English   /   Kannada   /   Nawayathi

شانِ خاتم الانبیاء ﷺ

share with us

نبوت کا سلسلہ کسی ملک، علاقہ یا قوم کے ساتھ مخصوص نہیں، جہاں بھی انسانوں کا گروہ آباد تھا وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ڈرانے والا ان کے پاس ضرور آیا ۔لیکن حضور خاتم النبین ﷺ کی بعثت کے بعد سلسلہ نبوت ہی ختم ہوگیا۔ اب ہر قوم، ہر زمانہ میں حضور سید الانبیاء و خاتم الرسل کی ذاتِ پاک ہی منبع ہدایت اور اسوہِ حسنہ ہے۔ (اب تبلیغ کا فریضہ حضور کی امت کے اولیاء و علماء انجام دیں گے)حضور کے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والا کذّاب اور دجال ہے ۔ جس طرح احادیث صحیحہ میں مذکور ہے۔ نیز ان آیات میں واضح ہے ۔ یَا اَیُّھَاالنَّاسُ اِنِّی رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًاط نیز وَمَآ اَرْسَلْنَاکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِلنَّاسط۔ حضور ﷺ اس ارشاد خدا وندی کے مطابق بنی نوع انسان کے لئے تا قیامت رسول ہیں تو پھر مزید رسول کی گنجائش نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لئے ہر قوم میں رسول بھیجے۔ (اور ہر امت میں رسول ہوا۔القرآن سورہ یونس۱۰، آیت ۴۷) ط(ترجمہ: اور محمد تو ایک رسول ہیں ۔ ان سے پہلے اور رسول ہوچکے( القرآن سورہ آلِ عمران۳،آیت ۱۴۴)
شانِ ختم نبوت کا اعلان قرآن میں
(ترجمہ : محمد تمھارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں بلکہ وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں اور اللہ سب کچھ جانتاہے۔(القرآن سورہ الاحزاب ۳۳، آیت ۴۰)
حضور کے ایک ہزار نام ہیں جن میں محمد، احمد ذاتی نام ہیں،باقی صفاتی نام ہیں ۔(روح البیان/نور العرفان صفحہ ۶۷۵) ختم نبوت کا عقیدہ اسلام کے ان بنیادی عقیدوں میں سے ایک ہے جن پر امت کا اجماع رہا ہے۔ حضور آخری نبی ہیں ۔ جس نے آخری نبی نہ مانا اس نے اللہ کے ارشاد کی تکذیب کی اور جو اللہ تعالیٰ کے کسی ارشادکو جھٹلایا وہ مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اس کے علاوہ بھی متعدد آیات میں حضور کریم کی شان کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ہر وہ آدمی جسے عقل وشعور کی دولت سے اللہ پاک نے نوازاہے وہ آپ ﷺ کی شانِ8 ختم نبوت کا بخوبی احساس کر لیتا ہے۔ حضور ﷺ کے وصفِ خاتم نبوت کو قرآن نے صراحت کے ساتھ ذکر فرمایاہے۔ احادیث کریمہ میں اس وصف کے ذکرکے بعد حضور کی ختمیت کو ایک عقیدے کی حیثیت حاصل ہے جس کے متعلق فقہائے کرام لکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں ادنیٰ شک بھی انسان کو دائرہ اسلام سے خارج کے لئے کافی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ کے ارشادات کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
حضرت ابو ہریرہ ص سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :میری اورمجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایک محل سی ہے جسے عمدگی کے ساتھ تعمیر کیاگیامگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی گئی تھی۔ دیکھنے والے آتے تھے اور مکان کی عمدگی کو دیکھ کر اس خالی جگہ پر تعجب ظاہر کرتے تھے۔ اب میں نے آکر اس خالی جگہ کو بھر دیا ہے اور میرے بعد رسولوں کی آمد کا اختتام ہوگیا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ میں آخری اینٹ ہوں اور میں ہی خاتم النبین ہوں (بخاری، مسلم) ۔حضرت ابوہریرہ ص ہی سے دوسری روایت یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:مجھے دوسرے نبیوں کے مقابل چھ(۶) فضیلتیں عطا ہوئی ہیں۔مجھے جوامع الکلم دئے گئے(یعنی الفاظ مختصر اور معانی کا بحر بے کنار)، رطب سے میری مدد کی گئی ، میرے لئے مالِ غنیمت کو حلال کیا گیا، پوری زمین کو میرے لئے سجدہ گاہ بنا دیا گیااور اس سے تیمم کی اجازت دی گئی، مجھے تمام مخلوق کے لئے مبعوث کیا گیا اور مجھ پر نبیوں کی آمد کا اختتام ہوا۔(کتاب المناقب باب خاتم النبین،مسلم شریف،ترمذی، ابن ماجہ)
امام احمد ص ترمذی اور حاکم نے بسند صحیح حضرت انس صسے روایت کیاہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :رسالت و نبوت کا خاتمہ ہوچکاہے اب میرے بعد نہ تو کوئی نبی ہے نہ رسول۔ حضرت ابو امامہص بیان کرتے ہیں، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاحجۃ الوداع کے خطبے میں :اے لوگو!آگاہ رہو کہ میرے بعد نہ تو کوئی نبی نہ اب کوئی امت ہے۔بخار ی و مسلم میں حضرت مطعم صسے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میرے کئی نام ہیں۔میں محمدہوں،میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں جس کے ذریعہ کفر کو مٹناہے۔ میں حاشرہوں لوگ قیامت میں میرے بعد اٹھائے جائیں گے اور میں ہی عاقب ہوں۔ عاقب اسے کہتے ہیں جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(بخاری و مسلم) حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد تیس(۳۰) جھوٹے نبی پیداہوں گے جن میں سے ہر ایک یہ دعویٰ کرے گاکہ وہ نبی ہے حالانکہ میں خاتم النبین ہوں۔(ابو داؤد کتاب الفتن)بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ بہت سے جھوٹے (نبی) پیدا ہوں گے۔ ان تمام روایات سے بخوبی ظاہر ہے کہ نبی کریم ﷺ کو خاتم النبین نہ ماننا قرآن و حدیث کا انکار ہے،جو انسان کو اسلام سے خارج کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس سلسلے میں یہ روایت بھی بڑی واضح ہے ،جس میں حضور ﷺ نے حضرت عمر فاروق ص کے متعلق ارشاد فرمایاکہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر نبی ہوتے۔(امام بخاری اور امام مسلم نے فضائل صحابہ کے عنوان کے نیچے یہ ارشاد نبوی نقل کیا ہے۔ تفسیر ضیاء القرآن ،جلد۴،صفحہ۷۱۔۷۳)اسی طرح سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق ارشاد نبوی ہے کہ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ ان روایات سے یہ بھی ثابت ہے کہ آیت خاتم النبین کامفہوم و معنی آخری نبی ہے جسے تقریباً تمام مفسرین نے نقل کیا ہے اور اسی سے یہ بھی واضح ہے کہ اس کے علاوہ کوئی مفہوم و معنی ہو ہی نہیں سکتا۔ کوئی دوسرا مفہوم کھینچ تا ن کر نکالاجائے تو یہ اس کے باطل ہونے کی نشانی ہے اور اس کو زندقہ(کفر بے دینی) کہتے ہیں جو بدترین کفر ہے۔
موضوع (Topic) شان خاتم الانبیاء کے ربط کے طور پر یہ ذہن نشیں رہنابھی ضروری ہے کہ حضور ﷺ کا خاتم النبین ہونا بھی تمام عالمِ انسانیت کے لئے رحمت ہے جس کی تشریح مفسرین کرام یہ فرماتے ہیں کہ نبی کی آمد آزمائش بھی ہے ۔ نبی کے بعثت کے بعد اس نبی کا ماننا بھی نجات کے لئے ضروری ہے۔ جولوگ نبی کو نہ مانیں وہ راہ ہدایت سے دور ہوں گے اور جہنم کے مستحق قرار پائیں گے۔ حضور ﷺ کو آخری نبی ماننا قرآن و حدیث پر عمل کرناہے اور نجات کا باعث ہے۔
رحمت عالم ﷺ
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایاْ(ترجمہ: ہم نے آپ کوتمام جہان والوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے۔(القرآن سورہ الانبیاء ۲۱،آیت ۱۰۷) آپْ کا یہ ایسا وصف ہے جس کا تعلق ساری انسانیت بلکہ تمام کائنات سے ہے۔ آنحضرت ﷺکواللہ رب العزت نے ساری کائنات کے واسطے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ مولائے رحیم نے اس آیت کریمہ میں صراحتاً اس کا اظہار فرمایاہے۔ سیرت رسول کریم ﷺ کا مطالعہ کیاجائے تو ہر ہر سطر ، ہر ورق اور ہر قدم پر اس کا عملی ثبوت ملتاچلا جاتاہے۔ اگر کوئی شخص یہ بیان کرنا چاہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی کس کس لحاظ سے بنی نوع انسان کے لئے رحمت بنا کر بھیجی گئی ہے تو اس کے لئے کوئی ایک تقریر یا ایک مقالہ یا مضمون نہیں بلکہ سینکڑوں تقریریں، مقالات ومضامین درکارہوں گے پھر بھی حق پورا نہ ہو سکے گا۔ حضرت مصلح الدین سعدی شیرازی قد س سرہٗ اپنی محبت کا یوں اظہار فرماتے ہیں:
بلغ العلی بکمالہ کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ صلو علیہ و آلہ
پھرآپ ﷺ کی حیات طیبہ کاکوئی ایک پہلو نہیں، اتنے پہلو ہیں کہ ان کا شمار نہیں ہو سکتا۔ ان میں سے ہر پہلو کو بیان کرنے کے لئے ایک نہیں سینکڑوں کتابیں درکارہوں گی۔ ان تمام پہلوؤں میں صرف ایک پہلو یعنی آپ کے رحمتِ عالم ہونے کے بارے میں کچھ عرض ہے۔
ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی است
حیاتِ مبارکہ کا یہ پہلو اس لحاظ سے بطور خاص قابلِ مطالعہ ہے کی پوری انسانی تاریخ میں ایک ہی ایسی ہستی نظر آتی ہے،جو حقیقت میں انسانوں کے لئے رحمت ثابت ہوئی ہے۔ حیاتِ طیبہ کی رحمت کا وہ خاص رخ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انسانی سماج کے لئے وہ اصول اور ضابطے پیش کئے جن کی بنیاد پر اگر انسان چاہے تو ایک عالمی ریاست (World State) کی تشکیل کی جا سکتی ہے اور اس تقسیم کو، جو انسانوں کے درمیان آج پائی جاتی ہے بلکہ ہمیشہ پائی جاتی رہی ہے اوروہ ہمیشہ انسانوں کے درمیان ظلم و فسادکا سبب بنتی رہی ہے، اس کو ختم کیاجا سکتاہے۔
محسنِ انسانیت حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: یَا اَیُّھَنَّا النَّاسُ اِنِّی رَبَّکُمْ وَاحِدُٗ وَاِنِّی اَبَا کُمْ وَاحِدُٗ لَا فَضْلَ لِعَرَبَیٍّ عَلیٰ عَجَمیٍّ لَا لِعَجَمیٍّ عَلیٰ عَرَبِیٍّ وَلَا لِاَ حْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلیٰ اَحْمَرَاِلَّا لتَّقْوٰی اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقَاکُمْ(ترجمہ: اے لوگو! تم سب کا رب ایک ہے۔ اور تم سب ایک باپ کے بیٹے ہو۔ کسی عربی کو عجمی (یعنی غیر عرب) پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں ہے ،نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ کسی کالے کو گورے پر کوئی فوقیت حاصل ہے۔ سوائے اس کے جو تقویٰ شعارہو۔یاد رکھو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے) آپ ﷺ کی اس بنیادی تعلیم نے نوع انسانی کے تمام طبقات کوعزت و شرف کا ایک بلند مقام عطا کیا ہے اور عملی طورپر قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں جو فقید المثال امن قائم کیا اس کی مثال مذہبی یا غیر مذہبی دنیامیں کہیں اور نظر نہیں آتی۔
یہی وہ مرکزی نقطہ ہے جو تمام انسانوں کو بلا لحاظ مذہب و ملت ایک لڑی میں پروتاہے اور ان کے تمام حقوق اور ضروریات کا تحفظ کرتاہے۔ اسلام نے اسی آفاقی تصور کا حکم دیا جو ان تمام رنگ و نسل اور علاقائی و قومی امتیازات کو یکسر مٹا دیا جو انسانی برابری اور اخوت کے منافی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔یَآ اَیُّھَالنَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ ....الخ(ترجمہ: اے لوگو! ہم نے تم کو مرد اور عورت سے پیداکیا اور تم کوکئی گروہوں اور قبائل میں تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کوپہچانو۔ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی (اللہ سے ڈرنے والا)ہے۔یقیناًاللہ بہت علم رکھنے والا اور بہت خبر رکھنے والا ہے۔(القرآن سورہ الحجرات ۴۹،آیت ۱۳)

اللہ تعالیٰ نے حضور سید عالم ﷺ کو رحمۃ اللعلمین بنا کر مبعوث فرمایا ۔ آپ نے وحشی خصلت قوم کو آدابِ انسانیت کے زیور سے آراستہ فرمایا۔ آپ نے عربوں کی صدیوں پرانی نسل پرستی اور تنگ نظری کو حرفِ غلط کی طرح مٹا دیا۔ فرمایا:سب انسان یکساں ہیں اور سب اسی خدائے واحد کے بندے ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اِنَّ الْعِبَادَکُلُّھُمْ اِخْوَۃُٗ(مسند احمد، جلد۴،صفحہ۳۶۹)۔یہ وہ تصور تھا جس نے نسلی امتیازات کے دلدادہ قوم کو باہم شیرو شکر کر دیا اور تنگ نظری و تنگ ظرفی کی جگہ ان میں وسعتِ قلبی اور فراخ دلی پید اکردی۔
رحمۃ اللعالمین کا اسوۃ حسنہ
مخلوق خدا کے ساتھ اچھا برتاؤ اور حسنِ سلوک کے بے شمار واقعات سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔ سیرت رسول اور اسلام اخلاق حسنہ کا داعی ہے اور جو مکارمِ اخلاق سے خالی ہو وہ عند الاسلام مومن کامل نہیں۔ امام ترمذی اپنی کتاب ’’شمائلِ ترمذی‘‘باب ماجاء فی خلق رسول اللہ ﷺ میں ایک حدیث نقل فرماتے ہیں۔ حضرت انس بن مالک ص فرماتے ہیں: خِدْمَتِ رسول اللہ ﷺ عَشَرَ سِنِیْنَ فَمَا قَالَ لِی اُفٍّ قَطُّ وَمَا قَالَ لِشَی ءٍ صَنَعْتَۃُٗ وَلَا لِشَی ءٍ تَرَکْتَہٗ وَکَانَ رسول اللہ ﷺ مِنْ اَحْسَنَ النَّاسُ خُلْقاً(میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں دس سال گزارے ۔آپ نے مجھے کبھی اف تک نہ فرمایا اور میرے کسی کام کے کرنے پر یہ نہ فرمایاکہ یہ کام تونے کیوں کیا اور میرے کسی کام کے نہ کرنے پر یہ نہ فرمایا کہ تو نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟اور رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ پسندیدہ اور اچھے اخلاق کے مالک تھے۔ )امام ترمذی اپنی اسی کتاب ’’شمائل‘‘ میں آپ کے خلق عظیم کے تعلق سے ایک حدیث روایت کرتے ہیں۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھما فرماتی ہیں: مَاضَرَبَ رَسُول اللہ ﷺ بِیَدِہٖ شَیْئاً اِلَّا اَنْ یُّجَا ہَدَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا ضَرَبَ خَادِماً وَلَا اِمْرَاۃً(رسول اللہ ﷺ نے جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ کسی کو اپنے ہاتھ سے نہیں مارا نہ کسی خادم کو اور نہ کسی عورت کو)۔ یہ ہے آپ کا خلق عظیم۔ 
ماہرین سیرت مصطفی کو آپ کی سیرت کے مطالعہ کے بعد اطمینان قلب، دماغی سکون، ذہنی فرحت و سرور اور نشاط و انبساط حاصل ہوتا ہے اور عبرت و نصیحت ،حکمت و موعظت کا حصول ہوتاہے۔ اخلاق حسنہ اور اوصاف حمیدہ ایسے انمول ہیرے ہیں جو بعثت رسول کا مقصد ہیں۔ جیسا کہ امام حاکم مستدرک ،کتاب التاریخ باب دلائل النبوۃ ،جلد دوم صفحہ۶۱۳، میں اور امام بیہقی نے اپنی سنن کتاب الشہادت باب بیان مکارم الاخلاق جلد۱، صفحہ ۱۹۱،۱۹۲ میں ،امام مالک بن انس مؤطا جلد۱، صفحہ ۹۴۰ میں حدیث رسول روایت کرتے ہیں۔ اِنَّمَا بُعِثْتُ لِا تَمِّیْمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق (اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا :میں اس لئے مبعوث کیاگیا ہوں تاکہ اچھے اخلاق کی تکمیل کروں)۔یہ حدیث جوامع الکلم سے ہے اور فصاحت و بلاغت کے عرش اعظم پر فائز ہے۔ اہل علم و دانش ، صاحبِ فکر و بصیرت پر یہ امر مخفی نہیں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے لا تمم الاخلاق نہیں فرمایا بلکہ لِا تَمِّیْمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقفرمایا۔ ان دونوں عبارتوں میں واضح فرق موجود ہے۔ یہ ایسی حسین و دلکش تعبیر ہے جس کا بدل فصاحت و بلا غت کی دنیا میں موجود نہیں۔ لا تمم الاخلاق اور لِا تَمِّیْمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق کا فرق اظہر من الشمس ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے یہ چند فوائد ہیں جز سے کل کی طرف، قلیل سے کثیر کی طرف اشارہ ہے۔ اس کے علاوہ سیرت رسول کے بے شمار فوائد ہیں جن سے دنیا کے ہر خطہ میں ہر فرد رہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔
سیرت رسول اللہ ﷺ اور ہماری ذمہ داریاں
اگر ہم اور آپ رسول اللہ ﷺ کی سیرت پاک کے متعلق جلسے کریں، کانفرنس کریں تو نہایت مبارک کام ہے۔ ذکر خیر رسول اللہ ﷺ سے زیادہ بڑی سعادت کوئی نہیں۔ لیکن محض Lipserviceنہ کیجئے اور صرف زبانی جمع خرچ سے رسول اللہ ﷺ کو خراج عقیدت پیش کرکے نہ رہ جایئے بلکہ جو تعلیم حضور لے کر آئے ہیں اور آپ ﷺ نے جو ہدایت ہم تک پہنچائی ہے اس کی پیروی بھی کیجئے ۔ ہم تمام اہلِ ایمان آپ ﷺ کی سیرت ، آپ کی تعلیم پر عمل پیرا ہوکر نہ صرف اپنی دنیا و آخرت کو سنواریں بلکہ ساری دنیا کو اس پیغام سے روشناس کرائیں۔ اسلام کی تبلیغ میں جہاں قرآن پاک، کلامِ الٰہی و احادیث نبوی کا کردار ہے وہیں سیرت نبوی، آپ ﷺ کی عملی زندگی، صحابہ کرام، اولیاء اللہ کی زندگیاں اور ان کا اخلاق و کردار کوبھی اسلام کی تبلیغ کا ذریعہ بنا ئیں۔ ہم اسلامی سفیر بن کر عملی زندگی میں سیرت نبوی کو اپنائیں۔ ربیع الاول کے پیغامِ محمدی کو اپنے سینے سے لگائیں۔ ربیع الاول کے جشن جلوس محمدی اور جلسوں کے وقت اپنا محاسبہ کریں ، جائزہ لیں کہ ہمارے اندر تعلیمات رسول اللہ ﷺ کا عملی حصہ کتنا پایا جاتا ہے۔ اللہ ہم تمام مسلمانوں کو عمل کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ آمین! 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا