English   /   Kannada   /   Nawayathi

بھٹکل: زبان نوائط میں احباب بھٹکل کا گذشتہ کئی سالوں سے ترجمان ’’نقشِ نوائط ‘‘کے چالیس سال مکمل

share with us

یہاں سے ممبئی لوٹنے کے بعد ، ممبئی میں ہمارا کاروبار تھا ، چائے پتی کا کاروبار تھا جس کو میرے بہنوئی چلایا کرتے تھے ۔ میں چاہتا تھا کہ میں کاروبار میں شریک ہوجاؤں لیکن میرے بہنوئی اس کے لیے تیار نہیں ہوئے ، مجھے ممبئی میں کوئی کام نہیں تھا اور تھوڑی سی پریشانی بھی تھی تو اتفاق سے ایک دن دعوت وتبلیغ کے مرکز میں جانے کے لیے نکلا تو ا س دوران حاجی علاء الدین صاحب سے ملاقات ہوئی جو میر ے ہمراہ جانے کے لیے تیار تھے۔ گفت و شنید کے دوران انہوں نے ملازمت کے بارے میں پوچھا میں نے نہ ہونے کی بات کہی تو کچھ باتیں ہوٹل کے سلسلہ میں پوچھی اور پھر اس طرح مجھے انہی کے ہوٹل میں ملازمت مل گئی ۔ میں وہیں تھوڑی سی مدت گذاری ، پھر حاجی علاؤ الدین کی جو چائے پتی کی دکان ہے وہاں منتقل ہوا اور وہیں ملازمت کرنے لگا۔ اس ملازمت کے دوران میں علمی کام کی تلاش میں تھا ، میری علمی پیاس نہیں بجھی تھی ۔ اس وقت بھٹکل مسلم جماعت کے جنرل سکریٹری سید عبدالرحیم ارشاد تھے ، ان سے قرب بڑھتا گیا ، انہوں نے اپنا درد یوں بیان کیا کہ میں ایک اخبار نکالنا چاہتا تھا اور اس کی پوری سیٹنگ تیار تھی، میں نے اس کا نام ’’ النوائط ‘‘ رکھا لیکن میرے دوستوں نے مجھے مخمسے میں رکھ کر اور جو میں نے اس کے لیے جمع پونجی تیار کی تھی اس کو لے جاکر انہوں نے النوائط اخبار نکالا اور مجھے کنارے لگادیا۔ اس کے بعد میں ارشاد ا صاحب کے ساتھ مل کر ایک فارمیٹ تیار کیا ۔ ان کے ساتھ ساتھ کئی ساتھی ہمارے ساتھ ملتے گئے۔ اور اخبار کی پوری تیاری کے لیے مالیات کی فراہم میں نے کی ۔ اول دن ہی سے مالک ، پرنٹر ، پبلشر میں بنا اور ایڈیٹر سید عبدالرحیم ارشاد صاحب بنے ۔اور اخبار 1976 ؁ء سے شروع ہوا۔ اس وقت حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب ممبئی میں موجود تھے ، ہم نے ان کے دستِ مبارک سے ہمارا پہلا اخبار کااجراء کیا اور ہمارا ہے اخبار اس طرح سے شروع ہوا۔اس دوران النوائط بھی جاری تھا لیکن چند دنوں بعدکچھ حالات کی بناء پر النوائط بند ہوگیا ۔نقشِ نوائط زیادہ مدت تک چلنے کی کوئی امید نہیں تھی لیکن الحمدللہ یہ اخبار چلتا رہاچلتا رہا او رآج الحمدللہ اس کے چالیس سال مکمل ہوگئے۔ اور چل رہا ہے۔ اس دوران ارشاد صاحب وفات پاگئے ، محمدعلی قمر صاحب اور حسین قاسمجی صاحب بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ درمیان میں میرے اور ارشاد صاحب کے درمیان اس بات کو لے کٹھائی پیداہوئی کہ اخبار ممبئی ہی میں رہے یا بھٹکل میں اس کو منتقل کیا جائے۔ ارشاد صاحب کی رائے تھی کہ بھٹکل منتقل کیا جائے لیکن میں اس کو ممبئی میں رکھنا چاہتا تھا ۔ لیکن ارشادصاحب ریٹائرڈ ہونے کے بعد وہ بھٹکل منتقل ہوگئے اور اسی طرح اخبار بھی بھٹکل منتقل ہوا ۔ اس دوران میں آٹھ دس شماروں میں ’’ اللہ فرموتا ‘‘ کے نام سے نہیں لکھ سکا لیکن اس کے بعد مستقل میں نے یہ کالم لکھا اور آج تک لکھ رہا ہوں ۔ اور نوائطی زبان میں ساڑھے آٹھ پارے نوائطی زبان میں ترجمہ وتفسیر لکھ چکا ہوں۔ میں جناب محی الدین منیری صاحب کے گویاماتحت میں تھا اور وہ میرے مربی تھے۔ ان کا اصرار تھا کہ میں بھٹکل آجاؤں اور یہاں کی ذمہ داریاں سنبھالوں ۔میں انہیں کہتا کہ کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ، میں آج نہیں تو کل بھٹکل میں آجاؤں گا ۔ اس دوران میں جامعہ اسلامیہ جامعہ آباد کا سفیر بن کربیرون ملک جایا کرتا تھا۔ بہرحال کام چل رہا تھا۔ اس دوران منیری صاحب کا انتقال ہوگیا اور جو وعدہ میں نے ان سے کیا تھا اس کو پورا کرنا ضروری تھا ۔ اس کے دوسال بعد ارشاد صاحب کا بھی انتقال ہوگیااس وقت میں دبئی میں تھا۔ میں نے سمجھا کہ اب اخبار بند ہوگا ۔ میں نے فوری طور پر قمر صاحب سے رابطہ کرکے کہا کہ کسی بھی صورت میں اخبار جاری رہنا چاہیے۔ انہوں نے یہ کہا کہ میرے پاس فنڈ نہیں ہیں۔ میں نے کہا کہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے گھر فون کرکے کہا کہ قمر صاحب جتنی روپیوں کا مطالبہ کرے وہ دے دئیے جائیں ، قمر صاحب نے اس وقت بیس ہزار روپئے لیے اور اس کے بعد بیس ہزار روپئے لیے اس کے بعد سے نقش جاری رہا۔ اس کے بعد محمد علی قمر صاحب کا بھی انتقال ہوگیااو راس کے بعد مجھے مجبوراً بھٹکل ہی میں قیام کرنا پڑا ۔ میرا کاروبار میرے بچوں نے سنبھال لیا۔ اس کے بعد میں بھٹکل میں ہوں اور میری اس ذمہ داری کے ساتھ خصوصی طور پر جامعات الصالحات کی نظامت میرے پاس ہے ، اس طرح منیری صاحب کا وعدہ بھی پورا ہورہا ہے اور نقش بھی جاری ہے ۔ اس طریقے پر یہ زندہ ہے اور آئندہ انشاء للہ زندہ رہے گا۔ 
فکروخبر : قوم کا تعاون کیانقشِ نوائط کے ساتھ رہا ؟ 
مولانا عبدالعلیم قاسمی : قوم کا تعاون کی جہاں تک بات ہے ۔ آپ اس سے واقف ہیں کہ لوگوں کو آج کل پڑھنے کا زیادہ شوق نہیں ہے۔ لیکن نقش پڑھنے والے پڑھتے ہی ہیں ، خریداری کی وصولی کا جہاں تک مسئلہ ہے ، وہ دیں گے تو رد نہیں کریں گے لیکن ایک خطیر رقم باقی رہی ، اشتہارات کے ہزاروں ، لاکھوں روپئے باقی رہے اس کے بعد اس طرح کے حالات پیدا ہوگئے کہ دبئی ، سعودی ، بحرین اور مسقط میں جو اخبار جارہا تھا اس میں کمی آئی ۔ وہاں جارہے لوگوں کے ہاتھ میں ہم دے کر بھیجتے مگر وہ جاکر اس کو کمرے میں رکھتے ، اگر وزن زیادہ ہوگیاتو سب سے پہلے ایرپورٹ پر اخبار نکال پھینکتے ۔ ہم سمجھتے کہ اخبار پہنچ گیا لیکن اخبار نہیں پہنچتا تھا۔ اس میں لاکھوں روپئے مجھے نہیں ملے ۔ ہمارے ملا حسن صاحب اللہ انہیں غریقِ رحمت کرے ، وہ جب تک مسقط میں رہے ، باقاعدہ وصول کرکے بھیجتے رہے ، وہ ریٹائرڈ مینٹ کے بعد بھٹکل آئے ۔ دبئی میں ہمارے کیپا (اسماعیلجی ) میراں صاحب ، ان کی دکان میں ہمارا اخبار رہتا ، ان کے پاس جو لوگ کام کرتے تھے یا جماعت میں جو کام کرنے کے لیے ماموں تھے وہ ہمارا اخبار سپلائی کیا کرتے تھے۔ وہ کچھ گڑ بڑ میں پھنس گئے اس کے بعد اخبار وہاں جانا بند ہوگیا اور ہزارو ں روپئے بلکہ لاکھوں کہہ سکتے ہیں وصول نہیں کرسکے ۔اس کے بعد میں نے آہستہ آہستہ دبئی اخبار بھیجنا بند کردیا ۔ ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں جو اخبار جارہا ہے اور بھٹکل میں جو اخبار جارہا ہے اس کی وصولی کے لیے میں نے چند افراد منتخب کیے ، انہوں نے بقایا وصول کرنا شروع کردیا ، تھوڑے دن انہوں نے رقم پہنچائی ، بعد میں کچھ رقم ان کے پاس رہی ، حساب بھی نہیں پہنچایا ۔ اس طرح میں نے آٹھ دس افراد کا تجربہ کیا ، لیکن اس کے باوجود یہ چل رہا ہے ۔ مجھے الحمدللہ اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے، مالی اعتبار سے ، ممبئی کے کاروبار سے مجھے میرے لڑکے بھیجتے ہیں۔ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی ۔ اخبار نکال رہا ہوں ۔ 
جب مودی حکومت آئی ۔ ان کی حکومت کا ایک آرڈر نافذ کیا گیا کہ جن کے پاس آر این آئی نمبر نہیں ہے ان کے لیے پوسٹ لائسنس نہ دے ۔ ہمارے پاس چالیس سال سے پوسٹ کا لائسنس ہے لیکن آر این آئی نمبر نہیں ہے ، اس لیے پوسٹ والوں نے بند کردیا ، میں نے بہت درخواست کی کہ مجھے یہ لائسنس جاری رکھے لیکن انہوں نے نیا نمبر لانے کے لیے کہا جس کے لیے میں کوشش کررہا ہوں ، یہ کوشش کب تک ہوگی اس کا مجھے علم نہیں ہے لیکن پہلے میری جانب سے جو کاغذات گئے اس کے بعد مجھے وقتی طور پر نمبر دیا گیا اور تھوڑی چیزیں بھیجنے کے لیے کہا ۔ انشاء اللہ نیا نمبر ملے گا ، پرانا نمبر نہیں ملے گا ، نیا نمبر ملنے کی امید ہے لیکن میں نقش جاری رکھا ہوں ۔ آج کل میں ایک مہینے میں ایک نکال رہا ہوں ۔ 
فکروخبر: ماشاء اللہ آپ اس اخبار کو خوش اسلوبی سے پوری کامیابی کے ساتھ چلارہے ہیں، اللہ آپ کی قربانیوں کو قبول کرے، اس سے مقامی زبان بھی زندہ ہے ، اس موقع پر ادارہ فکروخبر تہہ دل سے آپ کی خدمت مبارکبادی پیش کرتاہے۔ 
مولانا عبدالعلیم قاسمی:جزاک اللہ خیرا، ضروری سمجھ کر آپ دفتر تک آئے اور انٹرویو لیا اس کے ہم مشکور ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا