English   /   Kannada   /   Nawayathi

نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوبھال نے گزشتہ ماہ اسرائیل اور ایران کا 'خفیہ' دورہ کیا(مزید اہم ترین خبریں)

share with us

چھب ہار پورٹ عمان کی خلیج میں ہے۔ دونوں ہی ممالک میں مستقبل میں اہونے والے اہم دوروں کو لے کر بھی بات چیت ہوئی۔ سمجھا جا رہا صدر پرنب مکھرجی اگلے ماہ اسرائیل کے دورے پر جا سکتے ہیں۔ مودی اگلے سال اسرائیل اور ایران یعنی دونوں ممالک کی دورے پر جا سکتے ہیں۔ ڈوبھال کے دورے کو اس لیے عام نہیں کیا گیا ۔ مغربی ایشیا کو لے کر حکومت کافی سنگین ہے۔ اسے لے کرخارجہ سکریٹری نے جولائی میں سنگاپور میں ایک لیکچر بھی دیا تھا۔ جس میں انہوں نے مغربی ایشیا میں ہندوستان کی پالیسی کے بارے میں بتایا تھا۔ اسرائیل کا جوہری سینٹر چونکانے والی بات یہ ہے کہ ڈوبھال ان خاص غیر ملکی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اسرائیل کے جوہری مرکز کا دورہ کیا۔ دشت نجب واقع جوہری مرکز ڈمونا شہر سے 35 کلومیٹر دور سمندر کے کنارے پر ہے۔ اسرائیل کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے 1950 میں فرانس کی مدد سے ایٹمی ہتھیار تیار کئے تھے۔ تاہم، دنیا کو اس بارے میں انتہائی کم معلومات ہے۔ دشت نجب نیوکلیئر سینٹر ہے جہاں ہے وہاں کوئی ہوائی جہاز نہیں جا سکتا۔ 1973 میں اسرائیل نے اس علاقے میں گھسنے کی کوشش کر رہے لیبیا کے سول ہوائی جہاز کو فوری طور پر مار گرایا تھا۔ اس ہوائی جہازنے اپنا روٹ بدلنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس ہوائی جہاز میں 108 افراد سوار تھے ، تمام ہلاک ہو گئے تھے۔ نیوکلیئر سینٹر جانے کے پیچھے کیا مقصد؟ ڈوبھال کے نیوکلیر سینٹر جانے کا مقصد تو صاف نہیں ہے لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان جوہری ریلیشن مضبوط ہو رہے ہیں۔ تاہم، اس بات کو کنفرم نہیں کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جوہری کو-آپریشن ہو رہا ہے۔ ڈمونا میں ہندوستانی نژاد قریب 7500 یہودی رہتے ہیں اور سمجھا جا رہا ہے کہ مودی اگلے سال اسرائیل کے دورے کے وقت اس شہر میں بھی آئیں گے۔ خفیہ دورے کرتے رہے ہیں ڈوبھال اجیت ڈوبھال پہلے بھی خفیہ دورےکرتے رہے ہیں۔ عراق میں پھنسے ہوئے ہندوستانیوں کو نکالنے کے لئے وہ وہاں کے ان علاقوں میں بھی گئے تھے جہاں جنگ کے حالات تھے۔ لیکن ایران اور اسرائیل کے اس دورے کا مقصد کچھ اور ہی تھا۔ ہندوستان اور پاکستان کی طرح ہی اسرائیل نے بھی جوہری عدم توسیع کے معاہدے (Non- Proliferation Treaty) پر دستخط نہیں کئے ہیں۔ تاہم، اسرائیل نے ہندوستان کی طرح سول اور ملٹری نیوکلیئر سہولیات کو الگ الگ نہیں کیا ہے۔ کیوں ضروری ہے مغربی ایشیا میں ہندوستان کا رول؟ مغربی ایشیا کو لے کر مودی حکومت کے حساس ہونے کی کئی وجوہ وہیں۔ اسرائیل اور ایران دونوں اس علاقے میں طاقتور ہیں۔ حکومت ہند کو لگتا ہے کہ مغربی ایشیا میں ہندوستان کےمفاد کے لحاظ سے ان دونوں سے ڈپلومیٹک توازن رکھنا ضروری ہے۔ حکومت خلیج سے بھی بہتر تعلقات رکھنا چاہتی ہے۔ سعودی عرب، عمان اور متحدہ عرب امارات میں ہندوستان کے سفیر رہ چکے تلميج احمد کا کہنا ہے کہ ہم اس سوچ کو ختم کرنا چاہتے ہیں کہ ہندوستان کسی ایک طاقت کے ساتھ کھڑا رہنا چاہتا ہے۔ کیوں گئے ایران؟ ہندوستان نے اسی سال مئی میں ایران کو یقین دلایا تھا کہ وہ چھب ہار پورٹ کے ڈیولپمنٹ پروجیکٹ میں 200 ملین خرچ کرے گا۔ دراصل، ہندوستان کا مقصد اس پورٹ سٹی کا استعمال ٹریڈ کے لئے کرنا ہے کیونکہ یہیں سے وسطی ایشیا کا راستہ کھولتا ہے۔ لیکن ذرائع بتاتے ہیں کہ ڈوبھال نے ایرانی افسروں سے بات چیت میں اس پورٹ کا استعمال انڈین نیوی کے لئے کرنے کی بھی اجازت مانگی۔ این ایس اے کا ایران دورہ اسی سال جولائی میں مودی اور ایران کے صدر حسن روحانی کے درمیان باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کی رضامندی کے بعد ہوا ہے۔ اسی کے تحت ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف بھی گزشتہ ماہ ہندوستان آئے تھے۔ مودی نے گزشتہ سال ستمبر میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو سے بھی ملاقات کی تھی۔ اس کے بعد نیتن یاہو کے بریوم پیدائش پر مودی نے انہیں ٹویٹر کے ذریعے مبارکباد بھی دی تھی۔ ٹویٹ میں مودی نے نیتن یاہو کو دوست بتایا تھا۔ ہندوستانی سیکرٹری خارجہ ایس۔ جے شنکر پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ہندوستان مغربی ایشیا کو لے کر ایک بلیو پرنٹس تیار کر رہا ہے۔ اسرائیل کو پسند نہیں آئی تھی ایران سے ایٹمی ڈیل اسرائیل اور ایران کے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ چند ماہ پہلے جب ایران اور دنیا کی چھ طاقتوں کے درمیان جوہری ڈیل ہوئی تھی تو اسرائیل نے اس کی مخالفت کی تھی۔ اس معاہدے میں ایران نے امریکہ اور پانچ دیگر قوتوں کے پرپوزل کو مان لیا تھا۔ اس کے بعد ایران سے بندشیں ہٹانے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ ہندوستان کے لئے اسرائیل اور ایران ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چیلنج ہے ۔ 


احساس کمتری کا شکار نہ ہوں،حق کے لئے متحد ہوکر لڑیں

مسلم بیداری کارواں کے اقلیت ادھیکار ریلی سے ا نسانی حقوق کے سربراہان کا خطاب 

دربھنگہ۔08ستمبر(فکروخبر/ذرائع )آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے زیر اہتمام پیر کو مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ دربھنگہ میں عظیم الشان اقلیت ادھیکار ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ ریلی میں یوپی اور بہار کے درجنوں دانشواران اور لیڈان نے خطاب کیا۔ اس موقع پر کارواں کے رکن سمیع اللہ ندوی، حافظ اسعد ندوی اور شاہ عماد الدین سرور نے کہا کہ آج مسلمانوں کی آواز پارلیمنٹ میں اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ مسلم بیداری کارواں نے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم دیا ہے جس کے ذریعہ ہم حکومت کو بتائیں کہ ہم اپنے حقوق چھیننے کے لیے بیدار ہوچکے ہیں اور اب ہمیں بے وقوف نہیں بنایا جاسکتا ہے۔ ہمیں بھی آبادی کے تناسب سے امیدوار، ریزرویشن اور دیگر جمہوری حقوق دینے ہوں گے۔ وہیں دیدار حسین چاند نے کہا کہ آزادی کے بعد سے جتنی پارٹیاں آئیں انہوں نے صرف مسلمانوں کو استعمال کیا اور جب حقوق دینے کی بات آئی تو انہوں نے آنکھیں پھیر لیں۔ جبکہ بہوجن مکتی مورچہ کے اکرم صدیقی نے کہا کہ ملک میں سب سے بڑا دہشت گرد آر ایس ایس ہے لیکن اس بات کو کہتے ہوئے مسلم لیڈران بھی ڈرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کو برہمنوں نے لوٹا ہے اور وہ آج بھی مسلمانوں اور دیگر ذاتوں کو غلام بنائے ہوئے ہیں۔ یوپی سے آئے رہائی منچ کے ترجمان راجیو یادو نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج اس اقلیت ادھیکار ریلی کے قیام سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں اقلیتوں کے ساتھ نا انصافی ہوئی اور انہیں ان کا جائز حق نہیں دیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں تمام پارٹیوں کے ذریعہ مسلمانوں کو بے وقوف بنائے جانے کی دلیلیں دے کر بتایا کہ کیسے کیسے انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ حق تلفی کی ہے۔ راجیو یادو نے کہا کہ ملک پر ۱۶؍ مئی ۲۰۱۴ء کو جو مصیبت اتری اس لیے آر ایس ایس نے بڑی تیاری کی تھی۔ ہندوائزیشن کے ذریعہ اوبی سی اور دلتوں میں فرقہ وارانہ ذہنیت تیار کر زمین تیار کی گئی تھی۔انہوں نے کہا کہ عام انتخاب میں مسلمانوں نے تو یادووں کو توووٹ دیا لیکن یادوں نے مسلمانوں کو ووٹ نہیں دیا۔ راجیو یادو نے کہا کہ اس وقت ملک میں ایک افواہ پھیلائی جارہی ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بڑھ رہی تو اس سے کیا ہوگا کہ مسلمان فرقہ وارانہ ہوجائیں گے؟ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں ملک میں ہورہی سیاست کو سمجھ نہیں پارہے ہیں۔ انہوں کہا کہ نے ۲۰۱۲ء میں جب دربھنگہ سے دھرادھر لڑکوں کی گرفتاری ہورہی تھی اس وقت یہاں بولنے والا کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے کہ آزادی کو ۶۷؍ سال ہوگئے لیکن جمہوریت میں لڑنے کا کیا طریقہ ہوتا ہے یہ بھی ہمیں نہیں آیا ہے۔ ہمیں متحد ہوکر فاشزم کے خلاف لڑائی لڑنی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ بیداری کارواں نے یہاں کے مسلمانوں کو متحد ہونے اور مشترکہ مسائل پر بات کرنے پارٹیوں کو اپنے مسائل ان کے انتخابی ایجنڈے شامل کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم دیا ہے تو یقیناًاس کی کی حمایت ہونی چاہئے اور اس کو موقع دینا چاہئے کہ مسلمانوں کے مسائل پر پارٹیوں کو سوچنے پر مجبور کرے یہ تب ہوگا جب آپ متحد ہوں گے اور اپنے مسائل کے لیے کسی پر اعتماد کریں گے۔ کارواں کے سرپرست شکیل احمد سلفی نے نظامت کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی بڑی آبادی سیکولر ہے ہمیں ان کو ساتھ لے کر ایسا پلیٹ فارم تیار کرنے کی ضرورت ہے جو محروم طبقات کے حقوق کی بازیابی کے لیے تیار ہو اور سیاسی پارٹیوں کو اس کے لیے مجبور کرسکے۔ رہائی منچ یوپی کے صدر ایڈووکیٹ شعیب نے اپنے خطاب میں کہا کہ سیاست میں مسلمانوں کو حصہ داری ملنی چاہئے لیکن کیا ہمیں یہ الگ ہونے سے ملے گی، اپنی پارٹی بنانے سے ملے گی ۔ اس کا راستہ کیا ہوسکتا ہے۔ اشوک سنگھل اور پروین توگڑیا جیسے لوگ زہر اگلتے ہیں اور انہیں ان کی تحفظ کے لیے زید سیکوریٹی ملی ہے۔ اویسی اور عامر رشادی کو جمہوری طریقہ سے بات کرنے کے بعد بھی نہیں ملتی۔ اس لیے ہم اگر اشوک سنگھل اور پروین توگڑیا کی زبان میں اس کا جواب دیں گے ہم ترقی نہیں کرسکیں گے اورہم پیچھے رہ جائیں گے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اپنے حقوق چاہئیں تو ہمیں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مشترکہ مسائل کو سامنے رکھ کر اور سیکولر راستہ کو اختیار کرتے ہوئے ہی چلنا ہوگا۔ ہمیں اپنے ساتھ دیگر پسماندہ ذاتوں، دلتوں کو بھی ساتھ لینا ہوگا اور ان کا اعتماد حاصل کرنا ہوگا۔ ہندوؤں اور برہمنوں کو گالی دینے سے مسئلہ کا حل نہیں ہونا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اگر جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے اس کو عزم کا حصہ بنالیں تو کوئی طاقت ہماری ترقی نہیں روک سکے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم برسوں اس ملک میں حاکم رہے ہیں اور آج ہمیں اپنا حقوق مانگنا پڑرہا ہے۔ اس کی وجہ یہ مسلمانوں نے حکمرانی ضرور کی مگر غیر مسلم حکمرانی تھی۔ ایڈوکیٹ شعیب نے مسلمانوں پر لگائے جارہے دہشت گردی کے الزامات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ سازش اس لیے رچی جارہی ہے کہ مسلمانوں کو ملک کے سسٹم سے علاحدہ کردیا جائے کیونکہ ان کی زبان میں بولنے اور آواز اٹھانے کی جو طاقت ہے وہ دہشت گردی کے الزام سے بند ہوجائے۔بہوجن مکتی مورچہ کے قومی صدر وی ایل ماتنگ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کا خود کو اقلیت تسلیم کرنے کی وجہ سے ہی سارے مسئلے پیدا ہوئے ہیں۔ ۳؍ فیصد برہمن مسلمانوں کو اقلیت کہتے ہیں اور ۱۵؍ فیصد مسلمان اس کو مانتے ہوئے ۳؍ فیصد کو اکثریت میں بدل دیتے ہیں۔ جبکہ انگریزوں نے صرف برہمنوں کو اقلیت کہا تھا کہ کیونکہ وہ ۳؍ فیصد تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ برہمنوں نے چالاکی سے دلتوں اور دیگر پسماندہ ذاتوں کو ہندوؤں میں شامل کردیا حالانکہ وہ ہندو نہیں ہیں اور مسلمانوں نے بھی اس کی حمایت کردی۔ انہوں نے صاف کہا کہ جمہوریت میں وہی جیتتا ہے جو اکثریت میں ہوتا ہے۔ مسلمانوں نے ۳؍ فیصد برہمنوں کو اکثریت میں بدل دیا تو وہ جمہوری طریقہ کار سے یہاں کے حاکم بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اسلام نے تعلیم دی کہ مظلوم کی حمایت کرو اور ظالم سے لڑو۔ مسلمانوں نے اس تعلیم پر عمل نہیں کیا اور برہمنوں نے دلتوں اور دیگر پسماندہ ذاتوں پر ظلم بھی کیا اور ان کی حمایت بھی حاصل کرلی۔ اسی طرح مسلمانوں نے اسلام کی اس تعلیم پر بھی عمل نہیں کیا کہ تعلیم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے ۔ یہ سب وجہ ہے کہ وہ ہر میدان میں پیچھے ہیں۔ ریزرویشن کی مخالفت مسلمان سڑک پر نہیں کرتا بلکہ برہمن اور بھومیہار کرتے ۔ دلتوں اور اوبی سی کو ہندوؤں کے نام پر شامل کرلیتے ہیں۔ انہوں نے بہت تفصیل سے ملک میں مسلمانوں کی حالت کے اعداد وشمار پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ اگر آپ کو اپنا حق لینا ہے تو آپ کو متحد ہونا ہوگا اور احساس کمتری سے نکلنا ہوگا۔ ظلم کے خلاف لڑنا ہوگا ۔پروگرام کا اختتام آل انڈیا مسلم بیداری کارواں کے قومی صدر نظر عالم کے صدارتی خطبہ پر ہوا۔ انہوں نے اپنے خطبہ میں عوام سے اپیل کی کہ وہ ان کے ساتھ جڑیں اور ان کی رہنمائی کریں تاکہ وہ مسائل کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم دے سکیں۔ پروگرام میں کارواں کے کارکن شاہ عماد الدین سرور،سمیع اللہ ندوی، حافظ اسعد ندوی، ترجمان جاوید کریم، بہوجن مکتی مورچہ کے مولانا اکرم صدیقی، ڈاکٹر ایس اکمل،انجینئر فخر الدین قمر کے علاوہ دیگر کارکنان نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پرپپو خان، زبیر عالم، سیف اللہ انصاری ، شمس عالم، محمد ابرار، تنویر عالم، رضوان احمد، خواجہ رستم، توفیق عالم ، شبیر احمد، عرش الدین دلارے ، ڈاکٹر شاداب رضا ، ایم اے صارم ، نور عالم، ایم ایف مصطفی ، محمد جسیم، مرزا نہال بیگ، امجد بیگ، سعادت حسن منٹو، نسیم احمداورجیلانی انصاری شہر ودیہات کے ہزاروں لوگوں نے شرکت کی۔ 


پالی ٹیکنیک بنگلور کے استحکام میں قلندر حسین کا کلیدی رول

حیدرآباد۔08ستمبر(فکروخبر/ذرائع ) مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں آج قلندر حسین، انسٹرکٹر بنگلور پالی ٹیکنیک کے سانحہ ارتحال پر تعزیتی نشست کا انعقاد عمل میں آیا۔ قلندر حسین کا کل 6؍ ستمبرکی شام کو 33 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔ پسماندگان میں بیوہ کے علاوہ دو بچے جن کی عمریں 4 اور 5 سال ہیں، شامل ہیں۔ تعزیتی اجلاس میں پروفیسر کے آر اقبال احمد، وائس چانسلر انچارج نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی کی جانب سے انہیں ہر طرح کی مدد فراہم کی جائے گی۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود، رجسٹرار انچارج نے اس موقع پر قراردادِ تعزیت پڑھ کر سنایا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ مرحوم قلندر حسین نے بنگلورو میں پالی ٹیکنیک کالج کے استحکام میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے پروفیسر فاطمہ بیگم، پروفیسر، ڈاکٹر شاہدہ، اسوسیئٹ پروفیسر اور محترمہ عابدہ مرتضیٰ ، اسسٹنٹ پروفیسر کی والدہ محترمہ غوثیہ بیگم کے سانحہ ارتحال پر بھی گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر محمد یوسف خان، پرنسپل پالی ٹیکنیک حیدرآباد نے کاروائی چلاتے ہوئے کہا کہ 4 ماہ قبل قلندر حسین کی بائی پاس سرجری ہوئی تھی۔ لیکن کل انہیں پھر دل کا دورہ پڑا جس کے باعث ان کا انتقال ہوگیا۔ اس موقع پر اردو یونیوسٹی غیر تدریسی عملہ کی انجمن (میوا) کے جنرل سکریٹری وجیہہ الشمس نے درخواست کی کہ مرحوم کے وارثین میں ان کے جو بھی بقایا جات ہیں جلد از جلد ادا کردیئے جائیں۔ جناب حیدر حسین خان، نائب صدر میوا نے کہا کہ مرحوم نہایت ہی خدا ترس انسان تھے۔ جناب بکشاپتی، انسٹرکٹر و رکن میوا نے کہا کہ مرحوم قلندر حسین انسٹرکٹرس کے مسائل کی یکسوئی کے لیے کسی انسٹرکٹر کو میوا میں شمولیت کے خواہاں تھے۔ جس کی بناء پر بکشاپتی اسوسئیشن میں شامل ہوئے اور ان مسائل کی یکسوئی ہوئی۔ ڈاکٹر فہیم اختر، صدر شعبۂ اسلامیات نے دونوں مرحومین کے لیے دعائے مغفرت کی ۔ جلسہ کا آغاز حافظ محمد خالد کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔


موتیے کی افزائش کیلئے داب لگائی جاسکتی ہے، زرعی ماہرین

لکھنؤ ۔8 ستمبر (فکروخبر/ذرائع)زرعی ماہرین نے بتایا ہے کہ گرمیوں میں موتیے کو موسم کی مناسبت سے حسب ضرورت پانی دیاجاتا ہے خوشبودار پھولوں میں سے موتیے کاپھول نہایت دلکش اورقدرے سفید گلاب سے مشابہت رکھتا ہے گرمیوں میں اس کی تمام اقسام کو دھوپ میں رکھنا چاہیے ا س سے پھول کھلتے ہیں لیکن مئی کے بعد ا ن کو سایہ دار جگہ پر رکھ سکتے ہیں موتیے کی کا شت کے بعد ا س کو ابتدائی مراحل میں بڑھوتر ی کیلئے پانی کافی مقدارمیں درکارہوتا ہے گرمیوں میں موتیے کوموسم کی مناسبت سے حسب ضرورت پانی دیاجاتا ہے سردیوں میں صرف ا س کو خشک ہونے سے بچانے کیلئے پانی دیاجاتا ہے اس کے پودے کوپانی دیتے وقت اس میں مناسب حدتک کھاد ڈال دیں جوکہ ا س کو تیزی سے بڑھنے میں مدددیتی ہے شروع میں کھاد کی مقدار زیاد ہ رکھیں پھر ا س کی مقدارکم کر کے ہلکی آپیاشی کے ساتھ دیں موتیے کی افزائش کیلئے نیم پختہ شاخوں کی دا ب لگائی جاسکتی ہے جوکہ جڑیں بناتی ہے ا ن کوبہار سے لے کر موسم گرما تک زمین میں دبادیاجاتا ہے۔


ایم بی بی ایس میں زیر تعلیم 7طالبات کو سیڈ یو ایس اے کی اسکالرشپ

حیدرآباد۔8؍ستمبر (فکروخبر/ذرائع )ڈاکٹر غلام احمد ہیلتھ ٹرسٹ حیدرآباد کے زیر اہتمام سپورٹ فار ایجوکیشنل اینڈ اکنامک ڈیولپمنٹ (SEED-USA) کے تعاون سے پروفیشنل کورسس بالخصوص ایم بی بی ایس میں زیر تعلیم 7طالبات میں اسکالرشپس کی تقسیم عمل میں آئی۔ اتوار کو منعقدہ تقریب میں جس کی صدارت سیڈ کے ٹرسٹی جناب سید مظہرالدین حسینی نے کی۔ مس ماریہ ثروت علی خان ایم بی بی ایس سال آخر اور مس الہام عرشیہ ایم بی بی ایس سال اول کو نواب شمس الدین خان اینڈ نورجہاں بیگم میموریل اسکالرشپ پیش کی گئی جبکہ مس نداء رحمن، مس نازیہ آفرین، مس منال صفدر، رخسانہ بیگم اور امہانی مجاہد ایم بی بی ایس سال دوم کو ڈاکٹر محمد اظہر ملک میموریل اسکالرشپ دی گئی۔ ان سات طالبات میں تین لاکھ سات ہزار روپیوں کی اسکالرشپ پیش کی گئی۔ جناب مظہرالدین حسینی کے بموجب سیڈ یو ایس اے کی جانب سے 2014ء میں 25بیواؤں، 4مطلقہ خواتین، 94بچوں کو مالی امداد و اعانت پیش کی گئی جبکہ جاریہ سال 2015ء میں 55بیواؤں، سات مطلقہ خواتین، دو بے سہارا خواتین اور 155بچوں میں امداد پیش کی گئی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا