English   /   Kannada   /   Nawayathi

دوسروں کو نیچا دکھانے والی آئیڈیالوجی کبھی آفاقی نہیں ہوسکتی

share with us

اگر وہ اسلام دشمنی میں دنیا کو اسلا م کے خلاف محاذ آرا ء کرسکتے ہیں تو کیا مسلمان اسلام دوستی میں دنیا کو اسلام کے قریب نہیں کرسکتے ۔مگر مسلمان تو خود اسلام کے لئے وجہ شرمندگی بنتا جارہا ہے بقول علامہ اقبال کے ’’ مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے ‘‘ لیکن اقبال بھی بخوبی جانتے تھے کہ اس راکھ کے ڈھیر میں شعلہ بن کر دہکنے والی چنگاریاں موجود ہیں مگر انہیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔
مسلمانوں میں چار بنیادی مکتب فکر موجود ہیں ۔مگر ان چاروں کا المیہ یہ ہے کہ ہر مکتب فکر دوسرے مکتب فکر کو تسلیم نہیں کرتا ۔سبکے نظریے مختلف ہیں ۔ایک مکتب فکر کا اسکالر دوسرے مکتب فکر کے لٹریچر اور نظریے کی تردید میں مصروف ہے ۔گویا ہمارا مذہبی لٹریچرتعلیمات اسلام کی افہام و تفہیم پر مبنی نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کی تردید اور تنقیص سے بھرا پڑا ہے ۔اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر مکتب فکر کا اسکالر فقط دوسرے مکتب فکر کے لئے نقصان دہ نہیں رہا بلکہ اسلامی سماج کی تشکیل و تعمیر کے لئے بھی خطرہ بن گیا۔ہم آج کے ترقی یافتہ عہد میں ایک دوسرے کی تردید و تنقیص کی روایات سے بلند ہوکر کیافقط اسلامی تعلیمات کی افہام و تفہیم اور ابلاغ و ترسیل پر متفق نہیں ہوسکتے ہیں ۔آج اسلام کی جو متناز ع تصویر دنیا کے سامنے پیش کی جارہی ہے کیا اس تصویر کا صحیح رخ پیش کرنا ہمارا دینی فریضہ نہیں ہے ؟اسی آپسی اختلاف کا سبب یہ ہوا کہ ہر مکتب فکر میں ایسے نظریات وروایات وجود پاگئی ہیں جو نظریۂ اسلام کے منافی ہیں اور اہانت رسول ؐ کا پہلو سامنے آتاہے ۔یہی روایات اور نظریات دوسروں کو دریدہ دہنی کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ایسی آئیڈیالوجی جو دوسرے مکتب فکر کی آئیڈیالوجی کو نیچا دکھانے کے لئے وجود میں آئی ہو کبھی آفاقی نہیں ہوسکتی ۔ہمیں اپنے بنیادی مأخذوں پر نظرثانی کرنی ہوگی اور ایسے نظریات اور روایات کو علم درایت و رجال کی روشنی میں پرکھنا ہوگا تاکہ انہیں بنیادی مأخذوں سے الگ کرسکیں ۔ یہ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔
ہر مکتب فکر کا احترام لازمی ہے اور سب کا’’امقصد اصلی‘‘ تعلیمات اسلام اور سنت پیغمبر کا احیاء ہے ۔لیکن ہم نے’’ مقصد اصلی ‘‘کی ترویج و اشاعت میں کیا کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے ۔اگر ہم دوسرے مکتب فکر کی آئیڈیا لوجی کی رد ہی میں مصروف رہے تو یقیناًدشمن کامیاب ہے ۔قرآن میں غوروفکر کی ضرورت ہے ۔نوجوانوں تک صحیح دین پہونچا نا لازمی ہے تاکہ انکے ذہنوں پر غیر اسلامی فکریں حملہ آ ور نہ ہوسکیں ۔آج ہمارے لئے بڑا چیلینچ یہ ہے کہ کس طرح نوجوانوں تک صحیح اسلامی تعلیم پہونچائی جائے ۔نوجوان مذہبی شدت پسندی کے شکار نہ ہوں تاکہ اس شدت پسندی کا فائدہ تخریبی ذہنیتیں نہ اٹھانے پائیں ۔یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ہم نوجوانوں کے ذہنوں تک قرآنی تعلیمات پہونچا نے میں ناکام رہے ہیں، ہم نے مکتبوں اور مدرسوں کے ذریعہ جو لٹریچر ان تک پہونچایا ہے کیا وہ تسلی بخش ہے اور اس لٹریچر میں دوسرے اسلامی فرقوں اور مسلکوں کے خلاف کتنی زہر افشانی کی گئی ہے اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے ۔ظاہر ہے بھڑکاؤ لٹریچر ،یا مناظراتی مباحث مزاج کی برہمی کا سبب بنتے ہیں اور یہ برہمی تشدد کو جنم دیتی ہے ۔عوا م کے درمیان جو عناصر کام کرہے ہیں وہ ا س قابل نہیں ہیں کہ انکے ذہنوں میں اٹھتے ہوئے سوالوں کے جواب دے سکیں ۔جن مولویں کے رحم و کرم پر ہم نے نوجوان نسل کو چھوڑرکھا ہے انکی صلاحیت اور علمی لیاقت کیا ہے یہ سبھی جانتے ہیں ۔وہ اپنے ذہن میں اٹھتے ہوئے سوالوں کا جواب خود تلاش کرلیں یہی کافی ہے۔جن مولویوں یا اسکالروں کے آئیڈیل متشدد اور کٹر پنتھی دانشور ہو ں ان سے کسی فکری فلاح و بہبود کی امید رکھنا بیوقوفی ہے ۔اگر ایسے کم علم اور متعصب افراد نوجوانوں کے درمیان جاکر تبلیغ کے فرائض انجام دیں گے تو اسلامی آئیڈیا لوجی کا کیا حشر ہوگا یہکسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔مولویوں کی ذہنی اختراعات اور مزاجی شدت پسندی کا نتیجہ ہے کہ آجکا نوجوان مولوی کی شکل دیکھ کر لاحول پڑھنے لگتا ہے ۔لہذا ایسے با علم اور ذی شعور اسکالروں کی ضرورت ہے جو عوام کے درمیان جاکر صحیح تعلیمات اسلامی کو پہونچانے کی اہلیت رکھتے ہوں ۔آج دنیا عالم اسلام کے نمائندہ چہروں کی طرف نگراں ہے کہ وہ کس طرح جدید چیلینج کو قبول کرتے ہیں اور حقیقی اسلام کی تبلیغ کے لئے کیا مناسب اقدامات کرتے ہیں ۔
مصیبت یہ ہے کہ ایک مکتب فکر دوسرے مکتب فکر کو دوزخی سمجھتا ہے تو پھر ہم کیسے یہ یقین کرلیں کہ یہ لوگ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں ۔وہ تو اسی دھن میں مست ہیں کہ ہم جنتی ہیں لہذا دوسروں کی آئیڈیالوجی پر نظریاتی سنگ باری جاری رہے ۔ہماری آئیڈیالوجی دنیا میں پھلے پھولے اور دسروں کے افکار و نظریات کو پنپنے سے پہلے ہی ختم کرنے کی کوشش کریں،شاید اسی ذہنیت کی کارفرمائی نے کٹرپنٹھ کو جنم دیا اور آج وہ کٹر پنتھ دہشت گردوں کا سب سے بڑا ہتھیار بن چکاہے ۔ہمیں اپنی آئیڈیالوجی اور فقہ و تاریخ کی کتابوں کو تعصبات ،تنازعات اور رقیبانہ افکار سے پاک کرنا ہوگا۔ایسے افکارو نظریات جنکی بنیاد پر اسلام کا چہرہ مسخ ہوتا رہا ہے اور دشمنوں کے لئے فائدہ مند رہے ہیں انہیں حذف کرنا ضرور ی ہے ۔یہی روایات و نظریات آج دشمن کا ہتھیار ہیں جنہیں وہ اسلام کے خلاف بیباکی کے ساتھ استعمال کررہاہے ۔اگر دشمن کے ہاتھ میں ہم نے خود ہی ہتھیار سونپ رکھے ہیں تو پھر ہماری تعلیمات اور نوجوان نسل کا اللہ ہی حافظ ہے ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا