English   /   Kannada   /   Nawayathi

کیا جناح کی خواہش ایک سیکولر پاکستان تھی

share with us

اسی طرح سندھ اور پنجاب کے بے شمار ہندو اور سکھ خاندان ہندوستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں، ان میں سے ایک ملک کے سابق نائب وزیراعظم اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر لال کرشن اڈوانی ہیں جوکچھ عرصہ قبل پاکستان کے خیرسگالی دورہ پرپہونچے تو وہاں کے حکمرانوں او رعوام کی پذیرائی سے متاثر ہوکر وہ باتیں زبان پر لے آئے جو پہلے انہوں نے کبھی نہیں کہی تھیں، اڈوانی جی اور ان کی پارٹی بی جے پی کا موقف ہمیشہ اس کے برخلاف سامنے آیا تھا،خاص طور پراڈوانی جی سے منسوب یہ بیان تو ہندوستان میں استعجاب کے ساتھ سنا گیا کہ بانئی پاکستان محمد علی جناح ایک سیکولر پاکستان بنانا چاہتے تھے، اس بیان پردوسرے نہیں آر ایس ایس سے متعلق بعض حلقے کافی چراغپا ہوئے اور ان کا یہ خیال تھا کہ اڈوانی نے پاکستان کے موجودہ حکمرانوں اور ہندوستان کے مسلمانوں کو خوش کرنے کیلئے یہ کہاگیا ہے۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ بی جے پی کے صدر نے محمد علی جناح کے بارے میں جو کچھ کہا وہ بڑی حد تک صحیح ہے اور اس کی تصدیق کانجی دوارکا داس کی اس رائے سے ہوتی ہے:
’’جناح تقسیم کے خواہشمند نہیں تھے، وہ صرف سودے بازی کرنا چاہتے تھے او رمسلمانوں کیلئے بہتر شرائط طے کرانا، ان کا مقصد تھا، لیکن واقعات اتنی برق رفتاری سے پیش آئے کہ انہیں سچ مچ تقسیم پر راضی ہونا پڑا۔
پھر جب یہ تقسیم وجود میں آئی تو جناح کو پاکستان کا نیا ملک ہی نہیں ملا وہ نتائج بھی وراثت میں بھگتنے پڑے جو اس تقسیم کے نتیجہ میں برآمد ہوئے تھے، انہوں نے خانہ بدوشی اور جلاوطنی کا وہ خوفناک نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا جو تمدنی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ تھا، انہوں نے ہزاروں لہو لہان اور لٹے پٹے ان قافلوں کو دیکھا، جو صدیوں سے ایک ساتھ رہتے بستے آئے تھے لیکن اب اجنی سرزمینوں کی طرف کوچ کررہے تھے، ایک ہی زبان، ایک ہی تاریخ ایک ہی نسل اور ایک ہی تمدن رکھنے کے باوجو د بدقسمتی سے مختلف مذاہب کے ماننے والے تھے،جناح کے لئے یہ سب قطعی غیر متوقع تھا مگر حقیقت پسند رہنماکی طرح انہوں نے یہ کہہ کر مسائل کی شدت کو کم کرنے کی کوشش کی کہ ’’پاکستان میں آج کے بعد کوئی مسلمان کوئی ہندو اور کوئی سکھ یا عیسائی نہ ہوگا سب پاکستانی ہونگے اور ایک قوم کی حیثیت سے ملک کی تعمیر میں حصہ لیں گے‘‘
اس کے بعد جناح کو کسی نے ہنستے نہیں دیکھا، وہ دن بدن گھلتے چلے گئے ، جناح کے درد مند ساتھی، مخلص دوست اور وفادار خادم سب ان کے چڑچڑے پن پر حیران تھے، جب تک وہ حیات رہے ایک پراسرار بے قراری، اضطراب اور شورش جناح پر طاری رہی مگر وہ پاکستان کی بنیادی ضرورت یعنی اس کے دستور کی تیاری میں مصروف رہے کیونکہ وہ اپنی زندگی میں ایک ایسا خاکہ بنا دینا چاہتے تھے جو مستقبل میں ہندوستان اور پاکستان کے مابین حائل خلیج کو پاٹنے میں کام آئے، اس کیلئے جناح کی زبان سے کنفیڈریشن کی بات بھی نکلی لیکن اس کے حق میں فضا کو وقتی طور پر ناسازگار پاکر، اس کی گنجائش پاکستان کے دستور میں زیادہ سے زیادہ نکالنے کی کوشش میں وہ مصروف رہے۔
محمد علی جناح کی زندگی میں اگر یہ دستور بن جاتا تو پاکستان ایک سیکولر ملک قرار پاتا اور ہندوستان کی طرح برطانوی ڈھانچہ پر اس کے دستور کی بنیاد استوار ہوتی لیکن انسان کے اوپر بھی ایک طاقت ہے، جس پر کسی کا بس نہیں چلتا بلکہ وہ بڑے سے بڑے آدمی کو اپنی مرضی پر چلاتی ہے جناح پاکستان کو اپنے خوابوں کا ملک بنانا چاہتے تھے، لیکن قدرت کا فیصلہ کچھ اور ہی تھا، جس دستور کو جناح مکمل کرکے پاکستان میں نافذ کرنا چاہتے تھے، وہ آج تک نہیں بن سکا اور وہ اپنا کام ادھورا چھوڑ کر ستمبر ۱۹۴۸ء میں رخصت ہوگئے اس کے بعد پاکستان ان لوگوں کے ہاتھ میں آگیا جنہوں نے اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جو وہ کرنا چاہتے تھے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا