English   /   Kannada   /   Nawayathi

دھرم سنگھ کے خلاف فرقہ پرست عناصر کی سازش

share with us

جناب ایم اے سمیع نے اس تعلق سے وضاحت کے ساتھ بتایاہے کہ فرقہ پرست عناصر جو اس ملک کو ہندوراشٹر میں تبدیل کرکے مذہبی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں ، کو معلوم ہے کہ اقلیتیں خاص کر مسلمان سیکولر پارٹیوں کی ہی تائید کرتے آئے ہیں ۔ اور سیکولر پارٹیوں کو ہی ووٹ دیتے رہے ہیں ۔ اس لئے ان فرقہ پرست لیڈروں کا پہلا نشانہ مسلمان ہیں یعنی مسلمانوں کے ووٹ تقسیم کرنا ہی اس سازش کا اہم منصوبہ ہے۔ایم اے سمیع کے مطابق بیدر کے فرقہ پرست لیڈر جو کچھ سیکولر پارٹیوں میں بھی شامل ہیں ،نے مسلمان ووٹوں کی تقسیم اور مسلم نمائندگی کو ختم کرنے کی گذشتہ دنوں جوسازش رچی تھی ، اس کا پہلا تجربہ حلقہ اسمبلی بیدر میں کیاجاچکاہے جس کے نتیجہ میں جناب رحیم خان کو شکست کا سامنا کرناپڑا۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ سوریہ کانت ناگمارپلی نے انتخابات سے بہت پہلے بیدر کے قدیم شہر میں جو مسلم آبادی والاعلاقہ ہے ،میں اپنے مسلم آلہ کاروں کی ٹیم تیار کی تھی ۔ اور پھر ان کے ذریعہ مسلمانوں کے ووٹ تقسیم کرنے کا منصوبہ کامیابی سے عمل میں لایا گیاجس کے نتیجہ میں شہر کے مختلف محلہ جات میں واقع جن پولنگ بوتھ میں صد فیصد مسلم آبادی ہے گرپادپا ناگمارپلی کو 10سے 20فیصد ووٹ ملے ہیں ، اور یہی ووٹ جناب رحیم خان کے خلاف فیصلہ کن ثابت ہوئے ہیں ۔ اگر چند پیسوں کی خاطر بکنے والے کچھ مسلم اشخاص ،فرقہ پرست عناصر کا آلہ کا رنہیں بنے ہوتے اور رحیم خان کے خلاف ہوئی سازش میں شریک نہیں ہوتے تو آج جناب رحیم خان ایم ایل اے ہوتے اور شاید ریاستی وزیر بھی ہوتے۔ جناب ایم اے سمیع نے مزید بتایا ہے کہ فرقہ پرست عناصر کی سازش اسمبلی الیکشن میں پوری طرح کامیاب رہی ہے اور اب وہی لو گ آنے والے لوک سبھا انتخابات کو نظر میں رکھ کر سابقہ وزیراعلیٰ مسٹر دھرم سنگھ کے خلاف مہم کاآغاز کرچکے ہیں ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس بار بھی ان ہی آلہ کاروں کو میدان میں اتارا گیاہے جو اسمبلی انتخابات میں رحیم خان کے خلاف سرگرم عمل تھے۔ان کے ذریعہ ہر دن دھرم سنگھ کے تعلق سے نئی نئی جھوٹی افواہیں پھیلائی جارہی ہیں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسٹر دھرم سنگھ جیسے قائد جن کی 45سالہ سیاسی زندگی کا ایک ایک دن ان کی مسلم دوستی اور اردو کے ساتھ والہانہ محبت کاگواہ ہے، کو فرقہ پرست اور اقلیت دشمن کہاجارہا ہے توسوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگر دھرم سنگھ فرقہ پرست ہیں تو ہندوستان میں کون باقی رہ جاتاہے جسے سیکولر مسلم دوست کہاجاسکے۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ مسٹر دھرم سنگھ کے ایم پی بیدر کے دو رمیں جو ترقیاتی کام ہوئے ہیں ، ان کا ذکر نہیں ہوتا۔ صرف کہاجاتاہے کہ انھوں نے کام نہیں کیا۔ بیدر سے حیدرآباد کے درمیان انٹرسٹی ٹرین کا مطالبہ گذشتہ 30سال سے کیاجارہاتھاجسے اب دھرم سنگھ نے پورا کیاہے، اسی طرح گذشتہ 21سال سے بیدر سے بنگلور راست رابطہ کی ٹرین کامطالبہ کیاجارہاتھا، دھرم سنگھ اور ملیکارجن کھرگے نے بید ر۔ بنگلور کے درمیان ایک نئی ٹرین شروع کرکے اس دیرینہ مطالبہ کی تکمیل کردی ۔اور گذشتہ تین سالوں میں پیش کئے گئے ریلوے بجٹ میں بیدر ناندیڑ ، اور بیدر بودھن کے درمیان نئی ریل لائن کا سروے کے کام کو منظوری دی گئی اور یہ کام پورا ہوچکا، امید ہے کہ اگلے سال کے بجٹ میں ان دونوں نئی ریلوے لائنوں کی تعمیر کے لئے مالیہ فراہم کیاجائے گا۔ جہاں تک اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کا تعلق ہے ، دھرم سنگھ نے ایم پی بننے سے پہلے بھی بہت کام کیاہے اور ایم پی بننے کے بعد بھی اہم خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی کی جانب سے بیدر کے قریب سولپور دیہات میں ایک ماڈل رہائشی (Residential)اسکول کاآغاز اسی تعلیمی سال سے ہونے جارہاہے۔ اس اسکول میں پہلی کلاس سے بارہویں کلاس تک سی بی ایس ای(CBSE)نصاب کی اردو زبان میں مفت تعلیم دی جائے گی ۔ اس کے ساتھ ساتھ طلباء کی رہائش ، یونیفارم اور کتابوں کا مفت انتظام یونیورسٹی کرے گی ۔ بیدر ضلع میں اردو آبادی 20فیصد سے زیادہ ہونے کی وجہ سے اردو ووٹر لسٹ کا مطالبہ بہت دنوں سے کیاجارہاتھا، وہ مطالبہ بھی آئندہ الیکشن تک پورا ہوجائے گا۔ بیدر ۔ اور بید رجنوب حلقہ انتخاب کی ووٹر لسٹ اردو میں شائع کرنے کی سفارش ہوچکی ہے ، امید ہے کہ جلد ہی الیکشن کمیشن احکامات جاری کردے گا۔ یہ سبھی کام مسٹر دھرم سنگھ نے کئے ہیں اور اس کے باوجود یہ الزام لگایاجارہاہے کہ دھرم سنگھ اقلیت دشمن ہیں ۔ جناب ایم اے سمیع نے بید رکے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ خود تجزیہ کریں ۔ 1952 ؁ء سے 2009 ؁ء تک منعقد 14لوک سبھا انتخابات میں بیدر سے کامیاب ہوئے ممبر آف پارلیمنٹ نے ان کے اپنے دورمیں کیا کیا کام کیاتھا، اور گذشتہ 4سال میں کیاکیا کام ہواہے۔ اگر منصفانہ تجزیہ کیاجائے تو پتہ چلے گاکہ پہلے بہت سارے لوگوں کو اپنے ایم پی کانام بھی معلوم نہیں رہتاتھالیکن آج دھرم سنگھ کانام بچہ بچہ کی زبان پر ہے۔ اپنے بیان کے آخر میں ایم اے سمیع نے کہاہے کہ آنے والے لوک سبھا انتخابات بہت اہم ہیں ، کیونکہ فرقہ پرست طاقتیں اب کھل کر متحد ہوتی نظر آرہی ہیں ۔ اگر ہم تھوڑی بھی غلطی کرتے ہیں تو ملک کی حکومت گجرات میں قتل عام کرنے والے نریندر مودی کے ہاتھ میں چلی جائے گی ۔ اس لئے صرف فرقہ پرست عناصر سے ہی نہیں ان کے مسلم آلہ کاروں سے بھی ہوشیار رہنا ہوگا۔ 

ملک کی 68 فیصد یونیورسٹیز اور 78 فیصد ڈگری کالجس UGC کے مطلوبہ معیار سے بہت نیچے

بنگلور۔7ستمبر(فکروخبرایجنسی ) ملک کی 68 فیصد یونیورسٹیز اور 78 فیصد ڈگری کالجس یونیورسٹیز گرانٹ کمیشن UGC کے مطلوبہ معیار سے بہت نیچے ہیں اس بات کی اطلاع پروفیسر ڈی سری پرکاش ، وائس چانسلر راجیو گاندھی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس نے دی۔ سابق کرناٹک یونیورسٹی وائس چانسلر (فورم فارمر وائس چانسلرز آف یونیورسٹییز آف کرناٹکا FVCK )کے یوم تاسیس کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ ہمارے اداروں میں معیاری تعلیم وقت کی اہم ضرورت ہے اور اسکے لئے اداروں کو مالی امداد فراہم کی جانی چاہئے۔رجنیش گوئل پرنسپال سکریٹری ڈپارٹمنٹ آف ہائیر ایجوکیشن نے کہا اس فورم کا مقصد مطلوبہ معیار کے حصول میں پیچھے رہ جانے والے تعلیمی اداروں کو معیار کے حصول میں مدد کرنا ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا