English   /   Kannada   /   Nawayathi

!آرٹیکل 370کی منسوخی پر آخرکار سپریم کورٹ کی مہر

share with us

  نور اللہ جاوید، کولکاتا

لوک سبھا الیکشن سے عین قبل متنازع قانون کو نافذکرنے کی تیاری
آسام و دیگر شمال مشرقی ریاستوں کے عوام کے تحفظات پوری طرح نظرانداز


جس طرح کشمیر کے خصوصی اختیارات ختم کرنے سے مرتب ہونے والے اثرات سے حکومت کو کوئی سروکارنہیں ہے اسی طرح شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ سے کتنے ہندو رفیوجیوں کو فائدہ پہنچے گا؟ بھارت میں ہندو رفیوجیوں کی تعداد کیا ہے اور کیا اس طرح کے قوانین سے ملک میں غیرقانونی در اندازی کے دروازے نہیں کھلیں گے؟ ان اہم سوالوں پر غور کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔
2019 میں دوسری مرتبہ بھاری اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آنے کے چند مہینوں بعد ہی مودی حکومت نے سنسنی خیز ماحول میں پہلے جموں وکشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا قانون  پاس کیا۔ اس کے بعد 2019 کے نومبر کے اواخر میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے شہریت ترمیمی ایکٹ کو منظور کیا۔ ان دونوں قوانین کو جمہوری روایات اور پارلیمانی ضوابط کو نظر انداز کرتے ہوئے محض اکثریت کی بنیاد پر پاس کروالیا گیا۔فریقین سے صلاح و مشورہ کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی، اور اب چار سال بعد آج 12؍ دسمبر کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے فیصلے پر اپنی مہر لگا دی ہے۔ یہ الگ سوال ہے کے آرٹیکل 370 کی منسوخی سے جموں و کشمیر کے حالات میں کیا کچھ تبدیلی آئی ہے؟ صنعت کاری کتنے بڑے پیمانے پر ہوئی؟ کشمیری پنڈتوں کی واپسی کی شرح کیا ہے؟ جبکہ حالیہ برسوں میں کشمیری پنڈتوں کے انخلا میں اضافہ ہی دیکھنے کو ملا ہے۔ ان سوالوں سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب حالات نارمل ہوچکے ہیں تو چار سالوں بعد جموں و کشمیر میں جمہوریت بحال کیوں نہیں ہوسکی ہے۔ ان سوالوں سے قطع نظر سپریم کورٹ کا فیصلہ کئی معنوں میں اہم ہے۔ اگلے چند مہینے بعد ملک میں عام انتخابات ہونے والے ہیں، ایسے میں یہ سوال اہم ہوجاتا ہے کہ اس فیصلے کے انتخابات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اپوزیشن اتحاد اس کا کیا جواب کیا دے گی؟
بی جے پی جموں و کشمیر کے خصوصی اختیارات، رام مندر اور یکساں سول کوڈ کے ایشوز کو ہمیشہ اپنے نظریاتی موقف اور ہندتو کی بالادستی سے جوڑتی رہی ہے۔ اب چونکہ اگلے ماہ جنوری میں رام مندر کے افتتاح کا پروگرام ہے اور جموں و کشمیر کے خصوصی اختیارات ختم ہوگئے ہیں تو اس نظریاتی فتح کے بعد یہ سوالات کھڑے کیے جا رہے ہیں کہ آیا اگلا انتخاب ’’یکساں سول کوڈ‘‘ اور ہندو راشٹر کے نام پر لڑا جائے گا؟ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستیں انفرادی طور پر ’’یکساں سول کوڈ‘‘ کے نفاذ کا اعلان کرچکی ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب تک کوئی بھی ریاست اس قانون کا مسودہ پیش نہیں کر سکی ہے۔ ان تین ایشوز کے علاوہ ’’شہریت‘‘ کے سوال کو بھی بی جے پی اور اس کی نظریاتی سرپرست آر ایس ایس، بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد جیسی انتہائی اور جنونی دائیں بازو کی جماعتیں ملک کی اقلیت بالخصوص مسلمانوں کے خلاف آلہ کے طور پر استعمال کرتی رہی ہیں۔ سرحدی اضلاع بالخصوص آسام اور مغربی بنگال کے اضلاع سے متعلق یہ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے کہ یہاں بڑی تعداد میں غیر قانونی بنگلہ دیشی آباد ہوگئے ہیں ۔’’شہریت‘‘ کے سوال کا دوسرا پہلو پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے حالات سے مجبور ہوکر آنے والے ہندو رفیوجیوں کو بھارت کی شہریت دینے سے تعلق رکھتا ہے۔ اگرچہ اس ملک میں رفیوجیوں کو شہریت دینے سے متعلق قانون موجود ہے، اس کے باوجود مودی حکومت نے 2019 میں شہریت ترمیمی ایکٹ کا قانون پاس کیا۔ ظاہر ہے کہ دونوں قوانین میں فرق ہے۔ مودی حکومت کے ذریعہ منظور شدہ اس قانون میں بھارت کے آئین کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے جن میں یہ عہد کیا گیا تھا کہ بھارت میں مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ کوئی تفریق نہیں برتی جائے گی۔ شہریت ترمیمی ایکٹ میں مسلمانوں کے علاوہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندو، سکھ، بدھسٹ اور عیسائی تارکین وطن کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے، جبکہ سری لنکا اور برما میں پریشان حال ہندووں اور عیسائیوں کی شہریت سے متعلق خاموشی اختیار کی گئی۔ ظاہر ہے کہ صرف ان تین مسلم اکثریتی ممالک کے تارک الوطن اقلیتوں کو شہریت دینے کا وعدہ کرنے کے پیچھے مسلمانوں کے خلاف ماحول کو کشیدہ کرنے کے سوا کوئی اور مقصد نہیں تھا۔
نریندر مودی کی زیر قیادت مرکزی حکومت نے ابتدا میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ’’شہریت ترمیمی ایکٹ‘‘ ملک بھر میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے نفاذ کی طرف پہلا قدم ہے۔ تاہم، ملک بھر میں احتجاج بالخصوص شمال مشرقی ریاستوں میں بڑے پیمانے پر ہنگامہ آرائی، مظاہرے اور توڑ پھوڑ کے بعد وزیر اعظم مودی اور پارلیمنٹ میں ’کرونالوجی‘ سمجھانے والے امیت شاہ نے تک یقین دہانی کرائی کہ ’’نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کے نفاذ کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے قانون کی منظوری کے چار سال بعد بھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ پارلیمانی قائمہ کمیٹی نے شہریت کے نئے قانون کے لیے قواعد وضع کرنے کے لیے حکومت کی آخری تاریخ میں کئی بار توسیع کی ہے۔ سپریم کورٹ میں شہریت ترمیمی ایکٹ کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت شروع کردی گئی ہے۔شہریت ترمیمی ایکٹ میں 2015 سے پہلے ہندوستان میں داخل ہونے والے پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے غیر دستاویزی ہندوؤں، سکھوں، بدھسٹوں، جینوں، عیسائیوں اور پارسیوں کے لیے نیچرلائزیشن کے ذریعے فاسٹ ٹریک شہریت دینے کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ انگریزی اخبار دی ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق پارلیمانی انتخاب سے قبل حکومت اس قانون کو نافذ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ‘دی ہندو’ کی رپورٹ کے مطابق شہریت ترمیمی ایکٹ تحت شہریت حاصل کرنے والوں کے لیے پورٹل اور قواعد تیار ہو چکے ہیں۔ ‘دی ہندو’ نے آر ٹی آئی کے حوالے سے خبر دی ہے کہ لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے قواعد طے کرنے لیے تازہ ترین توسیع  علی الترتیب 9؍ جنوری 2024 اور 30؍ مارچ 2024 تک کی گئی ہے۔تاہم، اخبار نے وزارت کے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے قواعد تیار ہیں اور آن لائن پورٹل بھی موجود ہے۔ پورا عمل آن لائن ہوگا اور درخواست دہندگان کو اس سال کا اعلان کرنا ہوگا جب وہ سفری دستاویزات کے بغیر ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔
دسمبر 2019 سے مارچ 2020 کے درمیان آسام، اتر پردیش، کرناٹک، میگھالیہ اور دہلی میں سی اے اے کی منظوری کے بعد ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس فائرنگ اور فسادات میں 83 افراد ہلاک ہوگئے۔ 30؍ نومبر 2022 کو سپریم کورٹ میں وزارت داخلہ نے اپنے حلف نامہ میں کہا کہ شہریت ترمیمی ایکٹ صرف ان غیر ملکیوں کے لیے ہے جنہوں نے 31؍ دسمبر 2014 کو یا اس سے پہلے ہندوستان میں تین مخصوص ممالک میں مذہب کی بنیاد پر ظلم و ستم کا سامنا کرنے کی وجہ سے بھارت میں پناہ لی تھی۔ حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ مستقبل میں غیر ملکیوں کی بھارت میں آمد کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ہے کیونکہ یہ ماضی کے واقعات پر نافذ ہوتا ہے اور مستقبل میں اس کا کوئی اطلاق نہیں ہوتا ہے۔
نومبر 2019 میں جن حالات میں شہریت ترمیمی ایکٹ قانون پاس کیا گیا اور اس کے بعد کورونا وائرس کی وجہ سے اس ایکٹ کے لیے قواعد وضع کرنے میں تاخیر کی گئی اور 2024 میں لوک سبھا انتخابات سے عین قبل اس کو نافذ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ’شہریت ترمیمی ایکٹ ‘‘ دراصل  سیاسی مقصد کے تحت لایا گیا قانون ہے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ جمہوری اور پارلیمانی نظام حکومت میں برسر اقتدار طبقہ اپنے ووٹروں کی دلچسپی باقی رکھنے کے لیے مقبول اقدامات کرتا ہے مگر مودی حکومت جس طریقے سے مقبول اقدامات کررہی ہے اس کی نظیر کم سے کم بھارت میں نہیں ملتی۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے لیے جہاں جنوری میں رام مندر کا افتتاح کیا جا رہا ہے وہیں شہریت ترمیمی ایکٹ کا پنڈورا باکس بھی کھولا جارہا ہے اور ممکن ہے کہ جارحانہ ہندتو کی مہم کے حامی بی جے پی قائدین لوک سبھا انتخابات میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کے معاملے کو بھی اٹھائیں گے اور بعد میں بی جے پی کا یہ ایجنڈا نافذ بھی ہو سکتا ہے۔ جس طرح کشمیر کے خصوصی اختیارات ختم کرنے سے مرتب ہونے والے اثرات سے حکومت کو کوئی سروکارنہیں ہے اسی طرح شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ سے کتنے ہندو رفیوجیوں کو فائدہ پہنچے گا؟ بھارت میں ہندو رفیوجیوں کی تعداد کیا ہے اور کیا اس طرح کے قوانین سے بھارت میں غیرقانونی در اندازی کے دروازے نہیں کھلیں گے؟ ان اہم سوالوں پر غور کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
اب جبکہ حکومت اس کو نافذ کرنے کی بات کر رہی ہے تو سوال یہ ہے کہ آسام اور شمال مشرقی ہندوستان کی دیگر ریاستوں میں جہاں اس قانون کی  بڑے پیمانے پر مخالفت کی جا رہی ہے وہاں بالخصوص آسام میں اسے کیسے نافذ  کیا جائے گا؟ چونکہ آسام میں این آر سی میں مسلمانوں سے کہیں زیادہ ہندووں کو غیر ملکی شہری قرار دے کر ووٹنگ کے حق سے محروم کر دیاگیا ہے اور ہزاروں افراد اس وقت حراستی کیمپوں میں ہیں، سیکڑوں افراد نے خودکشی کی اور ہزاروں افراد ملک کے دیگر حصوں میں فرار ہوگئے ہیں، کیا ان سب کو اب بھارت کی شہریت دے دی جائے گی؟ سپریم کورٹ کی نگرانی میں قومی رجسٹر شہریت (NRC) 31؍ اگست 2019 کو شائع کیا گیا ہے جس میں 3.4 کروڑ درخواست دہندگان میں سے 19 لاکھ کے افراد کے نام شامل نہیں ہے۔ 12 لاکھ سے زائد ہندووں کی شہریت معلق ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا ان سب کو بھارت کی شہریت دے دی جائے گی؟ اور جب مسلمانوں کے سوا تمام غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینا ہی تھا تو این آر سی کی ضرورت ہی کیا تھی اور پھر کیوں کروڑوں لوگوں کو امتحان اور ابتلا میں ڈالا گیا؟
آسام میں کئی دہائیوں کے انتظار کے بعد این آر سی کا عمل مکمل ہوا اور اس پر ہزاروں کروڑ روپے خرچ کیے گئے اور آسام میں آباد تین کروڑ سے زائد شہریوں کو سخت امتحان اور آزمائش سے گزرنا پڑا۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما اس این آر سی پر سوال کھڑا کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق جن مقاصد کے تحت این آر سی کا عمل نافذ کیا گیا وہ پورا نہیں کیا گیا۔ مگر سوال یہ ہے کہ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی اور آل آسام اسٹوڈننس کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق 24؍ مارچ 1971 کے بعد آسام میں آنے والوں کو غیر ملکی قرار دیا جائے گا۔ اس میں مذہب کی کوئی شرط نہیں تھی مگر شہریت ترمیمی ایکٹ کے مطابق 2014 تک بنگلہ دیش، افغانستان اور پاکستان سے آنے والے تمام ہندو، سکھ، بودھ، جینی اور عیسائی بھارت کی شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پھر اس قانون کے تحت آسام میں این آر سی میں جن ہندووں کے نام نہیں ہیں کیا انہیں بھارت کی شہریت دی جائے گی؟
میانمار میں صورت حال خراب ہونے کے بعد بڑی تعداد میں میانمار سے لوگ شمال مشرقی ریاستوں میں آباد ہو رہے ہیں۔ میانمار سے آنے والے قبائلی اور ناگالینڈ و میزروم کے قبائل کے درمیان ثقافتی و تہذیبی اشتراک ہے۔ مرکزی حکومت کیا اس بڑے سوال کو حل کرنے کی کوشش کرے گی کہ ناگالینڈ، میزروم اور میگھالیہ میں دراندازوں کا کیا ہوگا؟
کورونا کی دوسری لہر کے دوران مئی 2021 میں مرکزی حکومت نے پانچ ریاستوں کے 13 اضلاع کے غیر قانونی تارکین وطن کی شناخت کرنے اور پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے ہندووں، سکھوں، جینیوں، بودھوں اور عیسائیوں کو شہریت دینے کے لیے نوٹیفیکشن جاری کیا تھا، اس کے بعد نومبر 2022 میں ایک بار پھر ایک نوٹیفکیشن کے ذریعہ ریاست گجرات کے دو اضلاع کو ہدایت دی گئی کہ وہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے مذکورہ چھ کمیونیٹیوں کی شناخت کرے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس نوٹیفیکشن کے بعد کتنے افراد کی نشاندہی کی گئی اور کتنے افراد نے شہریت کے لیے درخواست دی ہے؟ اگر اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مغربی بنگال میں متوا اور راج بنشی کے علاوہ اس قانون کے تحت فوائد حاصل کرنے والوں کی تعداد کوئی زیادہ نہیں ہے۔ بنگلہ دیش کے معرض وجود میں آنے کے بعد دلت برادری متوا سماج نے بڑے پیمانے پر مغربی بنگال میں ہجرت کی اور بنگال کے سرحدی اضلاع میں آباد ہوئے۔ متوا سماج ریاست کے 50 اسمبلی حلقوں اور پانچ سے چھ لوک سبھا حلقوں میں طاقتور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ سے سب سے زیادہ اسی کمیونیٹی کو فائدہ پہنچے گا، مگر ترنمول کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیوں کا دعویٰ ہے کہ متوا سماج کو پہلے ہی بھارت کی شہریت حاصل ہے اور انہیں وہی حقوق حاصل ہیں جو ایک بھارتی شہری کو حاصل ہیں، تو دوبارہ انہیں شہریت کے لیے درخواست دینے کی ضرورت کیوں ہے؟ ایک اہم سوال یہ ہے کہ بنگال میں مقیم متوا سماج کو شہریت دینے کی وکالت کرنے والی بی جے پی کے پاس کیا یہ جرأت ہے کہ وہ آسام میں این آر سی میں جگہ نہ پانے والے متوا سماج کے افراد کو بھارت کی شہریت دینے کا وعدہ کرے۔
گزشتہ ہفتے ہیمنت بسوا سرما کی حکومت نے آسام میں آسامی النسل مسلمانوں کی اقتصادی، سماجی اور تعلیمی صورتحال کا سروے کرنے کی منظوری دی ہے۔ تو پھر اس طرح کی تفریق ہندووں کے درمیان کیوں نہیں کی جارہی ہے۔ کیا ہیمنت بسوا سرما آسام میں ہندووں کی بنگالی اور آسامی کے نام پر علیحدہ علیحدہ شناخت کرسکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ نہیں کر سکتے۔ دراصل شہریت ترمیمی ایکٹ سیاسی پیچیدگیوں کو حل کرنے کی صلاحیت سے عاری ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار بتاتے ہیں کہ ممکن ہے کہ حکومت لوک سبھا انتخابات سے قبل اس کو نافذ کردے مگر اس قانون کی افادیت بہت زیادہ عام نہیں رہے گی بلکہ اس سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد بڑی حد تک محدود رہے گی۔ ضرورت اس بات کی تھی کہ شہریت کے سوال کو ہندو اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کرنے کے بجائے ملک کی سالمیت اور افادیت کے تناظر میں دیکھا جاتا۔ آئین کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کے بجائے انسانیت کی بنیاد پر دنیا بھر میں بالخصوص بھارت کے پڑوسی ممالک میں ظلم و ستم اور زیادتی کے شکار ہونے والوں کو شہریت دینے کی وکالت کی جاتی تو دنیا بھر میں بھارت کا سیکولر کردار ابھر کر سامنے آتا اور جی-20 ممالک کی سربراہی کے دوران وزیرا عظم نریندر مودی نے آفاقیت (اگرچہ یہ کوئی نیا نظریہ نہیں ہے) کا جو تصور پیش کیا اس سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جاتی تو بجا طور پر یہ کہا جا سکتا تھا کہ وزیر اعظم مودی کے خیالات میں آفاقیت ہے اور اس قانون سے جہاں بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان میں ظلم و ستم کے شکار ہونے والے افراد کو فائدہ ملے گا وہیں اس کا فائدہ سری لنکا میں جبر کے شکار تمل باشندوں اور میانمار میں مظالم کا سامنا کرنے والے روہنگیا طبقے اور دیگر قبائل کو بھی پہنچے گا۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا