English   /   Kannada   /   Nawayathi

اردو صحافت اور موجودہ دور

share with us

اسلام کے ابتدائی دور میں بھی اشاعت اسلام کی خاطر اس فن کو آزمایا گیا ۔۔۔اور اس وقت کے شاہوں تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلمنے خطوط ارسال کیے ہیں۔ لیکن وقت کی تبدیلی اور زمانے کی رفتار کے ساتھ بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہے، ہر چیز میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ظاہر ہوئی ہیں لیکن تحریر کی آ ج بھی وہی حیثیت ہے جو پہلے تھی، موجودہ زمانے کی ترقی و تیزی بھی اس کی اہمیت کو کم نہیں کرسکی، موجودہ دور میں پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ عوامی رجحانات میں تبدیلی پیدا کی جاتی ہے، اگر کسی سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کرنا ہو تو اسے اتنی بار لکھیں اور اس شدت سے لکھیں کہ عام آ دمی سوچنے پر مجبور ہوجائے، اور سچ کی اہمیت اس کے دل و دماغ سے محو ہوجائے۔ دنیا سے بادشاہت کے اختتام کے بعد ایک نئیاصطلاح معرض وجود میں آئی جس نے عوامی اذہان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، صدیوں سے چلی آرہی بادشاہت کے نام و نشان مٹادیے گئے، امراء و ارباب حکومت کاسہ گدائی لیکر در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوگئے ، جن کے قدموں نے کبھی زمین کی حدت و برودت محسوس نہیں کی تھی وہ ننگے پاو ں میلوں کا سفر کر بیٹھے۔ اس نئاصطلاح کو آج لوگ جمہوریت کے نام سے جانتے ہیں، جس میں ہر شہری کو برابر کے حقوق حاصل ہے، ہر مذہب کے پیروکار اپنے مذہب پر عمل کرنے کیلئے آزاد ہے، حکومت بنانے اور گرانے کا اختیار عوام کو حاصل ہے جسے چاہا مسند صدارت پر بٹھا دیا اور جس سے چاہا حکومت چھین لی۔ لیکن اس نئی تہذیب اور نئیکلچر میں بھی تحریر کی اپنی حیثیت برقرار رہی بلکہ اس تہذیب نے تو تحریر کو جمہوریت کا چوتھا ستون قرار دیا تاکہ عوام الناس ارباب حکومت کی تمام پالیسیوں سے واقف رہیں، اگر حکومت کوئی غلط پالیسی اپناتی ہے تو بروقت اس پر تنبیہ کی جائے اور عوام کو اس سے آگاہ کیا جائے۔ ہمارا ملک ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے، مسلمان یہاں کی سب سے بڑی اقلیت ہیں غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں کی تعداد 25کروڑ سے بھی زیادہ ہے، دیگر جمہوری ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی اخبار و رسائل کی کثیر تعداد شائعہوتی ہیں تقریبا تمام شہروں میں ان گنت اخبار ہر روز بازار میں آتے ہیں، اگر علاقی زبان کے اخبارات کو چھوڑ دیا جائے تو تین زبان کے اخبار تقریبا ہر جگہ دستیاب ہوتے ہیں، انگریزی، ہندی اور اردو، انگریزی اور ہندی کے اخبارات تو عام ہیں اور انہیں تقریبا ہر علاقہ اور مذاہب کے ماننے والے پڑھتے ہیں لیکن اردو اخبار اب سمٹ کر صرف مسلمانوں کا ترجمان رہ گیا ہے، مسلمانوں کے بڑے بڑے اجتماعات اور احتجاجی جلوس انگریزی اور ہندی کے اخبار میں بمشکل ہی جگہ بنا پاتے ہیں، جبکہ دیگر اقوام کی چھوٹی سے چھوٹی خبر بھی شہ سرخیوں میں شامل ہوتی ہے، غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق اردو اخبارات کے قارئین کی تعداد 3کروڑ ہے جبکہ ہندی اور انگریزی اخبارات کے قارئین کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، اب ایسی صورت میں اگر ہم اپنی کوئی بات اپنے برادران وطن تک پہونچا نا چاہیں تو یہ ایک مشکل امر ہے کیونکہ برادران وطن کی اکثریت اردو سے نابلد ہے اور ہماری خبریں ہندی اور انگریزی اخبارات میں جگہ نہیں بنا پاتی ہیں۔ جب دستور کے مطابق ہمیں سارے حقوق حاصل ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم نے خود کو مقید کرلیا ہے، ہندی و انگریزی صحافت میں ہماری نمائندگی کرنے والے نہیں ہیں اور جو چند ہیں بھی تو وہ ہماری صحیح طریقے سے نمائندگی نہیں کرپارہے ہیں، اس میں قصور ہمارا ہے کہ ہم نے خود کو اردو صحافت میں مقید کرلیا ہے، اب حالات بدل رہے ہیں، لوگوں کے خیالات میں تبدیلی پیدا ہورہی ہے، اخبار و رسائل کی اشاعت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ہر قوم کے پاس ایسے وسائل اور اشخاص موجود ہیں جو اپنی بات دوسروں تک حرف بہ حرف ہر زبان میں پہونچا نے کا کام کرتے ہیں، ہمیں بھی اسی طرح کا لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا اور نوجوان نسل کو صحافت کی اہمیت بتلا کر اردو کے علاوہ دیگر زبانوں میں بھی اپنی قوم کی نمائندگی کرنے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔ اگر ہم اردو صحافت کے علاوہ انگریزی وہندی صحافت میں قدم رکھیں ۔۔۔تبھی ان بے بنیاد اور بے جا اتہمات کا جواب اور ان تمام تر حقائق برادران وطن کے سامنے پیش کرسکتے ہیں جو غلط طریقے سے ان کے ذہن ودماغ میں پیوست کی گئی ہے۔ اس کے لیے ہم نوجوان نسل کو آگے آنا ہوگا اور اردو کے ساتھ ساتھ ہندی وانگلش صحافت میں بھی قدم رکھنا ہوگا۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا