English   /   Kannada   /   Nawayathi

عدم رواداری کے ماحول کے خلاف

share with us

مسلمانوں اور بچھڑے طبقات پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والے قابل قدر و مبارکباد ہیں۔ان خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری نے گواہ کو دےئے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔
مولانا عمری جو اپنی زندگی کی 80بہاریں دیکھ چکے ہیں‘ عالم اسلام کے ایک ممتاز عالم دین، محقق اور ادیب ہیں۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔ جامعہ دارالسلام عمرآباد (تاملناڈو) کے فارغ التحصیل ہیں۔ مدراس یونیورسٹی سے فارسی میں منشی فاضل کی سند حاصل کی۔ مولانا سید جلال الدین عمری جامعۃ الفلاح بلیریا گنج کے شیخ الجامعہ، سراج العلوم نسواں کالج علی گڑھ کے سرپرست اعلیٰ اور ادارہ تحقیق و تصنیف علی گڑھ کے صدر ہیں۔ مختلف موضوعات پر تین درجن سے زائد کتابیں تصنیف کرچکے ہیں۔ جماعت اسلامی کے ارکان کے اجتماع کے سلسلہ میں وہ اِن دنوں حیدرآباد میں ہیں‘ جناب خالد مبشرالظفر کی قیام گاہ پر ان سے گواہ کے لئے مختصر انٹرویو لیا گیا جس کے اقتباسات آپ کی نذر ہیں۔
جماعت اسلامی ایک پاکیزہ معاشرہ کی تشکیل کے لئے ہمیشہ سے جدوجہد کرتی رہی۔ ایک ایسا معاشرہ جو برائیوں سے پاک و صاف ہو‘ جس کا ہر ایک فرد صالح ہو‘ جو حق و انصاف اور مساوات پر مبنی ہو‘ اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لئے جماعت اسلامی نے ہر دور میں مصائب و آلام سہے‘ قربانیاں دیں‘ مخالفتوں کا سامنا کیا‘ الزام تراشیوں، دشنام طرازیوں کو برداشت کیا‘ مگر اللہ کے فضل سے جماعت اور اس کے ارکان کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہیں آئی۔ جماعت اسلامی ہند نے معاشرہ کی اصلاح کے لئے کئی اقدامات کئے۔ تعلیمی اداروں سے لے کر ہر ایک سطح پر تحریکات چلائیں۔ غلط فہمیوں یا لاعلمی کی وجہ سے مسلمانوں اور اسلام سے متعلق پیدا ہونے والی بدگمانیوں‘ نفرتوں اور دشمنی کو مٹانے کے لئے دیگر برادران وطن تک اسلام کا پیغام پہنچایا۔ انسانی اقدار کے تحفظ کے لئے جماعت کی خدمات کو اپنوں اور غیروں نے سراہا۔ آج الحمدللہ! جماعت اسلامی ایک منظم تحریک ہے‘ جس سے وابستہ اکثریت تعلیم یافتہ مسلمانوں کی ہے۔ جماعت اسلامی ہمیشہ سے وحدت اسلامی کے نظریہ کو فروغ دینے کی کوشش کرتی رہی ہے کیوں کہ اس کا یہ ایقان رہا ہے کہ اتحاد ہی ہماری کامیابی اور سرخروئی کی ضامن ہے۔
ملک کے موجودہ حالات اور موجودہ حکومت سے متعلق امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ حالات اچھے نہیں ہیں فرقہ پرستی‘ گرانی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جس سے عوامی بے چینی فطری ہے‘ مرکزی حکومت کی پالیسی مسلمانوں سے متعلق واضح نہیں ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران جس قسم کے بدترین واقعات پیش آچکے ہیں اس کے پیش نظر مرکزی حکومت کی خاموشی معنی خیز ہے۔ دادری جیسے المناک واقعہ پر مرکزی حکومت کا موقف اطمینان بخش نہیں ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسا موقف اختیار کیا گیا ہے جس سے ایک مخصوص طبقہ پر مظالم ڈھانے والوں کے حوصلے پست نہیں ہوتے۔ امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کی بات کرنے والے وزیر اعظم نے مسلمانوں سے متعلق کوئی واضح موقف کا اظہار نہیں کیا ہے۔ وہ سواسو کروڑ ہندوستانیوں کے اتحاد ترقی کی بات کہتے ہیں مگر دوسری برادری اکثریت کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لئے ابھی تک کوئی بیان یا تیقن نہیں دیا۔ حساس اور سلگتے مسائل پر فلمی اداکار مسلمانوں کے ترجمان بن جاتے ہیں جو کسی بھی طرح سے مسلمانوں کی نمائندگی یا ترجمانی نہیں کرسکتے۔
جماعت اسلامی اب عملی سیاست میں حصہ لے رہی ہے پہلے بھی وہ ملک کے سیکولر اقدار و کردار کی برقراری کے لئے اپنا رول ادا کرتی رہی۔ امیر جماعت نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ عقائد کی بنیاد پر سینکڑوں خانوں میں منقسم اغیار اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے ایک ہونے لگے۔ اللہ کی وحدانیت، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے والے مسلمان ابھی تک ایک نہیں ہوسکے۔ اس کا خمیازہ وہ بھگت رہے ہیں۔ پہلے مسلمان کم از کم ووٹ بنک سمجھے جاتے تھے اب ان سے وہ موقف بھی چھین لیا گیا۔ حالیہ الیکشن میں سیاسی بے وزنی ظاہر ہوگئی۔
جماعت اسلامی اس ملک کی تعمیر نو میں اہم رول ادا کرے گی۔ وہ اسلامی تعلیمات کو برادران وطن تک پہنچاتی رہی ہے۔ دیگر ابنائے وطن کے ساتھ ساتھ اپنوں کو بھی جماعت کا یہی پیغام ہے کہ نفرت، دشمنی سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ امن سلامتی احترام باہمی رواداری ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔
ہمیں بھی اپنا رویہ بہتر کرنا ہوگا۔ اپنے لب و لہجہ کی اصلاح کرنی ہوگی۔ دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاکر ہم صرف ان سے ان کی نفرت دشمنی مول لے سکتے ہیں۔ ہم رواداری کا مظاہرہ نہ کریں تو دوسروں سے اس کی توقعات کیسے کی جاسکتی ہیں۔ مسلمانوں کو نہ صرف اپنے ملک بلکہ احوال عالم پر نظر رکھنی چاہئے۔ اسلامی ممالک کے حالات تشویشناک حد تک دھماکو ہیں۔ ان حالات کا جائزہ لے کر اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
جماعت اسلامی ہند حیدرآباد میں اس اجتماع کے ذریعہ امن و آشتی کا پیغام عام کرے گی۔ انشاء اللہ ایک نئے دور کی تاریخ کا آغاز ہوگا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا