English   /   Kannada   /   Nawayathi

سرکاری ملازم خواتین اشتعال انگیز و نیم عریاں لباس پہن کر کام پر نہ آئیں

share with us

حکومتی ذرئع نے بتایا کہ معمر ملازمین نوجوان ملازمین کے لباس سے سخت نالاں تھے لیکن وہ انہیں روک نہیں پاتے کیونکہ اس سلسلے میں کوئی ہدایت اور قانون موجود نہیں تھا۔ ریاست کے زائد از چھ لاکھ ملازمین کے لئے اب رہنمایانہ ہدایات جاری کردی گئی ہیں ۔ اس بات کا اعلان شالنی رجنیش، سکریٹری ڈپارٹمنٹ آف پرسنل اینڈ ایڈمنسٹریٹو ریفارم نے کیا۔ ’’ملازمین جب کام پر آئیں تو وہ اپنے لباس اور حلیہ سے سنجیدہ اور معتبر نظر آئیں۔ غیر شائستہ لباس اس بات کا تاثر نہیں دیتے۔ ‘‘ مس شالنی نے کہا۔ چونکہ کیا پہنا جائے ایک نہایت ہی حساس موضوع ہے لحاظہ اس سلسلے میں کرناٹک گونمنٹ ایمپلائز اسوسی ایشن اور وزیر اعلی سدرامیاّ کی اجازت حاصل کی گئی۔ حکومت کا یہ سرکیولر بہت سی ملازم خواتین کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہا ہے۔ ’’حکومت کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو بتایے کہ وہ کیا پہن کر آئیں اور کیا نہ پہن کر آئیں۔ اسے ملازمین کی اپنی پسند پر چھوڑ دینا چاہئے۔ اگر اس طرح کے قوانین بنائے جاتے ہیں تو بتائیے جمہوریت کہا رہ گئی؟ اس ایم منگلاڈائرکٹر آف ومینس اسٹڈئز میسوریونیورسٹی نے استفسار کیا۔ اس سے قبل بھی غیر رسمی طور پر ڈریس کوڈ نافذ کرنے کی کوشش کی تھی جس کے ملازمین نے سخت مذاہمت کی تھی ’’سنیر ملازمین جب بھی جونیر ملازمین پر لباس کے بارے میں اعتراض کرتے تو وہ یہی کہتے کیا آپ کے پاس تحریر میں کوئی ہدایت یا قانون موجود ہے؟‘‘ ایک حکومتی ملازم نے کہا۔جبکہ صدر کرناٹک گونمنٹ ایمپلائز اسوسی ایشن نے ڈریس کوڈ کی تائید کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں’’کام کی جگہ کی حرمت اور سنجیدگی کے لئے یہ اقدام ضروری ہے۔ آفس جینس اور ٹی شرٹ میں آنا لاابالی پن اور غیر سنجیدگی کا تاثر دیتاہے۔ ‘‘ اسو سی ایشن صدر ایل بھیرپاّ نے کہا۔ شالنی رجنیش نے کہا کہْ ڈریس کوڈ کا طلاق گروپ ڈی کے ملازمین پر بھی ہوگا۔ ڈرائیورس اور چپراسیوں کے لازم ہے کہ وہ اپنی وردی پہن کر کام پر آئیں۔ بحر حال حکومت نے ڈریس کوڈ نافذ کردیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ فیشن زدہ خواتین و مرد اس پر کتنا واویلہ مچاتے ہیں۔ اور اسے اپنی شخصی آزادی پر قدغن تصور کرتے ہیں۔ انہیں سمجھنا چاہئے وہ کہ وہ آفس جارہے ہیں کسی فیشن شو میں نہیں۔ 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا