English   /   Kannada   /   Nawayathi

سرحد پر پاکستان کی جانب سے کی گئی فائرنگ میں ایک ہندوستانی جوان کی موت (مزید اہم ترین خبریں )

share with us

غور طلب ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پاکستان اپنے ناپاک ارادے سے باز نہیں آ رہا ہے. اس وجہ سرحدی علاقوں میں بھاری دہشت ہے. پاک کی جانب سے بھارتی سرحد میں دراندازی کی کوششوں میں اضافہ ہو رہا ہے. ساتھ ہی، پاک کی جانب سے کئی بار گولہ باری بھی ہو چکی ہے. 


موہن لال گنج ریپ کیس: پوسٹ مارٹم رپورٹ سے گتھی الجھی 

لکھنؤ۔22جولائی (فکروخبر/ذرائع) لکھنؤ کے موہن لال گنج سانحہ میں سوالوں میں گھری یوپی پولیس کی مشکلات اور بڑھ والی ہیں. اب عورت کی شناخت پر ہی سوال کھڑا ہو گیا ہے. دراصل، درندگی کا شکار بنی خواتین کے گھر والوں کے مطابق اس کی ایک ہی گردے تھی. اس نے اپنی دوسرا گردے شوہر کو صدقہ کر چکی تھی. لیکن پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق، مردہ عورت کی دونوں کڈنیا موجود تھیں. رپورٹ میں گردے (حالت اور وزن) کے سامنے لکھا ہے کہ بوتھ پیل اینیڈی (نتھگ ابنرمل ڈٹییٹگ) 150 گرام کچ. مطلب دونوں کڈنیو کی حالت ٹھیک. پوسٹ مارٹم دو پھریسی ایکسپرٹ سمیت 6 ڈاکٹروں کے پینل نے کیا. عورت کے دیور نے بتایا کہ 15 اکتوبر 2011 کو پی جی آئی میں گردے ٹرانسپلاٹ ہوئی تھی. اس دوران بھابھی نے ہی بھائی کو اپنی گردے ڈونیٹ کی تھی. انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی 15 جون، 2001 کو بھائی کی گردے ٹراسپلاٹ ہوئی تھی. تب ماں نے گردے دیا تھی. پی جی آئی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر آر کے شرما نے بتایا کہ 15 اکتوبر 2011 کو خاتون اور اس کے شوہر کا گردے ٹراسپلاٹ کا آپریشن ہوا تھا. 


شاطرلٹیرے کا پولیس تحویل سے فرارہونے کا معاملہ

کانپور۔22جولائی (فکروخبر/ذرائع )تھانہ میں پولیس تحویل سے شاطرلٹیرکلدیپ کے فرار ہونے کے بعد متاثرہ خواتین اوران کا کنبہ دہشت میں ہیں۔خوشبو نے پولیس پر جان بوجھ کر لٹیرے کو تحویل سے فرار ہونے میں مدد دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ چوکی انچارج رات میں اس کے کنبے کو دھمکی دینے کیلئے آئے تھے ۔اہل خانہ جب تھانہ میں تحریر دینے کیلئے پہنچے تو انھیں پریشان کیا گیا جب کہ لٹیروں نے پہلے ہی جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی اب اگراس کے یا اہل خانہ کے ساتھ کوئی ناخوشگوارواقعہ پیش آتا ہے تواس کے لئے کلیان پورپولیس اور افسران ذمہ دارہوں گے۔خوشبونے کنبے کوتحفظ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ خوشبوکے شوہر سوجیت اوردیور سنجیو نے بتایا کہ دیانند وہامیں آئندہ کی حکمت عملی پر غور کیاگیادوپہرمیں مقامی رکن اسمبلی ستیش نگم کے ساتھ دیانند وہار کے لوگ تھانہ پہنچے اورقصوروار افسران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔خوشبو نے اس سلسلے میں بتایا کہ چوکی انچارج نندلال نے واردات کے وقت جس طرح لٹیر ے کی حمایت کرتے ہوئے انھیں دھمکی دی تھی اسی وقت انھیں معلوم ہوگیا تھا کہ پولیس سخت کارروائی نہیں کرے گی۔ لٹیرے کے فرار ہونے کے بعد پولیس کی منشاواضح ہوگئی ہے۔


دھماکہ خیزاشیا برآمد دوافرادگرفتار

مرزاپور۔22جولائی (فکروخبر/ذرائع )ضلع کے چنار علاقہ میں پولیس نے کثیرتعداد میں دھماکہ خیز اشیا برآمدکرکے دوافراد کو گرفتارکرلیا پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ کل رات چنار علاقہ میں پولیس نے سکتیش گڑھ میں موٹر سائیکل پر سوار دولوگوں کو روکا اوران کے بیگ کی تلاشی لی۔ تلاشی کے دوران بیک سے جیلیٹن کی دوسو چھڑیں اور۱۹۵ الیکٹرانک ڈیٹونیٹر برآمد کئے گئے ۔ ذرائع کے مطابق گرفتار لوگوں نے پوچھ گچھ کے دوران بتایا کہ وہ پہاڑی چٹانیں توڑنے کیلئے دھماکہ خیز اشیا لارہے تھے ترجمان نے بتایاکہ گرفتار لوگوں سے مزید پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔


پاور کارپوریشن کی زیادیتوں سے عوام کا جینا ہوا محال سب کچھ جانکر بھی حکام تماشائی بنے؟ 

سہارنپور ۔22جولائی(فکروخبر/ذرائع) رمضان کے اہم موقع پر بھی ضلع بھر میں بجلی کی زبرست کٹوتی لگاتار جاری ہے جس وجہ سے روزہ داروں میں محکمہ کے آفیسران اور محکمہ کے ملازمین کے خلاف زبرددسست غصہ پھیلا ہے جگہ جگہ بجلی محکمہ کے خلاف مظاہرے کئے جارہے ہیں عوام اور پولیس کے درمیان چھہ بار جھڑپیں ہوچکی ہیں۔ مگر انتظامیہ سب کچھ ددیکھ کر بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ؟ محکمہ بجلی کی زیادیتوں سے عام آدمی عاجز آ چکا ہے محکمہ کے لو گ اوور لوڈنگ ، میٹر خراب اور بجلی چور ی کے نام پر عوام کا آزادانہ طور پر استحصال کرنے پر تو بضد ہیں مگر عوام کو سپلائی دیکر خوش نہیں ہیں جس وجہ سے عوام میں محکمہ بجلی کی زیادیتوں کے خلاف چنگاری لگاتار شعلہ بنتی جا رہی ہے وقت رہتے اگر حکام نے منصفانہ اقدام نہیں کئے تو حالات کسی بھی وقت بگڑ سکتے ہیں؟ اب سونے پر سہاگہ یہ ہونے جارہا ہے کہ جلد ہی شہر میں بجلی چیکنگ کے نام پرزبردست بجلی چیکنگ پروگرام شروع ہونے جارہا ہے جس میں محکمہ کے ملازمین مسلح فورس کے ساتھ گھر گھر جاکر بجلی میٹر ،لوڈ ،بجلی چوری ، ڈیفالٹ اور کیبل وغیرہ کی باریکی کے اتھ چیکنگ کرینگے قابل ذکر بات یہ رہیگی کہ اس پوری چیکنگ کا اہم مرکز صرف اورصرف غریب، پچھڑی، دلت اور مسلم بستیاں ہی ررہینگی جس کے نتیجہ میں ٹکراؤ کے امکان ہے۔ضلع کے سیاست داں اتر پردیش پاور کارپوریشن کے بد عنوان افسران اور ملازمین کے اس غیر اخلاقی رویہ کو دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہیں محکمہ کے جوئنیر انجینئر اور ایس ۔ڈی ۔ او جس چاہے گھر پر اچانک مسلط ہو جاتے ہیں اور بجلی چیکنگ کے نام پر موٹی رقم کی مانگ کرتے ہیں اگر چہ گھر کے افراد رقم ادا کرنے کے قابل ہیں تو معاملہ پیسے لے دیکر رفا کر دیا جا تا ہے اور اگر کنزیومر پیسہ دینے میں آنا کانی کرتا ہے تو اسکے خلاف فوری طور پر جونیئر انجینیر کے ذریعہ تھانہ میں بجلی چوری کی رپورٹ درج کرا دی جاتی ہے پھر وہ کنزیومر اپنی جان بچانے کے لئے اور گرفتاری سے بچنے کے لئے محکمہ کو کم سے کم ۲۰ ہزار روپیے کی رقم ایک مشت جمع کرتا ہے جب کہی جا کر اسکی جان بچتی ہے اور وہ خود کو گرفتاری سے بچانے میں کامیاب رہتا ہے ایسے حالات گزشتہ چھہ سالوں سے مسلم علاقوں میں کثرت کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں صوبائی سرکاریں اقلیتیوں کی ہمدرہونے کا زور دیکر دعوہ پیش کرتی ہیں مگر سچائی یہ ہے کہ محکمہ بجلی کے صرف ایک محکمہ سے ہی اقلیتی فرقہ بری طرح لوٹا اور کھسوٹا جا رہا ہے اور کوئی خبر گری کرنے والا نہیں محکمہ کے افسران جو چاہتے ہیں پولیس بھی وہی کاروائی کرتی ہے عام آدمی کی کوئی سنوائی نہیں ہے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ محکمہ کے ۸۰ فیصد انجینئر اور ملازمین اقلیتی علاقوں میں خصوصی طور پر اپنا رعب غالب کئے ہو ئے ہیں اقلیتی فرقوں کے لوگ بجلی کے نام پر ان ملازمین کو غیر ضروری طور پر رشوت دینے کے لئے مجبور ہیں اگر ان تمام کیسوں کی جانچ کسی ایماندار افسر سے کرائی جائے تو گزشتہ پانچ سالوں سے اقلیتی علاقوں میں ہونے والے ان معاملوں کی سچائی حکومت اور عوام کے سامنے صاف طور سے آسکتی ہے ہمارے قابل کمشنر اور قابل ضلع مجسٹریٹ سب کچھ جانتے اور دیکھتے ہوئے بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ کسی بھی شکایت کو اعلیٰ حکام سنجیدگی سے نہ لیکر ٹال مٹول کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں جس وجہ سے عوام میں غم و غصہ پھیلا ہوا ہے عوامی مفاد میں ان تمام معاملات کی آزادنہ جانچ اشد ضروری ہے ۔


پولیس کو اب اپنے طور طریقے ہر حال میں بدلنے ہوں گی؟

سہارنپور ۔22جولائی(فکروخبر/ذرائع) اب تو صورت حال یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ اترپردیش کے سابق ڈی جی پی جناب دیوراج ناگر نے پولیس کی کارکردگی پر پیش اپنی اہم رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اہم معاملات میں پولیس کا رویہ غیر اخلاقی اور غیر انسانی ہوتا ہے اترپردیش کے سابق ڈی جی پی جناب دیوراج ناگر نے بیباک طور پر کہا کہ پولیس کو اپنا طور طریقہ اب بدلنا ہوگا تبھی پولیس کا چہرہ صاف ہو سکتا ہے ؟ اسی طرح گزشتہ سال بھی ایک سینئر پولیس افسر کا رد عمل سامنے آیاتھا علاوہ ازیں گزشتہ سال ہی اترپردیش کے سابق آئی جی پولیس ایس آر دارپوری کا سنسنی خیز انکشاف سامنے آیا تھا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھاکہ جانچ ایجنسیوں کی قید میں اس وقت کئی مسلم نوجوان ہیں جو اپنے اپنے ضلع سے لاپتہ ہیں جن کی خبر ابھی تک ان کے اہل خانہ کو نہیں ہے کیونکہ جانچ ایجنسیوں نے ان کو اغوا کرکے اپنے خفیہ مقام پر رکھا ہے تاکہ وقت آنے پر ان کو کسی دہشت گردانہ یا دھماکہ کے فرضی معاملات میں شامل کر سکیں ۔ سابق پولیس افسر کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ لڑکوں کو خنزیر کھانے اور پیشاب پینے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ پولیس افسروں کے اشارے پر ہی بے قصوروں کو ناجائز طمنچہ وغیرہ دکھا کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ خالد مجاہد اور طارق قاسمی وغیرہ کو جس وقت گرفتار کیا گیا تھا ان کے پاس کچھ نہیں تھا اس کے عوض میں وکرم سنگھ نے ان لوگوں سے ۵ لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ دولاکھ روپے دے دو تم کو چھوڑ دیا جائے گا اور تمہاری جگہ دوسرے کو پھنسایا جائے گا ۔ علاوہ ازیں معروف صحافی اشیش کھیتان کے نیوز پورٹل غلیل ڈاٹ کام نے بھی ۱۸ مئی۲۰۱۳ کو پوسٹ کی گئی خصوصی رپورٹ میں اسی قسم کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی تحویل میں آدھے درجن سے زیادہ دہشت گرد مخالف ایجنسیوں کے اندرونی دستاویز آئے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت جان بوجھ کر معصوم افراد کو پراسیکیوٹ( (Prosecutکررہی ہے اور ان کی معصومیت و بے گناہی کے ثبوت کو کورٹ کو سامنے نہیں آنے دے رہی ہے ۔ اس نیوز پورٹل کے مطابق اس نے ۱۱؍۷ ، ٹرین دھماکہ ، پونے جرمن بیکری دھماکہ ، ۲۰۰۶ کے مالیگاؤں دھماکہ جیسے تین دہشت گردمعاملات کی تفتیش کرتے ہوئے پایا کہ ۲۱ مسلمانوں کو ٹارچر اور حراساں کیا گیا اور مفروضہ و غلط ثبوت کی بنیاد پر ٹرائل کے لئے بھیجا گیا اور بعد میں جب انکی بے گناہی کے ناقابل تردید ثبوت ابھرکر سامنے آئے تو اسے کنارے لگادیا گیا یا عدالتوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی نیز یہ خبر بھی آئی ہے کہ این اے آئی کی ویب سائٹ پر ابھی بھی ۲۰۰۶ میں مالیگاؤں دھماکہ کے ملزمین میں سے ۷ افراد کو گزشتہ برس ایک عدالت کے ذریعہ ضمانت پر رہا کرنے کے خبر جانبوجھکر سامنے نہیں لائی گئی ، اور ان کے اسماء مذکورہ ویب سائٹ کی چارج شیٹ شدہ افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے جبکہ این آئی نے شروع میں چارج شیٹ پر نظر ثانی کرتے ہوئے ۲۰۰۶ کے مالیگاؤں بم دھماکہ جس میں ۳۰ افراد ہلاک ہوئے تھے ایک ہندو دہشت گرد گروپ سے تعلق رکھنے والے چار افراد کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا ۔ ملک کے اندر پائی جانے والی یہ وہ صورت حال ہے جس سے ایک خاص اقلیتی طبقہ کے لوگ بالخصوص اس کے نوجوان اپنے آپ کو محفوظ نہیں پا رہے ہیں آج اس ظلم کا انجام اسطرح سے سامنے آرہا ہے کہ اسیطرح کے فرضی معاملات میں گزشتہ بارہ بارہ سال سے قید مسلم بیقصوروں کو قابل احترام عدالتیں لگاتار باعزت بری کر رہی ہیں؟۔ اس غیر یقینی صورت حال کا ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں ختم ہونا لازمی ہے یہ وہ بات ہے جس کی ضمانت خود ہمارے ملک کا آئین دیتا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ملک کی سیاسی پارٹیاں اس معاملہ میں آگے بڑھ کر عملی دلچسپی لینے کا حوصلہ دکھا سکتی ہیں ؟ محض انتخابات سے کچھ دن قبل کیے گئے وعدوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے جیسا کہ اترپردیش و دیگر ریاستوں میں انتخابات سے قبل کیے گئے وعدوں سے ثابت ہو چکا ہے ۔ سیاسی پارٹیوں کے لئے یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ انہیں یہ طے کرنا ہے کہ وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے تحفظ کے تعلق سے کتنا سنجیدہ ہیں اور کتنا آگے بڑھتی ہیں ۔ ملک میں پچھلی یوپی اے سرکار جس کی سربراہ میڈم سونیا گاندھی اور وزیرِ اعظم جناب منموہن سنگھ تھے مندرجہ بالاحقیقت سے شائد یہ سب لوگ باخوبی واقف تھے مگر نہ جانے کس مصلحت کے تحت اقلیتوں پر ہو رہے سرکاری ظلم کو خاموشی سے دیکھتے رہے ۔ لکھنؤ میں انہیں الزامات اور فرضی معاملات کو لیکر ہندو اور مسلم سیکولر ذہن کے لوگ گزشتہ سال لمبے عرصہ تک اسمبلی ہاؤس کے باہر شدت کی گرمی اور بارش کے بیچ لگاتار دھرنا دئے بیٹھے رہے مگر سرکار کو کچھ بھی شرم نہ آئی آج اس ظلم کا انجام اسطرح سے سامنے آیا ہے کہ جن معا ملات کے لئے ہندو اور مسلم سیکولر ذہن کے لوگ گزشتہ سال لمبے عرصہ تک اسمبلی ہاؤس کے باہر شدت کی گرمی اور بارش کے بیچ لگاتار دھرنا دئے بیٹھے رہے آج انکی قربانی رنگ لارہی ہے سبھی بیقصور لوگ عدالتوں سے باعزت بری کئے جا رہے ہیں اور اسی طرحکے فرضی معاملات میں گزشتہ بارہ بارہ سال سے قید مسلم بیقصوروں کو قابل احترام عدالتیں لگاتار باعزت بری کر تی آرہی ہیں عدلیہ کے ان فیصلوں سے پولیس کے ایماندار اعلی افسران بھی کافی حد تک خوش نظر آرہے ہیں ؟ علاوہ ازیں مرکزی اور صوبائی سرکار نے ان جائز مانگوں کی جانب کچھ بھی دھیان نہیں دیا۔آج بھی کوئی سرکار ان جائز مانگوں پر دھیان دینے کو کسی بھی صورت راضی نہیں ہیں جس وجہہ سے ملک کی بڑی اقلیت خوف کے سائے میں سانسیں لے رہی ہیں اور قوم کے ہمدرد قائد آج بھی آنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں ؟

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا