English   /   Kannada   /   Nawayathi

کاروان امن و انصاف کی طرف سے یوپی بھون ، آسام بھون پر احتجاج اور پولس کا متعصبانہ رویہ ،واشی پولیس تھانے میں کیا ہوا تھا

share with us

 

 

ایڈوکیٹ ابراہیم ہربٹ 

بذریعہ۔ ذوالقرنین احمد

 

مولانا کلیم صدیقی کی متعصبانہ گرفتاری اور آسام کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے خلاف  کل دوپہر میں ممبئی شہر میں کاروان امن و انصاف کے ذمہ داران نے آسام اور اترپردیش بھون پر پہنچ کر احتجاج کیا. مظلوموں کے حق میں آواز بلند کی اور اپنی زندگی کا ثبوت دیا ۔

چونکہ ریاستی بھون کا یہ علاقہ آفیشل زون کی طرح ہے اسلیے  مجھے سمیع الله بھائی نے پہلے ہی کہا تھا کہ میں احتجاج گاہ پر بحیثیت وکیل موجود رہوں تاکہ کوئی معاملہ ہو تو وکیل موجود رہے ۔

لہذا میں احتجاج کے وقت پہنچ گیا تھا مظاہرہ شروع ہوا اور ختم بھی ہوگیا کوئی شورشرابہ نعرے بازی نہیں ہوئی ایک محدود تعداد نے آسام اور اترپردیش بھون کے سامنے ہاتھوں میں بینرز اٹھا کر مظاہرہ کیا اور مفتی انور خان سرگروہ نے تقریر کی 

احتجاج چل ہی رہا تھا کہ 

*اسی دوران پولیس والے آگئے* انہوں نے پوچھ تاچھ شروع کی سمیع اللہ بھائی پولیس والوں سے بات چیت کر رہے تھے اور پولیس والوں کو انگیج کررکھا تھا تب تک احتجاج مکمل ہوا ۔ 

 جس کے بعد دو مزید پولیس والے آگئے اور انہوں احتجاج سے متعلق جانکاری لی. جیسے کون لوگ ہیں کونسی تنظیم ہے اور کیوں احتجاج کر رہی ہے یہاں ذمہ دار کون کون ہیں 

خیر۔ اس طرح انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے ہوگیا کوئی مسئلہ نہیں چونکہ تعداد بھی بہت کم تھی اور کووڈ ضابطوں کے مطابق تھی اسلیے انہوں نے بھی کہا کہ ہاں ٹھیک ہے آپ لوگ جاسکتے ہیں ۔

تھوڑی دیر بعد جب مظاہرہ ختم ہوا تھا تب دو افراد سادہ لباس میں وہاں پہنچے اور ذمہ داران سے پوچھ تاچھ شروع کردی جب ان سادہ لباس والوں سے پوچھا گیا کہ آپ کون ہیں انکوائری کرنے والے تو انہوں نے کہا کہ ہم خفیہ ایجنسی کے آفیشلز ہیں ۔

 چونکہ واشی پولیس مظاہرین پر ابتداءً کوئی کارروائی نہیں کر رہی تھی لیکن تھوڑی دیر بعد جب یہ خفیہ ایجنسی کسی کے اشاروں پر حرکت میں آئی تب پولیس پر دباؤ بڑھنے لگا کہ وہ بھی کارروائی کرے 

مذاق تو اس وقت بن گیا جب وہاں مظاہرے کو کوریج دینے کے لیے پہنچے ہوئے میڈیا ٹیم کو بھی ایجنسیوں نے ایف آئی آر میں گھسیٹ لیا جو کہ عدالتی سماعت میں پولیس کے لیے بڑی ہزیمت کا باعث ہوگا. اس سے آپ اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ واشی پولیس اس مقدمے کو کتنا جانتی ہوگی؟ مکمل احتجاج کے دوران نئی ممبئی کی واشی پولیس مظاہرین کے سامنے کھڑی تھی انہوں نے نہ تو مظاہرین کو روکا نہ ہی کوئی جبر کیا خود انہوں نے جانچا کہ سبھی مظاہرین سوشل ڈسٹینس اور ماسک کا اہتمام کر رہے ہیں یا نہی? جس پر وہ مطمئن بھی ہوے 

یہ کیس بعد میں خفیہ ایجنسی کی طرف سے گڑھا گیا ہے 

کیونکہ سب اپنے اپنے مقام کی طرف روانہ ہوچکے تھے اور تقریبا آدھے گھنٹے بعد سمیع اللہ بھائی کو فون آتا ہے کہ آپ لوگ پولیس اسٹیشن آجائیے کچھ معمولی پوچھ تاچھ ہے صرف دس منٹ کے لیے ۔

 چنانچہ سمیع اللہ بھائی اور مفتی انور صاحب واشی پولیس اسٹیشن پہنچے. سمیع اللہ بھائ نے مجھے بھی فون کردیا. جب تک  میں ایک مقدمے کی سماعت کے لیے اين آئی اے اسپیشل کورٹ میں پہنچ چکا تھا وہاں مسلم بچوں کو لاء کے امتحانات دلوانے کے لیے رہائی کے مقدمے کی سماعت تھی. جس کی وجہ سے تھوڑی دیر کے بعد میں بھی پولیس تھانے پہنچا ۔

پولیس اسٹیشن پہنچنے پر معلوم ہوا کہ سمیع اللہ بھائ اور مفتی انور صاحب سے بار بار یہ مطالبہ کیا گیا کہ بلکہ پریشر بنایا گیا کہ وہ زیادہ تر لوگوں کو پولیس اسٹیشن واپس بلائیں لیکن ان حضرات نے صرف ایک نوجوان کفیل احمد کو ہی بلایا اور کسی کا بھی رابطہ نہیں دیا ۔

پولیس اسٹیشن میں ان حضرات کو واقعی ذہنی طور پر ہراساں کرنے کی پوری کوشش کی گئی انہیں پولیس اسٹیشن کے دوسرے حصے میں اس جگہ لے جا کر کھڑا کیا گیا جہاں پر پولیس تھانے کی جیل / lockup تھا جس کے اندر لوگ پہلے سے قید تھے اس جیل کے پاس انہیں کھڑا کردیا گیا جبکہ جن لوگوں پر ایف آئ آر تک درج نہ ہو انہیں لاک اپ تک لے جانے کا کوئ تک ہی نہیں انہیں دیگر تمام شہریوں کی طرح ویٹنگ روم میں ہی رکھنا چاہیے تھا لاک اپ پر وہاں پر موجود پولیس والے نے ان حضرات کو دھمکانے کی بھی کوشش کی اور موبائل استعمال کرنے سے بھی منع کیا. بیٹھنا نہیں کھڑے ہی رہو. جیسے احکامات نافذ کرنے لگے ۔ جوکہ پوری طرح غلط اور غیرقانونی برتاؤ تھا. جس کے بعد ان لوگوں کی پولیس والوں سے بحث ہوگئی. پھر کچھ دیر بعد انہیں واپس ویٹنگ روم بھیجا گیا اور وہاں کئی گھنٹوں تک مسلسل انتظار کرایا گیا ۔ گرفتاری کا ارادہ بھی ظاہر کیا گیا ۔ اتنی دیر میں مختلف جگہوں سے فون آنے لگے پولیس اسٹیشن میں قاضی عبدالاحد فلاحی صاحب اپنے ساتھیوں سمیت پہنچ چکے تھے اور وہ مستقل کوششیں کر رہے تھے اور بھی لوگ پہنچنے لگے اور پولیس والوں پر دباو بڑھنے لگا ۔ کیونکہ ان کے پاس انہیں گرفتار کرنے کا تو چھوڑیے ایک گھنٹہ بھی پولیس اسٹیشن میں بیٹھانے کا کوئ گراؤنڈ نہیں تھا ۔ لیکن پتا نہیں کس نے ان لوگوں کو احکامات جاری کیے تھے کہ پولیس افسران نے ان حضرات کو لاک اپ تک لے جانے کی جسارت کی اور بدتمیزی بھی چونکہ دفعہ 188 ایک ضمانتی / Bailablee offence ہے جس میں گرفتاری نہیں کی جاسکتی یہ میں جانتا تھا اور اسی لیے وہ لوگ ایف آئی آر کے مراحل میں جان بوجھ کر تاخیر بھی کررہے تھے ۔

پولیس اسٹیشن پہنچ کر محسوس ہوا کہ اس معاملے میں اترپردیش بیک گراونڈ رکھنے والے افسران بہت ہی متعصبانہ دلچسپی لے رہے ہیں اور اترپردیش بھون پر اس احتجاج کا جیسے انتقام لے رہے ہوں یا سبق سکھانے کے لیے کسی اوپری ذمہ دار نے کہا ہے کیونکہ گرچہ مختصر تعداد میں کاروان کی طرف سے احتجاج ہوا لیکن ریاستی بھون پر کیے گئے مظاہرے کا اثر تو یقینا پہنچتا ہی ہے۔ 

بہرحال دفعہ 188 کے تحت ایف آئ آر درج کر لی گئی اور تقریبا چھ گھنٹوں کے بعد انہیں جانے دیا عدالت میں کیس چلے گا یہ بتا کر 

اور آخر رات میں. سبھی حضرات کو دوبارہ پولیس اسٹیشن آنے کا نوٹس دے کر اس پر دستخط لے کر جانے دیا گیا 

پولیس اسٹیشن میں پوری کوشش کی گئی کہ احتجاج کرنے والوں کو ہراساں کر کے ان کی ہمت توڑی جاے لیکن وہ لوگ اس میں بالکل بھی کامیاب نہیں ہوے کیونکہ سمیع اللہ خان صاحب اور مفتی انور صاحب کے چہرے یا باڈی لینگویج کسی سے بھی نہیں لگتا تھا کہ ان پر ذرہ برابر بھی پولیس اسٹیشن یا لاک اپ کا خوف طاری ہوا ہو ماشاءاللہ یا ان وردی والوں کے حصار کا کوئ اثر ان پر ہو ۔ یہی حال نوجوان کفیل احمد کا بھی تھا ۔ ان حضرات کی یہ خوداعتمادی اور استقامت دیکھ دیکھ کر پولیس والے زیادہ ہی پیچ و تاب کھاتے رہے ۔

اللہ سے دعا ہے کہ ان کے حق میں خیر و برکت کے فیصلے فرماے اور ظالموں کے اس چنگل سے مکمل آزادی دلاے ۔

ان شاءالله مقدمہ لڑا جائے گا۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا