English   /   Kannada   /   Nawayathi

حصارِ جبرمیں جلتے ہوئے یہ زندہ بدن!

share with us

اور ان سب کے بیچ شامی شہریوں کاخون نیل و فرات سے لے کر آبنائے باسفورس تک کولالہ زارکیے ہوئے ہے،انسانی خون کی ارزانی کایہ جگرخراش منظرتاریخِ انسانی کا ہولناک ترین باب ہے،موجودہ ماحول میں ہونا یہ چاہیے تھا کہ عالمی مسلم رہنما،قائدین،حکمراں اور تنظیمیں سرجوڑکر بیٹھتیں اور مسئلۂ شام کے حل کے لیے مؤثراقدامات کرتیں؛لیکن اس کے آثارتودوردورتک نظرنہیں آرہے،اسلامی کہلانے والے ممالک کے بیشتر حکمراں امریکہ و یورپ کی کاسہ لیسی کواپنے وجودوبقاکاوسیلہ مانتے ہوئے ان کی نازبرداری؛بلکہ خصیہ برداری میں لگے ہوئے ہیں۔دہشت گردی کے نام پر نئے نئے چہرے،گروپ اور جماعتیں تخلیق کی جارہیں اور پھر انھیں بھی اسلامی خطوں اور مسلمانانِ عالم پرمسلط کیاجارہاہے،یہ کس قدرتعجب خیز بات ہے کہ ایک طرف اِس وقت ساری دنیامیں مسلمانوں کا خون ہی دہشت گردی کے نام پر بہایاجارہاہے اوردوسری طرف امریکی صدرکہتے ہیں کہ مسلمان دہشت گردی کی جس طرح مذمت کی جانی چاہیے،اس طرح نہیں کر رہے ہیں اور اس سے بھی تعجب خیزبات تویہ ہے کہ اوبامہ کے کہنے پر عمل کرتے ہوئے جہاں ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی اور نمایندہ سمجھی جانے والی ایک تنظیم ہندوستان کے پچاس سے زائد شہروں میں دہشت گردی مخالف احتجاجی مارچ نکالتی اوراس کے لیڈران چیخ چیخ کریہ باورکراتے ہیں کہ ہم دہشت گردنہیں ہیں،وہیں اب سعودی عرب کی سرکردگی میں34؍مسلم ممالک کا اتحادصرف اس مقصدسے قائم کیاجاتاہے کہ یہ سب مل کر دہشت گردی سے لڑیں گے اور اس کا خاتمہ کریں گے،کسی ملک کواور دنیابھرکے مسلمانوں کی نمایندگی کرنے والے کسی ادارے کو یہ جرأت نہیں ہوتی کہ وہ اوبامہ سے یہ سوال کرے کہ آخر انھوں نے وہ بات کس بنیادپرکہی،پیرس پر حملہ ہوتوساری دنیامیں غوغا مچایا جائے، کیلیفورنیامیں گولی باری ہو،توقیامت خیزاحتجاجات کیے جائیں،مگرفلسطینی مسلمانوں ،بچوں اور عورتوں پراسرائیلی بم و بارودانڈیلے جائیں ،توکوئی چوں تک نہ بولے،شامی مسلمانوں کو لہولہوکیاجائے توبس سیاسی روٹیاں سینکنے کی کوشش بھر کی جائے،بلادِ حکمت و ایمان یمن میں حوثیوں کے ذریعے بدامنی و خوں ریزی و تباہ کاری برپاکی جائے،تواس پر عالمی برادری خاموش رہے،مصرمیں فرعونِ وقت عبدالفتاح السیسی کے ذریعے معصوم اخوانیوں اور اسلام پسندوں کا ناطقہ بندکیاجائے،تواس پرچپی سادھ لی جائے،لیبیا،عراق،تیونس،صومالیہ،نائیجیریا میں مسلمان موت و زیست کے درمیان ہچکولیں کھائیں،توکوئی اقوامِ متحدہ، کوئی سیکورٹی کونسل اور کوئی انسانی حقوق کی تنظیم اور پوری عالمی برادری ایک لفظ نہ بولے،اِس پورے عالمی منظرکودیکھ کرتوایسا لگتاہے کہ سارے عالم کے مسلمان ایک طویل،دوررس اور ہولناک سازش کے نرغے میں ہیں اور بدقسمتی سے اس سازش کو رچنے میں آج کے کئی ایک مسلم رہنماؤں،حکمرانوں کے سفاک ہاتھ بھی شامل ہیں۔
شام کے پرپیچ مسئلے کے حل کے لیے۲۰۱۲ء سے لے کراب تک کم ازکم آٹھ معاہدات،مذاکرات اور مجالسِ گفتگومنعقدہوچکی ہیں،مگرسب کے نتائج وہی ڈھاک کے تین پات رہے ہیں،مزاحمین بشارالاسدکی رخصتی اور حکومت کا انتقال چاہتے ہیں ،جبکہ بشارلاشوں کے ڈھیرپربیٹھ کرشامی عوام کے سینے پر مونگ دَلناچاہتاہے،پھرچوں کہ اس ملک سے کئی ملکوں کے سیاسی و مذہبی مفادات وابستہ ہیں،سوجہاں امریکہ و فرانس اور دیگر مغربی ممالک مزاحمین کا تعاون کرتے نظرآتے ہیں،وہیں روس و ایران جیسے ممالک بشارالاسدکی پشتیبانی میں لگے ہوئے ہیں،سب کے پاس دلیلیں ہیں اورسب اپنے آپ کو انصاف پرورباورکرانے پر تلے ہیں،اس سب گورکھ دھندے میں اُن لوگوں کاکوئی کردارہی نہیں،جوشام کے شہری ہیں اورجن کی جانیں لاکھوں کی تعدادمیں تباہ ہوچکیں اور لاکھوں دربدری کی زندگی کاٹ رہی ہیں۔
شام میں قیامِ امن کے تعلق سے گزشتہ ماہ ویانامیں اقوامِ متحدہ اورعالمی لیڈران کے بیچ ایک کانفرنس میں کچھ اصول طے کیے گئے تھے،اَب جمعہ (18؍دسمبر)کو نیویارک میں ایک عالمی کانفرنس منعقدہونے جارہی ہے،جس میں وہی لیڈران مسئلۂ شام کے حل پر’غوروفکر‘کریں گے۔اس سے دودن قبل بدھ کی شام کو اقوامِ متحدہ کے موجودہ سکریٹری جنرل(جن کی میعادِ کاراگلے سال ختم ہونے والی ہے)بانکی مون نے ایک پریس کانفرنس میں شام میں فوری طورپرمسلح کارروائیوں پرروک لگانے اورانسانی حقوق کے رضاکاروں کے لیے ضرورت مندوں تک اسبابِ زندگی پہنچانے کی ضرورت پر زور دیا اور ساتھ ہی یہ کہہ کرپہلے ہی کانفرنس کے ایجنڈے کوصاف کردیاہے کہ’ ’گرچہ بشارالاسدکا سیاسی مستقبل شامی عوام کے لیے غیر معمولی اہمیت رکھتاہے،مگرمیں یہ سمجھتاہوں کہ شام میں امن و امان کی واپسی صرف ایک شخص کے سیاسی انجام پر منحصرہو،یہ بھی ناقابلِ قبول ہے‘‘۔گویااس کانفرنس کا نتیجہ بھی پہلے ہی طے
کیاجاچکایاکرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ بشارالاسدتواپنے منصب پربرقرارہی رہے گااور اس کے ساتھ شام میں سیاسی استقراروامن کی بازیافت کی جائے گی،اگرواقعتاً ایسا ہی ہوتا ہے،توپتہ نہیں گزشتہ پانچ سالوں میں ابھی اور کتنے سال جڑتے جائیں گے؛کیوں کہ بشارلعین جیسے مکار،فریبی اور ظالم و جابر انسان سے کسی انسانیت نوازی کی توقع فضول سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔جرمن چانسلرانجیلا میرکل کابھی کہناہے کہ’’شام میں ڈپلومیٹک کوششوں کا مقصددراصل مسئلۂ شام کادائمی حل تلاش کرناہے،بشارالاسداوران کا سیاسی مستقبل اس میں شامل نہیں ہے‘‘۔اسی سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاروف سے ملاقات کرکے مسئلۂ شام پراتفاق تلاش کرنے کی کوشش کی تھی اور انھوں نے اپنے بیان میں کہاتھاکہ روس ور امریکہ کے درمیان شام کے مسئلے پر کچھ معاملات میں اتفاق ہوابھی ہے،مگرروسی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریازاخاروف نے واضح کردیاکہ روس اور امریکہ کے مابین مسئلۂ شام پربنیادی اور کلیدی اختلافات تاہنوزبرقرارہیں۔
جمعہ کومنعقدہونے والی کانفرنس کا جونقشۂ کارہے،اس میں اگلے سال جنوری کے شروع میں حکومت اور مزاحمت کاروں کے نمایندگان کے مابین ایک میٹنگ کا ذکر ہے،جس کے بعدچھ مہینے کے اندرعبوری حکومت کے قیام اور اٹھارہ ماہ میں انتخابات کرانے کی ہدایت دی جائے گی۔ویانامیں منعقدہ کانفرنس میں طے کیے گئے منصوبۂ قیامِ امن کے تئیں امریکہ پرامید ہے،امریکی سفیربرائے اقوامِ متحدہ سامانتاپاورکاکہناہے کہ سیکورٹی کونسل اس منصوبے کوتسلیم بھی کرے گی اور شام میں حکومت کے انتقال اور داعش کی سرکوبی کے سلسلے میںیہ منصوبہ اہم ثابت ہوگا۔
یہ باتیں کی تو جارہی ہیں،مگرحقیقت کی زمین توایسی ہرگزبھی نہیں کہ نیویارک کی کانفرنس میں ان ملکوں،بطورِخاص روس اور امریکہ کے مابین کسی ایک نقطے پر اتفاق ہوپائے گا۔شام میں گزشتہ پانچ سالوں سے بظاہرتوبشارحکومت،اس کے مخالفین لڑرہے ہیں،مگر درِپردہ یہ مغربی ملکوں کی آپسی برتری،نخوت اور کبروغرورکے ہست و نیست کی جنگ بن گئی ہے۔اسے منافقت کی انتہاکہیے کہ ایک جانب امریکہ،فرانس،روس اور دیگر مغربی ممالک شامی مسئلے کے حل کی رٹ لگائے پھرتے ہیں،مگر دوسری جانب ان سب کا اصل کردارشرمناک حدتک مشکوک و مشتبہ ہے۔یہ داعش بھی فی الحقیقت انہی ملکوں کی پیداکردہ ایک آفت ہے،جوہرصورت میں مسلمانوں کاہی ناس پیٹ رہی ہے،شام و عراق کی اس کی خوں ریزکارروائیاں ہوںیا پیرس و امریکہ کے حملے؛سب کے راست یابالواسطہ منفی نتائج مسلمانوں کوہی بھگتنے پڑرہے ہیں،داعش ایک عالَم کی نگاہ میں پراسرارمعمہ ،سے کم نہیں ہے،عالمی میڈیااس گروپ کو مسلمانوں کا گروپ باورکرانے پر تلاہے اور اس کی جانب سے بھی انٹرنیٹ کی سائٹوں،سوشل میڈیاپرجوموادشائع کیے جارہے ہیں،وہ نعرہ ہاے تکبیرسے مزین ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے پوری دنیامیں مسلمانوں کے خلاف ایک بارپھرویسی ہی زہرناکی پھیلتی جارہی ہے،جوآج سے پندرہ سال قبل نائن الیون کے سانحے اور اس کے بعدکے حالات سے پھیلی تھی۔اس پورے منظرنامے میں اسلامی ملکوں کاکردارنہایت ہی مجرمانہ ہے،جہاں کے حکمراں محض اپنی جھوٹی شان و شوکت کوبچانے کی خاطرامریکہ و مغرب اوران کے قائم کردہ نام نہاداداروں کی ہر ’’ہانک‘‘پر’’دُم ہلاتے پھرتے ہیں‘‘۔یہ حکمراں اپنے عوام کے حقوق ادانہیں کرسکتے،ان کی آزادی کوتسلیم نہیں کر سکتے،انصاف نہیں قائم کرسکتے،ان کے دستورمیں کلمہ،قرآن اور نبی کے فرامین کا ذکرہے،مگرزمینی سطح پریہ ان کے نفاذ کے بارے میں توکبھی سوچ بھی نہیں سکتے،اللہ نے انھیں زرِ سیال دے رکھاہے،جسے سستے داموں بیچتے رہیں گے اورموج کرتے رہیں گے،پھراپنے آقاؤں کے کہنے پردہشت گردی کے خلاف صف آراہونے کا سوانگ بھریں گے اور اس کی آڑمیں اپنے ملکوں کے بے چارے اسلام پسندوں پرخوںآشام یلغارکرکرکے امریکہ،مغرب و اسرائیل کی خوشنودی حاصل کرتے رہیں۔دیکھیے دستِ قدرت کب حرکت میں آتاہے اورکب ان کی بساط پلٹتی ہے!!

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا