English   /   Kannada   /   Nawayathi

سونیا اور راہل کا سامنا بھاجپا سے یا عدالت سے؟

share with us

ان اخبارات کی ذمہ داری کانگریس کے ہاتھ میں تھی۔ ملک میں ہر جگہ چونکہ کانگریس کی حکومت تھی اس لئے اس کے شاہانہ اخراجات کوئی مسئلہ نہیں تھے۔ جس کا اندازہ ایک واقعہ سے ہوسکتا ہے کہ جب نرائن دت تیواری مرکز میں وزیر صنعت تھے اس زمانہ کی ایک شام کو ہم اور عابدی الہ آبادی ایم ایل سی، ایک مسئلہ میں ان سے ان کے دفتر میں بات کررہے تھے۔ اتنے میں ہی ان کے سکریٹری آئے اور کہا کہ مسٹر مودی صاحب لائن پر ہیں۔ (واضح رہے کہ بات وزیر اعظم کی نہیں ایک صنعت کار مودی نگر والے مودی کی ہے) تیواری جی نے دو چار ایسی باتوں کے بعد کہا کہ پچاس ہزار روپئے قومی آواز کے لئے لکھنؤ بھجوادیجئے۔ عابدی بول پڑے۔ تیواری جی تیواری جی ’’قومی جنگ‘‘ کے لئے بھی دس ہزار کے لئے کہہ دیجئے۔ تیواری جی نے کہا۔ اور ہاں رام پور سے ایک اخبار قومی جنگ نکلتا ہے ہمارے حلقے کاشی پور میں وہی پڑھا جاتا ہے۔ دس ہزار اسے بھی بھیج دیجئے گا۔
یہ لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ اخبارات کا خرچ شاہانہ تھا اور آمدنی اتنی ہی تھی جتنی اُردو کے عام اخباروں کی ہوتی ہے۔ ہیرالڈ، نوجیون اور قومی آواز کے اخراجات کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر تھی۔ ہم نے جو واقعہ لکھا اس وقت اترپردیش میں کانگریس کی حکومت نہیں تھی تو مرکز کے ذمہ اخراجات کردیئے گئے تھے۔
’’ایسوسی ایٹیڈ جنرل‘‘ کے تحت جو تین اخبار نکل رہے تھے اور بعد میں ہیرالڈ اور نوجیون کے بند ہوجانے کے بعد صرف قومی آواز رہ گیا تھا اس (75) سال کے عرصہ میں سبرامنیم سوامی نہ اُس کے اسٹاف میں رہے نہ اُن کے قانونی مشیر رہے اور نہ انہوں نے آڑے وقت میں سو دو سو روپئے دیئے۔ اس کے باوجود وہ عدالت جا دھمکے اور سونیا، راہل اور موتی لال وورا کے خلاف مقدمہ ٹھونک دیا۔ مقدمہ جس زمانہ میں دائر کیا تھا اس وقت وہ قانونی طور پر مرحوم جنتا پارٹی کے صدر تھے اور اس کا انتخابی نشان ہل کاندھے پر دھرے ہوئے تھے۔ لیکن اپنی پارٹی کے مزار پر کھڑے ہوکر بی جے پی کی طرف سے ہر سیکولر ہندو اور مسلمان سے لڑرہے تھے۔ پھر جب مودی سرکار بن گئی تو انہوں نے یہ سوچ کر بی جے پی کی رکنیت قبول کرلی کہ وہ اتنی خدمت کرچکے ہیں کہ اب انہیں وزارت مل جائے گی۔
سوامی کا مقدمہ اب بی جے پی نے گود لے لیا ہے اور سونیا، راہل پر اب بی جے پی حملے کرکے یہ چاہ رہی ہے کہ انہیں بدعنوانی کے الزام میں جیل بھیج دے تو اُن کے بڑھتے ہوئے قدم نہ صرف رُک جائیں گے بلکہ پیچھے کی طرف لوٹ جائیں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ ادارہ نام کے لئے پارٹی کا تھا۔ جو کچھ تھا نہرو خاندان کا تھا۔ ابتدائی برسوں میں اخباروں کی پیشانی پر لکھا رہتا تھا۔ بانی ’’جواہر لال نہرو‘‘ نہرو جی صرف بانی ہی نہیں تھے وہ اُن کے بعد اندرا جی اور پھر اُن کی نسل ہی اس کے سیاہ و سفید کی مالک رہی ہے۔ رہی یہ بات کہ کس نے کس نام سے کیا کمایا اور کیا گنوایا؟ تو یہ تو ہر پارٹی کرتی ہے۔
راہل نے جب اپنے چھوٹے سے لشکر کو لے کر بی جے پی پر حملہ کیا تو بی جے پی نے توپوں کا رُخ عدالت کی طرف موڑ دیا اور کہہ دیا کہ ہم سے کیا مطلب عدالت جانے اور آپ۔ ہماری کانگریس سے کوئی سیاسی یا صحافتی رشتہ داری نہیں ہے لیکن شاید ہم سے زیادہ کوئی نہ جانتا ہو کہ کوئی حکومت عدالت سے کچھ کہے نہ کہے عدالت حکومت کے دشمنوں کو چن چن کر نیچا دکھاتی ہے۔ جولائی 1965 ء میں لال بہادر شاستری نے اترپردیش کی سوچیتا کرپلانی سے ہم نہیں سمجھتے کہ کچھ کہا ہوگا اور نہ یہ سمجھتے ہیں کہ سوچیتا نے عدالت سے یہ کہا ہوگا کہ ندائے ملت کے معاون ایڈیٹر، پرنٹر اور پبلشر کی کسی بھی قیمت پر ضمانت منظور نہ کی جائے۔ لیکن سیشن جج کو ہائی کورٹ کا جج بننے کے لئے اور ہائی کورٹ کے جج کو سپریم کورٹ کا جج بننے کے لئے ہماری ضمانت منظور نہ کرنا اس لئے ضروری تھا کہ شاستری جی اور سوچیتا جی یہی چاہتے تھے کہ ان کے خلاف لکھنے والے کے قلم ہی نہیں ہاتھ بھی توڑ دیئے جائیں اور انہیں دکھا دیا جائے کہ جرم کرو یا نہ کرو حکمراں ٹولے کے خلاف سوچنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
مسز سونیا گاندھی نے کہہ دیا کہ وہ اندرا گاندھی کی بہو ہیں اس لئے کسی سے نہیں ڈرتیں۔ بہادر ہونے کے لئے نہ نہرو کی بیٹی ہونا ضروری ہے اور نہ اندرا کی بہو ہونا۔ وہ اگر بہادر ہوتیں تو اس کا اظہار نہ کرتیں۔ ان کا چہرہ بتا رہا ہے کہ وہ انتہائی پریشان ہیں۔ اور راہل ان سے زیادہ۔ عدالتوں کا حکومت کو خوش کرنے کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ یکم اگست 1965 ء کو ہمیں گرفتار کیا گیا 120 دن کے بعد چارج شیٹ دی گئی جس میں یہ نہیں لکھا تھا کہ کس مضمون کی کس سطر یا کن جملوں پر اعتراض ہے بلکہ جاوید فیضی کی نظم، اداریہ، ادارے کا ہی ایک مضمون۔ ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج شیوپرشاد سنہا کا مضمون، یونس قنوجی کی نظم، اختر بستوی کی نظم اور تخلص بھوپالی کا مزاحیہ۔ کیا کوئی قانون داں یہ بتا سکتا ہے کہ پورے مضامین اور پوری نظم قانون کے خلاف ہوتی ہے۔ اس کے آگے لکھا تھا کہ ان کے ذریعہ ایم سی چھاگلا، بھارت سرکار کی تذلیل اور اس کے خلاف نفرت پھیلانے اور بھارتیوں میں پھوٹ ڈالنے، ان میں عدم اطمینان کی فضا پیدا کرنے نیز مسلح افواج میں بے اطمینانی پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایسی مضحکہ خیز فرد جرم کسی نے دیکھی ہو تو وہ ہمیں بتا دے کہ ایک اردو کا ملّی مسلمانوں کا اخبار مسلح افواج میں بھی بے اطمینانی پھیلا سکتا ہے؟ کانگریس کے دَور میں جب وزیر مواصلات اے راجہ جیل میں تھے تو سب کی فرد جرم دینے کے بعد کانگریس کے جنرل سکریٹری دگ وجے سنگھ نے کہا تھا کہ جب فرد جرم دے دی گئی تو اب ضمانت ہوجانا چاہئے۔ اسی کانگریسی حکومت کے زمانہ میں جب رمضان میں ایک مہینہ کے لئے چارج شیٹ کے بعد ہمارے وکیلوں نے پیرول مانگی تو سرکاری وکیل نے کہا کہ حضور اگر یہ باہر آگئے تو پھر انہیں جیل میں بھیجنا ناممکن ہوجائے گا۔ یہ بہت اثرات والے ہیں۔ ہم چونکہ مسلمان تھے اس لئے ہمارا ہر حال میں جیل میں رہنا ضروری تھا چاہے چارج شیٹ مل جائے اور چاہے وہ انتہائی احمقانہ ہو؟
شری ونکیا نائیڈو اور نقوی کا یہ کہنا کہ ہم سے کیا لینا دینا اور جیٹلی صاحب کا یہ کہنا کہ آؤ بحث کرلیں یہ سب اس لئے ہے کہ حکومت بھی ان کی ہے اور بھرپور اکثریت ان کے پاس ہے۔ ماتحت عدالت ہو یا ہائی کورٹ ہو یہاں سے تو وہ ہوگا جس سے حکومت خوش ہوسکے۔ رہا سپریم کورٹ تو وہاں کے بارے میں کوئی بات کہنا مشکل ہے۔ وہاں وہ بھی ہوسکتا ہے جس کا سونیا کو خطرہ ہے اور وہ بھی ہوسکتا ہے جس سے حکومت کو من کی مراد مل جائے۔ لیکن یہ تو ہوتا ہے کہ جس کی حکومت ہوتی ہے اسے بن مانگے بھی موتی مل جاتے ہیں۔ بی جے پی کو اس کا جواب دینا پڑے گا کہ ان کا ہر ترجمان سبرامنیم سے زیادہ تند لہجہ میں بحث کررہا ہے اور ہر کسی کی زبان پر ہے کہ ان ماں بیٹوں نے ملک میں لوٹ مچائی تھی اب انہیں جیل جانا ہی ہوگا۔ اگر بی جے پی سے لینا دینا نہیں ہے تو وہ کیوں بحث کررہے ہیں؟ کیوں نہیں کہتے کہ ہم سے کیا مطلب عدالت جانے اور راہل سونیا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا