English   /   Kannada   /   Nawayathi

دور حاضر کا مسلم نوجوان: لمحۂ فکریہ

share with us

اسی طرح چھوٹی عمر کے بچوں سے بھی بیجا امیدیں نہیں قائم کی جاسکتی ان کے ناتواں بازو اس بار کے اٹھانے اور اسے سنبھالنے سے عاجز وقاصر ہوتے ہیں، چھوٹی عمر کے بچوں میں اس کام کوکرنے کی چاہت زیادہ ہوتی ہے جو معاشرے کے جوانوں میں عام ہو ۔ لیکن وہ اپنی ناتوانی کی وجہ سے اس بار کے متحمل نہیں ہوتے۔ 
آج اگر ہم غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ آج کا مسلم نوجوان کہاں جارہا ہے، کن کن برائیوں میں مبتلا ہے اور اسلام کے متعلق کیسے کیسے شبہات اس کے ذہن میں پیدا ہورہے ہیں، ان کی زندگی کا رول ماڈل کون ہے؟ کس کے نقش قدم پر چل کر وہ کامیابی کی منزل تلاش کررہا ہے؟ اس کے شب و روز کی مصروفیات کیا ہیں ، تو ہمیں لرزہ خیز نتائج ملیں گے۔ وہ نتائج جن کے اختیار کرنے سے انسان گمراہی کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا، یاپھر ان باتوں کو وہ اتنا ہلکا محسوس کرتا ہے کہ اس کے متعلق سوچ کر اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا ہے۔ ہماری قوم کے نوجوان یا تو ہمارے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں یا پھر اگر اب بھی ان کے اصلاح کی خاطر خواہ فکر نہیں کی گئی تو وہ مسلمان تو رہیں گے لیکن ان کے دل و دماغ سے اسلام کی روح نکل چکی ہوگی، ہمارے معاشرے اور قوم کے نوجوانوں میں سب سے خطرناک بیماری جو بہت تیزی سے پھیل رہی ہے وہ اسلام کے متعلق شکوک و شبہات میں مبتلا ہونا ہے۔ آج ایک عام نوجوان جسے اسلامی تعلیمات سے دور کا بھی واسطہ نہیں پڑا ہے، جس میں حلال و حرام کی تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں ہے وہ قرآن و حدیث اور احکام اسلام پر اعتراض کرنے کو اپنا خاندانی حق سمجھتا ہے، خصوصا آزادی نسواں کے متعلق کہ طلاق کا حق جس طرح مردوں کو ہے اسی طرح عورتوں کو بھی ہونا چاہئے۔ لیکن یہ باتیں اس ذہن میں کیسے پیدا ہوجاتی ہے ، جس کی پیدائش ہی اسلامی گھرانے میں ہوئی ہے تو اس کے اسباب و عوامل میں سے ایک یہ ہے کہ چھوٹی عمر میں بچوں کو انگریزی تعلیم دلانے کے شوق میں میں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اسے مسلمان بھی بنانا ہے۔ جس مذہب پر وہ پیدا ہوا ہے اس کے بھی حقوق ہے جس کا حصول ہر کس و ناکس پر فرض ہے۔ زندگی گزارنے کے کچھ آداب و شرائط ہیں جس کے بغیر چارہ نہیں ۔جس طرح ایک ڈاکٹر کا بیٹا ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کئے بغیر ڈاکٹر نہیں بن سکتا ہے، ایک وکیل کا بیٹا پیدائشی وکیل نہیں ہوتا ہے اسے بھی وکالت کی تعلیم کے بغیر وکالت کی ڈگری نہیں ملتی ہے، ڈاکٹر یا وکیل کے گھر میں رہنے کی بنا پر ممکن ہے کچھ دواؤں اور کچھ داؤ پیچ سے واقف ہوجائے لیکن بغیر پڑھے وہ ڈاکٹر یا وکیل نہیں بن سکتا ہے، تو کیا کسی مسلمان کے گھر میں پیدا ہوجانا کافی ہے، اسلام کو سیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، احکام شریعت کو جانے بغیر کتنا ہم اسلام پر عمل کریں گے اور ہم میں کس حد تک اسلام کی روح باقی رہے گی ۔ ماڈرن ایجوکیشن کی حصولیابی بذات خود ایک مستحسن قدم ہے، اسلام تو حصول علم کی تلقین کرتا ہے اور اسلام کا پہلا حکم بھی تعلیم ہی ہے، مسلمانوں میں جس طرح علماء کا وجود ضروری ہے دوسرے شعبوں کے ماہرین کی بھی اتنی ہی ضرورت ہے تاکہ بوقت ضرورت ان سے رجوع کیا جاسکے، معاشرے اور قوم میں ہر فن کے ماہرین کی ضرورت پیش آتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام میں رازی، ابن رشد، ابن نفیس، البیرونی اور خیام جیسے بڑے بڑے سائنسدان پیدا ہوئے ہیں اور انہوں نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جس سے آج بھی مغرب مستفیض ہورہا ہے اہل مغرب نے ہمارے آباء و اجداد کے ورثہ کو استعمال کیا ان کے کارناموں کو پڑھ کر ان سے سیکھنے کی کوشش کی اور انہیں جدید سائنس کا حصہ بنا دیا اور ہم اپنے آباء و اجداد کی تاریخ کو ہی بھلا بیٹھے ان کے ایجادات کے متعلق ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں اور ترقی کرنے کے شوق میں اہل مغرب کے نقش قدم پر چل پڑے، ہم نے ان کے ذریعہ تیار کردہ نصاب تعلیم ہی کو نہیں اپنایا بلکہ ان کی تہذیب اور ان کے کلچر کو بھی اپنی زندگی کا جزء لاینفک بنالیا خود کو مہذب اور ترقی یافتہ بنانے میں ہم نے اپنی زندگی کی سب سے انمول اور لازوال نعمت کو پس پشت ڈال دیا، ہم تو خود دین سے دور ہوگئے اور اپنے نونہالوں کو بھی اسلامی تعلیمات سے مطلق دور کردیا، ہم نے اسلام پر بہت بڑا احسان کیا تو یہ کہ کسی مولوی یا مسجد کے امام صاحب کو ماہانہ 500 /1000 روپے دیکر اپنے گھر بلالیا، اور اپنے قیمتی اوقات میں سے چند ساعت اسلام کے نام پر لگادئیے، اس میں بھی ہفتہ میں دو چار دن بچہ اپنے دوستوں اور دیگر رشتہ داروں سے ملنے میں گزاردیتا ہے، جس بچہ کی پوری تربیت انگریزی ماحول میں ہورہی ہو جس کے اساتذہ غیر مسلم ہو، جس کی ذہن سازی اسلام کے خلاف کی جارہی ہو، جس کے دل و دماغ میں اسلام اور شعائر اسلام کے خلاف مواد انڈیلے جارہے ہو، اس سے آپ اس سے بہتر کی امید نہیں کرسکتے ہیں، اس کے دل و دماغ میں اسلام کے خلاف شکوک و شبہات کا جنم لینا یقینی ہے۔ 
اسلام اور مسلمانوں پر ہر زمانے میں حالات آئے ہیں، اور یہ آتے رہیں گے لیکن خود مسلمان ہی اپنے مذہب کے تعلق سے شک میں پڑ جائے، یہ کسی بھی طرح مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں ہوسکتا ہے، الغرض آج ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اسلام اور شعائر اسلام سے واقف کرانا ضروری ہے اور یہ ہر والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات سے آراستہ کرے، محض دنیاوی تعلیم دلوادینا کافی نہیں ہے، اس سلسلہ میں بھی ہم سے پوچھ ہوگی کہ اللہ نے آپ کو صاحب اولاد بنایا تھا کیا آپ نے اس کے حقوق ادا کئے تھے، دنیا کے چند روزہ نفع کیلئے اپنی آخرت کو داؤ پر نہ لگائیں اور اپنی اولاد کو اسلامی تعلیمات سے بھی آراستہ کریں۔ آج جدید تکنالوجی کے باعث ہزاروں نوجوان نسل گمراہی کے دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی ؒ کا وہ قول یاد آتا ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ ’’اگر کسی قوم کو بنا ہتھیار کے فتح کرنا ہوتو اس قوم کے نوجوانوں میں بے حیائی پھیلا دو‘‘۔ آج یہود ونصاریٰ اسی پر عمل پیرا ہوکر ہمارے مسلم نوجوانوں میں بے حیائی و بے غیرتی وہ مواد بھر دیا ہے جس سے وہ بالکل ہی ناکارہ ہوچکے ہیں۔ انہیں اتنی فرصت نہیں ملتی کہ وہ قرآن کو پڑھ اور سمجھ سکیں، اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرسکیں۔ بلکہ وہ لایعنی باتوں میں پورا پورا دن گزار کر اعدائے اسلام سے بدلہ لینے کا خواب دیکھتے ہیں یہ کہاں سے ممکن ہوگا اس کے لیے ضروری ہے کہ ان واہیات اور بے کار چیزوں سے اجتناب کرتے ہوئے پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوا جائے جبھی ہم ان باطل قوتوں سے ٹکر لے سکتے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا