English   /   Kannada   /   Nawayathi

تہواروں کی ضرورت و اہمیت

share with us

وہ ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا ۔کبھی خوش ہوتا ہے تو کبھی رنجیدہ ۔کبھی محبت کرتا ہے تو کبھی نفرت۔ اپنوں یا اپنے جیسے لوگوں سے وہ لڑتا جھگڑتا ، مارتا مرتا ہے تو کبھی صلح امن و شانتی سے زندگی بسر کرتا ہے ۔ اسے بدلاؤ ، آگے بڑھا اور نیا کچھ کرنا پسند ہے ۔ شادی بیاہ کی تقریبات اس کے سکون کا باعث ہوتی ہیں ۔ تو تہوار مل کر خوشی منانے کا ذریعہ ۔ تہوار کسی مذہبی و سماجی واقع کی یاد ، نئی فصل کے آنے کی خوشی اور تاریخی شخصیات کی روایات جاری رکھنے کے لئے منائے جاتے ہیں ۔اس لئے ان کی شروعات پوجا یا عبادت سے ہوتی ہے ۔

ہر خطہ و علاقہ کے لوگوں کا رہن سہن ، زبان ،تہذیب ، اقدار ، سماجی روایات ، مذہبی نظریات و عقائد الگ ہیں ۔ سب کی آستھا کا مرکز بھی الگ ہے اس لئے الگ الگ مقامات پر الگ الگ تہواردھوم دھام سے منائے جاتے ہیں ۔اس موقع پر انسان آپسی اختلافات مٹا کر دوسروں کے ساتھ خوشیاں بانٹتا ہے ۔ تہواروں کی شروعات جس نے جب بھی کی ہو ان میں انسانی ، سماجی و معاشی پہلو شامل ہیں۔تہوارو ں سے آپسی محبت ، میل ملاپ ، رواداری اور تعلقات میں اضافہ تو ہوتا ہی ہے سماجی بندھن بھی مضبوط ہوتے ہیں ۔طفری طور پر انسان کمزوروں ، مجبوروں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کے لئے آگے بڑھتا ہے ۔ دوسری طر ف تہواروں کے ساتھ ایسی روایتیں جڑی یا جوڑی گئی ہیں جن کی وجہ سے انسان اپنی استعداد کے مطابق دولت خرچ کرتا ہے ،۔اس طرح تہوار دولت کے سرکولیشن کا ذریعہ بنتے ہیں ۔جب دولت بازار میں آتی ہے تو اس کا سبھی طبقات کو فائدہ ہوتا ہے ۔پرانے زمانے میں کئی کام گاروں کی زندگی انہیں تہواروں پر منحصر تھی ۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تہوار ایسے وقت منائے جاتے ہیں جب لوگوں کے پاس خرچ کرنے کے لئے پیسے ہوتے ہیں۔ مثلا فصل کٹنے کے بعد یا موسم تبدیل ہونے کے وقت ۔تہواروں کے بہانے ایسی چیزیں گھروں میں آتی ہیں جن کی بعد میں ضرورت ہوتی ہے ۔مثال کے طور پر نئے برتن ، کپڑے ، سوکھے میوے ، پھل ، تل سے بنے سامان اور مٹھائیاں وغیرہ ۔

بھارت تہذیبی و روایتی تہواروں کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے کہا جاتا ہے کہ یہاں ہر ماہ تہوار کا جشن منایا جا سکتا ہے ۔ یہ ایک جمہوری ملک ہے یہاں گوناگوں مذاہب ، عقائد ، تہذیبوں اور ذاتوں کے لوگ بڑی تعداد میں رہتے ہیں ۔ہر مذہب و عقیدت کے ماننے والوں کے اپنے تہذیبی و روایتی تہوار ہیں کچھ تہوار ایسے ہیں جنہیں سب مل کر مناتے ہیں ۔ ہر تہوار کا جشن منفرد طریقہ سے اس سے منسلک لوگوں کے رسم و رواج اور تاریخی اہمیت کے لحاظ سے منایا جاتا ہے ۔بھارت کے جو لوگ غیر ممالک میں رہتے ہیں وہ بھی وہاں ان تہواروں کو پورے جو ش کے ساتھ مناتے ہیں ۔ یہ ایسا ملک ہے جو عدم مشابہت کے با وجود متحد ہونے کی مثال ہے یہاں ہندو مسلم سکھ جین بدھ عیسائی پارسی اور یہودی وغیر ایک ساتھ رہتے ہیں ۔ کچھ تہوار ملکی تو کچھ صوبائی سطح پر منائے جاتے ہیں ۔ جمہوریت کا بھی اپنا جشن ہوتا ہے جس کا اہتمام سرکار کرتی ہے وہ روایتی تہواروں سے الگ ہے ۔
ہمارے ملک کے بڑے تہواروں میں مہا شیو راتری ، رکشا بندھن ، دسہرا، دیوالی ، ہولی ، رام نومی ، لوہڑی ، پونگل ، گرو پورنما ، اونم ، گنیش چترتھی ،درگا پوجا ، عید میلاد النبی ، شب برات ،عید الفطر ، عید الااضحی، محرم ،گرونانک جینتی ، گرو پرو ، مہاویر جینتی ، پریوشن ، گڈ فرائی ڈے ، کرسمس ، بدھ پرنما ، وغیرہ اہم ہیں ۔ الگ الگ تہواروں میں الگ الگ رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ دسہرے کے بعد دیوالی روشنی کا تہوار ، دسہرا برائی پر اچھائی کی جیت کی خوشی میں منایا جاتا ہے اسی طرح عربی سال کے پہلے مہنیہ محرم کی دسویں تاریخ کے ساتھ بھی کئی یادیں جڑی ہیں ۔حضرت حسین ؑ کی شہادت ان میں سے ایک ہے ۔حضرت حسین نے اسلامی حکومت ’’ خلافت ‘‘ (دانشوروں کے ذریعہ چنی ہوئی سرکار)کو شہنشایت میں بدلنے یعنی باپ کے بعد بیٹے کو خلیفہ (حکومت کا سربراہ) بنائے جانے کے خلاف آواز اٹھائی تھی ۔اس احتجاج کی وجہ سے ان کو اور ان کے خاندان کے تمام مردوں کو بچوں سمیت قتل کر دیا گیا تھا ۔سوائے زین العابدین کے جو اس وقت شدید بیمار تھے ۔حق کی آواز اٹھانے کے لئے انہیں ہر سال یاد کیا جاتا ہے تعزیہ نکالے جاتے ہیں اور یاد کیا جاتا رہے گا ۔ اسی طرح آدرش وادی رام کو راون یعنی برائی ، گھمنڈ ، ظلم زیادتی اور انسانیت کے دشمن کا خاتمہ کر نے کے لئے یاد کیا جاتا ہے دسہرے میں ہر سال علامتی کرداروں کے ذریعہ اس واقع کو دہرایا جاتا ہے ۔راون کا دہن ( سپرد آگ ) کیا جاتا ہے ۔ بچے اور بڑے سب برائی پر اچھائی کی جیت پر خوشی مناتے ہیں ۔لیکن اپنے اندر کے راون اور یزید ( کنبہ پروری ) کو مارنے یا خاتمہ کرنے کو کوئی تیار نہیں ہے ۔

آدرش وادی رام کی واپسی پر ایودھیا کے لوگوں نے اماوس کی کالی رات کو چراغاں کرکے روشن کردیا تھا ان کے آنے کی خوشی میں گھروں کو سجایا گیا ۔ لوگ ایک دوسرے کے گلے ملے ، مٹھائیاں کھائی کھلائی گئیں ، تحفے بانٹے گئے یہ روایت آج بھی جاری ہے اور جاری رہے گی ۔میں نے اپنے بچپن میں دیکھا ہے کہ دیوالی میں مٹی کے دےئے سرسوں یا تل کے تیل سے رنگ برنگی کنڈیلوں میں جلائے جاتے تھے ۔ مٹی کی مورتیاں و کھلونے بنتے تھے ۔ دیوالی کے موقع پر ان کی خوب خریداری ہوتی تھی مٹی کے دیوں میں سرسوں یا تل کے تیل کے جلنے سے ماحول صاف ہوتا تھا ۔ گلابی موسم میں جن کیڑوں یا جراثیم میں جان آجاتی تھی وہ تیل کے جلنے سے ختم ہو جاتے تھے ۔ دوسری طرف مٹی کا کام کرنے والے کمہاروں کو روزگار ملتا تھا ۔اب دیوں کی جگہ موم بتی نے لے لی ہے بڑے شہروں میں چین سے لائی گئی جھالر کا استعمال ہوتا ہے ۔ موم بتی ماحو ل کو آلودہ کرتی ہے بجلی سے جلنے والی جھالر کیٹ پتنگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے ۔ پھر دیوالی پر جس کاروبار کا اپنے ملک کے لوگوں کو فائدہ ملتا تھا وہ فائدہ غیر ممالک کو جا رہا ہے ۔
جبکہ اپنے ملک کے لوگ محرومی ، غریبی و بے روزگاری کی مار جھیل رہے ہیں ۔

دیوالی سے ایک دن قبل ملک کے کچھ حصوں میں کالی کی پوجا کی جاتی ہے ۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ اس دن کالی نے مہسا یا بھنسا سر کو مارا تھا ۔ اس نے دنیا کے نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی تھی ۔وہ قدرت کو چیلنج کر خود خدا بننا چاہتا تھا ۔دسہرے سے پہلے درگا کی پوجا ہوتی ہے ۔درگا دنیا سے ظالموں کا خاتمہ کرنے کے لئے آئی تھی سچائی یہ ہے کہ جب بھی انسان نے قدرت کو چیلنج کر دنیا میں ظلم وزیادتی ، نفرت ، پاپ اور فطرت کے خلاف کچھ کرنے کی کوشش کی اور توحید کا انکار کیا تب قدرت نے اپنی موجودگی کا احساس کرایا ۔ ظالموں کو ان کے کئے کی سزا ملی ۔ دیوالی کے دیوں سے بھی یہ پیغام ملتا ہے کہ اندھیرا کتنا ہی گھنا کیوں نہ ہو وہ اجالے کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔ ایک چھوٹا سا دیا جلتے ہی اندھیرا دور بھاگ جاتا ہے یعنی برائی کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو وہ اچھائی کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۔ان تہوارو ں کے ذریعہ یہ سبق یاد دلانے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ انسان حالات سے گھبرا کر مایوس نہ ہو ۔دیوالی میں روشنی علامت ہے اچھائی کی ایسی امید کی جاتی ہے کہ جو روشنی کو پسند کرتا ہے وہ کسی کی زندگی میں اندھیرا نہیں کر سکتا ۔دیوالی کے دیوں سے دنیا کو روشن کرنے کے ساتھ تن من کو بھی روشن کیا جائے تاکہ یہ روشنی پورے ملک کو خوشیوں سے بھردے ۔

سردی شروع ہونے سے پہلے دسہرا ، دیوالی ، سردی میں لوہڑی اور سردی کے خاتمہ پر ہولی کا تہوار منایا جاتا ہے ۔ لوہڑی اور ہولی میں نئی فصل کی آمد پر ایک دوسرے کو رنگ لگا کر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔تمل ناڈو میں پونگل اور کیرلا میں اونم جیسے اہم تہوار بھی فصل کاٹنے کے بعد ہی منائے جاتے ہیں ۔ مہاویر جینتی ، جنم آشٹمی ، بدھ پرنما ، گرونانک گروگوند سنگھ جینتی ،کرسمس ان عظیم شخصیتوں کی تاریخ پیدائش کی یاد میں منایا جاتا ہے جبکہ عید میلا دالنبی پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے یوم ولادت کے طور پر ۔ ایک ماہ کے روزوں کے بعد عید الفطر کی خوشی نصیب ہوتی ہے ۔ایک ماہ کے روزے بھوک پیاس کا احساس کرانے کے لئے کافی ہیں ۔اسلام نے ان روزوں کے ذریعہ یہ احساس کرانے کی کوشش کی ہے کہ جن کے پاس کھانے پینے کو نہیں ہے ان کی زندگی کیسے گزرتی ہے تاکہ اسلام کے ماننے والے محروموں ، ناداروں اور کمزوروں کا خیال رکھیں ۔روزے کے دنوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ مسلمان غریبوں ،محتاجوں ، بیواؤں اور بے سہارا لوگوں کی دل کھول کر مدد کرتے ہیں ایک ماہ کے روزوں کے بعد عید آتی ہے جس میں لوگ ایک دوسرے سے مل کر سوئیں اور شیر کھا کھلا کر خوشیاں بانٹتے ہیں ۔ عید الضحیٰ حضرت ابراہیم ؑ کی سنت کو زندہ کرنے کے لئے منائی جاتی ہے ۔رکشا بندھن بھائی بہن کی محبت اور ذمہ داری کی علامت ہے جبکہ تیج خواتین کو ہارملہار، گیت گانے ، بارش کی پھوار میں جھولا جھولنے اور دل خوش کرنے کا موقع دیتا ہے ۔

تہواروں سے دولت اور وسائل کی تقسیم ، رواداری ، محبت و اخوت اور سماجی رشتوں کو فروغ ملتا ہے ۔ یہ ایسے مواقع ہوتے ہیں جب انسان اپنی خوشیاں ہی نہیں بلکہ ساجھا وراثت کو بھی بانٹتے ہیں جسے گنگا جمنی تہذیب کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔یہ ساجھا وراثت ہی ہم بھارت واسیوں کی پہچان ہے جو ہمیں دوسرو ں سے الگ کرتی ہے شاید ان تہواروں کی بدولت ہی ہم مل کر رہنے اور مل کر ساتھ چلنے میں یقین رکھتے ہیں ۔جن ملکوں میں سماجی رشتے خراب ہیں اور وسائل کی تقسیم میں نا برابری پائی جاتی ہے وہاں رد عمل کی تحریکیں سر گرم ہیں ۔ ضرورت ہے تہواروں کی اہمیت کو ضرورت کو سمجھنے اور ان میں پوشیدہ پیغام کو آگے بڑھانے کی کیونکہ یہی ہمارا مزاج ہے اور اسی میں ہمارے قلب اور ملک کی آمن و شانتی چھپی ہے ۔(

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا