English   /   Kannada   /   Nawayathi

رسول اللہ کی زندگی پر مبنی ایرانی فلم، فتویٰ کی زد پر کیوں؟

share with us

ان ہنگاموں سے قطع نظر ایران میں فلم ریلیز ہوچکی ہے اور ایران میں باکس آفس پر اچھی کمائی کر رہی ہے۔ ناظرین فلم کو سراہ رہے ہیں اور اسے اسکرپٹ ہی نہیں تکنیکی لحاظ سے بھی بہترین قرار دے رہے ہیں۔ واضح ہوکہ ’’محمد رسول اللہ‘‘ کے ٹائٹل کے ساتھ بنی اس فلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کے واقعات پیش کئے گئے ہیں اور کہیں بھی آپ کی شبیہ نہیں دکھائی گئی ہے۔فلم کا ٹریلر یوٹیوب پر موجود ہے۔
مجید مجیدی کیا کہتے ہیں؟
اس متنازعہ فلم کے ڈائرکٹر مجید مجیدی ہیں جو ایران کے معروف فلم ڈائرکٹر ہیں اور آسکر ایوارڈ جیت چکے ہیں۔فلم ایران حکومت کے سرکاری خرچ پر بنی ہے۔ لاگت 253 کروڑ روپے (40 ملین USD) بتائی جا رہی ہے۔ دعوی کیا جا رہا ہے کہ یہ ایران کی اب تک کی سب سے مہنگی فلم ہے۔ایران کی میگزین ’’حزب اللہ لائن‘‘ سے بات چیت میں مجید نے کہا’’ میں نے ویسٹرن ممالک میں اسلام کو لے کر خوف بڑھتے ہوئے دیکھ کر اس فلم کو بنانے کا فیصلہ لیا‘‘ ان کے مطابق، مغربی ممالک میں اسلام کو تشدد اور دہشت گردی سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے ۔ یہ فلم ان تصورات کو توڑیگی۔ ‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’’مغرب میں اسلام کے تئیں خوف کا جو ماحول بنا ہے، میں اس فلم کے ذریعے اس سے لڑنا چاہتا ہوں۔ مغرب میں اسلام کی تشریح تشدد اور دہشت گردی کے ساتھ ہو رہی ہے۔‘‘فرانسیسی کارٹون میگزین شارلی ہیبدو پر ہوئے حملے کے بعد بہت سے لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ اسلام منطقی بحث میں یقین نہیں رکھتا۔ 
کیا ہے فلم میں؟
فلم تین حصہ میں بنی ہے۔ پہلا حصہ 117 منٹ کا ہے۔ اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کی کہانی دکھائی گئی ہے۔ تاہم، ان کا رول کرنے والے اداکار کا چہرہ نہیں دکھایا گیا ہے۔ صرف عکس ہی دکھایا گئی ہے۔ جامعہ الازہر (مصر) اس فلم سے خفا ہے۔ الازہر یونیورسٹی میں اسلامی اسٹڈیز فیکلٹی کے ڈین عبدفتح الوارہ کا کہنا ہے’’ شریعت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری تصور پر روک ہے۔ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘اسے اس بات پر اعتراض ہے کہ جس نے نبی صاحب کا رول کیا ہے، وہ کسی اور فلم میں منفی رول میں بھی ہے۔ اس کے بعد بھی وہ نبی صاحب کا رول کر رہا ہے تو یہ ان کی توہین ہے۔ حالانکہ فلم میں کسی کو پیغمبر اسلام کے رول میں نہیں دکھایا گیا ہے۔فلم بنانے والے ماجد مجیدی کہتے ہیں کہ ’’نبی کی زندگی کے بارے میں جتنی فلمیں بنیں گی، اتنا اچھا ہوگا۔ فلم تین حصوں میں بننی ہے۔ اس کا پہلا حصہ مونٹریال فلم فیسٹیول کے دوران دکھایا گیا جس میں 400 1سال پہلے کے حالات دکھائے گئے ہیں۔اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن بھی دکھایا گیا ہے۔‘‘واضح ہوکہ مجید مجیدی ’’چلڈرن آف ہیون‘‘ نامی فلم بنا چکے ہیں۔اب وہ اس فلم کے ذریعے اسلام کی صحیح تصویر سامنے لانا چاہتے ہیں۔ 171 منٹ کی اس فلم کے پیچھے سات سال کی محنت بھی ہے۔
فلم کی مخالفت کیوں؟
بہت سے سنی علماء کرام نے رسول اللہ کی زندگی پر بننے والی ایرانی فلم پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ مصر کی الازہر یونیورسٹی کے
پروفیسر عبد فتح الوارہ کے مطابق ’’یہ معاملہ پہلے ہی حل ہوچکا ہے۔ شریعت اسلامیہ پیغمبر کو جسمانی طور پر پیش کرنے کی اجازت نہیں دیتی کیونکہ (اداکار) متضاد اور متنازعہ کردار میں بھی ہوتے ہیں، کبھی کبھار ہم انہیں شرابی کے رول میں دیکھتے ہیں تو کبھی عورتوں کے پیچھے بھاگنے والے شخص کے طور پر اور پھر وہی نبی کے کردار میں ہوں، اس بات کی اجازت نہیں ہے۔فلم کی دوسرے وجوہات سے بھی تنقید ہوئی ہے۔ مشہور ایرانی فلم ناقد مسعود بھی فلم پر تنقید کر رہے ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ فلم مبہم اور پریشان کرنے والی ہے۔کاسٹیوم اداکار اور سیٹ اس وقت کی ثقافت میں فٹ نہیں بیٹھ رہے ہیں۔
ہندوستان میں ہنگامہ
سنی بریلوی مسلمانوں کی تنظیم رضا اکیڈمی نے ایک فتویٰ جاری کیا ہے جس میں فلم پر سخت تنقید کی گئی ہے۔ ساتھ ہی فلم کے میوزک ڈائرکٹر اے آر رحمٰن کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔میڈیا میں آئی خبروں کے مطابق فتوی میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر بنانا یا اسے رکھنا جائز نہیں ہے۔ یہ ایرانی فلم اسلام کا مذاق اڑاتی ہے۔ اس میں پروفیشنل اداکاروں نے رول کئے ہیں، جن میں کچھ غیر مسلم بھی ہیں۔فلم میں جو مسلم کام کر رہے ہیں، خاص طور پر مجیدی اور اے آر رحمن، وہ مرتد ہو گئے ہیں اور انہیں دوبارہ کلمہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔فتویٰ جاری ہونے کے بعد رحمان نے فیس بک پر صفائی دی ہے۔ رحمان نے ایک اوپن لیٹر لکھ کر کہا کہ انہوں نے صرف میوزک دیا ہے نہ کہ فلم کو پروڈیوس کیا ہے۔ 
ایران حکومت کی طرف سے وضاحت
معروف انڈین میوزک ڈائریکٹر اے آر رحمان کے خلاف جاری فتوی کی ایران حکومت نے مخالفت کی ہے۔ اس کے لئے باقاعدہ ایران حکومت نے دہلی میں اپنے سفارت خانے سے بیان جاری کیا ہے۔ ایرانی ایمبیسی نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ فلم اسلام کی توہین نہیں کرتی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ فلم ایک آرٹ ورک ہے جسے دیکھنے کے بعد ہی اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہئے۔ فلم دیکھے بغیر کسی بھی نتیجے تک پہنچنا غلط اور دلائل کے خلاف ہوگا۔
بھگواوادیوں کو ملا موقع
تلنگانہ سے بی جے پی کے رکن اسمبلی راجہ سنگھ نے ایک نیا تنازعہ کھڑا کرتے ہوئے وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) سے کہا ہے کہ وہ موسیقار اے آر رحمن جیسے لوگوں سے رابطہ کرے اور ان کے’’ گھر واپسی‘‘ کی کوشش کرے۔انھوں نے رضااکیڈمی کے فتوے کے بعد مشکل میں پھنسے اے آر رحمٰن کو دوبارہ ہندو بننے کی دعوت دینے کو کہا ہے۔ واضح ہوکہ میوزک ڈائرکٹر اے آر رحمٰن بچپن میں اپنی والدہ کے ہمراہ مسلمان ہوئے تھے۔ ان دونوں نے ایک پیرصاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا۔اب سنگھ نے کہا کہ ’’ میں وی ایچ پی رہنماؤں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اے آر رحمن کی طرح ان سبھی لوگوں سے رابطہ کریں جو اسلام قبول کرنے کے بعد گھٹن محسوس کر رہے ہیں۔‘‘سنگھ کا یہ تبصرہ وی ایچ پی کے سیکرٹری جنرل سریندر جین کے اس بیان کے ایک دن بعدآیا جس میں جین نے کہا تھا کہ ہندو بانہیں پھیلا کر موسیقار کو خوش آمدید کریں گے۔ جین نے نامہ نگاروں سے کہا تھا، ’’ میں رحمان سے اپیل کروں گا کہ انہیں گھرواپسی کرنی چاہئے۔ ہندو سماج اپنےبیٹے کا انتظار کر رہا ہے۔ ہم نہ صرف بانہیں پھیلا کر ان کا استقبال کریں گے بلکہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ چاہے ان کے خلاف کتنا بھی فتوی جاری ہو، انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے۔
کچھ قابل غور پہلو
ایرانی فلم پر تنازعہ کے کئی پہلو سامنے آئے ہیں اور اب یہ ہندوستان میں ایک سیاسی موضوع بھی ہے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسلامی موضوع پر فلم بنانے سے پہلے غور وفکر کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں میں مختلف طبقات ہیں اور ایک بات جو ایک فرقے میں جائز ہے ،دوسرے مسلک میں ناجائز ہے۔ ایران حکومت نے جس فلم کو نیک مقصد سے بنایا ہے وہ دوسروں کے لئے بھی مناسب ہو ،یہ ضروری نہیں۔اسی کے ساتھ کسی مذہبی معاملے میں فتویٰ جاری کرنے میں جلد بازی سے گریز لازم ہے۔ فتویٰ سے پہلے معاملے کی تحقیق ضروری ہے۔ہم پوری زندگی میں کسی کو مسلمان نہیں بنا پاتے ہیں مگر بیک جنبش قلم مسلمان کو اسلام سے خارج ضرور کردیتے ہیں۔ رضا اکیڈمی کے فتویٰ کے سلسلے میں جو کچھ میڈیا میں آیا ہے اسے دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ صرف سنی سنائی باتوں پر فتویٰ جاری کیا گیا ہے۔ جامعہ الازہر نے صرف فلم پر اعتراض کیا ہے کسی کو اسلام سے خارج کرنے کا حکم نہیں جاری کیا مگر رضا اکیڈمی کا فتویٰ سخت ہے۔ اسلام دشمنوں کو موقع کی تاک رہتی ہے اور رضا اکیڈمی کے فتوے نے بھگواوادیوں کو سیاست کا ایک موقع دے دیا ہے۔بعض فتاوے ایسے بھی آتے رہتے ہیں جو فتووں کی حرمت کو پامال کرتے ہیں۔ دیوبند کئی فتوے موضوع بحث بن چکے ہیں اور یہ ایشو بھی اٹھتا رہا ہے کہ فتووں پر پابندی کیوں نہ لگائی جائے؟ ایسے میں ہندوستان جیسے ملک میں فتووں پر احتیاط لازم ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا