English   /   Kannada   /   Nawayathi

مغربی ملکوں میں ملے جلے خاندانوں کے طرف رجحان

share with us

اس کی اچھائیوں کی تلاش ہورہی ہے، اس پر مضامین لکھے جارہے ہیں، جو لوگ الگ الگ رہتے ہیں ان کی پریشانیوں کو بیان کیا جارہا ہے لیکن پرانے زمانے کے مخلوط خاندان کے طور طریقے اپنانے کا ابھی سلسلہ وہاں شروع نہیں ہوا ہے۔
گزشتہ دنوں برطانیہ کے ماحولیات اور کیفیات پر شائع ہونے والے کئی رسائل نے ایسے تجزیے اور مضامین شائع کئے ہیں جن میں ملے جلے خاندانوں کو ماحولیات کے لحاظ سے مفید قرار دیا گیا ہے، یہ تحریریں تعلیمی اداروں اوریونیورسٹیوں کے ذریعہ کرائے گئے سروے پر مبنی ہیں، جبکہ امریکہ کی مشی گن یونیورسٹی کی تحقیق کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ مشترکہ خاندان جس عمارت میں سکونت اختیار کرتا ہے وہاں مکان بنانے والے سامان اور لکڑی وغیرہ کافی نفر استعمال کم ہوتا ہے جبکہ علاحدہ خاندان زیادہ جگہ گھیرتے ہیں اسی طرح مشترکہ خاندان میں توانائی کی اوسط کھپت کم ہوتی ہے اور چھوٹے خاندان زیادہ توانائی استعمال کرتے ہیں۔
ماحولیات سے متعلق ان تجزیاتی رپورٹوں میں توانائی اور قدرتی وسائل کے استعمال پر ہی روشنی ڈالی گئی ہے، انسانی عادت واطوار پر مرتب ہونے والے اثرات کو موضوع گفتگو نہیں بنایاگیا، لیکن کچھ عرصہ کے دوران مخلوط اور چھوٹے خاندانوں کے بارے میں متعدد ماہر عمرانیات اور نفسیات نے اپنی تحقیق کے ذریعہ یہ انکشاف کیا ہے کہ مخلوط خاندان انسانوں کو زیادہ خود اعتماد برداشت کا عادی بنانے کے ساتھ ساتھ عملی بنانے میں کافی مددگار ثابت ہوتا ہے، اس میں دوسروں کے لئے ہمدردی کا جذبہ فروغ پاتا ہے۔ اس کے برخلاف الگ رہنے والے چھوٹے گھرانوں کے بیشتر بچے خود غرضی اور قوت برداشت کی کمی کے شکار ہوتے ہیں ، ان میں مادی سہولتوں کے تئیں خاص رغبت ہوتی ہے اور ان کا مزاج عام طور پر غیرجمہوری ہوتا ہے۔ 
اس طرح کے جائزوں کی رپورٹیں جب شائع ہوتی ہیں تو مغربی ملکوں میں ان سے ہلچل تو ہوجاتی ہے لوگ بحث ومباحثے بھی کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ عمل پر لوگوں کو راغب نہیں کرتیں کیونکہ مادی وسائل اور روز افزوں سہولتوں کے عادی ہوکر لوگ ان میں کمی آنے کے خدشہ سے ہی گھبراجاتے ہیں اور مشترکہ خاندان کی طرف لوٹنے کی ہمت نہیں کرتے۔
اس صورت حال سے مشرق کے رہنے والے بہت کچھ سبق لے سکتے ہیں خاص طور پر جن طبقوں میں آج بھی مل جل کر رہنے بسنے اور اپنی خوشیاں نیز غم بانٹنے کا چلن ہے انہیں ایک نعمت سمجھ کر اس کی قدر کرنا چاہئے اور مغرب کی تقلید میں اس صحت مند روایت کو چھوڑنے سے پرہیز کرنا چاہئے۔(یو

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا