English   /   Kannada   /   Nawayathi

ہم بھی منھ میں زبان رکھتے ہیں

share with us

سبرامنیم سوامی سوسوکر جاگتے ہیں اور رہ رہ کر ان پر حملے کرتے ہیں جن کے لہولہان ہونے سے زعفرانی دنیا خوش ہوسکے۔ اب انہوں نے یہ انکشاف کیا ہے کہ کانگریس کے ہونے والے صدر راہل دوہری شہریت لئے ہوئے ہیں وہ بھارت کے ناگرک بھی ہیں اور برطانیہ کے بھی۔ ان کے ایک بار اس انکشاف سے زیادہ ہلچل نہیں ہوئی تو انہوں نے اس میں زیادہ جوش پیدا کرنے کے لئے سوڈا ملادیا اور انکشاف کیا کہ سونیا گاندھی اور راہل نیز پرینکا کا ڈھائی لاکھ کروڑ روپئے دنیا کے دوسرے ملکوں کے بینکوں میں ہے۔ سبرامنیم نے راہل کے بارے میں کہا کہ وہ سیاست تو تفریح کے لئے کرتے ہیں اصل میں تو وہ تاجر ہیں اور برطانیہ میں بڑی بڑی کمپنیوں میں 60 فیصدکی حصے ان کے ہیں۔ انہوں نے وزیر مالیات جیٹلی پر بھی الزام لگایا کہ انہوں نے ان کے مشورہ پر عمل کیا ہوتا تو کالا دھن لانے میں کامیابی مل جاتی۔
ہمیں نہیں معلوم کہ سبرامنیم کی بی جے پی یا این ڈی اے حکومت میں کیا حیثیت ہے؟ اگر ان کی باتوں کی حکومت کے نزدیک بھی اہمیت ہے تو ڈھول بجانے کے بجائے انہیں دونوں الزامات ثبوت کے ساتھ سُشما سوراج اور راج ناتھ سنگھ کو دینا چاہئے تھے اور یہ حکومت کا فرض تھا کہ وہ اس کانگریس کو جسے ختم کرنا اس کا سب سے اہم مشن تھا ایسا دفن کرتے کہ اس کی وفاداری کا دم بھرنے والے اس کا نام لینا بھی گناہ سمجھتے۔ دوسرے ملک کی شہریت لے کر وہاں اتنا بڑا کاروبار کرنا کہ سیاست صرف تفریح رہ جائے معمولی جرم تو نہیں ہے؟ اور ایسی حالت میں جبکہ وزیر اعظم کے دست راست امت شاہ کا اپنے چہرہ کو حاشئے زاوئے بناکر کہنا کہ ہم نے اتنا سخت قانون بنا دیا ہے کہ اب ایک کوڑی بھی کالے دھن کی ملک سے باہر نہیں جاسکتی۔ اس کا انکشاف کہ ڈھائی لاکھ کروڑ سونیا راہل اور پرینکا کا غیرملکوں میں جمع ہے۔ کیا پیرس سے کم آواز کا دھماکہ ہے؟ جب سبرامنیم کو روپیہ آنہ پائی تک معلوم ہے تو یہ بھی معلوم ہوگا کہ یہ خزانہ کن کن بینکوں میں ہے؟ پھر بجائے اسے برآمد کرکے لانے اور 15-15 لاکھ بانٹنے کے صرف تفریح کے طور پر بیان دینا کیا خود جرم نہیں ہے؟
ہم کانگریس کے نہ حامی ہیں نہ خیرخواہ لیکن ہم ایک مہینہ پہلے لکھ چکے ہیں کہ ہم یہ برداشت نہیں کریں گے کہ بی جے پی کے مقابلہ کی واحد قومی پارٹی دفن ہوجائے اور نہ اسے برداشت کریں گے کہ مودی صاحب نہرو گاندھی پریوار پر جھوٹے الزامات کے کوڑے برساتے رہیں اور کوئی یہ کہنے والا نہ ہو کہ بڑبولے پن کا انجام بہار میں دیکھنے کے بعد بھی وزیر اعظم بننا نہ آیا؟ سبرامنیم کو جواب دینے کے بجائے راہل گاندھی نے مودی صاحب پر زبردست حملے کرکے کہا کہ 56 اِنچ کا سینہ اگر ہے تو مہنگائی کم کراؤ۔ 100 روپئے کلو گاجر اور 65 روپئے کلو ٹماٹر بکیں گے تو غریب بابا رام دیو سے معلوم کرے گا کہ اب کون سی سبزی کھائے؟
اپنی دادی اندرا گاندھی کی جینتی مناتے وقت راہل نے سفید بالوں والے مودی کو برابر کا سمجھتے ہوئے ان کے لہجے میں ہی للکارا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اپنے ایجنٹوں سے بغلی حملے کرانے کے بجائے ثبوت لاؤ اور جیل بھیج دو۔ راہل نے ایک بار نہیں کئی بار کہا کہ میں مودی سے نہیں ڈرتا۔ بہار کی چار سیٹوں سے 27 سیٹیں جیتنے والے راہل کی چھاتی 23 اِنچ زیادہ چوڑی ہوچکی ہے اور اب بہار حکومت میں اس کی تھوڑی سی بھی شرکت اور وہاں سے مودی کی برخاستگی چھوٹی بات نظر تو آتی ہے۔ لیکن یہ وہ کامیابی ہے جس نے لوک سبھا کے 44 کو طاقت کے انجکشن لگا دیئے ہیں۔
سبرامنیم سوامی نے راہل کی دوہری شہریت کے مسئلہ کی طرف لوک سبھا کے اسپیکر کو توجہ دلائی ہے۔ ان کی اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید ان کی بات میں دم نہیں ہے۔ یہ مسئلہ ایک تو وزارت خارجہ کا ہے دوسرا داخلہ کا۔ ان دونوں کو چھوڑکر اسپیکر سے درخواست کرنا کہ اس کی تحقیق کرائیں۔ کیا مضحکہ خیز نہیں ہے؟
سبرامنیم سوامی نے اعتراف کیا ہے کہ مہنگائی پر مکمل کنٹرول نہیں ہوپایا ہے۔ حیرت ہے کہ وہ مکمل اور نامکمل کی بات کررہے ہیں جبکہ 2014 ء سے ہر چیز کی قیمت دوگنی ہوچکی ہے۔ وہ سوامی حکومت میں آنے کے لئے کتنے بے چین ہیں اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کہا کہ اگر وہ وزیر خزانہ ہوتے تو چھ مہینے کے اندر اندر مہنگائی پر پورا کنٹرول کرلیتے اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے حکومت کو بیرونِ ملک سے ایک لاکھ 20 کروڑ روپئے کی بلیک منی لانے کے لئے چھ نکاتی مشورہ دیا تھا جن پر حکومت نے مکمل طور سے عمل نہیں کیا۔ ان دونوں باتوں سے بلی تھیلے کے باہر آگئی ہے اور ان کی یہ حسرت سامنے آگئی ہے کہ وہ وزیر خزانہ بننا چاہتے ہیں۔ لیکن شاید وہ نہیں جانتے کہ مودی کی ٹیم میں نہ رن بنانے والے کی جگہ ہے نہ وکٹ لینے والے کی۔ بس ان کی جگہ ہے جن کے منھ میں زبان نہ ہو اور وہ چلے تو مودی کے قصیدہ کے لئے چلے۔
26 مئی 2014 ء کے بعد ڈاکٹر منموہن سنگھ، سونیا گاندھی اور راہل گاندھی سکتہ میں آگئے تھے۔ مودی کا اٹھتے بیٹھتے یہ کہنا کہ ’کانگریس نے جو ساٹھ برس میں نہیں کیا وہ میں ساٹھ مہینے میں کرکے دکھا دوں گا۔‘ کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا لیکن مودی صاحب تو ہر کسی کی توقع سے زیادہ کاغذی شیر نکلے اور ایک سال کے اندر ہی خواص نے نہیں عوام نے بھی سمجھ لیا کہ ان کے پاس صرف آواز ہے اور ایسے مداریوں کی نقل جو یا جانوروں کو ڈگڈگی پر نچاتے ہیں یا جھمورے سے سوال جواب کرتے ہیں اور غضب اس وقت ہوا جب وہ دہلی میں ایسی ٹیم سے بری طرح ہارے جو اسٹیڈیم میں نہیں محلہ کی سڑک پر پریکٹس کیا کرتی تھی اور یہ دہلی کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے کہ کرن بیدی نام کی انتہائی دیانتدار سابق افسر مودی پر اعتماد کی چتا پر بیٹھ کر ایسی جلی کہ اب کوئی اس کا نام بھی نہیں لیتا۔ اور آج نتیش کمار نام کا سب سے بڑا مودی دشمن پورے ملک کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اور جسے وزیر اعظم بنانے پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جاسکتا ہے۔ یہ نتیش سے دشمنی کا ہی نتیجہ تھا کہ انہوں نے بہار کے الیکشن کی سرپرستی نہیں کی بلکہ اپنے کو جھونک دیا صرف اس آگ کو بجھانے کے لئے جو نتیش نے ان کے کلیجے میں لگائی تھی اور انجام نے انہیں دکھا دیا کہ جو کوئی حدوں کو پھاندنے کی غلطی کرتا ہے وہ منھ کے بل ہی کسی کھائی میں گرتا ہے۔ لندن میں جو انہیں بے عزتی کا سامنا کرنا پڑا وہ بھی بہار کی ہی سزا تھی اور وارننگ کہ اب کہیں بھی حدیں پار کرنے کی غلطی نہ کریں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا