English   /   Kannada   /   Nawayathi

امن کی متلاشی دنیاکوہندوستان کاسبق

share with us

بہرحال آرایس ایس کے دباؤ یاہدایت کے نتیجے میںیا اسے جوکچھ بھی کہاجائے حکومت نے اتناضرورکیاکہ مسلسل احتجاج کررہے سابق فوجیوں کویہ مژدہ سنانے کافیصلہ کرلیاکہمرکزی قیادت ان کے مطالبات کے تئیں سنجیدہ ہے اوران کے سبھی مطا لبا ت ماننے کوتیارہوگئی ہے۔بعدمیںیہ فیصلہ سنایاگیاکہ سابق فوجیوں کے مطالبات آنکھ موندکرقبول نہیں کئے گئے ہیں،بلکہ ان مطالبات کوماننے کے ساتھ کچھ ایسی شرائط بھی رکھی گئی ہیں جنہیں مظا ہر ین نے قبول کرنے سے صاف انکارکردیاہے۔جب اس کی تفصیل سامنے آئی تومعلوم ہواکہ یہ بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں ہے ۔سابق فوجیوں کامطالبہ ہے کہ ان کی پنشن میں سالانہ توسیع کانظم کیاجائے ،جبکہ ان فوجیوں کوجووقت سے قبل ہی اپنی مرضی سے سبکدوش ہوئے تھے ان کی پینشن پرکوئی غورنہیں کیاجائے گااورنہ ان کے مطالبات حکومت ہندقبول کرے گی۔
بہرحال حکومت ہندکایہ نرم رویہ بڑی حدتک تائیدی نظروں سے دیکھاجائے گاکہ کسی حدتک اس نے اپنے جان نثار فوجیوں کے مطالبات کے معاملے میں نرم رویہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔اطلاعات کے مطابق ون رینک ون پنشن (اوآراوپی) کی مانگ کو ہفتہ کے روزحکومت نے قبول کر لیا، لیکن 28روزسے بھوک ہڑتال پربیٹھے سابق فوجی اہلکاروں نے جن میں کئی اعلی عہدوں پرفائزشخصیات بھی شامل ہیں۔انہوں نے حالیہ فیصلہ پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی یہ تحریک بدستورجاری رہیگی اورکسی بھی قیمت پرحکومت ہندکے منمانے فیصلہ کووہ قبول نہیں کریں گے۔سابق فوجی اہلکاروں کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے ان کے ایک مطالبہ کوقبول کر لیاہے،جبکہ دیگر6اہم مطالبات پرتوجہ کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، بلکہ وزارت دفاع نے بڑی چالاکی کے ساتھ ان کی مانگوں کو مسترد کر دیاہے۔بھوک ہڑتال میں شامل سابق فوجی اہلکاروں کی باتوں سے صاف پتہ چلتاہے کہ ان کی لڑائی ابھی ختم نہیں ہوئی اورانہیں کب تک انصاف کیلئے روٹی سے ہاتھ اٹھائے ہڑتال پربیٹھے رہناہوگایہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
آرایس ایس کی سہ روزہ کوآرڈی نیشن میٹنگ سے قبل پورے ملک میں اقلیتوں کے تعلق سے اس اندیشے کا اظہارکیاجارہاتھاکہ دہلی میں منعقد ہونے والی یہ میٹنگ غیرمعمولی اہمیتوں کی حامل ہے۔ اسی میٹنگ میں سنگھ کے سینئرعہدیداران رام مندرکی تعمیرسمیت ملک بھرمیں ہندونظریات کوفروغ دینے کیلئے حکومت ہندنے کیاکچھ کیاہے، اس پرسخت بازپرس کی جاسکتی ہے۔سرحدپرپڑوسی ممالک کی جانب سے جس قسم کی جارحانہ کاروائیاں ہورہی تھیں اس پربھی پرریکراوران کی پوری کابینہ کوسنگھ سر چا لک کے سامنے سوالات کے جوابات دینے ہوسکتے ہیں اوریہ بھی ممکن ہے کہ آر ایس ایس فوج کوحتمی لڑائی کیلئے تیاری کرنے کی ہدایت دی جائے۔جیساکہ گزشتہ ہفتہ ہی فوجی سربراہ مسٹرسہادوٹوک لفظوں میںیہ بات کہہ چکے تھے کہ ان کی فوج جنگ کیلئے ہمیشہ تیارہے اورکسی بھی جارحیت کامنہ توڑ جواب دینے کی بھرپورصلاحیت رکھتی ہے۔اسی طرح اسی میٹنگ سے قبل اقلیتوں کے درمیان ایک نفسیاتی دہشت کاماحول بنانے کی مذموم کوشش بھی کی گئی،جس میں ہمارے میڈیامداریوں نے جلے پر نمک چھڑکنے میں کوئی کسراٹھانہیں رکھی تھی۔اس سے قبل طرح طرح کی تشاویش اورشبہات کوجنم دیاجارہاتھااوریہ باورکرانے کی سعی کی جارہی تھی کہ اس میٹنگ کوہلکے میں نہیں لیناچاہئے اوراسی میٹنگ سے حکومت ہندکو فسطائی قوتوں کی کئی امن مخالف پالیسیوں کونافذکرنے کاحکم بھی دیا جاسکتا ہے۔جیسے بڑے کے ذبیحہ پرمکمل پابندی عائدکرنے سمیت مسلمانوں کوکم بچے پیداکرنے پرمجبورکرنے کادباؤیاقانون بنانے کی سمت کام کرنے کی ہدایات میں سے کچھ بھی۔
اگرآپ بادی النظرمیں دیکھیں تواتناتوماننا پڑیا گاکہ مودی حکومت اب سے قبل جودعوے کررہی تھی کہ اس پرکسی کادباؤنہیں ہے اوروہ قوت فیصلہ کے معاملہ میں بھی بے حدمستحکم اورقطعی آزادہے۔جبکہ ملک کی سابقہ یوپی اے حکومت کے وزیراعظم منموہن سنگھ کی حقیقت مٹی کے پتلے سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی ۔کہنے کوتوحکومت اگرچہ منموہن سنگھ کے ہاتھ میں تھی۔ مگراس کاریموٹ کنٹرول کسی اورکے ہاتھ میں تھا ۔ ڈاکٹرمنموہن سنگھ کوئی بھی فیصلہ لینے کی قدرت سے یکسرمحروم تھے اور ہرمعاملے میں انہیں 10جن پتھ کی جانب للچائی نظروں سے دیکھناپڑتاتھا۔ادھربدھ کے روزجس وقت یہ خبرآئی کہ آر ایس ایس کی سہ روزہ کوآرڈی نیشن میٹنگ جس کاانعقاد جنو بی دہلی میں ہورہاہے اس میں شرکت کیلئے مودی کی مرکزی کابینہ کے سبھی سینئرلیڈران جائیں گے اوراپنے چودہ ماہ کی کارکردگی کاحساب کتاب بھی انہیں پیش کرناہوگا۔اسی وقت رابطہ عامہ کی سائٹوں پر یہ بحث گرم ہونے لگی تھی کہ جولوگ اپنے مخالفین کویہ کہہ کرکوساکرتے تھے کہ منموہن سنگھ کی حیثیت ا یک ایسے بھونپوکی ہے جسے وہ خود بجانے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے توپھرآج مودی جی کویہ بتاناچاہئے کہ انہیں کونسی مجبوری آرایس ایس کی میٹنگ کی جانب کھینچے لئے جارہی ہے اوران اگروہ بغیرکسی غیرمرئی طاقت کے اپنے بوتے حکومت چلارہے ہیں توان کی کابینہ کے سارے سینئرلوگ موہن بھاگوت کاآشیروادلینے کیلئے مدھیانچل بھون کیوں جارہے ہیںیاان کی وہ کونسی مجبوری ہے جوانہیں مدھیانچل ہاؤس کی طرف بے ساختہ کھینچے لئے جارہی ہے۔کہیں ایساتونہیں کہ بی جے پی خاص کراس کے مشکل کشاسمجھے جانے والے نریندرمودی جی اس معاملے میں کرتب بازی کاسہارالے رہے ہیں،یعنی وزیراعظم صاحب کی حالت اس ہاتھی جیسی ہے ،جس کے کھانے کے دانت اورہوتے ہیں دکھانے کے اور۔یہ بھی سچ ہے کہ حکومت کاریموٹ کنٹرول ان کے پاس نہیں ہے ،بلکہ مرکزی کی یرقانی ٹیم کاساراکنٹرول ناگپورسے ہوتاہے اورموجودہ حکومت کاریموٹ کنٹرول جن ہاتھوں میں ہے ان سے دہلی کافاصلہ کئی ہزارکیلومیٹرپرمحیط ہے۔بہرحال اس وقت تمام خوف وہراس کو نظراندازکرتے ہوئے یہ بات قابل تائیدہے کہ سہ روزہ میٹنگ کے اختتام پرآر ایس ایس نے وضاحتی خطاب میں کہاہے کہ ہندو ستا ن اپنے کسی بھی پڑوسی ملک کودشمن کی نظروں سے نہیں دیکھتابلکہ وہ انہیں اپنابھائی سمجھتاہے۔آر ایس ایس نے کہا ہے کہ پاکستان ہمارا بھائی ہے اور نریندر مودی حکومت نے گزشتہ 14 ماہ کے دوران دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری لانے کے لئے جو اقدامات کئے ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔سنگھ نے کہا ہے کہ ہمارے سبھی پڑوسی ملک ہماراہی ایک حصہ ہیں،یہاں اس جملہ کوکس معنی میں لیاجائے گااس کاجواب دیریاسویرملک کی ڈپلومیسی کی جانب سے مل ہی جائے گا۔ اس لیے ہمیں ان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانا ہی سب سے بڑی عقلمندی اوروقت کی ضرورت ہے۔آر ایس ایس نے جمعہ کے روزکہاکہ پڑوسی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی ضرور ت ہے اور ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ سماجی اور جغرافیائی سطح پر اس سمت میں کس طرح آگے بڑھا جا سکتاہے اورباہمی تعلقات کواورزیادہ مستحکم کرنے میں کون سی چیزمعاون ہوسکتی ہے۔آرایس ایس نے دونوں ممالک کے تعلقات کے بارے میں کہاہے کہ خاندان کے دو بھائیوں کے درمیان ایسا ہوتا رہتا ہے کہ رشتہ میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ان باتوں کوبہت زیادہ گہرائی سے لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس سے ایک روز قبل وزیراعظم نریندرمودی نے دنیاکے کئی حصوں میں جاری تشددپرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ دنیاکے مسائل کاحل بات چیت میں ہی مضمرہے۔وزیراعظم نے گلوبل ہندوبدھسٹ کانکلیوسے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ دنیامیں ایساکوئی بھی مسئلہ نہیں ہے جس کاحل بات کے ذریعہ ممکن نہ ہو۔یہ ساری باتیں ہواہوائی نہیں ہیں،بلکہ ان سے جوحقائق دنیاکے سامنے واضح ہورہے ہیں اس سے یہی سبق ملتاہے کہ اب نفرت وعداوت کے آلودہ ماحول سے دنیاتنگ آچکی ہے اورایک ایسی فضاہموارکرنے ضرورت ناگزیرہوتی جارہی ہے جس میں سبھی کوامن وسکون اوربے خوف زندگی گزارنے کی آزادی حاصل ہو۔خداکرے اس ضرورت کوتمام برسرپیکارممالک کی فوجیں بھی سمجھیں اورنفرت پھیلاکراسلحے کی تجارت کوفروغ دینے والی صہیونی اورنصرانی طاقتیں بھی اپنے مکروہ عمل سے توبہ کرنے کافیصلہ کریں۔(فکروخبرمضمون)

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا