English   /   Kannada   /   Nawayathi

شہر میں ملی کونسل کے اجلاس عام میں امن وانصاف کی پکار

share with us

مولانا اسرارالحق قاسمی:رکن لوک سبھا اور آل انڈیاملی کونسل کے نائب صدر مولانااسرارالحق قاسمی نے کانفرنس میں سب سے پہلے مخاطب ہوکر اس بات پر زور دیا کہ اسلام نے امن واتحاد کا جو پیغام دیا ہے اسے آج عوام تک پہنچانے کی شدید ضرورت ہے۔ ملک میں اس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک تمام طبقات کے ساتھ انصاف نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ آج ملک کے ہر علاقہ میں ایسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے کہ فکر مند احباب کوامن وانصاف کے ماحول کو لے کر تشویش میں مبتلا ہونا پڑ رہا ہے۔ ہر دور میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ تمام طبقات کو ساتھ لے کر آگے بڑھیں۔عوامی حقوق کی نگہبانی پر توجہ کی بنیاد پر ہی ہندوستان آگے بڑھ پایا ہے۔ یکے بعد دیگرے ملک کی حکومتوں نے ملک کے تہذیبی ورثہ کی حفاظت کیلئے کام کیا ہے، عوام کی طرف سے جب بھی اس کی ضرورت پڑی ہے لوک تیار ہوئے ہیں۔ آج ایک ایسی طاقت ملک کے اقتدار پر قابض ہے جو نفرت کی بنیاد پر ملک کو چلانا چاہتی ہے، ملک کو ایسی طاقت سے نجات دلانے کیلئے امن پسند طبقے کو متحد ہوکر کام کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ 1920 سے پہلے ملک میں آزادی کیلئے جنگ متحد ہوکر لڑکی جارہی تھی۔ اس کے بعد انگریزوں کی شہ پر کچھ ایسی طاقتوں نے سر اٹھایا جنہوں نے مذہبی بنیاد پر تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ افسوس کا مقام ہے کہ آج یہی طاقت ملک کے اقتدار پر قبضہ کئے ہوئے ہے۔ ملک کا جب آئین ترتیب دیا گیاتو یہ طے کیاگیا کہ ملک سیکولر اور جمہوری نظام کی بنیاد پر قائم ہوگا،لیکن آج جو طاقت اقتدار پر ہے وہ ملک کی سیکولر روایات کو نقصان پہنچانے اور بدامنی پھیلانے پر تلی ہوئی ہے، آج ضرورت ہے کہ ایسی طاقت سے ملک کو آزاد کرانے کیلئے متحد ہوکر جدوجہد کی جائے۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں آباد ہر قوم کا تعلق ملک سے بہت مضبوط ہے۔ ملک میں انسانی ہمدردی اور رواداری کے جذبے کو جو طاقت تباہ کردیناچاہتی ہے اسے کمزور کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا نے خطبہ کے آخر میں کہاکہ حضورؐ نے ہمیشہ سے پیغام امن کوتشدد کے مقابلے ترجیح دی ہے۔ تاریخ عالم میں کسی شخصیت نے سب سے پہلے اگر پرامن انقلاب برپا کیا ہے تو وہ حضورؐ کی شخصیت ہے۔ 
مولانا یاسین علی عثمانی بدایونی:آل انڈیا ملی کونسل کے نائب صدر مولانا یاسین علی عثمانی نے اس موقع پر اپنے ولولہ انگیز خطاب میں کہاکہ اسلام کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کے بانی نبی آخر الزماں ؐ نے جنگ کے مرحلے میں بھی امن کا پیغام دیا ہے۔ ایسے مذہب کو دہشت گردی سے جوڑا جانا بدبختی نہیں تو اور کیا ہے؟۔ مولانا نے کہاکہ جب تک دنیا میں امن وانصاف قائم نہیں ہوگا دنیا کی کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ انہوں نے کہاکہ اس ملک کی روح ، امن سیکولرزم اور جمہوریت میں مضمر ہے۔ کچھ طاقتوں کی حرکتوں کی وجہ سے خوفزدہ ہوکر ہم اس ملک کو برباد ہونے نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ مذہب اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی کوشش اب ناکام ہوچکی ہے، پندرہ سالہ جدوجہد کے بعد دنیا کے سوپر پاور امریکہ نے بھی مان لیا ہے کہ مذہب اسلام کو دہشت گردی سے جوڑا نہیں جانا چاہئے۔ مرکزی حکومت کے تکبرانہ رویہ پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہاکہ مودی کو دہلی کے عوام نے دکھا دیا ہے کہ ملک میں جمہوریت کی طاقت کیا ہے۔ آج تمام مسلمانوں کو سیکولر قوتوں کے ساتھ ہاتھ ملاکر حوصلے کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے تاکہ ملک کو آگے لایا جاسکے۔ لوجہاد کے نام پر واویلا مچانے والی طاقتوں کو جواب دینے کیلئے مولانا نے کہا کہ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ لو جہاد کو بدنام کرنے والے لوگوں کا جواب لوجہاد یعنی محبت کیلئے جہاد کے ذریعہ ہی دیا جائے اور یہ بتایا جائے کہ اسلام کس قدر محبت کا پیغام دیتا ہے۔ ملک کی آزادی کے 68 سال بعد بھی مسلمانوں کو غربت میں قید رکھا گیا ہے، جب بھی مسلمانوں کو غربت سے ہٹانے کی کوئی پہل کی جاتی ہے تو ملک دشمن طاقتیں انہیں جذباتی مسائل میں الجھا دیتی ہیں، آج اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو اقتدار اور ملک کے نظام کا حصہ دار بنانے اور انہیں ترقی سے ہمکنار کرنے کی جدوجہد کی جائے۔
سوامی اگنی ویش:آریہ سماج انٹرنیشنل کے بانی سوامی اگنی ویش نے جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ جب سے خدا کے نام پر تقسیم کا سلسلہ شروع ہوا اسی وقت سے فرقہ پرستی کو بھی بڑھاوا ملا ہے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ فرقہ پرستوں کے ساتھ جدوجہد کے ساتھ سماجی برائیوں کے خلاف بھی جدوجہد کی جائے۔ انہوں نے ملی کونسل کو آواز دی کہ ملک بھر میں جاری لڑکیوں کے اسقاط حمل اور شراب نوشی کے خلاف ایک منظم مہم کے تحت کشمیر سے کنیا کماری تک یاترا نکالی جائے۔ 1990 میں ایک یاترا سومناتھ سے ایودھیا تک نفرت کیلئے نکالی گئی،آج کشمیر سے کنیا کماری تک محبت کیلئے ایک یاترا نکلنی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ اقوام کے نام پر سیاسی دکان چلانے والے ٹھیکہ داروں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ نیپال اور سری لنکا کی مندروں میں مودی کی پوجا پاٹ پر ظنز کرتے ہوئے سوامی اگنی ویش نے کہاکہ مودی کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہندوستان کے 125کروڑ باشندوں کے نمائندہ ہیں صرف ہندو مذہب کے نمائندہ نہیں۔ سوامی جی نے کہاکہ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ آپسی تفرقوں سے بالاتر ہوکر سماج سے ذات پات اور فرقوں کی بنیاد پر پھیلنے والے اختلافات کو مٹانے کی کوشش کریں۔ انسانی حقوق جہاں بھی پامال ہورہے ہیں ان کے خلاف آواز اٹھانا مسلمانوں کی اہم ذمہ داری ہے۔ آج کچھ طاقتیں ملک کو دوبارہ توڑنے کے درپے ہیں۔ان کا موثر جواب دیا جانا چاہئے۔ سوامی جی نے کہاکہ آج کچھ لوگ گاندھی کے قاتل گوڈے کا مندر تعمیر کرنے کی باتیں کررہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں فرقہ پرستوں کے حوصلے کس قدر بلند ہوچکے ہیں۔ انہوں نے آخر میں امیری اور غریبی کے درمیان خلیج کو مٹانے پر زور دیا۔ اور کہاکہ اگر ایسا نہیں کیا گیا تو غریب ہندو اور غریب مسلمان مل کر اپنا حق چھین لیں گے۔ 
مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی:آل انڈیا ملی کونسل تلنگانہ کے صدر مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی نے اپنے سنجیدہ خطاب میں اس بات پرزور دیا کہ اسلام نے کسی مذہب کے ماننے والوں سے نفرت کی اجازت نہیں دی ہے۔ انہوں نے ایک واقعہ بتایاکہ حضور ؐ نے مکۃ المکرمہ میں فاقہ کی اطلاع پاکر مدینہ منورہ سے ریلیف کا سامان یکجا کرکے مکۃ المکرمہ پہنچایا ، اس کے ذریعہ انسانی ہمدردی کا پیغام ساری دنیا میں عام کیا۔ حضور ؐ نے یہ سخت تاکید فرمائی ہے کہ کسی مسلمان کو غیر مسلم کی عبادت گا ہ کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہے۔آج فرقہ واریت اور نفرت کے ساتھ ناانصافی کے خلاف لڑائی متحد ہوکر لڑنا ہم سب کی ذمہ داری ہے تاکہ ملک کے سیکولر اور جمہوری کردار کی حفاظت کی جائے ۔ 
مولانا کلب صادق:آل انڈیا ملی کونسل کے نائب صدر اور مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا کلب صادق نے شیعہ سنی اتحاد پر زور دیتے ہوئے کہاکہ اسلام کسی مسلمان کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ کسی اور مذہب کے پیروکاروں سے نفرت کرے ، کیونکہ یہ مذہب رب العالمین اور رحمت اللعالمین کا ہے۔ انہوں نے کہاکہ آپسی محبت سے ہی محبت پیدا ہوتی ہے نفرت سے نہیں۔انہوں نے کہاکہ دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کی صرف بھی توجہ ضروری ہے۔ انہوں نے مسلمانوں میں باہمی اتحاد کی ضرورت پر شدت سے زور دیا۔
سنتوش بھارتی:ملک کے نامور صحافی سنتوش بھارتی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہاکہ آج ملک کے مسلم سیاستدان بکھرے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کے نام پر بننے والی سیاسی پارٹیاں بھی متحد نہیں ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا الگ الگ ایجنڈا ہے۔ سب کے سب اقتدار کی فکر میں دوڑ رہے ہیں۔ مسلمان قوم کی زبوں حالی سے ان لوگوں کو کچھ لینا دینا نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ آج ملک کی مظلوم ترین قوم مسلمان ہے، لیکن مسلم قائدین بھی ان کے پرسان حال نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آج حکومت کو یہ فکر نہیں ہے کہ غریب کو روٹی کیسے مہیا کرائی جائے البتہ یہ فکر ضرور ہے کہ امیر کو اور امیر کیسے بنایا جائے۔سنتوش بھارتی نے آواز دی کہ آج مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو متحد رکھا جائے اسے بٹنے نہ دیا جائے ورنہ ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوگا۔ 
مولانا قدیر احمد ادالآمری:آل انڈیا ملی کونسل کرناٹک کے صدر مولانا قدیر احمد ادالآمری نے کہاکہ اﷲ تعالیٰ نے امت کو داعیانہ ذمہ داری سونپی ہے۔اجتماعی طور پر علمائے کرام کو مل کر اپنی یہ ذمہ داری امت کو اعتماد میں لیتے ہوئے ادا کرنی چاہئے۔انہوں نے کہاکہ ملک کوآزاد کرانے کی لڑائی اب بھی ختم نہیں ہوئی ہے، جب تک غریب کو روٹی ، جاہل کو علم نہیں مل جاتا تب تک یہ لڑائی جاری رہے گی۔ مولانا نے کہاکہ یہ ملک ہمارا ہے، اس ملک کے ہم کرایہ دار نہیں حصہ دار ہیں، جب تک برادران وطن کو ساتھ لے کر ملک کی ترقی کیلئے ہم جدوجہد نہیں کریں گے اس وقت تک ہمیں انصاف نہیں ملے گا۔ 
ڈاکٹر منظور عالم:آل انڈیا ملی کونسل کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر منظور عام نے کہا کہ یہ ملک ہمارا ہے اور اسے سنبھالنے کی ذمہ داری بھی ہماری ہے۔ کسی کو اس ملک میں بگاڑ پیدا کرنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں یہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے کہ ملک کی بہت بڑی آبادی آج بھی غریب ہے، اس آبادی کو اعتماد میں لے کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج بھی جہالت ، نفرت اور فاقہ ملک کے غریب کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ اگر یہ تینوں ہمارے درمیان برقرار رہیں تو ہمارا استحصال یونہی ہوتا رہے گا۔ سب سے پہلے اپنی جہالت کو دور کرنے کی طرف توجہ دیں۔ تعلیم عصری ہو یا دینی دونوں اپنی جگہ ضروری ہیں۔ اگر تعلیم حاصل نہیں کی گئی تو فاقہ ، نفرت ، جہالت اور استحصال آپ کا مقدر بن جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ آج ملک کے عوام کی ذمہ داری ہے کہ ملک پر مسلط کی جارہی مغربی تہذیب کا جواب دیں اور اپنے تہدیب وتمدن کی حفاظت کریں۔ زندہ قوم ہوشمندی اور دور اندیشی سے کام کرتی ہے۔
مولانا شاہ عبداﷲ مغیثی:آل انڈیا ملی کونسل کے صدر مولانا شاہ عبداﷲ مغیثی نے اپنے خطاب میں کہاکہ ملک میں امن کا واحد راستہ دیانتداری ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسلمان دنیا میں انسانیت کے پیغام کو عام کرنے کیلئے آئے ہیں۔انہیں اپنے اس فریضہ کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ مولانا نے کہا کہ مذہب اسلام امن کا دائمی نمونہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج بھی ملک میں انسانیت مری نہیں۔ آپسی اتحاد اور بھائی چارگی کے ذریعہ یہاں انسانیت کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ ملک میں اتحاد واتفاق کی فضا بنائی جائے تبھی امن وانصاف قائم ہوسکتا ہے۔ حضورؐ نے حقدار کو اس کا حق ادا کرنے اور انصاف کرنے کی تعلیمات سے سرفراز فرمایا ہے۔ ملک کا مسلمان اس کا اٹوٹ حصہ ہے۔ ملک سے مسلمانوں کو نکال دیا جائے ممکن ہی نہیں۔ باہمی اتحاد کے ذریعہ اس طرح کی باتیں کرنے والوں کے خلاف آواز اٹھائی جائے اور ملک کی حفاظت کی جائے۔ انہوں نے کہاکہ ملک کے باشندے پچھلے سو سال سے اپنے وجود کیلئے لڑتے رہے اور اب اپنے حقوق کیلئے لڑ رہے ہیں۔اس لڑائی میں مسلمانوں کو بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔
مفتی محمد اشرف علی باقوی:امیرشریعت کرناٹک مفتی محمد اشرف علی باقوی نے اپنے مختصر صدارتی خطاب میں کہا کہ امن واتحاد انسانیت کیلئے بہت ضروری ہے ان کو باقی رکھنے کیلئے جدوجہد ہونی چاہئے۔ برادران وطن کے ساتھ خوشگوار تعلقات کو مفتی صاحب نے ضروری قرار دیا۔ اجلاس میں متعدد سرکردہ رہنماؤں بشمول ریاستی وزراء جناب آر روشن بیگ، ڈاکٹر قمرالاسلام ، سابق مرکزی وزراء ڈاکٹر کے رحمن خان، سی ایم ابراہیم ، اراکین کونسل نصیر احمد، سید مدیر آغا، رکن اسمبلی این اے حارث،ریاستی وقف بورڈ کے چیرمین ڈاکٹر محمد یوسف ، کے ایم ڈی سی چیرمین مسعود فوجدار ،اسپائس بورڈ کے چیرمین مزمل قاضی ، وقف بورڈ کے سابق چیرمین ریاض خان ، کانگریس لیڈر محمد عبیداﷲ شریف،کانگریس کے جواں سال قائد آر رومان بیگ، بی ایس ایچ خان، حج کمیٹی کے سابق چیرمین غوث باشاہ اشرفی ،آغا سلطان وغیرہ موجود تھے۔اس سے قبل جلسہ کا آغاز مولانا محمد مطہر سراجی صدر آل انڈیا ملی کونسل بنگلور کی قرأت اور مولانا ہدایت اﷲ رشادی کی نعت سے ہوا۔سید شاہد احمد جنرل سکریٹری ملی کونسل کرناٹک نے خیر مقدمی خطاب کیا۔ انور شریف چیرمین جمعہ مسجد ٹرسٹ بورڈ نے مہمانوں کی شال پوشی فرمائی۔ منظور قادری جنرل سکریٹری ملی کونسل بنگلور کے شکریہ اور مولانا شاہ عبداﷲ مغیثی کی دعا پر جلسہ اختتام پذیر ہوا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا