English   /   Kannada   /   Nawayathi

شکر ہے چھوٹا راجن اور چےتيا مسلمان نہیں ورنہ ...: شکیل احمد -(مزید اہم ترین خبریں)

share with us

اردو کتاب میلے کا پانچواں دن : اردو اپنے چاہنے والوں کے دیدار کو ترس رہی ہے; ابھی بھی 22 نومبر تک موقع ہے

نئی دہلی (18نومبر(فکروخبر/ایشیا ٹائمز نیوز) ملک بھر میں اپنی منفرد پہچان رکھنے والا مسلم اکثریتی علاقہ 'جامعہ نگر' جہاں کثیر تعداد میں اردو ادیب،صحافی ، یونیورسٹیوں کے پروفیسر صاحبان سکونت پذیر بتائے جاتے ہیں ، جوفخریہ طور پر سرکاری کاغذات میں اپنی مادری زبان 'اردو' درج کراتے ہیں ،اسی علاقے میں اردو اپنے چاہنے والوں کے دیدار کو ترس رہی ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ ان دنوں جامعہ میہ اسلامیہ کے احاطے میں 14 نومبر سے 22 نومبر تک قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے زیر اہتمام شاندار اردو کتاب میلہ لگایا گیا ہے جس میں 55 پلشرز نے 80 سے زائد اسٹال لگائے ہیں ،ماڈرن طرزپر طبع دینی و عصری کتابوں کا حسین امتزاج اس میلے میں نظر آرہا ہے۔ لیکن خریدار ندارد جسکی وجہ سے پبلشرز کافی مایوس نظر آرہے ہیں ۔ اردو کے ساتھ یہ برتاو 'دبستان دہلی' میں کیا جا رہا ہے تشویش ناک امر یہ ہے کہ اردو کے ساتھ یہ برتاو کسی غیر اردو علاقے میں نہیں بلکہ اردو کے ساتھ یہ برتاو 'دبستان دہلی' میں کیا جا رہا ہے ۔ لگ بھگ دس لاکھ کی آبادی پر مشتمل جامعہ نگر کا یہ علاقہ ہے جس کی مادری زبان اردو ہے کے اگرصرف مقامی لوگ ہی میلے کا رخ کرلیں تو کتابیں کم پڑ جائیں گی ۔ آخراس طرح کی بے رغبتی کیوں ہے؟ اردو کے تئیں آخراس طرح کی بے رغبتی کیوں ہے اس کی اصل وجہ کیا ہے ، جبکہ روزانہ پابندی سے اردو اخبارات میں میلے سے متعلق اشتہار بھی شائع ہو رہے ہیں ۔ میلے میں آنے والوں کی تفریح کے لیے روزانہ کوئی نہ کوئی پروگرام بھی پیش کیا جا رہا ہے ۔علاقے میں میلے کیی ہورڈنگس بھی لگا ئی گئی ہیں ۔ اردو والوں کی یہ بے حسی یہ بتاتی ہے کہ شمالی ہند میں اردو کے حقیقی طلب گار اب نہیں رہ گئے ہیں ان کا معاملہ محض مشاعروں اور اردو بولنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے ، یہاں کے لوگ اردو کتابوں کو خرید کر پڑھنا گوارہ نہیں کرتے ۔ البرٹ آئنسٹائن بھی اردو میں دستیاب ہے میلے کے افتتاح کے پہلے دن سینئر صحافی ایم جے اکبر نے کہا تھا میلے میں بچوں سے متعلق کتابیں دیکھ کر خوشی ہوئی لیکن مجھے اور خوشی ہوتی اگر البرٹ آئنسٹائن بھی اردو میں دیکھتا ایشا ٹائمز کو منشورات پبلکیشن پر آئنسٹائن بھی نظر آئے ۔ قومی اردو کونسل کو ہی کیوں ذمہ دارقرار دیاجائے کچھ لوگ اس کی ذمہ داری قومی کونسل کے سرڈالیں گے جبکہ حقیقت یہ ہےجب یہی قومی کونسل جنوبی ہند میں میلے کا انعقاد کرتی ہے وہاں امید سے زیادہ کامیابی ملتی ہے ۔ میلے میں انمول پبلکیشن جالنہ نے ایشیا ٹائمز کو بتایا کہ میری لائف کا یہ سب سے مہنگا بزنس ٹور ہے ، یقینا اب شمالی ہند سے اردوعملا رخصت ہو چلی ہے ۔ یہی میلہ گزشتہ برس اورنگ آباد میں لگا تھا ہم سب نے خوب بزنس کیا یہاں تو بڑی مشکل ہو رہی ہے ۔ ابھی بھی 22 نومبر تک موقع ہے دہلی والوں کو اردو دوستی کا عملی ثبوت پیش کرنے کا ابھی بھی 22 نومبر تک موقع ہے گھروں سے نکلیں اور اردوکے سچے ساتھی بنیں۔ اردو کی بقا پر سب سے زیادہ پریس بیان شاید دہلی کے اسی جامعہ نگر سے پریس ریلیز کی شکل میں اخبارات کو جاری ہوتا ہے لیکن حقیقی محب اردو تو وہی ہے جو اردو پڑھے اور پڑھائے اور یہ کتابوں کے ذریعے ہی ممکن ہے ، کتابوں کا متبادل کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا اس رپورٹ کا مقصد کسی کو کلین چٹ دینا نہیں ہے قومی کونسل کو بھی اس کا جائزہ لینا ہوگا کہ کہ ان کے انتظام و انصرام میں کیا کچھ کمی رہ گئی جس کی وجہ سے میلے میں محبان اردو کی شرکت متاثر ہو رہی ہے ، کہیں تفریحی پروگرام کی وجہ سے تو میلے کی سیل متاثر نہیں ہو رہی ہے ۔ جنوبی ہند کے کامیاب اردو کتاب میلے ہمیں آگاہ کر رہے ہیں کہ شمالی ہند سے اردو کا مرکز جنوبی ہند منتقل ہو چکا ہے


بھگوا ٹولیوں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں ۔۔۔مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی

نئی دہلی۔ 18نومبر(فکروخبر/ذرائع)شیر میسور ،فخر ہندستان ، اولین مجاہد آزادی ،عظیم مسلم سپہ سالارٹیپو سلطان شہید ؒ کے یوم ولادت کی تقریبات کا فرقہ پرست عناصر اور شدت پسند طاقتوں کی طرف سے مخالفت کو ہندستان کی جمہوریت اور سیکولرازم پر حملہ قرار دیتے ہوئے آل انڈیا تنظیم علماء حق کے قومی صدر اور مشہور عالم دین مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی نے جاری پریس اعلامیہ میں کہا ہے کہ بھگوا ٹولے کی طرف سے ٹیپو سلطان کے یوم ولادت کی تقریبات کی مخالفت کے معاملے سے یہ عیاں ہوگیا ہے کہ مرکز میں بی جے پی کی قیادت میں حکومت کی تشکیل کے بعد ہندو تو فلسفہ پر یقین رکھنے والے عناصر کے حوصلے ساتویں آسمان پر پہنچ گئے ہیں اور وہ ہماری تاریخ کے عظیم سپہ سالاروں کی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات کو بھی ہندو مسلم دشمنی کی عینک سے دیکھنے لگے ہیں۔یہ لوگ مسلم دشمنی میں اتنے بے خود ہوگئے ہیں کہ کہ کبھی اورنگ زیب کے نام سے موسوم شاہراہ کا نام تبدیل کیا جاتا ہے، تو کبھی اسکول کی نصابی کتابوں سے اسلام کی تاریخ پر مبنی واقعات کو حذف کرنے کا منصوبہ بنایا جاتا ہے۔ انھوں نے ٹیپو سلطان کو روادار اور ہندو مسلم اتحاد میں یقین رکھنے والا حکمراں بتایا اور یہ کہا کہ سب سے پہلے انھوں نے ہی برطانوی سامراج کے خلاف تحریک آزادی کا آغاز کیا تھا۔وہ برطانوی افواج سے پامردی کے ساتھ دو بدو لڑتے ہوئے سرنگاپٹنم کے قلعے میں اپنی جان جاں آفریں کے سپر دکردی تھی اور اس شیر دل فرماں روا کی انگریزی افواج میں اتنی دہشت قائم تھی کہ ٹیپو کی شہادت کی خبرکو برطانوی اہل کاروں نے یوم فتح قرار دیتے ہوئے یہ اعلان کیا تھا کہ آج سے ہندستان ہمارا ہے۔مولانا قاسمی نے کہا کہ بی جے پی کے اشارے پر اس جمہوری ملک کی تاریخ کو زعفرانی رنگ میں رنگنے اور اس کے تکثیری کردار کو سبوتاژ کرنے کی کوشش عروج پر ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے کرناٹک میں ان کے یوم ولادت کی تقریبات پر چوک چوراہے پر ہنگامہ کیا جارہا ہے اور گاندھی جی کے قاتل گوڈسے کی موت کے دن کو بلیدان دیوس کے طور پر منانے اور اس کا مندر بنانے کی مذموم کوشش کی حکومتی سطح پر حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ٹیپو سلطان ایک سچے مسلمان ضرور تھے، مگر وہ مسلمان ہونے ساتھ ایک فراخ دل، وسیع القلب،جمہوری قدروں میں یقین رکھنے والے علم دوست اور رعایا نواز عظیم مسلم حکمراں بھی تھے۔ وہ کثرت میں وحدت ، قومی یک جہتی اور وفرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فلسفے کو اپنی حکومت و سلطنت کی کامیابی کی کلید سمجھتے تھے۔ انھوں نے کبھی مذہب اور ذات پات کی بنیادپر اپنا نظام حکومت نہیں چلایا، بلکہ اپنی سلطنت کے دائرے میں آنے والے ہندو مسلم سبھی طبقے کے لوگوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کیے۔مخالفت کرنے والوں کو یہ بتانا چاہیے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کون سا ایسا کام کیا تھا، جس سے ان کی وطن دوستی اور حب الوطنی شک کے دائرے میں آتی ہے۔انھوں نے کہا کہ ٹیپو سلطان انگریزوں کے ناپاک وجود کو ہندستان میں برداشت کرنے کے لیے قطعی تیار نہیں تھے، ان کی دشمنی میں ان کی بوٹی بوٹی پھرکتی تھی اور انھوں نے اسی لیے برملایہ تاریخی جملہ کہا تھاکہ’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے۔ انھوں نے کہا کہ ٹیپو سلطان شہید اتحاد و یک جہتی اور قومی اتحاد و اتفاق کی روشن علامت تھے۔ وہ قومی ایکتا اور اپنے خون سے ہندو مسلم دوستی کے جذبے کو پروان چڑھانے والے ایسے مسلم حکمراں تھے، جنھوں نے اپنی فوج میں غیر مسلم برادران وطن کوبھی سپہ سالار کی حیثیت سے شریک کیا ، اور بلا تفریق مذہب و فرقہ انھیں عظیم عہدے اور مناصب بھی تفویض کیے تھے۔ ان کی مخالفت کے بجائے اس عظیم مسلم بادشاہ کی خیر سگالی اور قومی ہم آہنگی کے جذبے سے عہد حاضر کے حکمرانوں اور سیاسی رہ نماؤوں کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ مولانا نے ٹیپو سلطان کے جدو جہد آزادی میں نام اور کام کے تذکرے کو عام کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اسکولوں، مدارس اسلامیہ اور جامعات میں اس عظیم بادشاہ کے یوم ولادت اور یوم وفات پر تقریبات کا انعقاد کرکے ان کے تاریخی کارناموں کو عام کرنا چاہیے، تاکہ نسل نو ان کے کارناموں کو مشعل راہ بناسکے اور ملک و قوم کی فلاح و بہبود کا نقشہ ترتیب دے سکے۔انھوں نے جنگ آزادی میں ٹیپو سلطان کی خدمات کو یادکرتے ہوئے کہ اگر انھوں نے انگریزی سامراج سے اس ملک کی آزادی کے لیے علانیہ جنگ کا اعلان نہیں کیا ہوتا، تو یہ ملک انگریزوں کے چنگل سے کب آزاد ہوتا ، اس کی پیشین گوئی ممکن نہیں تھی۔ انھوں نے کہا کہ فرقہ پرستوں کی مخالفت کو درکنار کرتے ہوئے کرناٹک سرکار نے جس طرح ان کے یوم ولادت کا جشن منایا ہے، وہ شدت پسندوں کے منہ پر ایک زبردست طمانچہ ہے۔


قرآن کے پیغام کو جاننے کی بے چینی ہونی چاہئے

پٹنہ سیٹی۔18نومبر (فکروخبر/ذرائع)’عام طور سے مسلمان نئے مکان کی تعمیر کے بعد میلاد کا نظم کرتے ہیں۔ لیکن انہیں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ اس کا اصل مقصد کیا ہے اور اس کی شروعات کس طرح ہوئی۔ ‘یہ باتیں منگل کو گھسیاری گلی واقع ’کاشانۂ حسنو‘ میں مولانا حسن رضا خاں نے میلاد کے دوران کہیں۔میلاد کا اہتما م مرحوم محمد حسن کے نواسے شیخ محمد بلال کے حفظ قرآن، نواسی لبنیٰ کے ختم قرآن اور تعمیر مکان کے موقع پر کیا گیا تھا۔مولانا نے کہا کہ مخدوم کے مکتوبا ت کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے فرعون کے زمانے میں اینٹ کے مکانات بننے کی شروعات ہوئی تھی۔ جس کا مکان اینٹ ہوتا تھا، اس میں گھمنڈ، غرور اور اکڑ پیدا ہوجا تی تھی اور وہ خود کو دوسروں سے ممتاز سمجھنے لگتا تھا۔ مسلمانوں کے یہاں میلاد دراصل اس لئے ہوتا ہے کہ جس شخص کا مکان تعمیر ہوا ہے، اس میں اس قسم کی نفسیات یعنی فرعونیت پیدا ن ہ ہو۔ اس موقع پر مولانا نے ہر مسلم مرد و عورت کو قرآن شریف کی تلاوت کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ اس میں اللہ کا پیغام ہے جو ہر ایک بندے کے لئے ہے۔ ہرا یک مسلمان میں اس پیغام کو جاننے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کا جذبہ ہونا چاہئے۔ انہوں نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ کرناٹک میں ملازمت کر رہے ایک ناخواندہ باپ کو اس کے بیٹے نے چٹھی لکھی۔بیٹا بھی ناخواندہ تھا اس لئے اس نے اپنے ہم ساتھی ملازم، جو کنڑ زبان جانتا تھا، سے چٹھی لکھوائی۔ پٹنہ میں کوئی کنڑ جاننے والا نہیں تھا، اس لئے باپ بڑا پریشان ہوا اور کئی جگہ دوڑا بھاگا کہ کوئی یہ پڑھ کر بتا دے کہ اس کے بیٹے نے کیا لکھا ہے۔ آخر میں وہ ایک بینک گیا جہاں کا ایک افسر کرناٹک کارہنے والا تھا۔ اسی نے خط پڑھ کر سنایا کہ اس کے بیٹے نے لکھا ہے کہ وہ عنقریب پانچ لاکھ روپے بھیج رہا ہے اور اگلے مہینے کی پانچ تاریخ کو آرہا ہے۔یہ جان کر باپ خوشی سے جھوم اٹھا۔ مولانا نے کہا کہ اسی طرح کی بیچینی اور بیتابی قرآن کے پیغام کو جاننے کے لئے بھی ہونی چاہئے جسے اللہ نے آخری نبی کے توسط سے اپنے بندوں کی دنیا و آخرت کو سنوارنے کے لئے بھیجا ہے۔ 


آلودگی سے بچاؤ،تاج محل کے قریب واقع شمشان گھاٹ کو منتقل کرنے کا حکم 

آگرہ ۔ 18 نومبر (فکروخبر/ذرائع) سپریم کورٹ نے تاج محل کے قریب واقع ایک شمشان گھاٹ کو دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔عدالتی حکم کے مطابق تاج محل کو لکڑیوں کے جلنے سے ہونے والی آلودگی سے بچانے کے لیے اس شمشان گھاٹ کو وہاں سے ختم کیا جائے۔عدالت کا یہ حکم ایک جج کی اس تنبہہ کے بعد آیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ اس دھوئیں سے 17ویں صدی کے سنگِ مرمر کی تاریخی عمات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔عدالت نے ریاست اتر پردیش کے حکام سے کہا ہے کہ یا تو اس شمشان گھاٹ کو منتقل کریں یا پھر یہاں بجلی سے چلنے والا شمشان گھاٹ بنائیں۔ریاست کے وکیل وجے بھردجواد سنگھ نے عدالتی فیصلے سے اتفاق کیا ہے اور ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اچھی صلاح ہے اور میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ مجھے دو ہفتوں کا وقت دیں میں اس کے حل کے ساتھ آؤں گا۔دوسری جانب شمشان گھاٹ کے عملے نے آلودگی کے الزامات کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ ’مردہ جلاتا ہوئے گھی، کافور، صندل اور گوبر کا استعمال کیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ تاج محل شاہ جہاں نے سنہ 1653 میں اپنی بیوی ممتاز محل کے لیے بنوایا تھا جو اس کے 14ویں بچے کو جنم دیتے ہوئے مر گئی تھی۔تاجل محل سفید سنگِ مر مر سے بنا ہے۔ اسے یونیسکو نے سنہ 1983 میں عالمی تاریخی ورثہ قرار دیا تھا۔


دہشت گردانہ حملے کے بعد بھی حفاظتی بندوبست میں لاپروائی

لکھنؤ۔18نومبر(فکروخبر/ذرائع ) پیرس میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے بعد بھی چار باغ ریلوے اسٹیشن پر تحفظ کے تئیں لا پروائی برتی جارہی ہے۔ اسٹیشن پر تعینات جی آر پی اور آر پی ایف کے جوان آرام کرتے نظر آ رہے ہیں اور لوگ بے خوف اسٹیشن احاطہ میں آ جا رہے ہیں۔ اس معاملے میں جب اسٹیشن انچارج سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ وقتاً فوقتاً جانچ کی جاتی ہے ہر وقت مسافروں کی تلاشی لینا مناسب نہیں ہے۔ پیرس میں دہشت گردانہ حملے سے جہاں ہر شخص کو تحفظ کی فکرستا رہی ہے وہیں چار باغ کی حفاظت کے ذمہ داروں کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔ چار باغ میں داخل ہونے والے جتنے بھی راستے ہیں ان میں سے کسی میں بھی تحفط پر ذرا بھی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ جس کی سمجھ میں آتا ہے وہ اندر چلا آتا ہے ایسے میں اگر کوئی دھماکہ خیز اشیاء لے کر اندر آنا چاہے اور خدا نا کرے کوئی واردات انجام دینا چاہے تو اس کو کوئی بھی پریشانی نہیں ہوگی۔ چارباغ اسٹیشن کے گیٹ نمبر ۱ سے لیکر سارے داخلے اور نکاسی کے راستے خالی پڑے رہتے ہیں یہی حال پلیٹ فارم نمبر ۹ پر بنے داخلہ گیٹ کا بھی ہے۔ جہاں کسی بھی وقت کوئی بھی اندر آ جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں جب ڈی کے اپادھیاے انچارج چارباغ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہر وقت تلاشی لینا مناسب نہیں ہے اور کبھی کبھی جانچ کی جاتی ہے۔ 


دہشت گردی کے خلاف جمعیۃ علمائے ہند کا ملک گیر احتجاج شروع

نئی دہلی۔18نومبر(فکروخبر/ذرائع )جمعیۃ علمائے ہند (محمود) نے اسلام کے نام پر دہشت گردی کے خلاف آج ملک گیر سطح پر احتجاج شروع کیا جس میں تنظیم کے علاوہ مختلف ملی۔ مسلکی۔ سماجی تنظیموں کے ساتھ تمام مذاہب کے نمائندے اور اراکین شامل ہیں۔ یہاں جنترمنتر پر منعقدہ احتجاجی پروگرام میں تنظیم کے جنرل سکریٹری اور سابق ممبر پارلیمنٹ مولانا محمود مدنی نے کہا کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور جو لوگ اس کے نام پر بے قصور افراد کو قتل کررہے ہیں۔ وہ اسلامی احکامات کی سنگین خلاف ورزی کررہے ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ داعش جیسی تنظیمیں اسلام کا نام لیکر جس انداز سے دہشت گردانہ حرکتیں کررہی ہیں وہ انتہائی قابل مذمت ہے اس کی کسی بھی طرح ہرگز حمایت نہیں کی جا سکتی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ لوگ نہ صرف اسلام کے خلاف کام کررہے ہیں، بلکہ وہ اپنی حرکتوں سے اسلام کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ مولانا محمد مدنی نے بتایا کہ قومی راجدھانی دہلی سمیت ملک کی مختلف ریاستوں میں جمعیتہ علما ہند کے اراکین تقریباً 75 مقامات پر دہشت گردی کے خلاف آج احتجاج و مظاہرہ کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اپنی تحریک کے ذریعہ وہ پوری دنیا اور خاص طو ر پر مسلمانوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ عراق و شام میں سرگرم آئی ایس (داعش) اور اس طرح کی دیگر تنظیمیں ہرگز مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتے ۔اسلامی جہاد کے نام پر وہ جس بربریت کا مظاہرہ کررہے ہیں وہ جہاد نہیں بلکہ صریح دہشت گردی ہے اور ان کی ان حرکتوں سے پوری دنیا کے مسلمان خود کو شرمندہ محسوس کررہے ہیں۔ مولانا محمود مدنی نے مسلمانوں اور خاص طور پر مسلم نوجوانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ داعش کے اسلامی جہاد کے نعروں کے جھانسے میں ہرگز نہ آئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہندستان کے مسلما ن پہلے سے بھی دہشت گردی کے خلاف رہے ہیں۔ لیکن اب وہ اس کے خلاف سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہندستانی مسلم نوجوان دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ نہیں ہیں اور نہ ہی وہ آئندہ ان کے جھانسے میں آنے والے ہیں۔ اس کے ساتھ مولانا مدنی نے ان بڑی عالمی طاقتوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جو پہلے اپنے دشمنوں کو زیر کرنے کے لئے دہشت گردوں کی پرورش اور سرپرستی کرتے ہیں پھر پوری دنیا کے لوگوں کو ان کی دہشت گردی کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ۔


راج ناتھ سنگھ چین کے دورے پر روانہ

نئی دہلی۔18نومبر(فکروخبر/ذرائع ) ہندوستان اور چین کے درمیان سلامتی اور دیگر شعبوں میں تعلقات کو مستحکم کرنے کے لئے مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ آج ایک اعلی سطحی وفد کے ساتھ چین کے پانچ روزہ دورے پر روانہ ہوگئے ۔گذشتہ ایک دہائی میں کسی ہندوستانی وزیر داخلہ کا چین کا یہ پہلا دورہ ہے اس سے قبل 2005 میں وزیر داخلہ شیوراج پاٹل چین کے دورے پر گئے تھے ۔ مسٹر سنگھ چینی حکام کے ساتھ شمال مشرق میں انتہاپسندوں کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ کے معاملے پر خصوصی طور پر بات چیت کریں گے ۔مسٹر سنگھ نے ایک بیان میں کہا کہ مجھے اس دورے سے کافی امید ہے اور توقع ہے کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان باہمی افہام و تفہیم اور اعتماد میں اضافہ ہوگا۔وزیر داخلہ اس دوران چینی وزیر اعظم اور سیکورٹی امور کے وزیر کے ساتھ ملاقات میں باہمی تعلقات پر بات چیت کریں گے ، جس کے بعد فریقین کی طرف سے مشترکہ بیان پر دستخط کئے جائیں گے ۔ وہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے سیاسی اور قانونی امور کے کمیشن کے سکریٹری سے بھی بات چیت کریں گے ۔ مسٹر سنگھ ایک اسپیشل آّرمس یونٹ اور مقامی تھانے کا بھی دورہ کریں گے ۔ وہ ہفتہ کے روز شنگھائی جائیں گے اور سٹی کمان اور کنٹرول کا دورہ کریں گے ۔مسٹر سنگھ کا یہ دورہ ایسے وقت ہورہا ہے جب دونوں ملکوں کے تعلقات میں گرمی آرہی ہے اور دونوں ملکوں نے کئی پیچیدہ مسائل کا حل کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے ۔


پل سے ٹریکٹر کا انجن گرا دو خواتین ہلاک

موتیہاری۔18نومبر(فکروخبر/ذرائع ) بہار میں ضلع مشرقی چمپارن کے سگولی تھانہ علاقے میں سکرہنا پل سے ایک ٹریکٹر کا انجن گرجانے سے چھٹھ کا برت رکھے ہوئے دو خواتین کی موت ہوگئی اور ایک بچہ زخمی ہوگیا۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ چھٹھ کا برت رکھنے والے عقیدت مند جب صبح کا چڑھاوا چڑھاکر واپس لوٹ رہے تھے تبھی سکرہنا پل سے ایک ٹریکٹر کا انجن کھل کر ان پر گر گیا۔ اس حادثے میں پونم دیوی (35) اور پرینکا کماری (18) کی موقع پر ہی موت ہوگئی جبکہ ایک بچہ بھی زخمی ہوگیا۔ ذرائع نے بتایا کہ زخمی بچے کو مقامی اسپتال م یں داخل کرایا گیا ہے ۔ پولیس نے لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لئے بھیج دیا ہے ۔


اللہ کی معرفت کو پہچاننے کے لئے غور و فکر کرنا ضروری: علیم الدین بلخی

اختر عادل گیلانی کی کتاب نبیوں کی کہانی قرآن کی زبانی پر گفتگو کے لئے نشست کا انعقاد

پٹنہ۔19 نومبر(فکروخبر/ذرائع)تحریک تعمیر اسلامی معاشرہ کے زیر اہتمام یہاں تحریک کے رکن اور خطیب محمد اختر عادل گیلانی کی کتاب نبیوں کی کہانی قرآن کی زبانی کا اہتمام کیا گیا جس میں دانشوروں نے گیلانی صاحب کی کوششوں کی تعریف کی اور اسے عبادت سے تعبیر کیا۔ نشست کی صدارت خانقاہ بلخیہ فردوسیہ فتوحہ کے سجادہ نشیں حضرت مولانا سید شاہ علیم الدین بلخی نے کی اور نظامت کا فریضہ ممتاز عالم دین اور خطیب مولانا فضل کریم قاسمی نے ادا کیا۔مولانا علیم الدین بلخی نے اپنی صدارتی خطبہ میں کہا کہ اللہ کی معرفت کی پہچاننے کے لئے غور و فکر کرنا ضروری ہے۔ یہ ایک طرح کی عبادت ہے۔ انہوں نے اختر عادل گیلانی کی کتاب کی تعریف کی۔ انہوں نے قرآن شریف کو سمجھ کر پڑھنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ قرآن ہی واحد ایسا آسمانی صحیفہ ہے جو مختلف طرح کی غلط فہمیوں کا ازالہ کر سکتا ہے۔ مولانا بلخی نے کہا کہ قرآن کا سب سے بڑا اعجاز یہ ہے کہ اس کی تلاوت سے بہت مزہ ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاہے کتنی ہی دلچسپ کوئی کہانی ہو، داستان ہو یا قصہ ہو، آپ پڑھتے پڑھتے تھک جائیے گا لیکن قرآن کریم کی تلاوت سے آپ کو تھکاوٹ کے بجائے لطف حاصل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کریم دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ مخالفین نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے اور اس پر حیرت ظاہرکی ہے۔ اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے جامع مسجد مرادپور پٹنہ کے امام و خطیب مولانا غلام اکبر قاسمی نے کہا کہ قرآن کریم کی تشریح کے لئے جتنی کتابیں لکھی گئیں اتنی کتابیں کسی دوسرے مذاہب میں نہیں لکھی گئیں۔ یہ قرآن کا معجزہ ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کریم کسی کی جاگیر نہیں ہے۔ اس سے جو لوگ جتنا رشتہ جوڑیں گے قرآن اس سے اتنا ہی جڑے گا۔ مولانا قاسمی نے کہا کہ اختر عادل گیلانی کی اس کتاب کو اسکولوں کے نصاب میں شامل کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں علمائے کرام کی بڑی خدمات رہی ہیں اور مدارس اسلامیہ نے ایمان کو بچائے رکھا ہے ۔ اگر مدارس اور خانقاہیں نہ ہوتیں تو آج اسلام کچھ اور ہی شکل ہوتی ۔ ممتاز خطیب ابو نصر فاروق نے کہا کہ اخترعادل گیلانی محقق ہیں۔ وہ جو کچھ لکھتے ہیں تحقیق کے ساتھ لکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کئی لوگوں نے انبیائے کرام کی کہانیاں لکھی ہیں لیکن اختر عادل گیلانی کا انداز سب سے منفرد ہے۔ ماہر تعلیم پروفیسر محفوظ الرحمن اختر نے اس کتاب پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے اسے وقت کی ضرورت قرار دیا اور کہا کہ اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے جو بھی کام کیا جائے وہ عبادت ہے۔ اس لئے اس کتاب کی تصنیف بھی عبادت ہے۔ حافظ فیروز احمد نے کہا کہ اختر عادل گیلانی تحریک اسلامی معاشرہ کے بانی ڈاکٹر سید ضیاء الھدیٰ کے اسکول کے پروردہ ہیں ا سلئے ان کے کام اور ان کی تحریریں بھی دعوتی ہوتی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہ اختر عادل گیلانی کی کتاب چونکہ دعوتی ہے ا سلئے آج کی یہ نشست بھی دعوتی مشن کا حصہ ہو گئی ہے۔ اس موقع پر کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے سینئر صحافی ڈاکٹر ریحان غنی نے کہا کہ ہر دو رمیں نظریہ توحید اور نظریہ کفر میں تصادم رہا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی دراز ہے اور قیامت تک رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ اختر عادل گیلانی کی اس کتاب سے نئی نسل کو زیادہ فائدہ حاصل ہوگاکیوں کہ انہوں نبیوں کے حالات جاننے کیلئے قرآن کے مختلف صفحات کھنگالنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ نشست کا آغاز حافظ رمان غنی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا اور اسامہ غنی نے بارگاہ رسالت مآبؐ میں نعت کا نذرانہ پیش کیا۔ نشست میں صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی ڈاکٹر جاوید حیات، سید شکیل حسن، ڈاکٹر منور گیلانی، سرفراز عالم ، نصر بلخی، معین کوثر، ڈاکٹر عبدالواحد انصاری، ضیاء الرحمن ، انور امام غزالی، مشتا ق احمد، خورشید عالم ایڈوکٹ، نوشاد عالم، شاہد انور، انوار الہدی، وکیل حسن، ڈاکٹر محبوب اقبال، اسماعیل حسنین نقوی، پروفیسر محمد شفاعت، مظفر زاہدی، ارشد اقبال، ارشد امام اور صدر الحق سمیت کافی تعداد میں اہل ذوق حضرات موجود تھے ۔


سو روپئے نہ دینے پر ہوم گارڈ نے ڈرائیور کے توڑے دانت

لکھنؤ۔18نومبر(فکروخبر/ذرائع )اب ٹریفک پولیس کے پاس صرف وصولی کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں ہے۔ منگل کو ویبھوتی کنڈ علاقہ میں ٹریفک پولیس نے ایک خراب حرکت کو انجام دیا۔ صرف سو روپئے نہ دینے پر سپاہی اور ہوم گارڈ نے ڈی سی ایم ڈرائیور کو پیٹ پیٹ کر لہو لہان کر دیا۔ مار پیٹ کے دوران ہوم گارڈ نے ڈرائیور کے منہ پر ڈنڈا مار دیا جس سے اس کے کئی دانت ٹوٹ گئے۔ مار پیٹ کی اطلاع پا کر موقع پر پہنچی پولیس نے ڈرائیور کو حراست میں لے لیا ہے۔ سپاہی اور ڈرائیور نے اس سلسلے میں تحریر دے دی ہے۔ پولیس نے دونوں طرف سے رپورٹ درج کر کے جانچ شروع کر دی ہے۔ شہید پتھ پر کمتا چوراہے کے نزدیک ٹریفک سپاہی کی منگل کی صبح ڈیوٹی لگی تھی۔ صبح کلیان پور کانپور سے ڈی سی ایم ڈرائیور نند کشور ٹاٹا موٹر کا سامان لاد کر لا رہا تھا تبھی وہاں کھڑے سپاہی نے ڈی سی ایم یو پی ۶۶ ٹی ۸۰۳۹کے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کا اشارہ کیا۔ ڈرائیور کا الزام ہے کے اس دوران سپاہی نے اس سے سو روپئے مانگے ڈرائیور نے روپئے دینے سے منع کیا تو سپاہی نے گالی گفتاری شروع کر دی اور مار پیٹ پر آمادہ ہوگیا۔ اس دوران ہوم گارڈ نے ڈرائیور کے منہ پر ڈنڈا مار دیا جس سے اس کے دانت ٹوٹ گئے۔ ڈرائیور کو پٹتا دیکھ کر لوگوں نے ٹریفک سپاہی کو جم کر پیٹا اور اس کی وردی پھاڑ دی۔ مار پیٹ کی اطلاع پاکر موقع پر پہنچی پولیس نے ڈرائیور کو حراست میں لے لیاہے۔ متاثر سپاہی نے اس سلسلے میں تحریر دی ہے۔ پولیس جانچ کر رہی ہے۔ لٹیرے لگا رہے ہیں عام آدمی پر لوٹ کا الزام: سپاہی نے کہا کہ ایک موٹر سائیکل سوار نوجوان نے ڈرائیور کا علاج کرانے کیلئے جبراً اس کی جیب سے پانچ ہزار روپئے نکال لئے اور فرار ہو گیا۔ اس سلسلہ میں ویبھوتی کھنڈ پولیس نے بتایا کہ سپاہی صبح نوانٹری میں آرہی گاڑیوں کو رکوا رہا تھا تبھی دونوں لوگ آپس میں متصادم ہو گئے۔ صبح ہوتے ہی وصولی پر اتر آتی ہے ٹریفک پولیس: شہر کے رنگ روڈ پر صبح سے ہی ناجائز وصولی کا کاروبار شروع ہوجاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق آئی آئی ایم روڈ ، انجینئرنگ کالج چوراہا، ڈالی گنج تراہا، ٹیڑھی پلیا، منشی پلیا،پالیٹکنک، کمتا چوراہا، مٹیاری چوراہا، تیلی باغ، شنی مندر، عالم باغ چوراہا، بدھیشور چوراہا، دوبگا بائی پاس پر صبح سے ہی چادر بچھادی جاتی ہے اور شام ہوتے ہی آپس میں حساب کرنے کے بعد سب چلے جاتے ہیں۔


دہشت گردی کے نام پر سیاست کررہی ہیں ایس پی اور بی جے پی: کانگریس

لکھنؤ۔18نومبر(فکروخبر/ذرائع )کانگریس نے دہشت گردی کے مسئلہ پر ریاست کے کابینی وزیر محمد اعظم خاں اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن اسمبلی ساکشی مہاراج کے درمیان چھڑے بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ پارٹی ترجمان سریندر راجپوت نے کہا کہ غیر ملکی زمین پر ہونے والی دہشت گردی پر ان دونوں رہنماؤں کے درمیان ساز باز لگتی ہے۔ یہ لوگ ریاست میں کہیں نہ کہیں دہشت گردی کے نام پر سیاست کر رہے ہیں کوئی اسے ایکشن۔ ری ایکشن بتا رہا ہے تو بی جے پی رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے ساری حدیں توڑتے ہوئے اعظم خاں کو آئی ایس آئی ایس سے جڑا بتایا ساکشی مہاراج کے بیان القائدہ کی فہرست بھی مسٹر خان بناتے ہیں جو قابل مذمت و قابل اعتراض ہے۔ ان دونوں لیڈروں کے خلاف قانون کی دفعات کے مطابق سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ مسٹر راجپورت نے کہا کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے اس کی ہر صورت میں مذمت ہونی چاہئے۔ اس کے خلاف دنیا کی ساری طاقتوں کو متحد ہونا چاہئے۔ اترپردیش اور ملک اس وقت جس فرقہ پرستی اور دہشت گردی سے لڑ رہا ہے اس کے خلاف بھی سماج کے سبھی طبقوں کو متحدہونے کی ضرورت ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا