English   /   Kannada   /   Nawayathi

یاسین بھٹکل کی گرفتاری پر تضادات کا انبار

share with us

اس رائے کی وجہ یہ ہے کہ مختلف پلیٹ فارم سے انڈین مجاہدین کے وجود کو چیلنج کرنے اور اس پر قرطاصِ ابیض جاری کئے جانے کے بارہا مطالبات کے باوجود آج تک انڈین مجاہدین کے معرضِ وجود میں ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں دعووں کے علاوہ کوئی ٹھوس ثبوت سامنے نہیں آسکا ہے۔ یٰسین بھٹکل سمیت مزید تین افراد اے ٹی ایس کی جانب سے Wanted (مطلوب) ہیں اوران تمام پر مہاراشٹر اے ٹی ایس کی جانب سے فی کس دس لاکھ روپئے کے انعام کا اعلان ہے۔ ممبئی کے ہر چوراہے اور نکڑپر اے ٹی ایس کی جانب سے لگائے گئے یہ انعامی پوسٹر نظر آجائیں گے جس پریٰسین بھٹکل کے ساتھ اسداللہ اختر، تحسین اخترا اور وقاص کے نام درج ہیں۔ 11فروری2013کوانہیں اشتہاری اور انعامی مجرم قرار دیا گیا تھا، لیکن اس کے ٹھیک دور روز بعد13فروری کو اسداللہ اختر کے والد جاوید اختر نے ممبئی میں ایک پریس کانفرنس کرکے اے ٹی ایس پراپنے بیٹے کو پھنسانے کا الزام عائد کیا اور دعویٰ کیا کہ میرا بیٹا بے قصور ہے اور تفتیشی ایجنسیاں بے قصور مسلم نوجوانوں کو پھنسا رہی ہیں۔ 
اے بی پی نیوز کے مطابق یٰسین بھٹکل پر 50سے زائد بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے جبکہ میڈیا کے دیگر ذرائع دو درجن سے زائد دہشت گردانہ وارداتوں میں اس کے ملوث ہونے کی بات کہہ رہے ہیں ۔جن میں احمد آباد (2008)، سورت (2008)، جے پور (2008)، نئی دہلی (2008)، بنارس کے دشاشومیدھ گھاٹ (2010)، بنگلور کے چنا سوامی اسٹیڈیم (2010)، پونے کی جرمن بیکری (2011)، ممبئی (2011)، حیدرآباد (2013) اور بنگلور (2013) میں ہوئے تھے۔ حال ہی میں گیا کے مہابودھی مندر میں ہوئے سیریل بم دھماکے میں بھی یٰسین بھٹکل پر شبہ ظاہر کیا گیا تھا۔ 12 ریاستوں کی دہشت گردی مخالف ایجنسیوں کے ذریعے یٰسین بھٹکل کے خلاف عائد الزامات کے مطابق 2008 سے ہوئے کم سے کم 10 بم دھماکوں کا اسے ماسٹر مائنڈ بتایا گیا ہے۔ یٰسین بھٹکل کو صرف اے ٹی ایس مہاراشٹر ہی نہیں بلکہ این آئی اے بھی اشتہاری مجرم قرار دے چکی تھی ۔اس کے اوپر کل 25لاکھ روپئے کے انعام تھا جس میں 10لاکھ روپئے مہاراشٹر اے ٹی ایس اور 15لاکھ روپئے دہلی پولیس کی جانب سے دیئے جانے کا اعلان تھا۔جبکہ پربھات خبر ڈاٹ کام کے مطابق اس پر کل 35لاکھ روپئے کے انعام کا اعلان تھا۔(پربھات خبر ڈاٹ کام،Aug 29 2013 12:00AM) این آئی کی جانب سے Most Wantedکی جو لسٹ جاری کی گئی ہے اس میں یٰسین بھٹکل کا نام بھی شامل ہے۔ اس لئے اگر ایک دہشت گرد کو گرفتار کرنے کے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ نہ صرف اے ٹی ایس بلکہ این آئی اے کے لئے بھی ایک بڑی کامیابی ہو سکتی ہے ۔ لیکن اگر ہم اس کے متعلقہ حقائق پر نگاہ ڈالیں تو یہ معاملہ بھی عبدالکریم ٹنڈا کی ہی طرح نظر آتا ہے جسے سعودی عربیہ سے ڈپورٹ کئے جانے کے بعد گرفتارکیا گیا اور جس کے بارے میں تجزیہ نگار یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ آئی بی کا ہی ایک مہرہ ہے اور کام’ مکمل‘ ہوجانے کے بعد اسے ’جمع‘کردیا گیا۔یہ بات اس لئے بھی کہی جاسکتی ہے کہ یٰسین بھٹکل کی گرفتاری کے تعلق سے جو خبریں آئی ہیں اور اس کے دہشت گردانہ وارداتوں میں شمولیت کے جو دعوے سامنے آئے ہیں اس نے اس پورے معاملے کو ہی مشکوک بنا دیا ہے۔ یہ تضاد اس بات کی جانب اشارہ کررہا ہے کہ یہ پورا ایک ڈرامہ ہے جو آئی بی کی ایماء پر اسٹیج ہوا ہے اور اس کا مقصد وہ 35لاکھ روپئے کی رقم ہتھیانے کی کوشش ہے جو اس معاملے میں انعام کے طور پر اعلان کی گئی تھی۔آئیے مختصر طور پر ان تضادات پر ایک نظر ڈالتے چلیں جواس پورے معاملے کو ایک منصوبہ بند ڈرامے کی شکل دیتی ہیں۔
سب سے پہلا تضاد تو یہ کہ جس گرفتار شدہ شخص کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے وہ یٰسین بھٹکل ہے، اس کے بارے میں خود تفتیشی ایجنسیاں ہی تذبذب کی شکار ہیں کہ وہ یٰسین بھٹکل ہی ہے کیونکہ خبروں کے مطابق جب اسے گرفتار کیا گیا تو اس نے کہا کہ میں یٰسین بھٹکل نہیں ہوں۔(دینک بھاسکر، 29 اگست 2013،19:15PM IST)۔ یٰسین بھٹکل کی شناخت کے لئے سیکورٹی ایجنسیوں نے کرناٹک پولیس سے رابطہ کیا اور اس کی شناخت کے لئے ایک ٹیم بھیجنے کی درخواست کی۔(سمئے لائیو ڈاٹ کام،29اگست2013،07:37:06 PM IST)کرناٹک پولیس کی تصدیق کے بعد بھی جب گرفتار شدہ شخص کی شناخت کا مسئلہ حل نہیں ہوا تو تفتیشی ایجنسیوں نے اس کا ڈی این اے ٹسٹ کرانے کا فیصلہ کیا۔(پربھات خبر ڈاٹ کام،Aug 29 2013 12:00AM)۔ ان خبروں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ گرفتار شدہ شخص کے یٰسین بھٹکل ہونے میں تفتیشی ایجنسیاں بھی متذبذب ہیں۔ اس کے علاوہ اس گرفتار شدہ شخص کی جو تصویر میڈیا کے ذریعے سامنے آئی وہ اس تصویر سے بالکل مختلف ہے جو مہاراشٹر اے ٹی ایس نے یٰسین بھٹکل کے نام سے ممبئی کے چوراہوں اور نکڑوں پر لگا رکھی ہے۔
دوسرا تضاد اس کا مقامِ گرفتاری ہے،پہلے یہ دعویٰ کیا گیا اسے بہار کے مدھوبنی ضلع کے ہند نیپال سرحد سے کرناٹک ٹاسک فورس اور این آئی اے کے مشترکہ آپریشن میں گرفتار کیا گیا مگر بعد نہ صرف ریاست تبدیل ہوگئی بلکہ اس میں آئی بی کا نام بھی شامل ہوگیا ۔ خبروں کے مطابق یٰسین بھٹکل مدھوبنی کے راستے اکثر نیپال آتاجاتا رہتا تھا۔اس کی اطلاع این آئی اے کوملی، جس نے بہار پولیس اور کرناٹک ٹاسک فورس کے ساتھ ملک کر شمالی بہار کے ہند نیپال سرحد سے اس کو گرفتار کیا۔جبکہ ایک خبر یہ بھی ہے کہ این آئی کے ساتھ آئی بی بھی گرفتاری کی اس مہم میں شامل تھی اور اسے مدھوبنی سے نہیں بلکہ سنولی نیپال سرحد سے گرفتار کیا گیا ۔(اے بی پی نیوز،29اگست2013،18:58)۔
واضح رہے کہ سنولی بہار میں نہیں بلکہ مشرقی اترپردیش کے مہاراج گنج ضلع میں واقع ہے ،جہاں سے چند ماہ قبل کشمیر کے لیاقت علی شاہ کو دہلی اسپیشل سیل کے ذریعے گرفتار کرنے کی خبر آئی تھی ۔ اس کے علاوہ نوبھارت ٹائمز کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ گرفتاری کسی تیسرے ملک میں ہوئی اور پھر اسے نیپال کے راستے بھارت لایا گیا۔ بہار کے ہندو نیپال کی سرحد پر واقع رکسول میں اس کی گرفتاری دکھائی گئی۔ ذرائع کے مطابق اس پورے مشن میں تین ممالک کی خفیہ تفتیشی ایجنسیاں سرگرم تھیں۔(نوبھارت ٹائمز، 29اگست 2013،06.48PM IST)۔
ان خبروں سے اگر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ گرفتاری ہوئی ہے وہیں مقامِ گرفتاری کا تعین ہی نہیں ہوپاتا کہ آخر کس جگہ سے یہ گرفتاری ہوئی ہے۔ 
تیسرا تضاد این آئی اے کو حاصل ہونے والی خفیہ اطلاع یعنی کہ ’اِن پُٹ‘ سے ہے جس کی بنیاد پر یہ گرفتاری عمل میں آئی۔ آج تک نیوز چینل نے این آئی اے کے حوالے سے خبر دی کہ یٰسین بھٹکل کی گرفتاری عبدالکریم ٹنڈا کی دی ہوئی معلومات کی بناء پر ہوئی ۔(آج تک ، 29اگست2013، 18:17 IST)جبکہ اے بی پی نیوز کی خبر کے مطابق یاسین بھٹکل کی گرفتاری فصیح محمود کی نشاندہی پر ہوئی ہے۔جو انڈین مجاہدین کا آپریٹو ہے اور جسے این آئی اے سعود ی عرب سے لائی تھی۔اس کے علاوہ این آئی اے گزشتہ دو ماہ سے دربھنگہ میں ڈیرہ ڈالے ہوئی تھی۔(اے بی پی نیوز، 29 اگست 2013، 18:58 IST)جبکہ ایک خبر یہ بھی ہے کہ گزشتہ 6 ماہ سے این آئی اے کی ٹیم دربھنگہ اور ارد گرد کے علاقے میں اس کی گرفتاری کے لئے ڈیرہ ڈالے ہوئی تھی۔(آج تک ، 29اگست2013، 18:17 IST)ان خبروں میں جن مختلف سورسیس کا ذکر ہے ان سے یہ پورا اِن پُٹ ہی مشکوک ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود ہم اس گرفتاری کے تعلق سے کسی شک وشبہے میں نہیں ہیں ۔ کیونکہ مذکورہ بالا خبروں میں بھلے ہی تضاد ہو لیکن یہ بات بہر حال ثابت ہے کہ گرفتاری ہوئی ہے ۔البتہ کس کی گرفتاری ہوئی ہے؟ اس کا علم صرف تفتیشی ایجنسیوں کوہے ۔اس طرح کے کئی تضادات ہیں ، جن کایہاں تذکرہ صرف طوالت کا باعث ہوگا۔
اب آیئے میں آپ کی توجہ ایک ایسی خبر کی جانب مبذول کراتا ہوں ، جس سے اس پورے معاملے کا ’جھول‘ اجاگر ہوجاتا ہے ۔یہ خبردینک بھاسکر میں 30نومبر2011کو شائع ہوئی ،جس کے مطابق دہلی پولیس اسپیشل سیل کے تین درجن سے زائد جانبازوں نے ایک نہیں بلکہ تین تین دہشت گردانہ وارداتوں کے انکشاف کا دعویٰ کرتے ہوئے بہار اور دہلی سے 6مسلم نوجوانوں محمد قتیل صدیقی، محمد علی عرف اجمل،محمد ارشاد ،گوہر عزیر، غیور احمد جمالی اور عبدالغفار کوگرفتار کیاتھا۔ان لوگوں کے ناموں کے ساتھ بھی عرفیت بالکل اسی طرح لگائی گئی تھی جس طرح یٰسین بھٹکل کے نام سے لگایا گیا ہے،گویا یہ تمام لوگ اپنی پوری زندگی صرف اپنا نام ہی تبدیل کرتے رہے ہوں۔ انہیں گرفتار شدگان میں وہ بدنصیب قتیل صدیقی بھی تھا جسے 8جون 2012کو پونے کے یروڈا جیل میں موت کے گھات اتار دیا گیا تھا۔جن دہشت گردانہ واردات کے سلسلے میں انہیں گرفتار کیا گیا تھا ان میں سے ایک دہلی جامع مسجد کے باہر فائرنگ کا بھی معاملہ تھا جس میں 55لاکھ روپئے انعام کا اعلان تھا۔اس معاملے میںیٰسین بھٹکل کا بھی نام شامل تھا جسے اس وقت مفرور بتایا گیا۔ قصہ مختصر یہ کہ اس گرفتاری کے بعدوہ 55لاکھ روپئے دہلی پولیس کے جانبازوں کے درمیان تو تقسیم ہوگیا مگر جن معاملات میں ان6مسلم نوجوانوں کی گرفتاری ہوئی تھی ، اس پر ہنوز پردہ پڑا رہا۔اب یہ معاملہ عدالت میں زیرِ سماعت ہے اوردفاعی وکلاء کا دعویٰ ہے کہ تمام گرفتار شدہ افرادبے قصور ہیں اورجلد یا بہ دیر ان کی رہائی ہوجائے گی۔ اس سے ثابت یہ ہوتا ہے کہ گرفتاری کا یہ پورا معاملہ ایک ڈرامہ تھا اور اس کا مقصد 55لاکھ روپئے کی انعامی رقم حاصل کرنا تھا۔ 
خیر ہم یہ بالکل نہیں کہیں گے کہ یٰسین بھٹکل کے معاملے میں بھی ایسا ہی کچھ ہے ،جس کی گرفتاری پر 35لاکھ روپئے کے انعام کا اعلان ہے ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اس گرفتاری کے پسِ پشت اس انعامی رقم کا لالچ کسی نہ کسی طور پر ضرور کافرما ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پیچھے ایک بھرپور منصوبہ بندی کی بھی بو آتی ہے کیونکہ اس گرفتاری سے اگر کسی کو فائدہ حاصل ہوسکتا ہے تو وہ آئی بی ہے جس کی موجودگی کی خبر گرفتاری کے کچھ ہی دیر بعد میڈیا میں آگئی تھی۔ اس سے آئی بی کو اپنی اہمیت ثابت کرنے کابھرپور موقع مل گیا ہے جو گجرات میں فرضی انکاؤنٹر س کے معاملے میں کسی طور کم ہوگئی تھی۔اس کے علاوہ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کہیں یٰسین بھٹکل تفتیشی وخفیہ ایجنسیوں کا’ مہرہ‘ تونہیں ہے؟ یہ سوال اس لئے بھی پیدا ہوتا ہے کہ جن جن معاملات میں اس کی شمولیت اجاگر ہوئی یا اجاگر کی گئی ،ان تمام معاملات میں وہ مفرور قرار دیا گیاجبکہ ان معاملات میں جن جن لوگوں کے نام آئے سبھی گرفتار ہوئے۔ چاہے وہ اورنگ آباد اسلحہ ضبطی کا معاملہ ہو، جرمن بیکری بم دھماکے کامعاملہ ہو، دہلی جامع مسجد فائرنگ کا معاملہ ہو یا پھر بنگلور کے چنا سوامی اسٹیڈیم دھماکے کامعاملہ ہو۔ اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تفتیشی ایجنسیوں کے ساتھ اس کا چوہے بلی کا یہ کھیل ایک پلان کے تحت تھا اور جب اس کا ’کام‘ مکمل ہوگیا تو پھر اسے گرفتار کرلیا گیا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ ایسا ہی کچھ معاملہ ذبیح الدین عرف ابو جندال کے تعلق سے سامنے آیا تھا جسے تفتیشی ایجنسیاں دہشت گردانہ وارداتوں کا ماسٹر مائنڈ بتاتی رہیں مگر پاکستانی وزیرخارجہ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اس کا رشتہ انڈین انٹلی جنس سے ہے اور یہ خبر پی ٹی آئی کے حوالے سے 16دسمبر2012کو ٹائمز آف انڈیا سمیت ملک کے بیشتر اخبارات میں شائع ہوئی تھی ۔اس کے علاوہ ملک آج جس معاشی بدحالی کے دور سے گزر رہا ہے اس نے حکومت کے لئے مشکل پیدا کردی ہے۔ اب یہ ضروری تھا کہ عوام کی توجہ (کچھ دیر کے لئے ہی سہی)کسی اورجانب مبذول کرائی جائے ، سویٰسین بھٹکل سے بہتر ’توجہ‘ اور کیا ہوسکتی تھی؟قصہ مختصر یہ کہ اس گرفتاری سے ایسے بے شمارسوالات پیدا ہوتے ہیں جو اسے ایک Planned معاملہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا