English   /   Kannada   /   Nawayathi

ایغور معاملہ: ٹرمپ نے چین پر پابندی کی منظوری دے دی

share with us

18 جون2020(فکروخبر/ذرائع) نیا قانون, نسلی اقلیتوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کرنے پر چین کو سزا دینے کے لیے کسی بھی ملک کی طرف سے اب تک کا سب سے اہم قانون ہے۔ اس نئی پیش رفت کے بعد پہلے سے ہی کشیدہ امریکا چین تعلقات کے مزید خراب ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز اس نئے قانون پر دستخط کردیے جس کے بعد امریکی انتظامیہ کو مغربی چینی صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کو حراستی مراکز میں رکھنے اور ان پر ظلم و جبر میں ملوث چینی افسران کے خلاف اقدامات کرنے کی اختیارات حاصل ہوگئے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے اس نئے قانون پر دستخط کرنے کے بعد ایک بیان میں کہا، ”یہ قانون انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں مثلاً تطہیری کیمپوں کے منظم استعمال، جبراً مزدوری کرانے، چین میں ایغور اور دیگر اقلیتوں کی نسلی شناخت اور مذہبی اعتقاد کو ختم کرنے اور انہیں ظلم و جبر کا نشانہ بنانے والوں کو جواب دہ ٹھہراتا ہے۔“

’ایغور حقوق انسانی قانون‘ کے نام سے امریکی کانگریس میں تقریباً مکمل اتفاق رائے سے منظور یہ قانونی امریکی انتظامیہ کو ایسے چینی افسران کی شناخت کرنے پر زور دیتا ہے جو سنکیانگ میں ایغور اور دیگر اقلیتوں کے خلاف 'جبراً حراست، ظلم اور زیادتی‘ کے لیے ذمہ دار ہیں۔  ایسے افراد کی شناخت کے بعد امریکا اپنے دائرہ اختیار میں آنے والے ان چینی افسران کے اثاثوں کو منجمد کرسکتا ہے او رملک میں ان کے داخلے پر پابندی عائد کرسکتا ہے۔

DW Investigativ Projekt: Uiguren Umerziehungslager in China ACHTUNG SPERRFRIST 17.02.2020/17.00 Uhr MEZ (AFP/G. Baker)

چین میں ایک ملین سے زیادہ ایغور مسلمانوں کوسنکیانگ کے مختلف حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔

تعلقات مزید کشیدہ ہوسکتے ہیں

امریکا کی طرف سے پابندی عائد کرنے کے نتیجے میں پہلے سے ہی کشیدہ امریکا۔ چین تعلقات مزید خراب ہوجانے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔

ایغور مسلمانوں کے حقوق کے لیے سرگرم اور بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن کے رکن نوری ترکل نے صدر ٹرمپ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ”یہ امریکی شہریوں نیز چینی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے انسانی حقوق کی زبردست پامالی کا شکار ہونے والے ایغور اور چین میں رہنے والے دیگر ترک نژاد افراد کے لیے ایک بڑا دن ہے۔“

دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس قانون پر جس دن دستخط کیے اسی دن ان کے سابق قومی سلامتی مشیر جون بولٹن کی دھماکا خیز کتاب کے اقتباسات منظر عام پرآئے ہیں۔ اس کتاب میں بولٹن نے دعوی کیا ہے کہ ٹرمپ نے سن 2020 میں دوبارہ عہدہ صدارت پر منتخب ہونے کے لیے چین سے مدد طلب کی ہے۔

جان بولٹن نے مزید دعوی کیا ہے کہ ٹرمپ چین کی طرف سے ایغور مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کو بالعموم نہ صرف نظر انداز کرتے رہے ہیں بلکہ حراستی مراکز کی تعمیر کے لیے چینی صدر شی جن پنگ کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں اور سن  2019 میں جی 20 کی میٹنگ کے دوران چینی صدر سے کہا تھا کہ انہیں ان مراکز کی تعمیر پر آگے بڑھنا چاہیے۔

خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ

ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔

حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں

چین میں ایک ملین سے زیادہ ایغور مسلمانوں کوسنکیانگ کے مختلف حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔ چین انہیں’تعلیم نو کے مراکز‘ کہتا ہے لیکن ان مراکز میں ان کی نسلی اور مذہبی 'تطہیر‘ کی جارہی ہے۔ ڈی ڈبلیو کی ایک تفتیشی رپورٹ کے مطابق ان میں سے بیشتر قیدیوں کو انتہاپسندانہ رویہ کے بجائے ان کے مذہبی اعتقاد اور کلچر کی بنیاد پر حراست میں رکھا گیا ہے۔

امن حراستی مراکز میں بند لوگوں کو کئی کئی گھنٹے زبان سکھانے کی کلاسز میں نہایت چھوٹے چھوٹے اسٹولز پر بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور اس کے بعد انہیں گھنٹوں صدر شی جن پنگ کی تعریف پر مبنی پروپیگنڈا مواد دکھایا جاتا ہے۔ایسے میں ان سے ذرا سی بھی لغزش یا غلطی ہوجائے تو انہیں سخت سزا دی جاتی ہے۔ایک تازہ رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ان لوگوں پر مبینہ الزامات کے تحت مقدمات چلائے جاتے ہیں اور کسی ثبوت یا مناسب عدالتی کارروائی کے بغیر سزائیں سنائی جاتی ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکنان ایک طویل عرصے سے بیجنگ حکومت پر الزام عائد کرتے آئے ہیں کہ وہ ایغوروں کی ثقافتی اور مذہبی پہچان مٹانا چاہتی ہے اور مذہبی سرگرمیوں کو ’امن عامہ کے لیے خطرے‘ کا نام دے کر غیر قانونی قرار دے دیتی ہے۔

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا