اُنھیں حاصل ہے۔
کمال ہوگیابھئی!!اس طرح بھی تودنیاوالوں کوبے وقوف مت بناؤ، امریکہ اب کہتاہے کہ بشارالاسدکی قائدانہ صلاحیت ختم ہوچکی ہے اوروہ ملک کوچلانے کی استطاعت نہیں رکھتے، توگزشتہ پانچ سالوں میں ان کی ہٹلرونازی کی چیرہ دستیوں کومات دے دینے والی کارروائیوں کوتم کس خانے میں رکھتے ہو؟؟روس کہتاہے کہ شام کامسئلہ خودشامیوں کوحل کرناچاہیے، توکوئی اُس مردودسے پوچھے کہ گزشتہ دوتین مہینے سے روسی افواج وہاں کیاکررہی ہیں اورداعش کی آڑمیں بے گناہ شامی شہریوں کی زندگیاں نذرِ بم وبارود کرنے کاحق اسے کیسے مل گیا؟؟بخداایسادوغلاپن، منافقانہ روش اوردوہری چال انسانی تاریخ میں شایدکبھی دیکھنے کوملی ہوگی، جوہم مسئلۂ شام پرگذشتہ پانچ سالوں سے مسلسل دیکھ رہے ہیں! 
آئیے ذراسیکورٹی کونسل کی تاریخی قرارداداوراس کی مختلف شقوں پرایک نظرڈالیں اورحقیقت سے ان کاموازنہ بھی کرتے چلیں:
اِس قراردادمیں پہلے تو2012کے جینوااجلاس اورگزشتہ ماہ کے ویانااجلاس کی شام میں قیامِ امن سے متعلق قراردادوں کی توثیق کی گئی ہے، جن میں مسئلۂ شام کے حل میں بنیادی کرداراہلِ شام کا مانا گیا اور شام کامستقبل وہاں کے عوام کے سپردکیاگیاہے........ یہ شق مضحکہ خیزہی کہی جاسکتی ہے؛ کیوں کہ دنیاجانتی ہے کہ شام میں جتنی لڑائی وہاں کے لوگ اورحکومت لڑرہے ہیں، اُس سے کہیں زیادہ امریکہ، فرانس، روس، ایران، حزب اللہ وغیرہ لڑرہے ہیں۔شام کے معاملے میں شامی شہریوں کا عمل دخل صرف کاغذات،اعلانات،بیانات تک محدود ہے،زمینی سطح پرانھیں کوئی حق حاصل نہیں،انھیں تواپنے گھروں میں رہنے کابھی حق حاصل نہیں،جبھی تووہ بحیرۂ روم کی موجوں کے رحم و کرم پرمہاجرت و بے وطنی کی زندگی گزاررہے ہیں،ہردن یہ خبرآتی ہے کہ فلاں سمندرمیں اتنے شامی مہاجرین غرق ہوگئے،فلاں ملک والوں نے انھیں اپنے یہاں قبول کرنے سے منع کردیاوغیرہ۔دراصل اس معاملے میں بشارالاسدکی ظالمانہ،چنگیزانہ سیاسی پالیسیوں اور اس کے حلیفوں کے مفادپرستانہ منصوبوں کاعمل دخل ہے،امریکہ و فرانس اوردیگرمغربی ممالک یا توروس ، ایران وغیرہ سے شام میں سیاسی انتقال پراپنے موقف کومنوانے کی صلاحیت نہیں رکھتے یاوہ اس خونیں کھیل کومزید درازکرنا چاہتے ہیں۔ 
ایک دوسری شق میں اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بانکی مون نے شامی حکومت اورحزبِ معارض کوفوری مذاکرات (آنے والی جنوری میں) ،چھ ماہ کے اندرعبوری حکومت کے اور اگلے اٹھارہ ماہ میں صاف شفاف الیکشن منعقدکرواکرمعتدل ،غیرفرقہ وارانہ حکومت کے قیام کی ہدایت دی ہے... بات تو بظاہر ٹھیک سی ہے، مگریہ جان کرآپ کوحیرت ہوگی؛ بلکہ ہنسی بھی آسکتی ہے کہ نیویارک کایہ عالمی اجلاس جن دوگروپوں کے مابین صلح ومفاہمت کی راہ تلاش کرنے کے لیے منعقد کیا گیاتھا، ان میں سے ایک یعنی شامی اپوزیشن گروپ کوبلایاہی نہیں گیاتھا، صرف شامی حکومت کا نمایندہ بشارجعفری مدعوتھا،گویازبانی طورپرتوشامی اپوزیشن کوتسلیم کیاجارہاہے، مگرعملاً اس کی کوئی حیثیت نہیں،یہ عالمی برادری(سیکورٹی کونسل) کی کھلی منافقت ہے،ایسے میں کیاہم یہ توقع کر سکتے ہیں کہ شامی اپوزیشن سیکورٹی کونسل کی ہدایات پرعمل میں دل چسپی لے گا، جبکہ کونسل کی ہدایات اسے میڈیاکے ذریعے حاصل ہورہی ہیں؟ 
ایک اورشق میں سیکورٹی کونسل کی جانب سے شامی حکومت اوراپوزیشن گروپ کوتمام ترشامی علاقوں میں لڑائیاں اور مسلح کارروائیاں بندکرنے کی ہدایت دیتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیاگیاہے کہ شامی شہریوں پرہونے والے ہرحملے کوفوری طورپربندکیاجائے؛ تاکہ مہاجرین ومتاثرین امن وسلامتی کے ساتھ اپنے گھروں کولوٹ سکیں ۔۔۔۔۔۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگروہ لوگ لوٹنابھی چاہیں گے، تواُنھیں ان کے گھروں کی بجاے خاک ورمادہی ملے گی اور دوسری حقیقت یہ ہے کہ ایک طرف امن کے یہ ٹھیکیدار قیامِ امن کا جھوٹا پرچار کررہے ہیں اوردوسری طرف شام کاایک ایک گوشہ تاہنوزگولیوں کی ٹھائیں ٹھائیں اوربموں کی پُرہول آوازوں سے سراسیمہ ہے !
سب سے زیادہ تعجب خیزبات یہ ہے کہ سیکورٹی کونسل کے اس اجلاس میں شامی صدربشارالاسداور ان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے کوئی بات ہی نہیں کی گئی؛بلکہ واضح طورپریہ کہاگیاہے کہ شام کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کریں گے (جس کا اصل مطلب یہ ہے کہ یہ فیصلہ طاقت ورممالک اپنے اپنے مفادکے مطابق کریں گے)حالاں کہ اجلاس سے پہلے امریکہ و فرانس اور دیگر مغربی ممالک بشارکی رخصتی پر مصر تھے،لیکن روس ، چین اورایران اس کے خلاف تھے،وہ بشارکی منتقلی نہیں چاہتے،اس کی دووجہیں ہوسکتی ہیں ،ایک تویہ کہ بشاران کے مطیع و فرماں بردارغلام کا رول اداکرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور دوسری وجہ یہ کہ چوں کہ امریکہ بشارکوشامی سیاست سے اوجھل کرناچاہتاہے؛اس لیے روس اور چین توان کی حمایت کریں گے ہی۔ایک چیزاورقابلِ توجہ یہ ہے کہ اِس بات کا اشارہ اقوامِ متحدہ کے سکریٹری جنرل بانکی مون نے اجلاس سے دوروزقبل ہی اپنے بیان میں یہ کہہ کر دے دیاتھاکہ’’صرف ایک شخص کے انجام پرشام کے مستقبل کومنحصرنہیں مانا جاسکتا‘‘۔
مجموعی طورپر سیکورٹی کونسل کی یہ قراردادبھی شامی عوام کی مظلومیت وبے چارگی کامذاق اورشام میں بشارِ لعین کی جابرانہ سیاست کی تاییدوحمایت کے علاوہ کچھ بھی نھیں ہے، شامی نژادٹی وی جرنلسٹ، عالمی سطح پرمعروف و معتبر صحافی،الجزیرہ چینل کے خصوصی ٹاک شو ’’الاتجاہ المعاکس ‘‘کے ہوسٹ ڈاکٹرفیصل القاسم نے اِس قراردادپرنہایت ہی جامع اوربرحق تبصرہ کیاہے کہ:’’اگرشامی عوام، بالخصوص اُن لاکھوں لوگوں نے، جن کے رشتے دارواحباب اوراموال وجائیدادتاراج ہوئے، انھوں نے مسئلۂ شام کے حل کی اِس عالمی تجویزکومنظور کرلیا، تویہ ایسا ہی ہوگاگویا کسی نے ایک طویل مدت تک روزہ رکھااورافطاری میں اُسے صرف ایک پیازمیسرہوسکی ‘‘۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا