English   /   Kannada   /   Nawayathi

کیا عوام حقیقت میں کرونا سے خوفزدہ ہیں یا پھر.......؟؟

share with us

عتیق الرحمن ڈانگی ندوی 

کرونا مرض کے بڑھنے سے دنیا بھر میں تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اور ہونا بھی چاہیے جس تیزی کے ساتھ یہ مرض دنیا بھر میں پھیل گیا، کسی کو سوچنے کا بھی موقع نہ ملا۔ ہم ہندوستانیوں پر یہ تو اللہ تعالیٰ کا خصوصی احسان ہوا کہ ہمیں سمجھنے کے لیے ہمارے سامنے ان متأثرہ ممالک کی مثالیں موجود ہیں جہاں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس سے متأثر ہوچکے ہیں اور اسی تعداد میں لوگ اس مرض کا شکار ہوکر ابدی نیند سوچکے ہیں۔ ہندوستان میں بھی یہ مرض شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ متأثرہ افراد کی تعدادایک ہزار سے تجاوز کرچکی ہے اور ماہرین اس خدشہ کا اظہار کررہے ہیں اگر یونہی عوام میں اس مرض کے تعلق سے غفلت رہی تو پھر اس کو روکنا دشوار ہوجائے گا۔ 
    اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اس بیماری کے تعلق سے جس طرح بیداری پیدا ہونی چاہیے وہ ہوگئی ہے؟ کیا واقعی عوام ایک دوسرے کو اس مرض سے بچانے کی فکر میں ہے؟ کیا وہ اس بات کی کوشش کررہے ہیں کہ ہماری وجہ سے کوئی اس مرض سے مبتلا نہ ہو؟ کیا وہ اس کے روک تھام کے لیے حقیقت میں غورکررہے ہیں کہ وہ دوسروں کو متأثر کرنے والے نہ بنیں؟  یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ہمیں آسانی سے مل جائے گا۔ دنیا کے ان متأثرہ ممالک میں وہ افراد جو اس مرض کے شکار سے دور ہیں وہ سوشیل میڈیا کے ذریعہ سے ہم ہندستانیوں کو جگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ مختلف ویڈیوز میں وہاں کی حقیقی صورتحال سے واقف کراکے ہم کو اس مرض کے تعلق سے فکر مند کررہے ہیں، ہم پر پڑے غفلت کا پردہ اٹھانے کے لیے یہی ایک بات کافی ہے کہ مساجد میں باجماعت نماز موقوف کردی گئی کہ کہیں یہ مرض کسی کو لگ نہ جائے لیکن ان تمام باتوں کے باوجود ہم ابھی بھی غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ ہمارے سامنے ان ملکوں کی مثالیں موجود ہیں جہاں کی عوام ان مسائل سے دوچار ہیں اور یہ بات ان کی سمجھ سے باہر ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ 
    اب ان باتوں کی روشنی میں اپنے ملک کے حالات دیکھیں او راپنے تعلق سے سوچیں کہ ہم کیا کررہے ہیں؟ یہ مرض جب تک دور تھا تب تو ہم میں صرف یہ خبریں گردش کررہی تھیں کہ فلاں ملک میں کرونا سے اتنے افراد متأثر ہوگئے اور فلاں ملک میں اتنے افراد ہلاک ہو گئے۔ اب مرض خود ہمارے ملک میں پہنچ گیا ہے اور اس سے بڑھ کر خود ہمارے شہر میں دستک دے چکا ہے۔ پورے ضلع اترکنڑا میں بھٹکل واحد تعلقہ ہے جہاں کرونا سے متأثرہ افراد کی تشخیص ہوئی ہے اور وہ بھی ایک دو نہیں بلکہ سات افراد اور روز بروز چونکا دینے والی خبریں سامنے آرہی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم بھی اب کتنی بیداری آگئی ہے وہ ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہی ہے۔ 
    حکومت نے اس مرض کے تعلق سے بیداری پیدا کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، فون کالزرابطہ سے قبل احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تاکید کی جارہی ہے، ضلعی اور تعلقہ سطح پر افسران بیداری لانے کی کوشش کررہے ہیں، غیر سرکاری ادارے چوکنا ہوجانے اور بیدار ہوجانے کی گہار لگارہے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم میں وہ بیداری ابھی پیدا نہیں ہوئی ہے جو ہونی چاہیے۔ 
    اس بات کا پتہ لگانا بھی آسان نہیں ہے کہ عوام اس حد تک غفلت کا شکار کیوں ہیں پولیس کے رویے سے ظاہر ہورہا ہے کہ شاید وہ وہ لوگوں کو غفلت سے جگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ہاں یہ الگ بات ہے کہ جس رویے سے وہ لوگوں سے پیش آرہی ہے وہ غیر اخلاقی ہے لیکن اس بات سے قطع نظر ہم اپنے آس پاس کے ماحول کا جائزہ لیں تو ہمیں اس نتیجہ پر پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی کہ عوام گھروں میں کرونا مرض سے خائف ہوکر بند نہیں ہیں بلکہ پولیس کی لاٹھی اور ڈنڈوں سے خوفزدہ ہوکر وہ گھروں سے نہ نکلنے پر مجبور ہیں۔ حالات کو دیکھ کر محسوس یہ کیا جارہا ہے کہ پولیس کی سختی اگرکچھ دیر کے لیے روک دی جائے تو ہمارے شہر میں متأثرہ افراد کی خبریں منظر عام پر آنے کے باوجود عوام ایک تعداد بلا خوف وخطر گھومنے پھر نے لگ جائے اور شاید انہیں یہ یاد دلانے کی نوبت آن پڑے کہ کرونا بھی ایک مہلک مرض ہے جو تیزی کے ساتھ دوسرے ملکوں اور اپنے ملک کے دوسرے علاقوں میں نہیں بلکہ اپنے ہی علاقہ میں تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ 

 

Prayer Timings

Fajr فجر
Dhuhr الظهر
Asr عصر
Maghrib مغرب
Isha عشا