English   /   Kannada   /   Nawayathi

مساجد سے دوری کی ایک اہم وجہ

share with us

مفتی عمران ندوی

 

انما یعمر مساجد اللہ من آمن باللہ

یقینا مساجد کا آباد کرنا مسلمان پر ایک دینی و ایمانی فریضہ بنتا ہے جس میں مساجد کی تعمیر کرنا یا اس کی تعمیر میں حصہ لینا  نمازیوں کے لیے سہولیات کا نظم کرنا اورسب سے بڑھ کر نمازیوں سے آباد کرنا  داخل ہے  ،

محنت وکاوش جس طرح  مساجد کی تعمیر میں لازم  ہے اسی طرح انہیں آباد کرنے میں بھی لازم ہےکہ بستی کا کوئی فرد جو اہل ایمان و  اہل توحید ہو وہ  نماز کوآنے سے نہ رہے  جس کے  لیے ہر طرح کےتربیتی اقدام ہونے چاہیےکہ جو ایک مسلمان کو نمازی بنا سکے اور اپنے محلہ کی مسجد کو  آبادرکھ سکے۔

مساجد میں مکاتب  کا نظام اور اس کا تسلسل  بھی مساجد کو آباد رکھنے میں آتا ہے جو مساجد کی رونق کو دو بالا کردیتا ہے  اور  کیوں نہ ہو ہمارے یہی نونہالان  اگر اس نوعمری میں مساجد سے وابستہ ہو ں  تو اس بات کی ضمانت دی جاسکتی ہے کہ  آگے چل کر کبھی نماز کے لیے آنے سے کترائیں گے نہیں اوریہ بھی مساجد کو آباد رکھنے کی فکر  کریں گے ۔

جہاں ہم یہ مانتے ہیں کہ ایک   مسلمان کا نماز کو  نہ آنا اور اس میں ٹال مٹول اور کاہلی سے کام لینا اس کے ضعف ایمانی کی علامت ہے اور اللہ کی دْات سے یقین کی کمزوری ہے وہیں ایک رکاوٹ  ہمارا اس بات  کو نظر انداز  کرنا اور   چشم پوشی کرنا  بھی ہےکہ  اس غیر ایمانی فعل میں کہیں نہ کہیں ہم بھی مسؤول ہیں اور یہ  تب ہو تا ہے جب ہم مساجد کے آدا ب کو چھوڑ کر اس  سے قبل اس کی آبادی کی فکر میں لگ جاتے ہیں  ۔

اور مساجد کے آداب سے شاید ہی کوئی نا واقف ہو گا کیوں کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ  یہ بیت اللہ ہے اور جو عظمت اللہ سبحانہ وتعالی کی دْات کی ہر کسی کے دل و جاں میں ہوتی ہے  اسی طرح سےعظمت اللہ کے گھر کی وہ کرتا ہے ، لیکن بسا اوقات غفلت میں  وہ فراموش بھی ہو جاتی ہیں إنہ کان ظلوما جھولا 

یہ ہم جانتے ہیں کہ مسجد میں آواز اونچی کرنا خلاف ادب ہے چہ جائے کہ  کو ئی شخص بحث وماحثہ و اختلاف وجدال کر بیٹھے  اور یہی وہ سب سے بڑی رکاوٹ  ہے جو  مساجد کو آباد کرنے میں سامنے آتی ہےیہ غیر اخلاقی عمل اگر  کوئی دکان ومکان میں بھی کسی کے ساتھ برتے تو اس سے لوگ متنفر ہو جاتے ہیں  پھر اگر کوئی یہ ترش رویہ مسجد  کو اپنی دْاتی ملکیت سمجھ کر  کسی کے ساتھ اپنائے  پھر چاہے وہ نظامت کا جو بھی حق رکھتا ہو مساجد کی حرمت و ادب سے صرف نظر نہیں کرسکتا کیوں  کہ یہ وقف کی املاک ہوتی ہیں   ورنہ اس کا نتیجہ بھی یہی ہونا ہے  اور بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ عموما  مساجد میں جو سب سے بڑی بے حرمتی اور خلاف ادب  عمل ہو تا ہے وہ  یہی گستاخی کہ  کوئی اپنی آواز کو اونچا کرے اور ڈانٹ ڈپٹ کرے  اور جب یہ ماحول بنتا ہے تو صرف ایک آواز نہیں ہوتی پھر آوازیں آنے لگتی ہیں جس سے مسجد کا ادب تو پامال ہو ہی  جاتا  ہے ساتھ ہی نمازی کی نماز میں بھی خلل  پیدا  ہو جاتا ہے۔

یقینا مسجد میں کسی بھی طرح کی بے ادبی کوئی مسلمان برادشت نہیں کر سکتا اور ایسا  ہوتے دیکھ  کر اسکی ایمانی غیرت جوش میں آتی ہے لیکن کیا ہم نعودْ باللہ نبی کریم ﷺ سے بھی زیادہ غیرت مند ہیں جو افضل البشر  اور ایک بہترین معلم تھے   جب نبی پاک ﷺ کے عمل سے ہمیں ایسے سخت ترین مواقع میں بھی ایسی ترشی و  سخت مزاجی نہیں ملتی تو ہماری کیا مجال  کہ ہم اس میں   شریعت کی حد کو تجاوز کرجائیں اللہ کے رسول ﷺ ہر امر میں نرمی وآسانی کو پسند فرماتے  آپ نے کبھی کسی معاملہ میں  شور شرابہ یا ڈانٹ ڈپٹ سے کام نہیں لیا  ،آپ ﷺ کے خادم سعید   حضرت انس بن مالک ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دس  سال اللہ کے رسول ﷺ کی خدمت  کی اس دوران کبھی بھی آپ ﷺ  نے کسی بھی معاملہ   میں جو میں نے کیا ہو مجھے ٹوکا نہیں کہ یہ کیوں کیا یا  جو کام نہیں کیا تواس طرح کیوں نہیں کیا ۔  (صحیح البخاری   ۴۔۱۱رقم ۲۷۶۸     و  صحیح مسلم ۴۔۱۸۰۴ رقم (۲۳۰۹)

اس کے علاوہ حضرت ابو ھریرہ ؓ روایت فرماتے ہیں  : ایک  اعرابی شخص نے مسجد میں پیشاب کر دیا جب وہاں موجود لوگوں نے دیکھا تو فورا اس کی طرف لپکے کہ اسے باہر کردیں لیکن  نبی کریم ﷺ وہاں موجود تھے   آپﷺ  نےانہیں روکتے ہوئے فرمایا جانے دو  اسے اور اس جگہ  ایک ڈول پانی  اچھی طرح  بہا دو کیوں کہ  تم   لوگ راحت رسانی کے لیے بنے ہو نہ کہ تنگی پیدا کرنے کے لیے  (رواہ البخاری )

اس سے زیادہ اورواضح مثال اور کیا ہو سکتی ہے اب ان ارشادات کو اگر کوئی پرےرکھ کر اپنا حکم نافدْ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کیا یہ دین اسلام میں زیادتی نہیں ہے  ،آج  مساجد میں جو سب سے زیادہ قہر ڈھایا جاتا ہے وہ معصوموں پر ہوتا ہے  اگر کوئی بچہ مسجد میں پیشاب کر دے جو کہ ابھی شریعت کا مکلف ہی نہیں تو اس پر اور اس کے سرپرست پر یوں ٹوٹ پڑتے ہیں  جیسے اس نے جان بوجھ کر کیا ہو  اور ان کی اتنی فضیحت ہوتی ہے کہ پھر آئندہ وہ مسجد میں آنے سے خوف کھاتا ہے اور پشیمان ہوتا ہے

اب دْرا ہوش کے ناخن لیتے ہو ئے غور کریں  کہ کیا ہم نے اپنی اس غیر اخلاقی حرکت سے ایک نمازی کو مسجد سے دور نہیں کیایقینا یہ رویہ  ہمارے نبی کی تعلیمات سے بالکل برعکس ہے  کیوں کہ جب  واضح حدیث اس سلسلہ میں موجود ہے اور آپ ﷺ کا رد عمل بھی اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم اسلام کو آسان بنا کر پیش کریں سختیاں نہ پیدا کریں  اور اس کی  کوئی گنجائش  نہیں رہتی تو  ہم میں سے کیسے کوئی ان تعلیمات نبوی سے آگے بڑھنے کی گستاخی کرسکتا ہے ۔

آج اگر ہم سنن  ونوافل سے بڑھ کر اگر ان  سنتوں کو اور سنہرے اصولوں کواپنا لیں تو یہ  رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائیں  اور یہی مقصود  ہے کہ آپﷺ کی تعلیمات کو ہم ٹھوس شکل میں پیش کریں بند کتاب کی شکل میں کسی کو ہدیہ دینے سے وہ بند ہی رہ جاتی ہیں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی ہمیں  ایسے اعمال و اخلاق سے دور رکھے جو دین اسلام کو دشوار بنا کر پیش کر تے ہوں اور حقیقی  متبع رسول بنائے آمین و ما توفیقی إلا باللہ۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا