English   /   Kannada   /   Nawayathi

پیرس حملوں کے ممکنہ نتائج

share with us

داعش کے اس درجہ خطرناک ثابت ہونے کے بعداب لوگوں کے دل و دماغ سے دوسری دہشت گردتنظیموں اورگروپوں کی یادیں محو ہوتی جارہی ہیں اورعالمی سیاسیات و امن پر نگاہ رکھنے والے تجزیہ کاروں کا مانناہے کہ داعش فی الوقت دنیاکی سب سے بڑی انتہاپسندتنظیم ہے،طاقت و قوت کے اعتبار سے بھی،اقتصادی و اسلحہ جاتی سہولیات و فراوانی کے اعتبار سے بھی اوراس کے لگاتار پھیلتے ہوئے دائرے کے اعتبار سے بھی۔جی ٹونٹی کے سربراہ اجلاس میں روسی صدرولادیمیرپوتن کے اس انکشاف نے بھی بحث کا ایک نیادروازہ کھول دیاہے کہ داعش کودنیابھر کے چالیس ممالک کی امداد و معاونت حاصل ہے اور ان میں کئی جی ٹونٹی کے ممالک بھی شامل ہیں۔فرانس پراس کے حالیہ حملوں کے مضمرات و عواقب کے تعلق سے بھی تجزیہ کاراورمبصرین کی مختلف آراسامنے آرہی ہیں، ان حملوں کے اسباب پر گفتگو کرتے ہوئے بعض لوگوں کاکہناہے کہ چوں کہ فرانس شام میں داعش کے خلاف چلائی جانے والی مہم کا حصہ بناہے؛اس لیے داعش نے اسے نشانہ بنایاہے اورحملے کی خبروں میں توباقاعدہ بتایاگیاہے کہ گولی باری کے دوران حملہ آور یہ کہہ بھی رہے تھے کہ فرانسوااولاندکوشامی مہم میں نہیں کودناچاہیے تھا۔
ان حملوں کے بعدکاجومنظرنامہ ہے ،وہ نہایت ہی پیچیدہ ہے اور پیچیدہ تر ہوتاجارہاہے،بعض لوگوں کاماننا ہے کہ یہ کھڑاگ منظم طورپررچاگیاہے اور اس کے پس پردہ مقصدمشرقِ وسطیٰ،شام و عراق وغیرہ سے کثیر تعداد میں آنے والے مہاجرین پر یورپ کادامن تنگ کرنا ہے،انھیں یورپ میں داخلے سے روکنا ہے، ایسااندیشہ بھی ظاہرکیاجارہاہے کہ جس طرح ۲۰۰۱ء میں امریکہ نے ورلڈٹریڈسینٹرپرحملے کا مفروضہ قائم کرکے افغانستان اور اس کے بعدعراق کے خلاف خوں ریزجنگ چھیڑی تھی،ہونہ ہوفرانس بھی آنے والے دنوں میں کچھ ایسا ہی کرنے کا ارادہ رکھتاہو،حملے کے بعد فرانسیسی صدرکابیان بھی آیاہے کہ وہ دہشت گردی سے پوری سختی و بے رحمی سے نمٹیں گے۔ترکی کے انطالیہ میں بیس بڑے ممالک کے گروپ کے سربراہ اجلاس پر بھی فرانس حملے کاسایہ صاف طورپر محسوس کیاگیاہے اور عالمی رہنماؤں نے اپنے اپنے طورپردہشت گردی کے چینلنج سے نمٹنے کی ضرورت پرگفتگوکی ہے۔اس موقعے سے ترکی کے صدررجب طیب اردوگان نے دہشت گردی اور مہاجرت کے مسئلے کوالگ الگ کرتے ہوئے بہت ہی واضح اور شفاف اعلان کیاکہ دہشت گردی سے ہماری لڑائی مشترکہ ہے اور اس کے خاتمے تک ہماری جدوجہد جاری رہے گی،مگراس کے ساتھ ساتھ مہاجرین کوپناہ دینے کے سلسلے میں بھی ہمارا موقف وہی رہے گا،جواب تک ہے اورانھوں نے دوسرے یورپی ممالک سے بھی اس کی اپیل کی کہ اپنے ملکوں میں مہاجرین کوپناہ دینے میں کسی تحفظ کااظہار نہ کریں۔
دوسری جا نب خبرہے کہ اسرائیل دہشت گردی کے حوالے سے وجودپذیرہونے والے اس نئے ماحول کی آڑمیں اپنے صہیونی مقاصدکی برآری کی تدبیریں کر رہاہے،داعش کے خلاف جوعالمی نفرت و ناپسندیدگی کا رجحان پایاجاتاہے،اس کووہ فلسطین کے مزاحمتی گروپ حماس کے تئیں بھی پیداکرنے اور فروغ دینے کی سازش میں ہے،اس طرح وہ عالمی برادری کے دلوں میں حماس کے تعلق سے وہی نفرت و کراہیت کے بیج بونا چاہتاہے،جوفی الوقت داعش کے تعلق سے پائی جاتی ہے۔ہفتہ کے دن اپنی کابینہ کی ہفتہ وارمیٹنگ سے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہونے اعلان کیاکہ ’ان کی حکومت اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرانس کے ساتھ ہے اوروہ بھی توقع کرتی ہے کہ فرانس سمیت دنیاکے دوسرے ممالک دہشت گردی کے خلاف اس کی چھیڑی ہوئی جنگ میں اس کی معاونت کریں گے‘اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی وزیر اعظم نے فرانس میں مقیم پچاس ہزاریہودیوں کومحتاط رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے ڈھکے چھپے اندازمیں انھیں اسرائیل ہجرت کرنے کی بھی دعوت دی ہے۔اسرائیلی اخبار’اسرائیل ٹوڈے‘کی تصریحات کے مطابق اسرائیلی حکومت نے فرانس کے ساتھ پیرس حملوں کے تعلق سے کچھ سربستہ راز،اسی طرح آیندہ یورپی ممالک کودرپیش اس قسم کے خطروں سے متعلق معلومات شیئرکی ہیں۔ اخبارکے مطابق اسرائیل سے تعلق رکھنے والے سیکورٹی کے ماہرین اور تجزیہ کاروں کامانناہے کہ پیرس میں جوحملے ہوئے ہیں ان کی وجہ یورپی ملکوں میں شامی مہاجرین کابکثرت وروداوراس سلسلے میں یورپی حکومتوں کی لاپروائیاں ہیں،یعنی ان حکومتوں کوشامی مہاجرین کوپناہ دینے سے متعلق تفتیش و تحقیق کے سخت قوانین بنانے چاہیے تھے اوران ہی کے مطابق مہاجرین کوپناہ دینی چاہیے تھی۔
فرانس میں پہلے سے بھی مسلمانوں کے تعلق سے متعصبانہ ماحول پایاجاتا ہے اور وقفے وقفے سے کبھی پردہ تو کبھی اسکول اور ڈاڑھی وغیرہ کے معاملوں میں مسلم نوجوان لڑکوں اورلڑکیوں کونسلی امتیازوعصبیت کا سامنا کرنا پڑتارہتاہے،اب اِس حملے کے بعد بہت ممکن ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ماحول مزید ناگفتہ بہ ہوجائے ؛بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ انفرادی طورپرمسلمانوں پر حملوں کاسلسلہ بھی شروع ہوجائے،تعصب کانیادورتوشروع ہوہی چکاہے؛چنانچہ فرانس کے وزیر داخلہ کی طرف سے متعددمسجدوں کے مقفل کیے جانے کا اعلان صادرہواہے،فرانس کی دائیں بازوکی سیاسی پارٹیوں نے بھی وہاں کے اسلام پسندوں کے خلاف سرکاری کارروائیاں تیزکرنے کا مطالبہ کررہی ہیں،مشتبہ دہشت گردوں پرشکنجہ کسنے کے لیے حکومتی اہل کاروں کی چھاپہ مارکارروائیاں بھی شروع ہوچکی ہیں اوران کارروائیوں میں بے قصور مسلمانوں کازدمیں آناکوئی بعید نہیں۔
اسرائیل اس پوری صورتِ حال کواپنے حق میں سمجھتاہے اور وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی تدبیریں کررہاہے،ابھی جی۔۲۰کے ملکوں کا سربراہ اجلاس بھی ہواہے ،جس میں دنیابھر کے چوٹی کے قائدین جمع تھے اور چوں کہ ان سب کے سامنے بحث و مذاکرے کا اہم ترین موضوع پیرس حملہ ہی تھا اور واقعتاً وہ لوگ اسی موضوع پرزیادہ تر توجہ صرف بھی کیے ہوئے تھے،ایسے میں فلسطین اور فلسطین میں اسرائیل کے ہاتھوں جاری قتل و غارت گری جیسا موضوع پس منظرمیں چلاجائے گا،دنیاکے سامنے فلسطین یا شامی مہاجرین کا مسئلہ اتنا اہم نہیں رہ جائے گا ،عالمی قوتوں کی نگاہیں داعش کی جا نب مرکوزہوں گی،دہشت گردی کے خلاف جنگ کی نئی سمتیں تلاش کی جائیں گی اور نئے اہداف کی جانب رخ کیا جائے گااوراس طرح مسئلۂ فلسطین ایک بار پھرلمبی مدت تک کے لیے عالمی منظرنامے سے اوجھل ہوجائے گا۔ہمیں پیرس حملوں،ان کے طریقہ ہاے کاراوران حملوں کے تئیں اٹھنے والے سوالات سے مطلب نہیں،ہمیں ان حملوں کی اُوٹ سے اُبھرنے والے نئے گلوبل منظرنامے میں جھانکنے اوراسے غورسے دیکھنے کی ضرورت ہے،ترکی اور سعودی عرب سمیت وہ تمام عربی اسلامی ممالک جو فرانس کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کررہے ہیں،ان کااقدام صحیح ہے ،مگرساتھ ہی انھیں اپنے کان کھڑے رکھنے ہوں گے،اسرائیل اس قسم کے حالات سے ناجائز فائدہ اٹھانے کا نہ صرف خواہاں ہے؛بلکہ وہ اس کے لیے عملی تدبیریں بھی شروع کرچکاہے۔جامعہ حیفامیں سیاسیات کے پروفیسراسعدغانم نے الجزیرہ چینل کودیے گئے اپنے انٹرویومیں اسی خطرے کی نشان دہی کی ہے،انھوں نے کہاہے کہ پیرس جیسے حملوں سے فلسطین کی آزادی کی تحریک کوسخت نقصان پہنچے گا،جیساکہ نائن الیون جیسے تجربات ہمارے سامنے ہیں،ان کاکہنایہ بھی ہے کہ ایسے سانحات سے بشارالاسدجیسے ڈکٹیٹروں کوبھی سیاسی فائدہ پہنچے گا؛ کیوں کہ عالمی برادری کی نگاہیں ان پر سے ہٹ جائیں گی اور وہ اپنی سرگرمیاں انجام دینے میں بہت حدتک بے خوف ہوجائیں گے،یہی حال اسرائیل کابھی ہے کہ جب عالمی طاقتوں کی توجہ داعش جیسی قوت کے ذریعے سے وجودمیں آنے والے حالات پرہوگی،توفطری طورپرفلسطین اور مسئلۂ فلسطین حاشیے پرچلاجائے گا اور اس طرح دہشت گردی سے جنگ کی آڑمیں اسرائیل کونئی یہودی بستیاں بسانے،فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے اور انھیں بے خانماں کرنے کا معقول موقع ہاتھ آجائے گا۔(ی

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا