English   /   Kannada   /   Nawayathi

مدارسِ اسلامیہ اُمت مسلمہ کی امانت ہیں،کسی تنہا فرد کی جاگیر نہیں..

share with us

اخبار نے اپنے صحافت کے ساتھ پورا انصاف کرتے ہوئے جناب حافظ کرناٹکی کی جانب سے پریس کانفرنس میں اعلان کردہ بیان شائع کردیا اور اس میں ایک مدرسہ کے ٹرسٹ کو غیرقانونی طور پر تبدیل کرکے شکاری پور مدرسہ پر مولانا ایوب صاحب کے ناجائز قبضے کو بھی بیان کردیا۔ جب کہ یہ یک طرفہ بیان ہے اور پوری خبر حقیقت کو اپنے دبیز پردوں میں دبائے ہوئے ہے۔ قبل اس کے کہ میں امجد کرناٹکی صاحب کے دعوے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کروں اس سے پہلے حضرت مولانا ایوب صاحب ندوی مدظلہ کے دعوتی کاموں پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا چاہتا ہوں، مولانا ایوب صاحب نے اپنی ساری زندگی امت مسلمہ کے لئے صرف کردی ہے، مولانا نے اُن دیہاتوں میں جہاں مسلمان کلمہ توحید سے بھی ناواقف تھے وہاں نہ صرف مدارس کا قیام عمل میں لایا بلکہ ، یتیم خانے ، بیواؤں کی کفالت،ا ور مسلمان بہنوں کی دینی تعلیم کے لئے ہندوستان بھر میں مدارس کا ایک ناختم ہونے والا جال بچھادیا، اور اس بات کو نہ صرف میں بلکہ میری تحریر کو پڑھ رہا ہر شخص بلکہ خود جناب امجد کرناٹکی صاحب بھی تسلیم کریں گے۔ اسی سلسلہ کی ایک کڑی کے طور پرمولانا نے جب شکاری پور میں مسلمانوں کی دین بیزاری دیکھی، اور مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات سے عاری دیکھا تو مولانا کے دعوتی مزاج نے یہاں ایک مدرسہ قائم کرنے پر مجبور کیا، مگر اس کے لیے مقامی فرد کا ساتھ ضروری تھا، شکاری پور کے سروے کے بعد جہاں مولانا کئی سارے مقامی ذمہ داران افراد سے ملاقات کی ان میں سے ایک امجد کرناٹکی بھی تھے۔ مولانا نے ان کی ذہانت اور فراست کو دیکھ کر اپنے دعوتی کاموں میں ان کا ساتھ چاہا اور پھر اس طرح امتِ مسلمہ کے خیرخواہان کے امداد سے یہاں مدرسہ کا قیام عمل میں لایا۔ ۔ اور پھر گذرتے ایام کے ساتھ یہ مدرسہ ترقی کرتا گیا اور پھر دینی و عصر ی تعلیم کا سنگم بن گیا۔ اور اس کی شاخیں پھیلتی گئی،اسی کے ماتحت عصری اسکول، بنات وغیرہ قائم کئے گئے۔ اس بیچ امت مسلمہ کی امدادی رقم ،کبھی روزے داروں کو افطار کرانے ، کبھی یتیم بچوں کی کفالت، کنویں کھدوانے، مساجد کی تعمیری کاموں کے لیے آنے لگی تو، ادارے میں ذمہ داران کی حیثیت سے کام کررہے افراد کے اخلاص میں کھوٹ شروع ہوئی او رپھرمقامی لوگوں کے زبانی یہاں تک سننے میں آیا کہ جو شخص ایک چھوٹے سے دکان میں ،چوڑیوں اور بالیوں کا کاروبار کرتا تھا آج وہ پندرہ بیس لاکھ کی کار میں شکاری پور سے بنگلور کا سفر کرتا ہے۔ میرا مقصد کسی کو نشانہ بنانا یا پھر اخلاص پر حملہ کرنا نہیں ہے، ترقی جس قدر تیزی سے ہوتی ہے تنزل بھی اسی طرح تیزی سے آتی ہے۔ امجد کرناٹکی صاحب جو سفر اخلاص کے ساتھ شروع کئے تھے،اس دوران ، شہرت اور سیاست کی بھوک کی وجہ سے شیطان کے وسوسے میں آگئے۔ مقامی افراد نے یہاں تک الزام لگایا کہ امت مسلمہ کے امانت میں خیانت کیا جارہا ہے، یتیم اور بیواؤں کے نام سے حاصل کی جانے والی رقم سیاست کے لیے خرچ کی جارہی ہے۔ (واللہ اعلم )

حالیہ اس یک طرفہ بیان کو ہی لے لیجئے،حافظ صاحب نے صرف ذاتی مفاد کے لئے ایک ایسی شخصیت پر انگلی اُٹھا کر ان کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں ، جو استاد الاساتذہ ہیں، جن کے شاگرد سینکڑوں کی تعدا دمیں ہندو بیرون ہند میں اپنے دینی و دعوتی سرگرمیوں میں جڑے ہوئے ہیں، جو محی السنہ حضرت مولانا ابرار الحق رحمہ اللہ کے خلیفہ ہیں، ان کے ماتحت میں ، بنگال ، بہار، آندھرا، کرناٹک،مہاراشٹرا بلکہ ہندوستان کے ہر صوبے میں مدارس ہیں، اور ہزاروں کی تعداد میں مساجد آباد ہوچکے ہیں۔حافظ امجد کرناٹکی صاحب کے اس پریس اعلامیہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ اپنے دعوے میں کتنے سچے ہیں۔ بلکہ امجد صاحب کو مولانا کے شکر گذار ہونا چاہئے کہ ان کے علاقے میں جب مولانا نے قدم رکھا او رپھر مدرسہ کا قیام عمل میں لایا توشکاری پور کی ایک پہنچان بن گئی ، اسی مدرسہ کی برکت تھی کہ یہاں عصری علوم کی درسگاہیں اور دیگر شعبہ جات کی عمارتیں کھڑی ہوگئیں ، اور وہ جگہ جہاں گندی فلموں کا تھیٹر تھا، جہاں عوام اپنے فضلہ جات پھینکا کرتے وہ جگہ آج اسلامی قلعہ کا روپ دھار چکا ہے۔ شکاری پور کے اطراف دیہاتوں میں کتنے مساجد قائم ہوئے یہ خود حافظ صاحب سے دریافت کرنا پڑے گا۔ 
دراصل نظام بھی ٹھیک تھا، مدرسہ بھی اپنے منزل کی طرف گامزن تھا، مگر مدارس کے کچھ ذمہد اران بشمول حافظ صاحب کی ہٹ دھرمی اور مدارس اسلامیہ کے ساتھ عصری علوم کے آمیزش کے ساتھ مدراس کی شناخت کو مٹانے کی کوشش اور امت مسلمہ کے امانت میں ہورہے خیانت کو حضرت مولانا کو پسند نہیں آیا بلکہ کسی بھی مسلمان کو یہ برداشت نہیں کہ کوئی مدارس کے روح کے ساتھ کھلواڑ کرے۔اسی بنا پر حضرت مولانا ایوب صاحب اور جناب امجد(حافظ) کرناٹکی کے مابین خلیج پید اہوگئی اور فکری اختلافات بڑھنے لگے، اس بیچ امت مسلمہ کی رقم کے ساتھ سیاست میں اپناایک مقام بنانے والے امجد صاحب کچھ الگ ہی منصوبے بنانے لگے۔ ایسے حالات میں مولانا ایوب صاحب کو ایسے شخص سے مدرسہ کی قیادت واپس لینا ضروری تھا تاکہ امت مسلمہ کے امانت میں خیانت نہ ہواور عوام مدرسہ سے بدگمان نہ ہوجائیں۔ بلکہ میں یہاں یہ بھی واضح کردوں کے شکاری پورکے خود مقامی افراد کا ایک بہت بڑا طبقہ امجد صاحب کے اس اقدام کی وجہ سے ناراض رہا ہے اوراب بھی ہے۔ اب امجد صاحب کا یہ الزام کہ ان کے مدرسہ پر مولانا نے قبضہ کیا کہاں تک درست ہے؟ جب کہ مدرسہ کے بانی ، رقم کی امداد دینے والے، اپنی ساری زندگی کی خوشیوں کو قربانی دے کر اپنا دامن جھاڑ کر لوگوں سے مانگ مانگ کر مدرسہ کی اینٹ کو جوڑنے والے مولانا ایوب صاحب مدظلہ نے قبضہ کیا یا پھر، حافظ امجد کی جانب سے بزورِ سیاست ناجائز قبضے سے مدرسہ کو بچالیا؟ یہ خود عوام فیصلہ کرے۔ 
جیسا کہ میں نے کہا مولانا ایوب صاحب مدظلہ کے ماتحت میں ہزاروں کی تعداد میں مکاتب اور سینکڑوں کی تعداد میں مدارس بشمول بنات، اور ہزاروں کی تعداد میں مساجد اور یتیم خانے اور دیگر فلاحی اداروں کے شعبہ چل رہے ہیں، ایسے میں شکاری پورکے مدرسہ پر قبضہ کرنے کا کوئی مطلب نہیں نکلتا ، البتہ ٹرسٹ میں موجود اگر کچھ لوگوں کو نکال دیا جائے اور ان کی جگہ پر مخلص لوگوں کو لے لیا جائے تو یہ مدرسہ کی ترقی ہے اور امت مسلمہ کے روشن مستقبل کے لیے بہترین اور خوش آئند اقدام، اس عمل سے حافظ صاحب کو خفا یا ناراض ہوکر اخبارات میں بیان شائع کرنے کے بجائے یہ سوچنا چاہئے کہ آخر ان سے ایسی کونسی غلطی ہوگئی کہ ان کویہ دن دیکھنے پڑے۔ اس حقیقت سے بھی ہم آنکھیں نہیں موند سکتے کہ مدرسہ کے قیام میں اور بعد کے سرکاری و قانونی کارروائیوں میں پیش آنے والے کئی مسائل کو حافظ صاحب نے ہی حل کیا تھا ، خوب جدوجہد بھی کی تھی، مگر مرورزمانہ نے حافظ صاحب کے سوچ میں شاید منفی اثرات مرتب کیا۔ (واللہ اعلم)
مدارس اسلامیہ یہ امت مسلمہ کی امانت ہیں، کوئی تنہا شخص اس کا مالک نہیں ہوتا، اور گذرتے ایام کے ساتھ ان کے ذمہ داران کو بھی بدلنا پڑتا ہے، اورٹرسٹ ، اسوسی ایشن اور دیگر تنظیموں کا مطلب ہی یہی ہوتا ہے ، کیوں کہ انسان کا کوئی بھروسہ نہیں ، موت کسی بھی وقت آکر دبوچ لے ایسے میں مدارس ان مضبوط اور مخلص ہاتھوں میں ہونا چاہئے ،جو بے غرض ہوکر دعوت سے لولگاتے ہوں۔شہرت کی بھوک یہ وہ وبا ہے جس میں انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کیا کررہا ہے، شہرت دولت کے بل بوتے پر بہت جلدحاصل ہوجاتی ہے، مگر یہ اسی وقت تک قائم رہتی ہے جب تک دھن کی آوازآتی رہے، مگر مقبولیت ، یہ اللہ کی نعمت ہے، اور اس کے لیے اخلاص اور تقوے کی ضرورت ہے،انسان شہرت کے بجائے مقبولیت کا خواہش مند ہوتو پتہ نہیں اللہ اس سے کس طرح کے کام لے، اور اس کی زندہ مثال ہمارے سامنے حضرت مولانا ایوب صاحب مدظلہ کی ہے ، جو آج بھی ایک عام سی، سیدھی سادھی زندگی گزار رہے ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا