English   /   Kannada   /   Nawayathi

اسلاموفوبیا کے چیلنج کا مقابلہ، اسلام کے صحیح تعارف سے

share with us

جارج بش کا صلیبی جنگ کیلئے لگایا گیا نعرہ ہو یا پیغمبر اسلام ﷺ پر تشدد کی تعلیم دینے کا الزام یا جہاد کو تشدد سے تعبیر کرنے کی حکمتِ عملی ، سب کے پسِ پشت ایک ہی مقصد کارفرما ہے کہ اسلام کو ایک جارح مذہب ثابت کرکے اس کی مقبولیت پر روک لگائی جائے۔حالانکہ اسلام امن، سلامتی، اعتدال اور سہولت کا مذہب ہے، تشدد، بدامنی ، انتہا پسندی، شدت اور دہشت گردی سے اسلام کا وہی رشتہ ہے جو روشنی کا اندھیرے سے، نور کا ظلمت سے اور سچائی کا جھوٹ سے ہوتا ہے۔
جہاں تک تاریخی پس منظر کا سوال ہے تو صلیب وہلال یا دوسرے الفاظ میں مغرب اور اسلام کی یہ کشمکش کافی پرانی ہے۔ عروج اسلام کے بعد سے عیسائی دنیا نے مسلمانوں پر کروسیڈ کے نام سے ایک دو نہیں سات صلیبی جنگیں مسلط کیں، جو بالآخر سلطان صلاح الدین ایوبی، کی فتح پر انجام کو پہونچیں، اُس وقت شاہ لوئی نہم نے مسلمانوں سے رہائی حاصل کرنے کے بعد اہل مغرب کونصیحت کی تھی کہ ’’اگر تم مسلمانوں پر فتح حاصل کرنا چاہتے ہو تو فوج کشی کے بجائے ان کے عقید ہ پر ضرب لگاؤ تاکہ مسلمانوں کی آئندہ نسلیں پکے ہوئے پھل کی طرح تمہاری جھولی میں گرجائیں‘‘، شاہ فرانس کی اس نصیحت پر یوروپ کے حکمرانوں سے زیادہ مستشرقین اور عیسائی مبلغین نے توجہ دی، پاپائے روم کی اسلام او رپیغمبر اسلام ﷺ پر کی گئی بے بنیاد تنقیدیں اسی سلسلہ کی کڑی ہے، بالخصوص ان کا یہ الزام کہ ’’اسلام دنیا میں تلوار کے زور پر پھیلا‘‘ اس مہم کا ایک حصہ ہے جو مغرب نے اسلام کے خلاف چھیڑ رکھی ہے اور جس کا مقصد فکری وعملی سطح پر اسلام کے مقابلہ میں پسپائی کے بعد دنیا کو اُس کے بارے میں گمراہ کرنا ہے۔ اس طرح کے الزامات کا ماضی میں مسلم علماء و فضلاء مدلل جواب دے چکے ہیں، ہندوستان میں علامہ شبلی نعمانی نے’’ سیرت النبی‘‘ لکھ کر پیغمبر اسلام ﷺ کے اعلیٰ انسانی خصائل اور فکر کی بلندی کو ثابت کیا تھا، سرسید علیہ الرحمہ بھی بدنام زمانہ ولیم میور کے سیرت النبی پر کئے گئے اعتراضات کا جواب دے چکے ہیں، دوسرے مفکرین نے بھی اسلام کے اوپر عائد اس اتہام کا کہ ’’یہ مذہب تلوار کی زور پر پھیلا ہے‘‘ مسکت جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ اپنے ظہور کے پہلے دن سے اسلام سلامتی کا مذہب رہا ہے، دنیا جانتی ہے کہ مکہ مکرمہ جہاں سے اسلام کا آفتاب طلوع ہوا ، وہاں تلوار حضرت محمد ﷺ کے ہاتھ میں نہیں، اُن کے نہ ماننے والوں کے قبضہ میں تھی۔
نبی پاک ﷺ پر جو حلقے جنگ باز ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں ، وہ اس تاریخی حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ۵۳برس کی عمر تک لڑنا تو کجا، کبھی ہتھیار ہاتھ میں نہیں لیا تھا، حالانکہ اس وقت عرب معاشرہ میں لڑائی جھگڑا عام تھا، ہر شخص کم عمری سے فن سپہ گری میں طاق ہوجاتا تھا، زندگی کے آخری ایام میں مدینہ کے قیام کے دوران آپ ﷺ کو جن خونریز جنگوں کا سامنا کرنا پڑا اُن کے محرک آپ کے حریف تھے، حضور ﷺ میدان جنگ میں تشریف لائے تو آپ نے جنگ کو عبادت بنادیا، حکم صادر ہوا کہ عورتوں ، بچوں، بوڑھوں، بیماروں اور عبادت گاہوں میں کسی پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے، فرمان الٰہی تھا کہ صرف ان سے لڑو جو تم سے لڑنے پر کمربستہ ہوں، تاکید فرمائی کہ دوسرا حریف صلح کرنا چاہے تو اس کی پیش کش کو قبول کرلو، نبی رحمت ﷺ تشریح فرماتے رہے کہ جنگ کا مقصد سمجھ لو، یہ نہ مال غنیمت کیلئے ہے اور نہ اقتدار کے حصول کیلئے، قرآن میں مقصد جہاد کی وضاحت یوں کی گئی کہ اگر اللہ تعالیٰ ایک کے ذریعہ دوسرے کی مدافعت نہ کرتا تو راہبوں کی خانقاہیں، یہود ونصاریٰ کے عبادت خانے اور مسلمانوں کی مساجد جن میں کثرت سے اللہ کا نام لیا جاتا ہے، سب ڈھا دیئے جاتے، اسی لئے دعوے سے کہا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں نے جہاں بھی تلوار اٹھائی، اس کا مقصد اپنا اور مظلوموں کا دفاع کرنا تھا، غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے کے لئے مجبور کرنا ہرگز نہیں اور ایک ایسا ماحول پیدا کرنا تھا جس میں تمام مذاہب کی آزادی برقرار ہے اور ان کے ماننے والے کسی پابندی کے بغیر اپنے مذہبی فرائض ادا کرسکیں۔
رسول اللہ ﷺ کی پوری زندگی دنیا کے سامنے ہے جس سے ایک مثال بھی ایسی نہیں دی جاسکتی کہ کسی شخص کو ایمان لانے پر مجبور کیا گیا ہو، یہی وجہ ہے مسلمانوں کے بہت سے قریبی اعزاء کی موت کفر کی حالت میں ہوئی، کفار مکہ ہوں یا یہودی قبائل، انہوں نے اسلام جیسے امن واخوت کے مذہب اور اس کے علمبرداروں کی مخالفت ، اس لئے کی کہ وہ سمجھتے تھے کہ مساواتِ انسانی کی یہ تحریک ان کے صدیوں سے چلے آرہے استبدادی معاشرہ کو مٹادے گی لہذا مدینہ منورہ میں جن اعلیٰ اصولوں پر اسلامی ریاست کا قیام ہورہاہے، اس کو مستحکم ہونے سے پہلے ختم کردیا جائے، اسی مقصد سے جنگوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ، انگریز مصنف لارڈ ریڈلے نے مذکورہ جنگوں کا تجزیہ کرتے ہوئے صحیح لکھا ہے کہ ان جنگجوؤں میں جارح کون اور جارحیت کا مقابلہ کون کررہا تھا، جنگوں کے جائے وقوع سے بآسانی اندازہ ہوجاتا ہے، پہلی ’’جنگ بدر‘‘ اُس میدان میں لڑی گئی جو مدینہ سے تیس میل کے فاصلہ پر ہے، مدینہ سے طویل مسافت طے کرکے کفار مکہ وہاں پہونچے تھے، دوسری جنگ احد میں ہوئی جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ہے، اس جنگ میں بھی حملہ آور اہلِ مکہ تھے، تیسری جنگ ’’غزوہ احزاب‘‘ ہے، جس میں عرب تمام دشمنان اسلام بشمول یہود نے مدینہ کا محاصرہ کرلیا تھا، ان تینوں جنگوں سے ایک ہی بات ثابت ہوتی ہے کہ حملہ آور مسلمان نہیں، اُن کے حریف تھے اور دفاع کی ذمہ داری مسلمان نبھا رہے تھے، یہ بھی قابل غور ہے کہ مسلمانوں نے طاقت حاصل کرنے کے بعد پہلی مرتبہ جنگ کیلئے نہیں حج کا فریضہ ادا کرنے کیلئے مکہ مکرمہ جانے کا قصد کیا تو اس امر کے باوجود کہ وہ اپنی قوت کے بل پر بآسانی وہاں پہونچ سکتے تھے، اہل مکہ نے انہیں فوراً داخلہ کی اجازت نہیں دی بلکہ ایک سال بعد کی شرط عائد کردی، آنحضرت ﷺ نے محض امن کو قائم رکھنے کیلئے اہلِ مکہ کی جملہ شرائط کو قبول کرلیا، حضور اکرم ﷺ کی امن پسندی کا اس سے بڑا شاہکار وہ مرحلہ ہے جب آپؐ مسلمانوں کے لشکر عظیم کے ہمراہ فاتح کی حیثیت سے اپنے قدیم وطن مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو جنہوں نے آپ کو اس شہر سے نکالا تھا انہیں پناہ دیدی، جنگ وخونریزی تو درکنار کسی دشمنِ اسلام کو ایک خراش تک نہیں لگی، ان کی جانیں اور املاک محفوظ رہیں، اس سے بڑھ کر اسلام کی امن پسندی اور پیغمبر اسلام ﷺ کی انسانیت نوازی کا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے؟
موجودہ عالم اسلام کے نقشہ پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں کبھی مسلمانوں نے لشکر کشی نہیں کی، انڈونیشیا، ملیشیا، مالدیپ اور افریقہ کے بہت سے ممالک میں عرب تاجر اور علماء کرام کے ذریعہ اسلام کی روشنی پہونچی، ہندوستان سمیت بہت سے خطے ایسے ہیں جہاں سب سے پہلے صوفیائے کرام نے اپنے خیمے ڈالے اور اخلاق کی تلوار سے لوگوں کے دل مسخر کرلئے، حضرت خواجہ معین الدین چشتی، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی اور مولانا سید کرامت علی جونپوری کے ہاتھوں لاکھوں اشخاص مشرف بہ اسلام ہوئے، یہ دلوں کو فتح کرنے والے اور محبت کی تلوار سے دشمنوں کو گرویدہ بنانے کا فن جانتے تھے۔ آج امریکہ ویوروپ میں ا سلام قبول کرنے کے جولہر چل رہی ہے اس کی وجہ کونسی طاقت یا جبر ہے، اسلام کی سادگی ، اصول پسندی اور فکری قوت کا ہی یہ کرشمہ ہے کہ وہاں اس مذہب کے تئیں لوگوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
اسلامو فوبیا میں مبتلاء مغربی اقوام بھی مذکورہ حقائق سے واقف ہیں، لیکن اسلام کی مقبولیت انہیں اس پر مجبور کررہی ہے کہ وہ اسلام کے خلاف جارحانہ رویہ اپنائیں ، ان کے نزدیک دنیا میں کمیونزم کی شکست کے بعد اسلام ہی سب سے بڑا خطرہ ہے ، آج یوروپ وامریکہ میں ہزاروں کی تعداد ہر سال اسلام قبول کررہی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں۲۰ہزار سے زیادہ امریکی فوجی مشرف بہ اسلام ہوچکے ہیں۔ یہ کسی طرح کے جبر یا ترغیب کا نتیجہ نہیں بلکہ اسلامی تہذیب، روایات اور اصولوں کی خوبیوں کے اثرات ہیں۔ اسلام کی خوبیاں جوں جوں اجاگر ہورہی ہیں، لوگ اسی قدر اس کے گرویدہ بن رہے ہیں، جھوٹ، الزام تراشی یا پروپیگنڈہ کی کوئی عمر نہیں ہوتی ، اِنہیں بالآخر سچائی کے آگے دم توڑنا پڑتا ہے۔ اسلام کی اہمیت فی زمانہ اس لئے بڑھ رہی ہے کہ مغرب اور اس کی تہذیب بحرانی دور سے دوچار ہے کیونکہ وہ پہلی اور واحد تہذیب ہے جو بالفعل مادہ پرست اور ملحد واقع ہوئی ہے۔ اس مادی تہذیب نے انسانوں کو بے شمار مسائل کا شکار بنادیا ہے، خاندانوں میں انتشار، احترام باہمی کا فقدان ، جنسی بے راہ روی اورپورنو گرافی کے ذریعہ اجتماعی وانفرادی استحصال اس کے ثمرات ہیں، اس تہذیب کو مسیحی تہذیب بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ وہ مادی آئیڈیا لوجی کی پیداوار ہے اور جب تک الٰہی قدروں کو اس میں جگہ نہیں دی جاتی، یہ تہذیب اسی طرح شکست وریخت کا شکار بنی رہے گی۔
’’اسلامو فوبیا‘‘ کے چیلنج کا مقابلہ کیلئے جہاں مذکورہ حقائق کی تشہیر واشاعت ضروری ہے، وہیں اسلام کی خوبیوں اور برکات سے اہل مغرب کو متعارف کرانا بھی مفید ہوگا کیونکہ تجربہ میں یہ بات آرہی ہے کہ جو لوگ اسلام کی تعلیمات سے متاثر ہوکر اس کا مطالعہ شروع کردیتے ہیں ، وہ بہت جلد اسے قبول کرلیتے ہیں اور دیکھنے والے حیران رہ جاتے ہیں کہ مغرب کا آزاد خیال انسان اپنی آزاد روی کو چھوڑ کر ایک پابند مذہب کو کیوں اپنا رہا ہے ۔ مغرب کے دانشور، اِس گتھی کو سلجھانے میں اس لئے بھی ناکام ہیں کہ وہ اسلام کو اول تعصب کی نظر سے دیکھتے ہیں دوم تحفظِ ذہنی کے ساتھ اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں، بحیثیت مجموعی اسلام کی دعوت یا اس کا مثبت تعارف ہی وہ وسیلہ ہے جو’’اسلامو فوبیا‘‘ کی مہم کا کارگر تدارک کرسکتے ہیں۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا