English   /   Kannada   /   Nawayathi

کرناٹک میں واقع ٹیپوسلطان کے اسلحہ خانہ کو جوں کا توں دوسری جگہ منتقل کیا گیا(مزید اہم ترین خبریں)

share with us

خدا داد سلطنت کے بانی ٹیپوسلطان نے اپنے دور میں ہتھیاروں، اوزاروں، دھماکہ خیزمادہ کو محفوظ طور پررکھنے کے لئے زیرزمین کئی اسلحہ خانے اور توپ خانے تعمیر کرائے تھے۔ سری رنگ پٹن کے علاوہ چند دیگر مقامات پرٹیپوسلطان کے اسلحہ خانے آج بھی موجود ہیں۔پہلی مرتبہ جنگوں میں راکٹ ٹکنالوجی کا تجربہ کرنے والے ٹیپوسلطان اپنی جنگی مہارت کیلئے مشہوررہے ہیں۔ ٹیپوکی جنگی مہارت کا اعتراف ملک کے عظیم سائنس داں اورسابق صدرجمہوریہ مرحوم ڈاکٹراے پی جے عبدالکلام نےبھی کیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ملک میں یہ پہلا ایسا واقعہ ہے جہاں کسی تاریخی عمارت کو منہدم کرنے کے بجائے اسے منتقل کیا گیا ہے۔

بابری مسجد انہدام معاملہ میں اگر کوئی سزا ہوئی تو میں اسے بھگوان کا پرساد مان کر قبول کروں گی: اوما

نئی دہلی۔۔08مارچ(فکروخبر/ذرائع)  بھارتیہ جنتا پارٹی کی سینئر لیڈر اور آبی وسائل و گنگا تحفظ کی مرکزی وزیر اوما بھارتی نے آج کہا کہ انہوں نے ایودھیا تحریک میں حصہ لیا تھا اور بابری مسجد کو منہدم کرنے کے معاملے میں اگر انہیں کوئی سزا ہوئی تو اسے وہ بھگوان کا پرساد مان کر قبول کریں گی۔ اوما بھارتی نے اپنی وزارت کے ایک پروگرام کے بعد نامہ نگاروں سے بات چیت میں کہا کہ ایودھیا تحریک میں ان کی شرکت تھی اور اس پر وہ فخر محسوس کرتی ہیں۔اس سوال پر کہ بابری مسجد انہدام معاملے میں اگر عدالت انہیں سزا سناتی ہے تو وہ کیا کریں گی، انہوں نے کہا کہ وہ عدالت کے فیصلے کو قبول کریں گی اور اسے بھگوان کا پرساد مانیں گی۔ ایک اور سوال کے جواب میں محترمہ بھارتی نے کہا کہ اترپردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی جیت ہوگی۔ لیکن انہوں نے اس بارے میں تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا کہ پارٹی کسے وزیر اعلی بنائے گی۔

زمینوں کی خرید وفروخت کے شرعی مسائل جاننا اوران کی تشریح ضروری:مولانا خالد سیف اللہ

حیدرآباد۔ ۔08مارچ(فکروخبر/ذرائع) مولاناخالد سیف اللہ رحمانی ناظم المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد و رکن مسلم پرسنل لا بورڈ وفقہ اکیڈیمی کے جنرل سکریٹری نے کہا کہ زمینوں کی خرید وفروخت عصر حاضر کا بہت اہم مسئلہ ہے اور عصر حاضر میں یہ تجارت بہت اہمیت کی حامل ہے۔ رئیل اسٹیٹ کی تجارت شہروں میں بہت مقبول ہے، مختلف انداز سے مختلف طرح کی زمینوں کی خرید وفروخت ہوتی اور کثرت کے ساتھ مسلمان بھی اس سے وابستہ ہیں،ایسے میں شرعی طریقہ جاننا اوراس تعلق سے مسائل کی تخریج وتشریح ضروری ہے۔ انہوں نے اجین میں اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کی جانب سے منعقدہ فقہی سمینار سے خطاب کیا جس کا موضوع زمین کی خرید وفروخت سے متعلق مسائل تھا۔انہوں نے کہاکہ اس موضوع کو شہر اجین کے مسلمانوں نے ہی سمینار میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور انہیں حضرات کی خواہش پر رواں سمینار میں اس موضوع کو بھی شامل کیا گیا۔نشست کی صدارت گجرات کے مشہورعالم دین مفتی احمد دیولوی نے کی جب کہ نظامت کے فرائض اکیڈمی کے جنرل سکریٹری مولاناخالدسیف اللہ رحمانی نے انجام دیئے۔اس موضوع پرتقریبا50 سے زائد مقالات لکھے گئے۔ اس نشست میں مولانا محبوب احمد فروغ قاسمی، مولاناعثمان قاسمی بستوی اورمفتی ابصاراحمد قاسمی نے انتہائی خوش اسلوبی سے عرض مسئلہ پیش کیا۔عرض مسئلہ کے بعد شرکائے سمینار کوسوالات وجوابات کاموقع دیاگیا جس میں موضوع کے مختلف شقوں پرسوالات پیش کئے گئے ساتھ ہی بعض اہم تجاویزبھی پیش کی گئیں جنہیں تجاویزکمیٹی کے حوالہ کردیاگیا تاکہ سمینار کے اختتام پرتجاویزکی تیاری میں ان تجاویزپرغوروخوض کیاجاسکے ۔ مفتی احمددیولوی نے کہاکہ فقہ اکیڈمی کاقیام ہندوستان میں اہل علم کے لئے کسی نعمت غیرمترقبہ سے کم نہیں ہے۔ اکیڈمی نے نئی نسل کے علما کوسوچنے سمجھنے اورجدید پیش آمدہ مسائل کے حل کرنے کی سمت نئی روشنی عطاکی ہے۔ اس طرح کے سمیناروں کاجاری رہنا تحقیق وریسرچ کے اسکالرکے لئے بہت ہی مفید ہے اوراس سے مسائل کے استنباط واجتہاد میں نئی نئی جہتیں کھلیں گی۔انہوں نے کہا کہ اکیڈمی میں تمام مقالات تحقیق کے ساتھ لکھے جاتے ہیں اور بہت غور و خوض کے ساتھ قرآن وحدیث کی روشنی میں مسائل کا استنباط واستخراج کیا جاتاہے یہی وجہ ہے کہ اکیڈمی کو دنیا بھر میں ایک معتبر فقہی ادارہ کی حیثیت حاصل ہے۔ چائے کے وقفہ کے بعد سمینارکی چوتھی نشست کا آغازہوا۔ سمینار کی چوتھی نشست کا مرکزی موضوع سونا چاندی کی تجارت کے تعلق سے بعض مسائل  تھا۔ اس نشست کی صدارت مولانامفتی محبوب وجیہی مفتی شہررام پورنے کی جب کہ نظامت اکیڈمی کے سکریٹری مولاناعتیق احمد بستوی نے انجام دیئے۔اس نشست میں مفتی محمد اشرف قاسمی گونڈوی، ڈاکٹرمفتی محمد شاہجہاں ندوی اورڈاکٹرمولانا ظفرالاسلام صدیقی نے عرض مسئلہ پیش کیا۔اس موضوع پرتقریبا41مقالے لکھے گئے۔عرض مسئلہ کے بعد شرکائے سمینار کو مختلف مسائل پرسوال وجواب کاموقع دیاگیا۔ محبوب وجیہی نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فقہی سمینار اسی لئے ہوتا ہے کہ سب جمع کرکے نئے مسائل پر غورکریں اور شریعت کے منہج پر چلنے کا عوام کو موقع فراہم کریں ۔ مولانا کی دعاء پراس نشست کا اختتام ہوا۔

گایتری پرجاپتی کے دو ساتھی گرفتار، آج ٹرائل کورٹ میں خودسپردگی کا امکان

لکھنؤ۔ ۔08مارچ(فکروخبر/ذرائع) عصمت دری اور جنسی ہراسانی کے ملزم اتر پردیش کے وزیر ٹرانسپورٹ گایتری پرجاپتی کے مزید دو ساتھیوں کو آج یوپی پولس کی اسپیشل ٹاسک فورس(ایس ٹی ایف) نے گرفتار کرلیا۔ ریاست کے ایڈیشنل پولس ڈائریکٹر جنرل (قانون) دلجیت چودھری نے ان گرفتاریوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ دونوں ملزمان کو نوئیڈا کے پاس سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کے نام آشيش شکلا اور اشوک تیواری بتائے گئے ہیں۔ دونوں کو لکھنؤ لایا گیا ہے اور ان سے پوچھ گچھ جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس معاملے میں اب تک تین گرفتاریاں ہوچکی ہیں۔ اس سے پہلے گایتری پرجاپتی کے قریبی معتمد چندرپال نے کل مقامی پولس کے سامنے خود سپردگی کردی تھی۔ چندرپال نے سازش میں پھنسائے جانے کا دعوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پوری طرح بے قصور ہے۔ اسے نہیں معلوم کہ الزام لگانے والی عورت ایسا کیوں کر رہی ہے۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے گایتری پرجاپتی اور ان کے چھ ساتھیوں کے خلاف اجتماعی عصمت دری اور جنسی ہراسانی کے الزام میں گزشتہ 18 فروری کو رپورٹ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔ اسی حکم کے تحت لکھنؤ کے گوتمپلي تھانے میں رپورٹ درج کی گئي اور اس کے بعد معاملے کی تحقیقات کر نے والی پولیس ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ امیتا سنگھ نے متاثرہ کا بیان دہلی جاکر درج کیا تھا۔ بیان درج ہونے کے بعد پولس کی تیزی سے کارروائی کے درمیان گایتری پرجاپتی نے سپریم کورٹ سے انپی گرفتاری پر روک لگانے کی درخواست کی ، لیکن ان کی عرضی کل مسترد ہو گئی۔ اس کے بعد چندرپال کو کل گرفتار کیا گیا جبکہ آشیش شکلا اور اشوک تیواری آج پولیس کی گرفت میں آئے۔ یہ تینوں ہی معاملے میں نامزد ملزمان ہیں۔دوسری جانب ، گایتری پرجاپتی کو کابینہ سے برطرف نہیں کئے جانے کی وجہ سے وزیر اعلی اکھلیش یادو پر بھی سیاسی الزام تراشی کا دور شروع ہو گیا۔ بی جے پی کے ریاستی صدر کیشو پرساد موریہ نے تو مسٹراکھیلیش یادو پر گایتری پرجاپتی کو چھپانے تک کا الزام لگا دیا۔وزیر اعلی اکھلیش یادو نے کہا کہ قانون اپنا کام کرے گا۔ قانون کی مدد کے لیے ان کی حکومت ہر طرح سے تیار ہے۔ وہ ذاتی طور پر بھی قانون کے حامی ہیں۔ اس سلسلے میں وزیر اعلی اکھیلیش یادو نے گايتری پرجاپتی کو کابینہ سے برطرف کرنے سے متعلق گورنر رام نائک کے خط کا جواب ابھی نہيں دیا ہے، جبکہ یہ قیاس آرائی کی جارہی ہے کہ گایتری پرجاپتی آج ٹرائل کورٹ میں خودسپردگی کرسکتے ہیں۔

گجرات : گزشتہ 20 سالوں میں وقف بورڈ کو ایک روپے کا بھی گرانٹ نہیں دیا گیا: غیاث الدین

احمد آباد : ۔08مارچ(فکروخبر/ذرائع) گجرات وقف بورڈ میں ہونے والا گھوٹالہ اور موجودہ چیئرمین کی میعاد مکمل ہونے کا معاملہ جہاں ایک طرف ہائی کورٹ پہنچ گیا ہے ، وہیں اس معاملہ کو لے کر گجرات اسمبلی میں آواز اٹھائی گئی۔ کانگریس کے ممبر اسمبلی غياث الدين شیخ نے ایک بار پھر گجرات اسمبلی میں آواز اٹھاتے ہوئے کہا کہ ان تمام معاملہ کو لے کر حکومت کوئی قدم کیوں نہیں اٹھا رہی ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے وقف پروپرٹی میں گھوٹالہ کے مسئلہ کو اٹھایا اور کہا کہ گجرات کی مسلم تنظیم گزشتہ ایک سال سے تحریک چلا رہی ہے ، اس کے باوجود گجرات حکومت وقف بورڈ کے مسئلہ کو حل کرنا نہیں چاہتی ،کیونکہ یہ مسلمانوں سے وابستہ ہے ۔ شیخ نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 20 سالوں میں وقف بورڈ کو ایک روپے کا بھی گرانٹ نہیں دیا گیا ، جس سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ کس طریقہ سے گجرات حکومت مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا رویہ اختیار کر رہی ہے

بد عنوانی میں ملوث پائے جانے پر مہاراشٹر وقف بورڈ کی سابق کارگزار چیف نسیم بانو پٹیل معطل

ناندیڑ :۔08مارچ(فکروخبر/ذرائع)  مہاراشٹر وقف بورڈ کی سابق کارگزار چیف افسر نسیم پٹیل کو بد عنوانی کے ایک معاملہ میں ملوث پائے جانے پر معطل کردیا گیا ہے ۔ بد عنوانی کا یہ معاملہ ناسک ضلع کے دودھاری نامی ایک مسجد کی انعامی اراضی سے متعلق ہے ۔ اس مسئلہ کو ناندیڑ کے دو سماجی کارکنان خلیل مناٹھکر اور محمد واجد نے اٹھایا تھا ۔ طویل کشمکش کے بعد آج انہیں اس معاملہ میں ایک بڑی کامیابی ملی ہے ۔وقف بورڈ کے افسران کے بد عنوانی میںملوث پائے جانے کا دوسرا بڑا معاملہ سامنے آیا ہے ۔ اس مرتبہ وقف بورڈ کی سابقہ کار گزار چیف افسر نسیم پٹیل کو بدعنوانی میں ملوث پایا گیا ہے ۔اس سلسلہ میں مہاراشٹر حکومت نے نسیم پٹیل کو معطل کردیا ہے ۔خیال رہے کہ ناسک میں مسجد دودھاری کی ملکیت میں شامل 55 ایکڑ وقف اراضی پر کئی زمین مافیاؤں نے ناجائز قبضہ کر رکھا تھا اور ملٹی کمپلیکس کی تعمیر کردی گئی تھی ۔ یہ مسئلہ تقریباً آٹھ سال تک ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں زیر سماعت رہا ۔ بالآ خر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں وقف بورڈ کو حکم دیا کہ وہ طے کریں کے یہ زمین وقف اراضی ہے یا نہیں ۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر وقف بورڈ کی کارگزار چیف افسر نسیم بانو پٹیل نے اپنے اختیارات میں نہیں ہونے کے باوجود ایک فیصلہ کیا ،جس میں انہوں نے کہا کہ وہ زمین وقف اراضی نہیں ہے ۔ ان کا یہ بیان زمین مافیاؤں کو فائدہ پہنچانے کی ایک کوشش تھی ، جس کی وجہ سے ان کا یہ بیان ہی ان کی معطلی کا سبب بن گیا ۔خلیل مناٹھکر اور محمد واجد کی اس لڑائی میں پاتھری کے ایم ایل اے باباجانی دررانی، سینٹرل وقف کونسل کے رکن سید حامد اور زین الدین زویری نے مختلف مراحل میں رہنمائی کی، جس کی وجہ سے انہیں انصاف کے حصول میں کامیابی ملی ۔ نسیم پٹیل کی معطلی کیلئے دونوں نے ریاستی حکومت کا شکریہ ادا کیا ۔واضح رہے کہ خلیل مناٹھکر اور محمد واجد یہ وہی شخصیات ہے ، جنہوں نے پہلے بھی وقف بورڈ کے چیف افسر این ڈی پٹھان کو رشوت لیتے ہوئے رنگوں ہاتھ گرفتار کروایا تھا اور انہیں بھی عہدے سے معطل کردیا گیا تھا ۔ نسیم بانو پٹیل کی صورت میں یہ دوسرا معاملہ ہے ، جس میں وقف بورڈ کے چیف افسر کو بد عنوانی میں ملوث پایا گیا ہے ۔

پاورکارپوریشن کی بیہودہ کارکردگی بدنیتی کی علامت !

سہارنپور ۔08مارچ(فکروخبر/ذرائع) موسم گرما کے ساتھ ساتھ بجلی کی کٹوتی نے عام آدمی کو ہلا کر رکھ دیا ہے کل ۱۵ گھنے ہی سپلائی مل رہی ہے جس وجہ سے پانی کی سپلائی بھی مشکل ہوتی جارہی ہے مگر افسران تماشائی بنے ہوئے ہیں کمزور طبقہ کے افراد کو دو سے آٹھ ہزار تک کی بقایا رقم کیلئے لگاتار تنگ و پریشان کیا جارہاہے جبکہ نمبر دو کی لائٹ کھلے عام ہر ماہ موٹی رشوت کے عوض استعمال کرنے والوں کے خلاف کوئی کارواہی نہی کیجاتی ہے محکمہ صرف اور صرف کمزوروں کا استحصال کرناہی اپنی ذمہ داری مانتاہے یہ تماشہ سینئر افسران بھی دیکھتے رہتے ہیں مگر کمزوروں کا کوئی پرسان حال نہی ؟ محکمہ بجلی سے عام آدمی عاجز آ چکا ہے محکمہ کے لو گ اوور لوڈنگ ، میٹر خراب اور بجلی چور ی کے نام پر عوام کا آزادانہ طور پر استحصال کرنے پر بضد ہیں ضلع کے سیاست داں اتر پردیش پاور کارپوریشن کے بد عنوان افسران اور ملازمین کے اس نازیبہ رویہ کو دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہیں ؟محکمہ کے جوئنیر انجینئر اور ایس ۔ڈی ۔ او جس چاہے گھر پر اچانک مسلط ہو جاتے ہیں اور بجلی چیکنگ کے نام پر موٹی رقم کی مانگ کرتے ہیں اگر چہ گھر کے افراد رقم ادا کرنے کے قابل ہیں تو معاملہ پیسے لے دیکر رفا کر دیا جا تا ہے اور اگر کنزیومر پیسہ دینے میں آنا کانی کرتا ہے تو اسکے خلاف فوری طور پر جونیئر انجینیر کے ذریعہ تھانہ میں بجلی چوری کی رپورٹ درج کرا دی جاتی ہے۔ پھر وہ کنزیومر اپنی جان بچانے کے لئے اور گرفتاری سے بچنے کے لئے محکمہ کو کم سے کم ۲۰ ہزار روپیے کی رقم ایک مشت جمع کرتا ہے جب کہی جا کر اسکی جان بچتی ہے اور وہ خود کو گرفتاری سے بچانے میں کامیاب رہتا ہے ایسے حالات گزشتہ چھہ سالوں سے غر یب،دلت، مزدور، پچھڑے اور مسلم علاقوں میں کثرت کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں صوبائی سرکار غر یب،دلت، مزدور، پچھڑے اور اقلیتیوں کی ہمدرہونے کا زور دیکر دعوہ پیش کرتی ہیں مگر سچائی یہ ہے کہ محکمہ بجلی کے صرف ایک محکمہ کیز ریعہ ہی گزشتہ چھہ سالوں سے غر یب،دلت، مزدور، پچھڑے اور اقلیتی فرقہ کو بری طرح لوٹا اور کھسوٹا جا رہا ہے اور کوئی خبر گری کرنے والا نہیں ۔محکمہ کے افسران جو چاہتے ہیں پولیس بھی وہی کاروائی کرتی ہے عام آدمی کی کوئی سنوائی نہیں ہے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ محکمہ کے ۸۰ فیصد انجینئر اور ملازمین اقلیتی علاقوں میں خصوصی طور پر گزشتہ چھہ سالوں سے غر یب،دلت، مزدور، پچھڑے اور ا مسلم طبقہ پر ا پنا رعب غالب کئے ہو ئے ہیں؟ اقلیتی فرقوں کے لوگ بجلی کے نام پر ان ملازمین کو غیر ضروری طور پر رشوت دینے کے لئے مجبور ہیں اگر ان تمام کیسوں کی جانچ کسی ایماندار افسر سے کرائی جائے تو گزشتہ ۶ سالوں سے ان علاقوں میں ہونے والے ان معاملوں کی سچائی حکومت اور عوام کے سامنے صاف طور سے آسکتی ہے ہمارے قابل کمشنر اور قابل ضلع مجسٹریٹ سب کچھ جانتے اور دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں سوشل ورکر جناب نظامی اور روش احمد نے ایسے ہی ایک کیس میں انبالہ روڑ واقع بجلی گھر کے جے ای کے خلاف ایس ۔ڈی۔ او۔ کو ایک شکایت پیش کی ہے مگر ابھی تک کئی ماہ گزر چکے ہیں ایس ڈی او صاحب نے اس شکایت کا کوئی جواب جناب نظامی صاحب کو نہیں بھیجا ہے ہم نے جو باتیں مندرجہ بالا خبر میں تحریر کی ہیں انہی کو لیکر جناب نظامی نے جونیئر انجینئر کے خلاف شکایت درج کرائی ہے نظامی صاحب اس سے قبل بھی کئی شکایتیں محکمہ کے افسران اور ملازمین کے خلاف اعلیٰ حکام کو پیش کر چکے ہیں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ انکی کسی بھی شکایت کو اعلیٰ حکام سنجیدگی سے نہ لیکر ٹال مٹول کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں جس وجہ سے عوام میں غم و غصہ پھیلا ہوا ہے عوام مفاد میں ان تمام معاملات کی آزادنہ جانچ اشد ضروری ہے !

علاقائی افسران کی لاپرواہی کانتیجہ

پچھڑے اور پسماندہ علاقوں میں غلاظت اور آلودہ پائپ لائن کی مار؟

سہارنپور ۔08مارچ(فکروخبر/ذرائع) پچھڑے ، پسماندہ اور مسلم علاقوں کے سدھار اور بہتری کے لئے گزشتہ پندرہ سالوں میں کتنی ہی مرتبہ مرکزی سرکار کی جانب سے بہت سے یوجناؤں کے تحت ضلع کی ملن اورپسماندہ بستیوں کی ترقی اور بہتری کیلئے وقت وقت پر سلسلہ وار کافی پیسہ آیاہے مگر کرڑوں کی رقم کہاں لگی ہے کس طرح سے کس کس کام کیلئے وق بڑی رقم استعمال ہوئی ہے یہ سبھی تحصیلوں، پنچایتوں، نگر پالیکاؤں اور شہری نگر نگم کے کاغذات میں اگر اندراج ہے تو بڑے عجیب انداز سے مگر یہ کہیں بھی ظاہر نہی ہے کہ جس کام کے لئے یہ پیسہ آیاہے وہ کام کہاں کہاں اور کیسے کیسے کرایاگیا ہے اس سچ کا جواب علاقہ کے کسی بھی افسر کے پاس آج بھی نہی ہے اور جو کام ہوئے ہیں وہ کام بھی آجتک موقع پر ثابت نہی ہیں؟ہمارے قائدین کوبھی اپنے عوام کے بھلے کے لئے اپنے عوام کا حق اور انکے لئے آئے ہوئے پیسہ کا حساب مانگتے ہوئے شرم آتی ہے یہ ضرور ہے کہ وزراء کی چمچہ گری میں اور وزراء کی خاطر لاکھوں کی رقم خرچ کرنے میں ان نیتاؤں کو نہ جانے کیوں فخر کا احساس ہوتاہے ؟ آ صبح فجر کے وقت ہونے والی بارش سے شہر کے پرانے علاقوں میں گزر ناممکن بن کر رہ گیا غلاظت اور گندے پانی کے سبب عوام کا مسجدوں میںآناجانا بھی دشوار ہا ، چلکانہ روڑ ، چکروتہ روڑ ، نور بستی ، حسین بستی ، آزاد کالونی ، حبیب گڑھ ، حاکم شاہ کالونی ، منصور کالونی ، دھوبی والا، کمیلہ کالونی ، نشاط روڑ، آلی آہنگران ، مہندی سرائے اور اسلامیہ ڈگری کالج سرائے حسام الدین،سرائے فیض علی،پل بنجاران، داؤد سرائے اور اسکے آس پاس کا علاقہ گندگی ،نالیوں اور نالوں میں بھرے ہوئے چوڑے سے گھراہواہے نتیجہ کے طور پر یہ تمام علاقہ بدبو اور مچھروں کی بہتات سے دو چار ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے ان علاقوں کے نالے اور نالیاں چوڑے سے بھرے ہوئے پڑے ہیں ضلع حکام بالخصوص نگر نگم کے صفائی ملازمین ہر روز آتے ہیں اور سر سرے طورپر ہلکی سی نمائشی طور پر صفائی کر کے چلے جاتے ہیں جبکہ گندگی اسی حالت میں ہی قائم رہتی ہے مندرجہ بالاپسماندہ علاقوں میں لاکھوں لوگ آباد ہیں نالوں اور نالیوں کا پانی آدھے سے زیادہ ان علاقوں کے گھروں میں گھسا رہتا ہے مچھروں کی پیداوار اس قدر ہے کہ ان جگہوں پر عام آدمی کا رہنا ناممکن ہے مگر غریبی کے ستائے مسلم لوگ ان علاقوں کو چھوڑکر جائے تو کہاں جائے حکام کو ان غریبوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہے سیاست داں ووٹ کے لئے ان بستیوں میں آتے ہیں اور جھوٹے وادے کر کے لوٹ جاتے ہیں گزشتہ۵ سالقبل سماج وادی پارٹی کے لیڈران نے ان علاقوں میں آکر مسلمانوں کو سبز باغ دکھائے اور ان سے ووٹ حاصل کرتیرہے گزشتہ دنوں بھی وہی یہاں ووٹ کیلئے آئے اور چلے گئے مگر سماج وادی پارٹی کے ان لیڈران نے کبھی ان علاقوں کے مسائل حل کرنے اور کرانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی آج ان علاقوں میں پینے کا پانی بھی گندے جراسیم سے بھرا ہوا ہے ، غلاظت اور گندگی کے باعث ان علاقوں میں کھلی ہوا میں سانس لینا بھی دوبھر ہے جگہ جگہ غلاظت اور چوڑے کے انبار لگے رہتے ہیں عام لوگوں کا بالخصوص خواتین اور بچوں کا گزر مشکل سے مشکل تر ہو گیا ہے ہر وقت سڑکیں گندے پانی اور کیچڑ سے لبا لب رہتی ہیں جتنے بھی مسائب ان علاقوں کے پسماندہ مسلمانوں کو برداشت کرنے پڑ رہے ہیں وہ کسی جہنم کی تکلیف سے کم نہیں سچ مانو تو ان علاقوں کے مسلمانوں کا روز مرہ کا جینا جہنم سا ہو کر رہ گیا ہے مگر لاچاری اور مجبوری کے سبب لاکھوں لوگ گندگی اور مچھروں کی یلگار کے بیچ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں علاج کے نام پر اس علاقہ کے عوام کے لئے سرکاری سطح پر ان علاقوں میں اسپتال کا اسپتال میں معقول علاج کا کوئی بندو بست نہیں ہے ان علاقوں میں جو ادارہ کھلے ہیں ان کے باہر بھی گندگی کی بھرمار ہے سرکاری اسکول میں پانی بھرا رہتا ہے اور سرکاری اسکول کے اطراف بھی گندگی اور چوڑے کی بھرمار ہر وقت دیکھی جا سکتی ہے سڑکوں کا حال بیان سے باہر ہے جہاں تک پاور سپلائی کی بات ہے تو اسکے بارے میں ذکر فضول ہے کیونکہ سہارنپور نگر نگم تو بن چکا ہے مگر مسلم علاقوں کے لئے معقول گرانٹ نہ آنے کے باعث ترقی اور خوشحالیکے بہتر بندوبست سرکار اور انتظامیہ کی جانب سے آج تک نہی کرائے گئے ہیں جو گرانٹ مل رہی ہے وہ اونٹ کے منھ میں زیرہ کی مانند ہی ہے سینئر حکام ان پچھڑے علاقوں میں سدھار کے لئے تھوڑے بھی سنجیدہ نہی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دوسال کے بعد بھی حالت قابل رحم بنی ہوئی ہے ؟ 

نریندر مودی نوٹ بندی کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مستعفی ہوجائیں 

گلبرگہ میں احتجاجی جلسہ سے قمر السلام ، اصغر چلبل ، مہیش گوڑا و دیگر کا خطاب

گلبرگہ 08مارچ(فکروخبر/ذرائع) ملک میں آج نوٹ بندی کو لے کر تقریبا چار ماہ کا عرصہ گزر گیا لیکن عوام آج بھی اپنے روپئے حاصل کرنے کے لئے بینکوں میں قطار لگائے کھڑے ہیں ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے عوام کے سامنے کئی ایک اعلانات کئے اور پھر 8نومبر کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے 31 دسمبر 2016تک کی مہلت طلب کی ۔ اس کے بعد ملک میں اچھے دن آئیں گے کا تیقن دیا ۔ ان خیالات کا اظہار رکن اسمبلی گلبرگہ و سابق وزیر کرناٹک الحاج ڈاکٹر ج قمر الاسلام نے 7 مارچ کو منعقدہ وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان کے خلاف احتجاجی جلسہ عوام سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے ایک اسکول کی طالبہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسکول میں بچوں سے ایک سوال پوچھا گیا کہ دنیا میں سب سے بڑا جھوٹا شخص کون ہے تو اس لڑکی نے جلدی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی۔ اس لڑکی نے پھر کہا کہ وہ اس لئے کہ میرے ماں باپ نے میں نے اپنے غلہ میں جو چلر رقم جمع کی تھی وہ سب چھین لی اور کہا کہ نریندر مودی جب 31دسمبر کے بعد ہمارے پیسے لوٹائیں گے ہم تمہیں بھی یہ پیسے واپس کردیں گے ۔ لیکن آج تک میرے والدین نے میرے پیسے واپس نہیں کیئے۔ میں نے جب اپنے والدین سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ بیآٹی نریندر مودی نے کہا ہے کہ اچھے دن آئیں گے ۔لیکن تین ماہ کا عرصہ گزر گیا ایک دن بھی میں نے اچھا نہیں دیکھا ، سارے کے سارے دن برے تھے ۔ڈالٹر قمر السلام نے مزید کہا کہ نریندر مودی نے 8نومبر 2016سے لے کر 7مارچ 2017تک جملہ 42مرتبہ نوٹ بندی کو لے کر نئے نئے اعلانات کرکے عوام کو گمراہ کرکے سڑک پر آنے کے لئے مجبور کیا ہے ۔ نوٹ بندی کے نریندر مودی کیاقدام کے لئے ملک کے عوام انھیں کبھی معاف نہیں کریں گے ۔ 
مسٹر مہیش گوڑا جنرل سیکریٹری تیلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی و آبزرونوٹ بندی احتجاج کانگریس کمیٹی نے اہنی تقریر میں کہا کہ نوٹ بندی کا اعلان نریندر مودی کی جانب سے کئے جانے کے بعد عوام میں آج تک بھی بے اطمینانی اور بے چینی کی کیفیت ہی محسوس کی جارہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ نریندر مودی نے کالے دھن کے خلاف نوٹ بندی کا جو مورچہ کھولا ہے وہ دراؤصل امریکہ ، برطانیہ ، اسرائیل دیگر ممالک کو خوش کرنے کے لئے کیا ہے۔ کریڈٹ کارڈ کو لازمی قرار دیکر غریب عوام کو مزید مشکلات میں ڈالنے اور ان کو پریشان کرنے کا نریندر مودی کا یہ نیا حربہ ہے۔ ایک دودھ کی پاکت اور ترکاری حاصل کرنے کے لئے کیا اب اس کے بھی کریڈٹ کارڈملک کے غریب آدمی کو اپنے ساتھ رکھنا پڑے گا۔ انھوں نے مزید کہا کہ گزشتہ چار مہینوں میں ملک جو معیشیت ہے وہ بری طرح سے تباہ ہوئی ہے اور آنے مزید چار مہینوں میں آپ دیکھیں گے ملک کی معیشیت مزید بری طرح تباہ ہو کر رہ جائیگی۔ نریندر مودی ؤکے نوٹ بندی کیھ اعلان کے بعد ملک کے بڑے بڑے ماہرین معیشیت نے اس اقدام کو مککی معیشیت کے حق میں بہتر قرار دیا تھا لیکن آج وہی ماہرین معیشیت یہ کہ رہے ہیں کہ نریندر مودی کا اقدام ایک غیر ذمہ دارانہ اور فلاپ شو تھا ۔ انھوں نے کانگریس پارٹی کو ایک سیکولر جماعت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ جماعت ملک کے تمام طبقات کو ساتھ میں لے کر عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرتی ہے ۔ جبکہ بی جے پی صرف ملک کے اعلی ذات والے طبقوں ، آر ایس ایس ، وی ایچ پی ، بجرنگ دلؤ، ہندو مہا سبھا جیسی تنظیموں کو خوش کرکے اور انھیں اعتماد میں لے کر چل رہی ہے ۔ انھیں ملک کے غریب عوام کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ 
مسٹر بھاگن گوڑا پاؤٹل صدر ضلع کانگریس کمیٹی نے کہا کہ نریندر مودی نے نوٹ بندی کا جو قدم اٹھایا ، اس کے لئے انھوں نے کسی سے بھی مشورہ نہیں کیا ۔ لہٰذا انھیں فوری طور پر اپنے عہدہ سے مستعفی ہوجانا چاہئے ۔ ڈاکٹر محمد اصغر چلبل صدر بلاک کانگریس کمیٹی گلبرگہ شمال نے اپنی تقریر میں کہا کہ انھیں بی جے پی کے دو تین قائیدین کے ایس ایم ایس وصول ہوئے جس میں انھوں نے پوچھا کہ چارہ ماہ کے بعد آپ نوٹ بندی کے خلاف احتجاج کیوں کررہے ہیں تو اس پر انھوں نے جواب دیا کہ آج پانچ سو اور ہزار روپیوں کی کرنسی کو بند ہوئے چار ماہ گزرگئے ہیں ، پھر بھی ملک کے عوام 5ہزار روپیوں سے زائد رقم اپنے بینک ؤکے کھاتوں سے نہیں نکال سکتے۔ نریندر مودی نے ہمارے ہی پیسوں پر انکش لگائی ہے اور ہمیں ان ہی کے حکم پر پیسے نکالنے اور جمع کرنے کا ایک قانون تھوپا ہے ۔ اب ملک کے عوام جب تک نریندر مودی وزیر اعظم ہیں اپنی مرضی سے پیسے جمع نہیں کرسکتے اور نہ ہی اپنی مرضی سے بینوکں سے رقم نکال سکتے ہیں ۔ اس کے لئے ہمیں نریندر مودی کینئے اعلان کا ؤانتظار کرنا پڑے گا۔ 
یہ جلسہ گلبرگہ حلقہ اسمبلی گلبرگہ شمال کے دفتر بلاک کانگریس کمیٹی ، گنج میں منعقد ہوا اور پھر دوپہر دو بجے ڈاکٹر الحاج قمر الاسلام صاحب کی قیادت میں دفتر ڈپٹی کمشنر گلبرگہ پر پہنچ کر ڈپٹی کمشنر کی وساطت سے ایک یادداشت وزیر اعظم نریندر مودی کو روانہ کی گئی ۔ ۔ ڈاکٹر محمد اصغر چلبل نے یادداشت پڑھ کر سنائی جس میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کرنسی نوٹوں کی منسوخی کے وقت اعلان کیا تھا کہ وہ ہندوستان کے عوام سے وعدہ کرتے ہیں کہ وہ انھیں 50دنوں کی مہلت دین اور 30دسمبر 2016تک کا وقت دیں ۔ 30دسمبر کے اگر انھیں محسوس ہو کہ میں نے (نریندر مودی ) نے غلطی کی ہے ،اپنے ارادوں میں ناکام رہا ہوں تو انھیں پورا حق ہوگا کہ وہ مجھے جو چاہے سزا دیں ۔ اس معاملہ میں ملک انھیں جو سزا دے گا وہ اسے قبول کرلیں گے ۔ لیکن اب ہم غور کریں تو بات بالکل سامنے ہیکہ پچاس دن بھی گزر چکے اور 30دسمبر کو گزرے بھی کافی عرصہ ہوگیا نوٹ بندی کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا ۔ عوام آج تک بھی تکالیف جھیل رہے ہیں۔یادداشت کے ذریعہ وزیر اعظم نریندر مودی سے کہا گیا ہیکہ وہ مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ ان کا مذکورہ بالا اقدام درست تھا یا نہیں ۔ یادداشت میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نے عوام کی مشکلات کو سمجھنے میں گلطی کی ہے ۔ انھیں گلبرگہ شمال و شاہ بازار بلاک کانگریس کمیٹیوں کے حدود میں آکر یہاں کے عوام کی مشکلات کا بہ نفس نفیس جائیزہ لینے کی دعوت دی گئی ہے تاکہ وہ اپنے غلط اقدام کو سمجھتے ہوئے ذمہ داری کو قبول کریں ۔ پرکاش چنچولی کر پروٹو کال تحصیل دار نے ڈپتی کمشنر کی جانب سے یادداشت قبول کی ۔ 
احتجاج میں مئیر گلبرگہ سید احمد ، ڈپٹی مئیر اپا راؤ بینور، کارپوریٹرسشرن کمار مودی ، ملیکارجن تینگلی ، شنکر سنگھ، پرمود تیواری ، رفیق خان، حبیب احمد روسہِ عبد الرحمٰن ، عبدارحیم ملاں ، اعجاز احمد ،راجو کپنور، یلپا نائیکوڑی ، فیاض حسین ، علیم الدین پٹیل۔ہلگے اپا کنک گیری، سید سجاد علی انعامدار، اسلم باجے ، لعل احمد ممبئی سییٹھؤ کے علاوہ عبدالقدیر چونگے ، شیخ حسین، امتیاز احمد صدیقی ، وجئے کمار ، توفیق دیسائی ، اشوک نائیک ، ؤنعیم سیریکار، افضال محمود ، شیخ سراجؤ ، عبدالعظیم گولکندی ، نذیر استاد تماپوری ، اقبال کاجل ، محمد واحد علی فاتحہ خوانی وغیرہ شامل تھے ۔ 

وزیر اعلیٰ اروند کجریوال سے کل ہند امام ایسوسی ایشن کے ایک وفد نے مولانا ساجد رشیدی کی قیادت میں 1993کے فیصلے کو لے کر ملاقات کی۔

نئی دہلی ۔08مارچ(فکروخبر/ذرائع)آج مورخہ7؍مارچ 2017کو دہلی کے وزیر اعلیٰ سے کل ہند امام ایسوسی ایشن کے ایک وفد نے مولانا ساجد رشیدی کی قیادت میں 1993کے فیصلے کو لے کر ملاقات کی۔ وزیر اعلیٰ نے وفد کی باتوں کو غور سے سنا اور ایک دو دن کے اندر ہی سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کرنے کے لیے یقین دہانی کرائی۔ ُمولانا محمد ساجد رشیدی نے وفد کی طرف سے وزیر اعلیٰ سے اماموں کی کم تنخواہوں کو لے کر گہرے دکھ کا افسوس کرتے ہوئے کہا کہ آج کے مہنگائی کے دور میں یہ تنخواہ نہایت ہی نا کافی ہے۔اورجبکہ دہلی وقف بورڈ کے تمام امام 24گھنٹے کی ڈیوٹی کرتے ہیں جس کے لئے بھی یہ تنخواہ غیر معمولی ہے اس کی وجہ سے امام نہ اپنے بچوں کی تعلیم کا صیح بندوبست کرپاتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کی شادی صحیح سے کر پاتے ہیں اور کیونکہ امام مسلمانوں میں ایک مذہبی حیثیت رکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا مقام بھی بڑھا ہوا ہے لیکن امت کا یہ طبقہ کم تنخوا ہ کی وجہ سے مفلوک الحالی میں زندگی بسر کر رہا ہے جو مسلمانوں کے لئے بھی اور دہلی سرکار کے لئے بھی باعثِ ندامت ہے اس لئے آپ سے درخواست ہے کہ ہماری درخواست پر جلد از جلد کاروائی کی جائے۔
مولانا محمد ساجد رشیدی نے وزیر اعلیٰ کو یاد دلایا کہ 2015جب آپ کی پہلی سرکار بنی تب بھی ہم نے آپ سے ملاقات کرکے تمام کاغذات دئیے تھے لیکن اُس وقت بھی کوئی کاروائی نہیں ہوپائی تھی اُس کے بعد 2016میں جب آپ دوبارہ سرکار میں آئے تب بھی تمام اماموں نے ملاقات کرکے یہ کاغذات پھر آپ کو دئیے لیکن پھر بھی کوئی کاروائی نہیں ہوئی اُس کے بعد 2017میں اماموں نے دہلی کے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا سے ملاقات کرکے اُن کو سپریم کورٹ کے فیصلے سے آگاہ کیا اور اپنی تنخواہوں میں کورٹ کے فیصلے کے مطابق اضافے کی مانگ کی لیکن مایوسی ہاتھ لگی اور انھوں نے کسی طرح کی کوئی کاروائی نہیں کی جس کا ہمیں بے حد افسوس ہے ۔دہلی حکومت سے مسلمانوں اور خاص طور ائمہ کرام کو بہت ساری اُمیدیں ہیں جن پر آپ کی سرکار کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ آپ نے ابھی ٹیچرس کی تنخواہ بڑھائی ہمیں خوشی ہوئی۔ مزدوری میں خاطر خواہ اضافہ کیا جو قابل تعریف ہے آپ کی حکومت کے اسی بہتر کارنامے پر تمام ائمہ کرام مبارکباد پیش کرتے ہیں اور اُمید کرتے ہیں کہ آپ ہماری تنخواہ بھی سپرم کورٹ کے مطابق بڑھائیں گے۔مولانا محمد ساجد رشیدی نے وزیر اعلیٰ سے کہا کہ اگر دہلی میں ہماری 317پروپرٹیزجو مرکزی حکومت اور ڈی ڈی اے ، این ڈی ایم سی، ایم سی ڈی، اور دہلی حکومت کے ناجائز قبضے میں ہے اگر اُن کا سرکل ریٹ کے حساب سے دہلی وقف بورڈ کوکرایہ ہی مل جائے تو وقف بورڈ کو کسی حکومت کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہ پڑے آپ سے درخواست ہے کہ آپ ان پروپرٹیز کو خالی کرانے یا ان کا کرایہ دہلی وقف بورڈ کو دلانے کے لئے بھی کوشش کریں۔ہمیں امید ہے کہ آپ اس پر سنجیدگی سے غور کریں گے وزیر اعلیٰ نے ہمارے سامنے اپنے OSDسے فون پر بات کی اور کہا کہ مجھے کل ہی اس پر رپورٹ چاہیے اور ہم سے کہا کہ آپ بار بار مجھے پریشان کرتے رہنا تاکہ میں اس کام کو ایک دو دن میں ہی انجام دے سکوں۔ ہمیں امید ہے کہ انشا اللہ اب سپریم کورٹ کے اس فیصلے پرجلد ہی عمل درآمد ہوجائے گا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا