English   /   Kannada   /   Nawayathi

کرفیو ہٹ جانے کے بعد بھی سی آر پی اورپولیس کامسلمانوں پر قہر ؟(مزید اہم ترین خبریں )

share with us

سی آر پی اور پولیس آج بھی مسلم علاقوں میں اپناقہر برپہ کئے ہوئے ہے اور یکطرفہ گرفتار یاں کررہی ہے جبکہ دوسرے فرقہ کے ان لوگوں کو اب تک گرفتار نہیں کیا گیا کہ جنہوں نے افسران کے سامنے ہی تمنچہ کرپا نے اورتلواریں لہراتے ہوئے فساد میں حصہ لیا اور کرفیو میں مسلمانوں کی دکانوں کو لوٹا اور جلایا ہے سی آر پی کاظلم رینچ کاپل ،پل بنجاران ، پلکھن تلہ، چلکانہ روڈ، پل کمبو ہان اور چوک فوارہ کے پاس جاری ہے۔ اس ددوران سپا قائد اور جمعیت الحفاظ کے صدحافظ اویس نے ایک میمورنڈ م ریاستی وزیر شیو پال یاد وپیش کیا اور انصاف کی مانگ کی مگرشیو پال یادو اس معا ملہ کی بابت کو ئی بھی یقین دہانی نہ کر اسکے۔ ملی کونسل اور مسلم تنظیموں کی صوبائی وزراء سے ملاقاتیں ایک چھہ دن بعد بھی بے وزن ہی ثابت ہوئیں کل ملاکر وزراء نے مسلم قائدیں کی شکایتوں کو اہمیت ہی نہیں دی اور مسلمانوں کو انکے حال پر چھڑ کر چلے گئے ؟ پل بنجاران اور پل کمبوہان پر فورس کی بر برییت نے ہی ثابت کر دیا کہ ملک میں حکومت کسی بھی ہو اب وہی ہوگا جو آر ایس ایس چاہتی ہے؟ کل پل کمبوہان پر سی آر پی کے جوانوں نے موٹر سائیکل سوار مدرسہ کے تین طلبہ کو بلا وجہ روکا بری طرح سے مارا اور موٹر سائیکل بھی قبضہ میں لے لی اتناہی نہیں بلکہ ان جوانوں نے ایک سب انسپکٹر کے سامنے مسلمانوں کو گندی گندی گالیں بھی دیں اور اپنی فر عونیت کا کھلا مظاہرہ کیا عام چر چہ رہی کہ اگر مسلم علاقوں سے گندی ذہنیت والی فورس کر جلد نہیں ہٹایاگیا تو حالات کبھی بھی کروٹ بدل سکتے ہیں جس کاذمہ دار صرف اور صرف علاقہ کا سینئر افسر ہی ہو گا قا بل ذکر ہے کہ ایک اور شکایت میں وزراء کے سامنے ہی یہ شکایت بھی کی گئی جسمیں اے آر ایف کے ظلم کا شکار محلہ داؤ سرائے کی خاتون روبی نے بلک بلک کر بتایا کہ لب سڑک مکان کا دروازہ بند کر کے وہ اپنے شیر خوار بچے اور شوہر آصف انصاری کے ساتھ گھرمیں تھی کہ کرفیو کے دوران اے آرایف کے جوان بنددروازے کو توڑ کر گھر میں گھس آئے ا کے اور اس کے شوہر کے ساتھ مارپیٹ کی اور گھر میں رکھنے زیورات ورقم لوٹنے کے علاوہ اس کے شوہر کو بھی پکڑ کر لے گئے جواب بھی جیل میں ہے۔ اس نے بتایا کہ اس نے اپنے شیر خوار بچے کا حوالہ بھی یا لیکن انہوں نے بپہ کا دودھ بھی پھینک دیا اور شوہر کو زبردستی اٹھا لے گئے۔ اسی طرح سر فراز کے والد نفیس نے اور عارف کے والد محمدنعیم نے اپنے اپنے بیٹوں کی پولیس فائرنگ میں ہوئی موت کا درد بیان کیا۔ سماج وادی پارٹی کے لیڈران نے اور ملی تنظیموں نے بار بار بھا جپا ایم پی راگھو لکھن پال اور گرو سنگھ سبھا کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ کرفیو میں مسلم فر قہ کو ہندو اور سکھوں نے بھاری نقصان پہنچایا ہے ملی قائدین نے فورس کی بھی شکایت کی اور متنازع زمین پر لینٹر ڈالنے کو فساد کی وجہ قرار دیا۔ علاوہ ازیں د یگر کئی لوگوں نے اپنی بات رکھی لیکن زیادہ تر فساد کے شکار افراد ہنگامہ کی وجہ سے اپنی بات صو بائی وزراء کے سامنے نہیں رکھ پائے۔ د ریں اثنا شیو پال یادو نے میڈیا کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کا رروائی غیر جانبدار انہ ہوگی۔ فساد کیلئے افسر ہویا کوئی اورکسی کو بھی بخشا نہیں جائے گا اور مظلومین کے ساتھ انصاف ہوگا مگر افسوس کی بات ہے کہ شیو پال یادو اور جانچ کمیٹی کے وزراء کے جانے کے چھہ دن بعد بھی مسلمانوں پر فورسیز کا قہر لگاتار جاری ہے۔قابل ذکر امر ہے کہ ضلع میں بٹوارہ کے بعد سے آج تک بھی کبھی ہندوں سکھوں اور مسلمانوں میں ایسا دنگا نہیں ہوا کہ جو دلوں کو بانٹ سکے مگر چند گمراہ اور جوشیلے افراد کے ساتھ ساتھ سی آر پی ،پی ایسی اور چند پولیس والوں کی زیادتیوں کے نتیجہ میں ضلع میں گزشتہ ۱۹۴۷ سے آج تک سات چھوٹے بڑے دنگے رونما ہو چکے ہیں مگر اسکے بعد بھی ہم سبھی فرقہ کے لوگ آپس میں ملجلکر ہی رہتے آرہے ہیں مگر اب محسوس ہو تا ہے کہ شاید اب چند لوگ اس پیار کو نفرت میں بدلنے پر بضد ہیں جو قابل مذمت عمل ہے جسکو ہر حال میں ملکر قابو کر نا ہو گا؟ گزشتہ دنوں کانگریس پارٹی کے لیڈرعمران مسعو د نے بھی زور دیکر پریس کانفرنس میں فسا دمیں بی جے پی کمے ایم پی راگھو لکھن پال کے کروار کی تحقیقات کرائے جانے کی ما نگ تھی جسکو آج تک بھی سر کار نے دبا یا ہواہے؟ کانگریس پارٹی کے لیڈرعمران مسعو د نے کہا تھاکہ فساد کے وقت اور کرفیو کے دورن بھی راگھو لکھن پال فسادد کیلئے لوگوں کو اکسا تے پھرتے رہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وہ یو پی اسمبلی کے ضمنی انتخاب میں اپنے بھائی کو پی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑوانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ راگھو لکھن پال دن بھر شہر میں کا روں کے قافلے کے ساتھ گھوم کر لوگوں کو فساد کیلئے اکسا تے دیکھے گئے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جو شہری اپنی جان گنواچکے یا زخمی ہیں وہ ب ہمارے ہیں خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جو ہوا براہوا آئندہ ایسانہ ہو اس کیلئے ہم سب کو کو شش کرنی چاہئے کانگریس پارٹی کے لیڈرعمران مسعو دنیکہا تھاکہ ضلع انتظامیہ اور پولیس کو ایمانداری کے ساتھ غیر جانب دارانہ کاروائی کرنی چاہئے ۔ پچھلے دنوں آل انڈیا ملی کونسل سہارنپور کے نمائندہ وفد نے بھی یہاں سرکٹ ہاؤس میں وزیر کابینہ جناب بلرام سنگھ یادو سے ملاقات کی اوران کو ایک میمورنڈم پیش کیا تھا جس میں حسن عسکری مسجد متصل گرودوارہ سے متعلق حقائق وزیر محترم کے سامنے رکھے ۔نمائندہ وفد نے مسجد کی زمین پر گروسنگھ سبھاکے ذریعہ قبضہ کرنے کی کوششوں اوراس کے نتیجہ میں بھڑکنے والے فساد میں ضلعی حکام کے کردار پر سوالیہ نشان لگایا تھا اورخاطی افسروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا تھا ۔نمائندہ وفد کے قائد مولانامحمدریاض الحسن ندوی نے حکام کے رویہ کو جانبدارانہ قرار دیانمائندہ وفد نے مسجد کی زمین پر قبضہ کرانے کی مذموم کوشش سے لے کر فساد بھڑکانے اورکرفیو نافذہونے نیزاس کے بعدکے حالات میں مقامی پولیس اورانتظامیہ کے جانبدارانہ رویہ کا شکوہ کرتے ہوئے بتایا کہ ایک طرف تو سینکڑوں بے قصو ر مسلمانوں کو گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا دوسری طرف مسلمانوں کی طرف سے گروسنگھ سبھا کے خلاف درج کی گئی سب سے پہلی ایف آئی آر کو مجروح کرنے کی سازش رچی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ گروسنگھ سبھا کے عہدیداران کے خلاف جو اس پورے فساد کی جڑ ہے ابھی تک کو ئی بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ہے جو با عث تشویش ہے ۔کرفیو کے دوران مسلم علاقوں میں ہندوؤں کی آبادی اوراملاک محفوظ رہی لیکن مذہبی منافرت پھیلاتے ہوئے محض سیاسی فائدہ اٹھانے کیلئے بی جے پی کے موجودہ ایم پی راگھو لکھن پال کی قیادت میں مسلمانوں کی دوکانوں، گاڑیوں اوربعض گھروں کو چن چن کر لوٹا اورجلایا گیا۔پولیس نے لوٹا گیا مال کتنے ہی غیر مسلم گھروں سے برآمد کیا ہے اور فساد میں تمام مال آج بھی ہندوں گھروں سے بر آمد ہو نے کا سلسلہ جاری ہے لیکن ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی ابھی تک بھی نہیں کی گئی ہے ؟ اور جب کہ بے قصور مسلمانوں کو سنگین دفعات کے تحت جیلوں میں ٹھونس دیا گیا آج بھی مسلم علاقوں میں فورس کی زیادتیا ں لگاتار جاری ہیں وفدنے ایس ۔ڈی ۔اے ،محکمۂ خفیہ اورمقامی حکام کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے موجودہ ایم پی راگھولکھن پال کوجانچ کے دائرہ میں لانے کو ضروری قرار دیا مگر افسوس اتنا سب کچھ کہے جانے کے بعد بھی سبھی کا نظریہ مسلم مخالف ہی نظر آرہا ہے جو ملک کے مفاد میں نہی ہے اب سیکو لر طاقتوں کو اس ظلم اور جبر کے خلاف پھر سے متحد ہو نا ہوگا تا کہ ملک کا عوام چین کے ساتھ زندگی بسر کر سکے۔


گلبرگہ کے مسلم تعلیمی اداروں کو موجودہ روش بدلنے کی ضرورت

گلبرگہ میں پرسنالٹی ڈیولپمنٹ پروگرام ، عبدالسلیم خلیفہ ، اقراء قریشی کا خطاب

گلبرگہ10؍اگست (فکروخبر/ذرائع): گلبرگہ شہر کے مسلم تعلیمی اداروں کو معیار تعلیم بلند کرنے کے ساتھ ساتھ با صلاحیت طلباء و طالبات کی تربیت کا اہتمام کرنے ، اُن میں عصری مسابقت کا جذبہ پیدا کرنے اور اُن کی پرسنالٹی ڈیولپمنٹ پر توجہہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اس خیال کا اظہار این آر آئی عبدالسلیم خلیفہ چیرمن و سی ای او حیات ایجوکیشن ٹرسٹ گلبرگہ نے کیا ۔ وہ آج حیات ایجوکیشن ٹرسٹ گلبرگہ کے زیر اہتمام کے بی این آڈیٹوریم میں منعقدہ پرسنالٹی ڈیولپمنٹ پروگرام میں خصوصی لکچر دے رہے تھے ۔ پروگرام طلبہ و طالبات ، اولیائے طلباء اور ٹیچرس کے لئے منعقد کیا گیا تھا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ گلبرگہ کے مسلم تعلیمی اداروں کو سربراہوں ، ذمہ داران اور اساتذہ و لکچرارس کو ملی فکر اختیار کرنی چاہئے ۔ اور ملت کے نوجوانو ں کو ریاستی ، قومی اور بین الاقوامی سطحوں پر مختلف شعبہ ہائے حیات میں آگے لانے کی منصوبہ بندی کرنی چاہئے ۔ محمد سلیم خلیفہ نے کہا کہ گلبرگہ کے مسلم تعلیمی اداروں کی توجہہ صرف ڈاکٹرس ، انجینئر پیدا کرنے پر زیادہ مبذول ہے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم طلبہ و طالبات کو آئی اے ایس، آئی پی ایس اور مختلف فنی و پیشہ وارانہ کورسیس کی تربیت دینے اور ایسے کامیاب مسلم سیاستداں پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم ، گورنر اور صدر جمہوریہ ہند جیسے باوقار عہدوں تک رسائی حاصل کر سکیں ۔ محمد سلیم خلیفہ نے سچر کمیٹی کی سفارشات کے حوالے سے کہا کہ مسلمانوں کی پسماندگی کی 2ہی بڑی وجوہات ہیں ، ایک ان میں باہم اچھے روابط نہیں ہیں، دوسرے وہ ایک دوسرے کو سمجھنے اور ایک دوسرے کا احترام کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ ہم میں ایثار و قربانی اور ملت کی سربلندی کے لئے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ اُنہوں نے اس بات پر سخت اظہار تاسف کیا کہ ہم اپنے آپ کو صرف اپنی ذات اور خاندان تک محدود رکھے ہوئے ہیں ، جبکہ ملت اور غیر مسلموں کے لئے بھی ہماری بہت ساری ذمہ داریاں ہیں ۔ فوزیہ غفور اسٹنٹ پروفیسر ایم جے انجینئرنگ کالج حیدرآباد نے لکچر دیتے ہوئے طلباء و طالبات کو تلقین کی کہ وہ ہمیشہ سیکھنے کے عمل کو جاری رکھیں اور سخت محنت و جدوجہد کریں ۔ اُنہوں نے کہا کہ کلاسیس میں زیادہ تر طلباء و طالبات جواب کے غلط ہونے کے خوف سے جواب دینے سے کتراتے ہیں ۔ اکثر خود اعتمادی کے فقدان کے سبب یہ ذہنی کیفیت پیدا ہوتی ہے اس سے طلباء و طالبات کو باہر نکلنا چاہئے ورنہ اُن میں کبھی خود اعتمادی پیدا نہیں ہوگی۔ اقراء قریشی ایکسپرٹ و کونسلر پرسنالٹی ڈیولپمنٹنئی دہلی نے خصوصی لکچر دیتے ہوئے کہا کہ اپنی شخصیت کو سوسائٹی کے لئے قابلِ قبول بنانے ظاہر و باطن کو سنوارنے پر توجہہ دی جانی چاہئے ۔ اُنہوں نے کہا کہ مسلمان پرسنالٹی ڈیولپمنٹ پر بہت کم توجہہ دیتے ہیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے اسلاف نے اپنی جو شناخت بنائی تھی آج ہماری شناخت اُس کے بالکل بر عکس ہے ۔ مقامی سطح سے عالمی سطح تک ہماری شناخت محض کھانے پینے سے ہو رہی ہے ۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ ہم اسلامی لباس ضرور پہنیں لیکن ہمیں جاذب نظر دکھائی دینا چاہئے ۔ اُنہوں نے مسابقت کے موجودہ دور میں مسلم طلباء و طالبات کی عصری تربیت اور پرسنالٹی ڈیولپمنٹ کے لئے خصوصی پروگرامس منعقد کرنے پر زور دیا۔محمد یوسف صاحب سیکریٹری کے سی ٹی گلبرگہ نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اُنہوں نے پرسنالٹی ڈیولپمنٹ پروگرام کے کامیاب انعقاد پر عبدالسلیم خلیفہ اور اُن کے رفقاء کو مبارکباد پیش کی اور آئندہ اس طرح کے پروگراموں کے لئے ہر ممکن تعاون دینے کا اعلان کیا۔


چوتھی ورلڈ ایجو کیشن کانفرنس اختتام پذیر

مدارس مسلمانوں کی تعلیم کا مسئلہ نہیں، حکومت عصری تعلیمی مسائل کی طرف توجہ دے

نئی دہلی 9 اگست : (فکروخبر/ذرائع)ملک بھر سے آئے سرکردہ مسلم تعلیمی اداروں کے سربراہوں اور ماہرین تعلیم نے مطالبہ کیا کہ حکومت مدارس کی بجائے مسلمانوں کو عصری تعلیم کے حصول میں حائل مشکلات دور کرنے اور اقلیتی تعلیمی اداروں کے مسائل کو حل کرنے کی طرف توجہ دے۔ کل شام یہاں ورلڈ ایجو کیشن سمیٹ کی چوتھی دو روزہ کانفرنس کے اختتام کے موقع پر تعلیمی رہنماؤں نے کہا کہ مسلمانوں کی تعلیمی پیش رفت کے لئے اقلیتی علاقوں میں عصری تعلیمی اداروں کا فروغ دیا جائے کیونکہ مسلمانوں کے 96فی صد بچے عصری تعلیم حاصل کرتے ہیں انہیں جدید تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کی طرف خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ کانفرنس میں تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہمکنار کرنے اور درس و تدریس میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے استعمال پر زوردیا گیا تاکہ ہندوستان ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہوسکے ۔ پہلی مرتبہ ایک بڑی کانفرنس میں، جو بنیادی اور اعلی تعلیم کو جدید اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی سے مزیّن کرنے کے پر موضوع پرمنعقدہ ہوئی ، مسلمانوں کی تعلیم اور انکے اداروں پر بھی ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ فیڈریشن آف مائنارٹیز مینجیڈ انسٹی ٹیوشنس ( اقلیتوں کے زیر انتظام اداروں کی انجمن ) کے چیئرمین تاج محمد خان نے کہا کہ حکومتوں کی ساری توجہ مدارس کی جدید کاری کی طرف ہے ۔ اور اس کے نام پر کسی مدرسہ کو کمپیوٹر سیٹ یا عصری مضامین کے ایک دو ٹیچر فراہم کردینا مسلمانوں کے تعلیمی مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ وہ میسور ( کرناٹک ) میں رفاہ المسلمین ٹرسٹ کے تحت متعدد تعلیمی ادارے چلاتے ہیں جس میں پانچ ہزار سے زائد طلبا زیر تعلیم ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتی تعلیمی اداروں کو وسائل کے علاوہ سرکاری سطح پر بڑی مشکلات پیش آتی ہیں۔آسام کے اجمل فاؤنڈیشن کے نورلشکر نے بھی اس کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ عصری اور اعلی تعلیم تک رسائی کو آسان بنانا د ر اصل مسلمانوں کا اہم مسئلہ ہے۔ فاؤنڈیشن کے تحت ریاست میں18 کالج اور کئی اسکول قائم ہیں۔ تمل ناڈو کی تحسین بی بی ویمنس کالج کی پرنسپل ڈاکٹر سمیہ نے کہا کہ مسلمانوں کے تعلیمی مسئلہ کو مدرسہ اور اردو تک محدود کردیا گیا ہے اور انکے اصل مسائل کو نظر انداز کیا جارہا ہے ۔ ڈاکٹر سمیہ نے کہا کہ یہ کانفرنس مسلمانوں کے اصل تعلیمی مسائل کو اجاگر کرنے کی ایک اچھی اور قابل قدر کوشش ہے جسکے لئے قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات اور ڈاکٹر شبستان غفار کی کمیٹی آن گرلز ایجوکیشن اور آل انڈیا کنفیڈ ریشن فار ویمنس امپاور منٹ تھرو ایجوکیشن قابل مبارکباد ہیں ۔ ا س کانفرنس کے توسط سے ا قلیتوں کے زیر اہتمام چل رہے اعلی تعلیمی اور ٹیکنکل اداروں کو مین اسٹریم میں لانے میں بھی مد دملی ہے۔ کئی نمائندوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جبکہ تعلیم کا شعبہ میں پراؤیٹ سیکٹر کا عمل دخل تیزی سے بڑھتا جارہا ہے درجنوں کی تعداد میں غیر سرکاری (نجی)یونیو رسٹیاں اور کالج قائم ہو رہے ہیں اس کے نتیجہ میں اعلی تعلیم تک ایک عام آدمی کی رسائی مشکل سے مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔اس کا مدوا اسی صورت ہوسکتا ہے جب حکومت ایسے اداروں کی مدد کرے جو کمزور اور اقلیتی طبقات کی تعلیمی ضروریات کوپوار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
ڈیجیٹل لرننگ میگزین کے ایڈیٹر اور ایلیٹس کے سربراہ روی گپتا نے کہا کہ یہ پہلا موقع جب ورلڈ ایجوکیشن سمیٹ کی کانفرنس میں اقلیتی تعلیم پر بھی توجہ دی گئی اور یہ سب کچھ قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات اور اس کی کمیٹی آن گرلز ایجوکیشن اور آل انڈیا کنفیڈ ریشن فار ویمنس امپاور منٹ تھرو ایجوکیشن کے فعال تعاون کی بدولت ممکن ہوسکا ہے۔ روی گپتا نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ مسلمان تعلیمی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں لیکن یہ چیز اہل ملک کے سامنے پوری طرح سے نہیں آسکی ۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل لرننگ میگزین کے خصوصی شمارہ کی اشاعت اسی مقصد سے عمل میں لائی گئی کہ مسلمانوں کی تعلیمی میدان میں پیش رفت سے عوام اور ارباب اقتدار کو روشناس کرایا جائے۔ اقلیتی تعلیمی کمیشن کی ذ یلی انجمن تعلیم نسواں کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر شبستان غفار نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد مسلمانوں کے عصری تعلیمی مسائل کے علاوہ مسلم تعلیمی اداروں کو اپنے مسائل کے حل کے سلسلہ میں ایک بڑا پلیٹ فارم مہیا کرنا تھا ۔ انہوں نے بتایا کہ کانفرنس میں ملک کے کونہ کونہ سے چنندہ مسلم تعلیمی اداروں کے ذمہ داروں نے شرکت کی جو اسکی کامیابی واضح دلیل ہے ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا