English   /   Kannada   /   Nawayathi

سپریم کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلے میں جاٹوں کے ریزرویشن کو منسوخ کر دیا (مزید اہم ترین خبریں )

share with us

اگرچہ ذات ایک اہم عنصر ہے، پسماندگی کے تعین کے لئے یہ عنصر نہیں ہو سکتا۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ جاٹ جیسی سیاسی طور پر منظم ذاتوں کو او بی سی کی فہرست میں شامل کرنا دیگر پسماندہ طبقوں کے لئے صحیح نہیں ہے۔ عدالت نے او بی سی پینل کے اس نتیجہ پر توجہ نہ دینے کے مرکز کے فیصلے میں خامی پائی جس میں کہا گیا تھا کہ جاٹ پسماندہ ذات نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے او بی سی کوٹے میں جاٹوں کے ریزرویشن کو رد کیا ہے۔ واضح ہو کہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے ریزرویشن کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا ۔ دہلی، ہریانہ، ہماچل، اتراکھنڈ، بہار، گجرات سمیت 9 ریاستوں میں ریزرویشن کو لے کر نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔ یو پی اے حکومت نے لوک سبھا انتخابات سے قبل جاٹ ریزرویشن پر نوٹیفکیشن جاری کیا تھا


نیپال و ہند مشاعرے میں نائب صدر جمہوریہ نیپال پرمانند جھا نے شرکت کی

جھنڈانگر نیپال۔17مارچ(فکروخبر/ذرائع)نیپال و ہنداویدھ دوستی سماج کپل وستو ، نیپال کے جانب سے کرشنانگر، جھنڈانگر میں ایک عظیم الشان کل نیپال و ہند مشاعرہ منعقد ہوا، جس کے مہمان خصوصی نائب صدر جمہوریہ نیپال عزت مآب پرمانندجھا و نیپال میں ہند کے سفیر محترم رنجیت دے نے خصوصی طور پر شرکت کی جس کی صدارت نیپال و ہند دوستی سماج کے صدر ایشور دیا (بریندرمشرا)نے کی، افتتاحی کلمات میں نیپال کے معروف شاعر و صحافی زاہدآزاد جھنڈانگری نے کہا کہ مشاعرے اردو شاعری کی روایات کا حصہ ہیں اس لئے شعراء کرام کو اردو ادب کا حصہ کہنا چاہئے یہی شعراء اردو کو معیار دیتے ہیں، اس لئے یہ مبارکباد کے مستحق ہیں، کیونکہ یہ اردو کی شمع کو روشن کئے ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ اس کل نیپال و ہند مشاعرے میں اردو کا بینر سرے سے غائب رہا، صرف ہندی ہی کے بینر چہار جانب نظر آرہے تھے، نیپال کے شاعر زاہد آزاد جھنڈانگری اسٹیج جلوہ افروز تھے اور اردو میں بینر نہ ہونے پر کوئی احتجاج نہیں کیا نہ ہی افتتاحی تقریر میں اس بات کی وضاحت فرمائی کہ اس مشاعرے میں اردو کا بینر لازما ہونا چاہئے تھا، شعراء کرام کے پسندیدہ اشعار درج ذیل ہیں:
زندگی اس کی عنایت ہے سنبھالو اس کو
اب تعصب کے اندھیرے سے نکالو اس کو جوہرکانپوری
جو بھی نفرت کی ہے دیوار گرا کر دیکھو
کتنا سکھ ملتا ہے معلوم نہیں ہے تم کو

دوستی کی بھی ذرا رسم نبھا کر دیکھو
اپنے دشمن کو کلیجے سے لگا کر دیکھو
انورجلالپوری
زندگی کو میرے خانوں میں بانٹا ہے کوئی
یہ راز بے راز سہی پھر بھی مانتا ہے کوئی
ثاقب ہارونی
دل اپنا عشق سے آباد کرکے دیکھ کبھی
میری طرح تو مجھے یاد کرکے دیکھ کبھی
شبینہ ادیب
جو غربت دے کسی کو
جل رہا ہو گھر کسی کا
وہ خوشی کس کام کی
روشنی کس کام کی
شیانہ سنگھ صبا
اپنی دلکش اداؤں سے نیمنترن دیتی ہے
گرا کے حس کی بجلی مرا دل پھونک دیتی ہے
فضیہت گہمری
سکوں آزاد جو غارت کریں بلوائی مٹھی بھر
کسر باقی کی پوری شہر کے اخبار کرتے ہیں
زاہد آزادجھنڈانگری
چاہئے تو پل ٹھہر بھی سکتا ہے
یہ کرشمہ وہ کر بھی سکتا ہے
فخر مت کر اڑان پر اپنے
پر دیا ہے تو کتر بھی سکتا ہے
منموہن مشرا
ان کے علاوہ نازیہ رفعت ، نوری پروین، ہری ناراین سنگھ ہریش، ڈاکٹر سریش، ڈاکٹر انل بوجھڑ، پروفیسر ڈاکٹر سویتا کاٹھمانڈو، لچھمی جوشی کاٹھمانڈو نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا،پروگرام کی نظامت عالمی شہرت یافتہ ناظم مشاعرہ پروفیسر انور جلالپوری نے بحسن و خوبی ادا کی ، پروگرام کے مہمان اعزازی ملک کمال یوسف مع صاحبزادے عرفان ملک، برجیش گپتا، ہریش ترپاٹھی موجود تھے،پروگرام صبح تین بجے تک بخوبی چلتا رہا، پروگرام میں پرویز خان کدربٹوا، مسعود احمد خان مسو بھائی، ڈاکٹر منظور عالم خان، عبدالعزیز شاہد، کفایت اللہ کفایتی صاحبان خصوصی طور پر موجود تھے۔


حضرت مولانا سید ارشد مدنی کے ہاتھوں ظفر انور کی کتاب’’دہلی کے 50صحافی‘‘کا اجراء جلد

نئی دہلی ۔17مارچ(فکروخبر/ذرائع )دہلی کے اردو صحافیوں پر ظفر انور کی ایک اہم دستاویزی کتاب’’دہلی کے 50صحافی‘‘کااجراء حضرت مولانا سید ارشد مدنی (صدرجمعیۃ العلماء ہندو شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند)کے دست مبارک سے اس ماہ کے اواخر تک ہونے کی توقع ہے۔ اس تقریب میں بزرگ پارلیمنٹرین ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی ، ریاض قدوائی اور قاری محمد میاں مظہری کے ہمراہ عظیم اختر، اے یو آصف ، سلیم شیرازی، جلال الدین اسلم ، اشہر ہاشمی، خرم قیومی ،سہیل انجم ، ضیاالرحمن غوثی، قاسم سید، عارف اقبال، زین شمسی ، جاوید قمر، ڈاکٹرشاہد الاسلام، عبدالنور شبلی، عابد انور، ڈاکٹر بسمل عارفی، ڈاکٹر عبدالواسع، مولانا رحمت اللہ فاروقی، شکیل احمد رحمانی جیسے ممتاز صحافیوں کے ساتھ مولانا شاہد اویس (ناظم دالعلوم قاسمیہ پریم نگر 3)مولانا عرفان شاکر، اور نامور وکلاء ایم آرشمشاد،شہاب الدین ایم اختر، اکرم قادری کے علاوہ مشہور شاعر ڈاکٹر ماجد دیوبندی، قدرسہسوانی اور امیر امروہوی وغیرہ کی شرکت متوقع ہے۔


مسلمان اپنی ترقی کیلئے میڈیا کا مؤثر استعمال کریں: معروف صحافی این رام

سنسنی خیز خبروں کی بجائے بامقصد صحافت پر زور۔ اُردو یونیورسٹی میں دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا آغاز

حیدرآباد۔17؍ مارچ(فکروخبر/ذرائع) ہندوستانی مسلمان اپنی ہمہ جہت ترقی کو یقینی بنانے کے لیے نہ صرف میڈیا کے مؤثر استعمال کو یقینی بنائیں بلکہ مذہبی اور لسانی تنگ نظری کے قول سے باہر نکل کر آگے بڑھیں۔ ان خیالات کا اظہار نامور صحافی اور اخبار ’’دی ہندو‘‘ کے سابق چیف ایڈیٹر جناب این رام نے کیا۔ وہ آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت کے زیر اہتمام منعقدہ دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان ’’مسلمان جمہوریت اور ذرائع ابلاغ: چیالنجس اور امکانات‘‘ کے افتتاحی اجلاس میں بطور مہمانِ خصوصی مخاطب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان اور ان سے جڑے موضوعات خاص کر میڈیا، مسلمانوں کو کس انداز میں پیش کرتا ہے پر ٹھوس تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ این رام نے بڑی ہی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بات تسلیم کی کہ ’’ہم مسلمانوں کے متعلق صحیح حقائق نہیں جانتے ۔‘‘ انہوں نے سوال کیا کہ اخبارات ہوں یا ٹیلی ویژن نیوز مسلمانوں کو کس انداز میں اور کس زاویہ سے پیش کر رہا ہے۔ اس پر باضابطہ تحقیقی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے کالج، ایشین کالج آف جرنلزم چینائی کی جانب سے اس موضوع پر تحقیق کے لیے ہر ممکنہ تعاون کی پیش کش کی۔ جناب این رام کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کی شہادت کے دوران ہندی صحافت نے فرقہ وارانہ لبادہ اوڑھ لیا تھا اور اسی طرح 2002 کے گجرات فسادات کے دوران گجراتی صحافت کے چند گوشوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ ان سب کے باوجود صحافت کی غیر ذمہ داری پر ان سے احتساب نہیں ہوا۔ یہ ایک تشویش کی بات ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ہمیں سطحی اور سنسنی خیز صحافت کو ترک کرتے ہوئے صحافت میں گہرائی اور مقصدیت کو ترجیح دینا چاہئے۔ اپنے خطاب کے دوران انہوں نے انگریزی کے معروف رسالے اکنامک اینڈ پولیٹیکل ویکلی کی بامقصدی صحافت کی تعریف کی اور کہا کہ سچر کمیٹی رپورٹ میں پیش کردہ مواد کا بھی میڈیا نے گہرائی کے ساتھ نہ تو کوریج کیا اور نہ تجزیہ کیا۔ ان کے مطابق ہر فرقہ وارانہ فساد کے دوران سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان مسلمان اٹھاتے ہیں۔ اس کے باوجود میڈیا میں ان کا صحیح کوریج نہیں ہوتا۔ یہ ایک تشویشناک امر ہے۔ میڈیا کے منفی رول کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے زور دیا کہ مسلمان میڈیا کے مؤثر استعمال کو یقینی بنانے کی کوشش کریں اور علاقائی زبانوں کو نظر انداز نہ کریں۔ اس ضمن میں انہوں نے تامل، کنٹرا اور سری لنکا کے مسلمانوں کی مثال دی۔ 
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے زیر اہتمام اس دو روزہ کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں نامور قومی صحافی جناب شیکھر گپتا نے کلیدی خطبہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اردو ہندوستان میں شمولیاتی تہذیب و تمدن کی بہترین نمائندگی کرتی ہے۔ اب یہ اردو والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اردو کے دامن کو لسانی اور مذہبی تعصب سے داغدار نہ بنائیں اور اردو رسم الخط سے ناواقف ہر فرد کو اردو کا دشمن تصور نہ کریں، تب ہی کہیں اردو والے اور اردو زبان دیگر برادران وطن کے شانہ بشانہ ترقی کرسکتے ہیں۔ جناب شیکھر گپتا نے رومن رسم الخط کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ اس طریقے سے اردو جاننے والے سبھی لوگ ایک دوسرے سے قریب ہوسکتے ہیں اور قومی دھارے میں اپنی اہمیت کو تسلیم کرواسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صرف نیوز میڈیا ہی نہیں فلموں میں بھی مسلمانوں کی منفی تصویر کشی کا سلسلہ 1980 سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ خاص کر سنی دیول کی فلموں کا حوالہ دیتے ہوئے جناب شیکھر گپتا نے کہا کہ ان کی ہر فلم مسلمانوں کو منفی کردار میں پیش کرتی ہے۔ صرف فلمیں ہی نہیں بلکہ اشتہارات میں بھی مسلمانوں کو قابل اعتراض انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ نیوز میڈیا بھی مسلمانوں کو ملزم بھی ہوں تو مجرم کی طرح پیش کرتا ہے۔ ملک کے مسلمانوں کو سب سے بڑا سیکولر قرار دیتے ہوئے جناب شیکھر گپتا نے کہا کہ ہندوستانی مسلمان نے کبھی بھی کسی مسلمان کو اپنا قائد نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ مسلمانوں کے کاز کو ایک غیر مسلم قائد نے ہی آگے بڑھاکر مسلمانوں کے دل جیت لیے ہیں۔ 
کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں راج دیپ سردیسائی نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ اپنے مختصر مگر پر ا ثر خطاب میں انہوں نے تسلیم کیا کہ آج ہندوستان کا میڈیا سب سے زیادہ ناظرین کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے بے مقصد کی صحافت میں مشغول ہے۔ آج ٹیلی ویژن چینلس کو اپنی ٹی آر پی بڑھانے کی فکر ہے۔ اس کو اس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ وہ مسلمانوں کی صحیح تصویر کشی کر رہا ہے یا نہیں۔ راج دیپ سردیسائی کے مطابق آج میڈیا کے میدان میں اعتدال کے لیے اور اس راستے پر چلنے اولوں کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہی ہے۔ انہوں نے قومی میڈیا کے منظر نامہ کے پس منظر میں کہا کہ آج میڈیا دوخانوں میں منقسم ہے۔ ایک وہ میڈیا جو مودی حمایتی ہے۔ دوسرا مخالف مودی میڈیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ میڈیا صرف غیر جانبداری کی ترجمانی کرے۔ درمیانی راستہ ڈھونڈ نکالے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے صحافی نجم سیٹھی نے بھی سمینار کے افتتاحی اجلاس کو مخاطب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اردو کے حوالے سے ایک لسانی شدت پسندی کا وہاں کے عوام کو شدید خمیازہ بھگتنا پڑا۔ انہوں نے ہندوستان میں اردو والوں کو مشورہ دیا کہ اردو کے علاوہ دیگر زبانوں کو نظر انداز نہ کریں۔ پاکستان کے ہی ایک اور مہمان صحافی جناب امتیاز عالم نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ہند و پاک میں آج بھی میڈیا تقسیم کی بات کرتا ہے اور ایسے ہی عناصر کو ہوا دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی مذہبی انتہا پسندی کے عروج کے بعد کی صورتحال کو دیکھ رہا ہے اور ہندوستان اس مذہبی انتہاء پسندی کے راستے پر چلنا چاہتا ہے جہاں پر پاکستان نے صرف تباہی ہی دیکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان اس وقت ترقی کرسکتے ہیں جب اداروں اور حکومت سے مذہب کو الگ کردیا جائے۔ 
چانسلر اردو یونیورسٹی جناب ظفر سریش والا نے اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان اپنا محاسبہ کریں۔ کیونکہ دنیا بھر میں لوگ جن خرابیوں اور مسائل کی بنیادوں پر مسلمانوں کو ہدف تنقید بنارہے ہیں ان کا اسلامی تعلیمات اور مذہب اسلام سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو صرف گلے شکوہ کی نہیں اپنے احتساب کی بھی ضرورت ہے۔ 
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے زیر اہتمام اس کانفرنس کی افتتاحی تقریب کی صدارت پروفیسر محمد میاں، وائس چانسلر نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے مشورہ دیا کہ مسلمان اسلام کو اس کی روح کے ساتھ اپنائیں اور مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا کے ساتھ لکم دینکم ولیدین کی عملی تفسیر بنیں۔ پروفیسر محمد میاں نے زور دیا کہ زبان سے لوگوں کو جوڑنے کا کام لیا جانا چاہئے۔ توڑنے کا نہیں اور اداروں کی ترقی مذہب سے الگ رکھ کر ہی ممکن ہے۔ اس حوالے سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ 
قبل ازیں کانفرنس کے آغاز میں صدر شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت پروفیسر احتشام احمد خان نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد بیان کیے۔ پرو وائس چانسلر ڈاکٹر خواجہ محمد شاہد نے مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ اس کانفرنس سے برطانوی ڈپٹی کمشنر اینڈریو میک الیسٹر نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کو مسلمانوں کے تئیں صحیح ترجمانی کرنا چاہئے اور انہوں نے بتلایا کہ مسلمان برطانیہ میں بھی ہر شعبۂ حیات میں مثبت طور پر سرگرم عمل ہیں اور ان شعبوں میں صحافت سے لے کر کھیل کے میدان تک سبھی شعبہ شامل ہیں۔ پروفیسر صدیقی محمد محمود، صدر شعبۂ تعلیم و تربیت نے پروگرام کی کاروائی چلائی۔ اس موقع پر شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت کے ڈین و صدر پروفیسر احتشام احمد خان کی اردو کتاب ’’جدید صحافت‘‘ شعبہ کے تجرباتی رسالے ’’اظہار‘‘ اور کانفرنس میں پیش کیے جانے والے مقالہ جات کی تلخیص پر مبنی کتاب کا رسم اجراء انجام دیا گیا۔ رجسٹرار انچارج پروفیسر ایس ایم رحمت اللہ نے شکریہ ادا کیا۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا