English   /   Kannada   /   Nawayathi

ملک کو تباہ بھی کرسکتی ہے انتقامی سیاست

share with us

مگرچند ماہ کے اندرہی ملک کے کمزور طبقات ،مزدوروں اورکسانوں کویہ یقین ہوگیا کہ ان کے وعدے کی حقیقت خوبصورت فریب سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔یہ بھی شاید ملک کی سیاسی تاریخ کا پہلا موقع تھا جب صرف دوماہ کے قلیل عرصہ میں ہی کسی سیاسی جماعت کی منصوبہ بندیوں کابھانڈا پھوٹ گیاتھا اوردہلی اسمبلی انتخابات میں دارالحکومت کے عام لوگوں نے اپنے ووٹ کے ذریعہ یہ پیغام دیا کہ ٹھگی کے کاروباریوں کو اقتدار کا موقع دے کر وہ اپنے پیروں پر کلہاڑی نہیں ماریں گے۔انہیں ایک ایسی حکومت چاہئے جواپنے اندر عام لوگوں کو مہنگائی کے عذاب سے نجات دلانے کا نیک جذبہ رکھتی ہو اورباہمی رواداری اورامن و محبت سے بھرے ہوئے ہندوستان کی وراثت کی سچی محافظ ہو۔جب عوامی مینڈیٹ بی جے پی اوروزیراعظم نریندر مودی کے سامنے آ یا تو انہوں نے حسب وعدہ انتقامی سیاست کی راہ اختیار کرلی۔ اس کی زندہ مثالیں کجریوال کے دفترپر سی بی آئی کے چھاپے اوراس کے چنددن بعدہی نیشنل ہیرالڈ معاملہ میں کانگریس پارٹی کی اعلیٰ قیادت کوعدا لت میں گھسیٹنے کی شکل میں سامنے آ چکی ہیں۔مذکورہ دونوں معاملوں میں بی جے پی اور وزیراعظم نریندر مودی کو منہ کھانی پڑی ہے۔مگربی جے پی کیلئے افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کی انتقامی پالیسی کا کچا چٹھا دنیاکے سامنے آ گیاہے۔ 
کسی جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کے درمیان نظریاتی اختلافات ہونا ایک فطری اور ضروری پہلو ہوتا ہے اور یہ عوام کو ایک بہتر متبادل چننے کا موقع فراہم کرتا ہے، لیکن کانگریس کوئی فسطائی یا نازی پارٹی نہیں تھی کہ جسے ختم کرنے کی بات کی جاتی، لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ وزیر اعظم مودی کے سیا سی طریقۂ کار اور نظریے کا ایک بہت اہم منفی پہلو ہے۔ کیا مودی انتقام کی سیاست میں الجھ گئے ہیں؟اب ملک بھرمیں یہی سوال لوگوں کی زبانوں پر گردش کررہا ہے ۔دو برس قبل سابقہ اتحادی اور بہار کے وزیراعلی نتیش کمار نے وزارت عظمی کے امیدوار کے طور پر مودی کی مخالفت کی تھی۔ مودی وزیر اعظم بننے کے بعد اسے بھول نہیں پائے اور بہار میں نتیش کمارکیخلاف انھوں نے ذاتی طور پر انتخابی مہم کی قیادت کی۔ مگرانتقام کے اس عمل میں انھیں منہ کی کھانی پڑی۔بہارمیں جس طرح سے انہوں نے انتخابی مہم میں شرکت کی اس سے لگ رہاتھا کہ نریندرمو دی خود سی ایم امیدوار کے طور پرا نتخاب لڑرہے ہیں۔وزیر اعظم کے انتخابی کمپین کے اس طریقہ کار سے اگرچہ بی جے پی یا خودمودی کوئی خفت محسوس نہیں کررہے ہوں۔مگرسچائی یہی ہے کہ وزارت عظمی کے منصب جلیلہ کو انہوں نے کا فی سطحی ضرور بنادیا، جس کا احساس ساری دنیا نے کیا ہے۔بہرحال بی جے پی کی ترقی کاراز بہت جلدفاش ہوگیا اور بہار کے باشعور عوام نے یہ یقین کرلیا کہ مودی ملک کو جس مصنوعی ترقی کا خواب دکھا رہے ہیں ،اس سے صرف 2فیصدساہوکاروں کوفائدہ مل رہاہے اورملک کی مجموعی آباد ی کوکاسۂ گدائی اٹھانے پر مجبورکیا جارہا ہے ،لہذا کارپوریٹ نواز سیاسی جماعت کے غریب مخالف عزائم کو چکنا چور کردیا جائے اورکسی ایسی طاقت کاانتخاب کیا جائے جو غریبوں کی عملاً ہمدرد ہو ۔چناں چہ بہار میں مودی کے خوبصورت وعدوں کو عوام نے مسترد کردیا اورعظیم اتحادکے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور تھمادی جو عوام کے تجربات کی کسوٹی پر کھرا اترا تھا۔بہار کی شکست کے کرب کو بی جے پی اور نریندرمودی اب تک جھیل رہے ہیں ۔حالاں کہ مودی نے سیاست میں اوپر آنے کے بعد کبھی شکست نہیں دیکھی تھی۔ سب سے پہلی شکست اروند کجریوال نے انہیں دہلی کے انتخاب میں دی۔ اس شکست فاش کو بھی مودی کبھی فراموش نہیں کرسکے اورپس دیوار سے کجریوال کو ایک قدم آگے نہیں بڑھنے دے رہے ہیں۔اپنے ایک کارپوریٹ خاندان کے چہیتے شخص کو انہوں نے کجریوال کے عوام دوست منصوبوں پر پانی پھیر نے کی ڈیوٹی دے رکھی ہے۔اس طرح مودی حکومت نے دہلی کے وزیر اعلی کجریوال کی ریاستی سرکار کو تقریبا مفلوج کر رکھا ہے۔ پچھلے دنوں سی بی آئی نے کجریوال کے دفتر میں ان کے پرنسپل سکریٹری پر چھاپہ مارا۔ کیجریوال نے اسے ان کے افسروں کو دھمکانے کی کوشش قرار دیا ہے۔اس واقعہ کے ایک ہفتہ کے اندرہی مودی جی کی انتقامی سیاست کا دوسرا نمونہ بھی ملک کے سامنے آ گیا اورملک کی سب سے قدیم محب وطن پارٹی کی اعلی قیادت پر نکیل ڈالنے کا عمل شروع ہوگیا۔اس طرح کانگریس پارٹی کی صدرسونیا اورنائب صدر راہل گاندھی سمیت اس کی اعلیٰ قیادت کے درجنوں لیڈران کو عدالت میں گھسیٹ لیا گیا۔ 
اس معاملے میں بھی پانسہ الٹاپڑگیا اوردارالحکومت نئی دہلی کے پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے کانگریس پارٹی کے رہنماؤں سونیا گاندھی اور ان کے بیٹے راہل گاندھی کی ضمانت منظور کر لی۔ بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے دونوں سیاستداں جب ایک مجسٹریٹ کی عدالت میں پہنچے تو ان کے حامیوں کی ایک بڑی تعداد وہاں پہلے سے ہی موجود تھی۔ وکیل صفائی آر ایس چیمہ نے صحافیوں کو بتایا کہ مقدمے کی سماعت بیس فروری تک مؤخر کر دی گئی ہے۔ اس معاملے میں سابق حکمران سیاسی جماعت کانگریس کا کہنا ہے کہ ان کے رہنماؤں پر عائد کردہ الزامات دراصل سیاسی طور پر گھڑے گئے ہیں۔ان کا الزام ہے کہ یہ مقدمہ وزیراعظم نریندر مودی کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اہم سیاستدان کی درخواست پر شروع کیا گیا ہے۔ بی جے پی کے سبرامنیم سوامی نے الزام لگایا ہے کہ اِن دونوں افراد نے اپنی پارٹی کے فنڈ میں غبن کر کے غیرقانونی طریقے سے اربوں روپوں کی جائیداد حاصل کی۔ سوامی کے مطابق گاندھی خاندان نے ایک کمپنی بنا کر تقریباً تین سو ملین ڈالر کی جائیداد کو اپنے نام کر لیا ،حالانکہ یہ جائیداد اْن کے دادا نے ایک اخبار کے لیے قائم ادارے کے لیے خریدی تھی۔ اسی مقدمے میں عدالت نے سوامی کی اْس اپیل کو مسترد کر دیا جس میں وہ گاندھی خاندان کے پاسپورٹ ضبط کرنے اور بیرون ملک سفر پر پابندی لگوانا چاہتے تھے۔کل عدالت میں سبرا منیم سوامی کی بے لگامی بتارہی تھی کہ وہ کانگریس سربراہان کو کسی انڈرورلڈ دنیا کے سرگرم ’’ڈان‘‘ کی صورت میں دیکھ رہے تھے۔اسے سیاسی انتقام کے ناپاک جذبہ کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتاہے۔ 
بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر کا کہنا ہے کہ اْن کی عدالتی لڑائی اپنے صحیح راستے پر گامزن ہے۔ دوسری جانب کانگریس پارٹی نے اپنے لیڈران کے موقف کی تائید کی ہے کہ کوئی غلط کام نہیں کیا گیا اور یہ سب مودی حکومت کا کیا دھرا ہے۔ کل ہفتہ کے روز سونیا گااور راہل گاندھی کی عدالت میں آمد کے موقع پر ان کے سینکڑوں مداحوں میں سابق وزیراعظم منموہن سنگھ اور دوسرے مرکزی لیڈران بھی شامل تھے۔ عدالت کے باہر کھڑے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سونیا گاندھی نے کہا کہ وہ عدالت میں قانون کا احترام کرنے والے ایک معزز ہند و ستا نی شہری کے طور پر صاف ضمیر کے ساتھ پیش ہو رہی ہیں۔ اِس موقع پر کورٹ کے باہر خصوصی سکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔گویا عدالت میں کسی انتہائی مطلوب جرائم پیشہ کو حا ضرکیاجاناتھا۔یہ سارے مناظر بی جے پی اور مودی کے عزائم کی پول کھول رہے تھے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اِس عدالتی پیش رفت سے بھارتیہ جنتا پارٹی اور انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان پہلے سے پائی جانے والی مخاصمت اور گہری ہو گئی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ برس کے انتخابات سے قبل کے نعرے’ کانگریس فری انڈیا‘ کا بار بار اعادہ کیا ہے اور اِس باعث دونوں پارٹیوں کے لیڈران کے درمیان الفاظ کی جنگ مسلسل شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ مقدمے کے حوالے سے نریندر مودی کے ایک مشیر کا کہنا ہے کہ اِس میں حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک شخص کی ذاتی سوچ کا نتیجہ ہے۔مگر کل پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے ارد گرد عملاًجوکچھ دیکھنے کو ملاوہ مودی کے ٰمشیر کے دعویٰ کوجھوٹا ثابت کررہا ہے ۔مگر بی جے پی کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس قسم کی معاندانہ حرکتوں اورانتقامی کارروائیوں سے وہ اپنا اور ملک کا بھلا نہیں کررہی ہے، بلکہ اپنے پیروں پر خود ہی کلہاڑی چلارہی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا